کیا انسان واقعی چاند پر جا چکا ہے ؟

مصنف : شاہ زیب صدیقی

سلسلہ : سائنس و ٹیکنالوجی

شمارہ : ستمبر 2020

کچھ دن پہلے انسان نے چاند پر لینڈنگ کی 51 ویں سالگرہ منائی۔اس دوران کچھ حضرات کی جانب سے بے بنیاد پراپیگنڈا کیا گیا اور یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی کہ چاند پر لینڈنگ دراصل ڈرامہ تھا۔ اس ضمن میں کچھ اعتراضات کی لسٹ مجھے بھی انباکس میں بھیجی گئی۔جن پر ایک سرسری سی نگاہ ڈال کر ان اعتراضات کی حقیقت جاننے کی کوشش کریں گے۔یہ بات یہاں مینشن کرنا انتہائی ضروری ہے کہ جنہوں نے حقائق کو تسلیم نہیں کرنا ہوتا تو انہیں جو مرضی ثبوت فراہم کردئیے جائیں ، وہ چڑھتے سورج کا بھی انکار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لہٰذا ان اعتراضات کے جوابات کسی علم دشمن طبقے کو نہیں دئیے جا رہے بلکہ ان اعتراضات کے جوابات اس لئے دئیے جارہے ہیں کہ عوام الناس ایسے جعل سازوں اور علم دشمن حضرات کی اصلیت جان سکیں۔
اعتراض نمبر 1: 20 جولائی 1969 کو انسان چاند پر گیا تھا۔ اب اتنی زیادہ ٹیکنولوجی بڑھ گئی ہے امریکہ خود یا کوئی دوسرے دوبارہ جدید کیمروں اور جدید آلات کے ساتھ آج کے دور میں دوبارہ کیوں نہیں گئے۔ یعنی اس وقت امریکہ کے ڈرامے کے بعد جب رشیا اور چائینا نے بھی مخالفت میں باری باری ڈرامے کیئے تو یہ تینوں اپنے ڈراموں کے بعد آج کے دور میں دوسرا ڈرامہ کیوں نہ بنا سکے؟
جواب: یہ سچ ہے کہ آج سے 60 سال قبل امریکا اور روس کے مابین سرد جنگ چل رہی تھی،مگر یہ دعویٰ کرنا کہ سرد جنگ کی وجہ سے یہ سب ''ڈرامہ ''تھا،یہ دعویٰ مضحکہ خیز ہے جیسے ہم دین کے لئے علماء کرام سے اور بیماری کے لئے ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں اور ان کی رائے کو معتبر مانتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی سائنسی معاملات میں فلکیات دانوں اور سائنسی اداروں کی رائے کو حتمی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ دُنیا کی تمام فلکیاتی اور سائنسی تحقیقاتی ایجنسیز مون لینڈنگ کو تسلیم کرچکی ہیں، ان کے ناقابل تردید شواہد انسان کے پاس موجود ہیں،جن میں سب سے اہم ثبوت وہ ریفلیکٹرز ہیں جو خلا باز چاند کی سطح پر فٹ کرکے آئے، آج بھی بڑی فلکیاتی آبزرویٹریز ان پر طاقتور لیزر پھینک کر چاند کا زمین سے فاصلہ ناپتی رہتی ہیں!۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ آج کے دور میں انسان چاند پر کیوں نہیں گیا؟ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چاند پر جانا سیر سپاٹے کی طرح نہیں تھا، یہ انتہائی مہنگا مشن تھا، یکے بعد دیگرے چاند پر 6 انسانی مشنز بھیجنے کی وجہ سے امریکی معیشت تباہ ہوچکی تھی۔ اس کا اندازہ ایسے لگائیے کہ موجودہ دور میں اگر مون لینڈنگ مشنز سرانجام دئیے جائیں تو اس پر 150 ار ب ڈالر خرچ آئے گا، پاکستان صرف 4 ارب ڈالرز کے لئے آئی ایم ایف کے پاس بار بار جارہا ہے اور یہ چار ارب ڈالرز بھی ہمیں چار سال کے عرصے میں قسط وار ملیں گے۔ لہٰذا مون لینڈنگ انتہائی مہنگا مشن تھا، جس کے نتیجے میں ہمیں صرف چاند کے پتھر ہی مل رہے تھے، لہٰذا ناسا کا بجٹ محدود کردیا گیا اور امریکی حکومت اور عوام الناس کی جانب سے دباؤ بڑھنے کی وجہ سے دوبارہ انسانوں کو بھیجنے کی بجائے ربوٹک مشنز کو بھیج کر تحقیقاتی کام انجام دئیے گئے، ربوٹک مشن انسانی مشن کی نسبت سستے ہوتے ہیں، ربوٹک مشن کتنے سستے ہوتے ہیں اس کا اندازہ ایسے لگائیے کہ ایک سال قبل بھارت نے چاند کی جانب ربورٹک مشن محض 0.1 ارب ڈالر میں بھیجا تھا۔ لہٰذا یہ اعتراض بے معنی ہے کہ ابھی چونکہ ہم چاند پر دوبارہ نہیں جارہے لہٰذا ماضی میں بھی نہیں گئے۔ لیکن ناقدین کے لئے خوشخبری ہے کہ مریخ پر آبادکاری کی وجہ سے اگلے کچھ سالوں میں انسان دوبارہ چاند پر جائے گا اور اب کی بار وہاں بیس کیمپس بنائے گا، جس وجہ سے امید ہے کہ ان کا یہ گلہ بھی ختم ہوجائے گا۔
سوال نمبر2: کیوں چاند پر صرف امریکہ اور اس کے مخالفین ہی آپس کی دشمنی کی وجہ سے ڈٖراموں کا مقابلے کرتے رہے تھے؟ کیوں امریکہ حمایتی ملکوں میں سے کسی ایک کی بھی ہمت نہ ہوسکی چاند پر قدم رکھ کر امریکہ کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کی؟
جواب: ہم سوال نمبر 1 میں سمجھ چکے ہیں کہ یہ مشنز کتنے مہنگے تھے، چھوٹے ممالک بجٹ کی کمی کے باعث ان معاملات میں نہیں پڑے، لیکن چونکہ چاند پر ربوٹک مشن بھیجنا سستا کام ہے جس وجہ سے چھوٹے ممالک نے ربوٹک مشنز بھیج رکھے ہیں۔
سوال نمبر3: جب چاند گاڑی چاند پر پہنچی تو چاند پر پہنچنے کے بعد ایک عجیب قسم کی کار میں چاند کی زمین پر گھومے پھرے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی چاند کار چاند گاڑی سے برآمد کیسے ہوئی؟ یعنی چھوٹی سی چاند گاڑی کے پیٹ میں اتنی گنجائش کہاں سے آئی اس کو اپنے اندر گھسانے کی؟ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس چاند کار کو چاند گاڑی سے برآمد ہونے کی ویڈیو کیوں نہیں بنائی گئی؟ کیونکہ یہ بھی بہت بڑا کمال اور معجزہ تھا۔ ایک چھوٹی سی چاند گاڑی سے بڑی سی چاند کار کی برآمدگی بھی دنیا کو حیران کرنے کے لیے کافی تھی کیوں یہ والا ڈرامہ دکھلا کر مزید داد وصول کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ اور پھر اس کے بعد ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ یہ چاند گاڑی کس لفٹ کی مدد سے اتاری گئی اور دوبارہ کس لفٹ کی مدد سے چڑھائی گئی؟ اور آخر میں ایک اور سوال کیا چاند گاڑی چاند پر ہی چھوڑ آئے یا ساتھ واپس بھی لائے؟ اور اگر ساتھ واپس بھی لائے تو اس واپسی کا لفٹ کے ذریعے اوپر چڑھنے کا ڈرامہ ہمیں کیوں نہیں دکھلایا گیا؟
جواب: یہ سچ ہے کہ چاند پر بھیجے جانے والے 6 میں سے تین انسانی مشن کے دوران چاند گاڑی کو بھی انسانوں کے ساتھ بھیجا گیا تھا،یہ گاڑی فولڈ ہوسکتی تھی، اور Lunar module کے نیچے ایک جگہ مخصوص تھی، جس میں یہ گاڑی فولڈ کرکے رکھی گئی تھی (ڈایاگرام ساتھ منسلک ہے، جسے لونر ماڈیول سے موازنہ کروا کر آپ تسلی کرسکتے ہیں)۔ چاند پر پہنچ کر lunar moduleکے اُس حصے سے یہ گاڑی نکالی گئی اور اسے unfold کرکے استعمال کیا گیا۔چاند سے واپسی کے دوران چونکہ تھرسٹرز کا استعمال کرکے لونر ماڈیول کو اُڑانا تھا اور تھرسٹرز زیادہ بوجھ نہیں برداشت کرسکتے، جس وجہ سے لونر ماڈیول کا وزن کم رکھنے کیلئے اِن چاند گاڑیوں کو وہیں چھوڑ دیا گیا، واپس نہیں لایا گیا۔اور یہ دعویٰ بھی کم علمی پر مبنی ہے کہ کسی ویڈیو میں اِس چاند گاڑی کو lunar module سے اتارتے نہیں دکھایا گیا، اپالو 15 مشن کے دوران چاند گاڑی کو lunar module سے نکالنے کی ویڈیو آپ یو ٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔
سوال نمبر 4: کہا جاتا ہے کہ نیل آرم سٹرونگ نے چاند پر سب سے پہلے قدم رکھا تو جناب وہ کون کون سے فوٹوگرافر پہلے ہی چاند پر اتر چکے تھے جو چاند گاڑی کو اترتے ہوئے اور خود نیل آرمسٹرونگ صاحب کو اترتے ہوئے ان کی مووی بنا رہے تھے؟اور ایک نہایت چھوٹی سی چاند گاڑی بغیر ایندھن کے صرف اسپرنگ کی مدد سے دوبارہ کیسے چاند پر سے اُڑ کر دنیا تک آ گئی؟اور چاند پر سے واپسی پر دوبارہ جب وہ اڑکر واپس آرہی تھی تب چاند پر بیٹھ کر کون کون سے فوٹوگرافر کیمرے کو گھماتے ہوئے چاند گاڑی کی تصویر بنا رہے تھے؟اور پھر وہ فوٹو گرافر کون سی چاند گاڑی سے واپس آئے؟واپس آئے بھی یا وہیں رہ گئے؟
جواب: سوالات کے جوابات جاننے کیلئے سنجیدگی درکار ہوتی ہے جس کا اصول تو یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی سوال کیا جائے، بہرحال فلیٹ ارتھرز سے سنجیدگی کی توقع رکھنا بیکار ہے، جس وجہ سے سوالنمبر 5 میں اٹھائے گئے مختلف اعتراضات کے جوابات مندرجہ ذیل ہے:
۱: آپ ساتھ منسلک تصویر میں دیکھ سکتے ہیں کہ lunar module کے ساتھ ایک کیمرہ منسلک تھا، نیل آرمسٹرانگ نے لُونر ماڈیول سے نکلنے سے پہلے بٹن دبا کر وہ کیمرہ باہر نکالا، اس کے بعد لونر ماڈیول کا دروازہ کھول کر سیڑھیوں کے ذریعے نیچے اترے، لہٰذا وہاں کوئی فوٹو گرافر پہلے سے موجود نہیں تھا۔
۲: ایک انتہائی چھوٹی سی خلائی گاڑی تھرسٹرز کی مدد سے چاند سے واپسی کے لئے اڑی، تھرسٹرز انتہائی چھوٹے راکٹ ہوتے ہیں، جن کا استعمال عموماً سیٹلائیٹس کی سمت دُرست کرنے کیلئے بھی خلا میں کیا جاتا ہے اور یہ ہر لونر ماڈیول میں موجود تھے۔زمین کی شدید کشش ثقل کے باعث ہمیں زمین سے اڑنے کیلئے لانچنگ پیڈ چاہیے ہوتا ہے مگر چاند کی کشش ثقل کم ہے، وہاں ہوا بھی موجود نہیں جو resistance پیدا کرے جس وجہ سے تھرسٹرز کی مدد سے وہاں سے اُڑنا ممکن ہے۔
۳: جس دوران لُونر ماڈیول چاند کی سطح سے اُڑا اُس دوران اس کو واقعی فلمایا جارہا تھا اور یہ سچ ہے، مگر وہ کیمرہ کسی انسانوں کے ہاتھ میں نہیں تھابلکہ چاند کی سطح پر پڑا ہوا تھا اور زمین سے کنٹرول کیا جارہا تھا، وہ کیمرہ آج بھی چاند کی سطح پر موجود ہے۔
سوال نمبر 5: نیل آرم سٹرونگ صاحب کا ابھی حال ہی میں انتقال ہوا ہے ۲۵، اگست ۲۰۱۲ کو۔ امریکہ نے نیل آرم سٹرونگ صاحب کو ساری دنیا سے اور اپنے ملک کے میڈیا سے بھی کیوں چھپا کر رکھا؟؟
جواب: نیل آرمسٹرانگ کو دنیاسے ہرگز چھُپا کر نہیں رکھا گیا، نیل آرمسٹرانگ سمیت دیگر 12 انسان جنہوں نے چاند پر قدم رکھا ہے، ان کے انٹرویوز پوری دنیا کا میڈیا لیتا رہا ہے، نیل آرمسٹرانگ کے ساتھی Buzz Aldrin جو نیل آرمسٹرانگ کے ساتھ چاند پر گئے تھے وہ تاحال سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور مون لینڈنگ کے متعلق سوالات کے جوابات دیتے رہتے ہیں۔ لہٰذا یہ کم علمی پر مبنی دعویٰ ہے کہ ان سب کو کہیں چھُپا کر رکھ دیا گیا ہے۔
سوال نمبر6: چاند پر کئی تصاویر ایسی لی گئیں جن کے دو دو سائے تھے۔کیا چاند پر دو سورج نکلتے ہیں؟ یا دو طرف سے سٹوڈیو لائیٹیں ڈالی گئیں تھیں؟
جواب: مون لینڈنگ کی جتنی بھی تصاویر مستند ذرائع پر موجود ہیں سب پر ایک ہی سایہ بنتا دکھائی دیتا ہے، اگر ایسی کوئی تصویر موجود ہے جس میں دو سائے ہوں تو لازمی شئیر کیجیے۔ اگر سٹوڈیو کی لائٹس سے بھی دو سائے بنیں تو پھر انہیں اتنا شارپ نہیں ہونا چاہیے بلکہ دونوں سائے مدھم ہونے چاہیے، مگر ایسی تصویر authentic source سے آپ کو نہیں مل پائے گی کیونکہ یہ اعتراض خام خیالی سے ہی گھڑا گیا ہے۔
سوال نمبر7: چاند پر امریکہ نے جھنڈا گاڑا۔ جو جھنڈا گاڑا گیا وہ لہرا رہا تھا۔ چاند پر ہوا کہاں سے آئی؟ جبکہ خلا میں ہوا نہیں چلتی؟
جواب: جھنڈا ہرگز لہرا نہیں رہا تھا بلکہ جھنڈا سرنگوں نہ ہو،اس جھنڈے کو سیدھا رکھنے کیلئے اس میں perpendicular سمت میں ایک اور ڈنڈا لگایا گیا تھا، جس وجہ سے جھنڈا سیدھا دکھائی دے رہا ہے، اس کے علاوہ یہ جھنڈا کپڑے کا نہیں بلکہ نائلون کا بنا ہوا تھا جس وجہ سے اس کو تہہ کرنے کی وجہ سے سِلوٹیں آگئی تھیں جسے لہرانے سے تشبیہ دی جارہی ہے۔ (تصاویر منسلک ہیں) 
سوال نمبر 8: چونکہ ناسا دنیا کے ساؤتھ پول کے بارے میں بہت سارے سوالات کے جواب نہیں دے پا رہا تھا اور خاص طور پر موسم کے بدلنے کے نظام کو تو اس نے سب
 کو بتایا کہ زمین گول نہیں بلکی بیضوی ہے انڈے کی مانندلیکن حیرت ہے تمام فرضی تصاویر گول ہی پیش کرنا شروع کر دی گئی ہیں۔ بقول ناسا کے کشش زمین صرف 100کلو میڑ کے بعد سے ختم ہو جاتی ہے اور خلا شروع ہوجاتاہے۔اگر زمین ایک طرف سے سورج کے گرد گھوم رہی ہے اور وہ بھی ایک طرف سے ہزار میل اور ساتھ ساتھ دوسری طرف سے 67000میل فی گھنٹے کی رفتار سے تو ایک سیدھا چلتا ہوا راکٹ کیسے اتنا بڑا جھٹکا کیسے سہہ سکتا ہے؟؟یعنی 67000میل گھنٹے پر گھومتی ہوئی زمین کے مدار سے باہر نکلنا۔بالکل ایسے جیسے کسی کو انتہائی تیز چلتی ہوئی کار سے باہر پھینکا جائے تو کیا وہ بڑے ہی آرام سے آگے چلتا رہے گا؟
جواب: گاڑی کی مثال کو زمین کی مثال سے جوڑنا اس خاطر غلط ہوگا کیونکہ گاڑی کی کشش ثقل نہیں ہوتی۔یاد رہے کہ خلاء اچانک سے نہیں شروع ہوجاتا بلکہ آہستہ آہستہ ہوا کا دباؤ کم ہونا شروع ہوتا ہے۔ راکٹ بدستور زمین کے چکر کاٹتا رہتا ہے اور آہستہ آہستہ زمین سے دور ہونا شروع ہوجاتا ہے۔چونکہ کسی بھی شے پر زمین کی کشش ثقل 13 لاکھ کلومیٹر اونچائی تک حاوی رہتی ہے،اس دوران زمین کشش ثقل کی وجہ سے راکٹ کو بھی اپنے ساتھ لے کر سورج کے گرد چکر لگاتی رہتی ہے۔ لہٰذا راکٹ کو جھٹکا لگنے والی باتیں محض کم عقلی اور لاعلمی پر مبنی ہیں۔
سوال نمبر 9: 20 جولائی1969ء کو چاند پر جانے کی کہانی کی وجہ سے امریکہ سپر پاور بنا۔امریکہ یا پوری دنیا کیوں ہر سال بیس 20 جولائی کو چاند ڈے کیوں نہیں مناتی؟
جواب: امریکہ میں ہر سال 20 جولائی کو نیشنل مُون ڈے منایا جاتا ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ اعتراض کرنے والے اعتراض اٹھانے سے پہلے کم از کم گوگل کا ہی استعمال سیکھ لیں۔
سوال نمبر 10: چاند خود بھی اپنے مدار پر گردش کر رہا ہے بقول ناسا کے اس کی اسپیڈ ۳۶۸۳ کلو میٹر فی گھنٹی ہے اور چاند اسی دوران ۱۲۹۰۰۰۰ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتا ہے۔ ایک راکٹ کس طرح انتہائی تیز گھومتے ہوئے چاند کے اوربٹ (مدار)میں داخل ہوسکتا ہے؟؟اس راکٹ نے فضا سے چاند کے اوربٹ میں داخل ہونے کا جھٹکا کیسے برداشت کیا؟
جواب: یہ سچ ہے کہ چاند زمین کے مدار میں گردش کررہا ہے، فلکیات میں hill sphere نام کی ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے، چاند کا ہِل سفئیر 60 ہزار کلومیٹر ہے، جس کا مطلب ہے کہ جب کوئی شے چاند کی جانب سفر کرتے ہوئے چاند سے 60 ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر پہنچتی ہے تو اُس کو چاند آہستہ آہستہ اپنی جانب کھینچنا شروع کردیتا ہے، اس علاقے کے بعد چاند کی کشش ثقل زیادہ ہوتی جاتی ہے، لہٰذا کوئی راکٹ ایک دم جھٹکے سے چاند کے مدار میں نہیں چلا جاتا بلکہ زمین کی کشش ثقل بتدریج کم ہوتی جاتی ہے اور چاند کی کشش ثقل بڑھنا شروع ہوجاتی ہے جس وجہ سے یہ سب step by step ہوتا ہے۔ کائنات کے قوانین ایک طریقے سے چل رہے ہیں، انہیں گاڑی کے جھٹکے سے تشبیہ دینا احمقانہ بات ہے۔
سوال نمبر 11: چاند گاڑی دوبارہ واپس کیسے اڑی؟جبکہ دیکھائی گئی چاند گاڑی کچھ عجیب طرح کی تھی چار ٹانگوں والی۔ اتنی چھوٹی سی گاڑی اڑ کیسے گئی بغیر انجیکٹر بغیر انجن اور بغیر فیول کے؟
جواب: ویسے تو اس اعتراض پر ہم سوال نمبر 3 میں بات کرچکے ہیں لیکن یہاں تفصیلی بات کرلیتے ہیں۔ چاند پر بھیجے والے مشنز 2 حصوں پر مشتمل تھے۔ خلائی گاڑی کا ایک حصہ چاند پر لینڈ کیا جسے لُونر ماڈیول کہتے ہیں جبکہ خلائی گاڑی کا دوسرا حصہ چاند کے گرد چکر لگاتا رہا جسے کمانڈ ماڈیول کہتے ہیں۔ چاند کی کم کشش ثقل اور چھوٹا لُونر ماڈیول ہونے کی وجہ سے تھرسٹرز (چھوٹے راکٹس) کی مدد سے لونر ماڈیول کو اُڑایا گیا۔ جب لونر ماڈیول اُڑ کر چاند کے مدار میں پہنچا تو وہاں کمانڈ ماڈیول چاند کے گرد گردش کررہا تھا۔ یوں lunar module کمانڈ ماڈیول سے جُڑا اور انہوں نے زمین کی جانب واپسی کا سفر شروع کیا۔ یاد رہے کہ ہر اپالو مشن میں تین خلا باز چاند کی جانب گئے تھے، لُونر ماڈیول میں دو خلا باز موجود تھے۔ جبکہ ایک خلا باز command module میں چاند کا چکر لگارہا تھا جو چاند پر نہیں اترسکا مگر چاند کے مدار میں کمانڈ ماڈیول کو آپریٹ کررہا تھا۔چاند پر اب تک چھ انسانی مشنز بھیجے گئے ہیں اور سب میں یہی طریقہ کار اپنا گیا۔
سوال نمبر 12: اتنی چھوٹی سی چاند گاڑی میں سے بڑی سی چار پہیوں والی ایک اور گاڑی نکلی اور بغیر آکسیجن کے اسٹارٹ کیسے ہوئی؟اور ناسا کے حساب سے چاند پر دنیا کی نسبت چھ گنا کم کشش ہونے کے باوجود جیسے دنیا میں گاڑیاں چلتی ہیں ویسے ہی کیسے چلتی ہوئی دکھلائی؟ یعنی بغیر اچھلتے کودتے تیرتے نارمل انداز میں کیسے دوڑی؟
جواب: لُونر ماڈیول کے اندر ایک حصے میں کیسے چاند گاڑی کو فولڈ کرکے رکھا گیا تھا،اس پر ہم نے سوال نمبر 3 میں تفصیلی بات کی ہے۔یہ ننھی چاند گاڑیاں الیکٹرک بیٹریوں پر چلتی تھیں، ایک بار چارجنگ پر 90 کلومیٹر تک چل سکتی تھیں، جس وجہ سے ان کو فیول کی ضرورت نہیں تھی۔ان کی رفتار کم تھی نیز ان کی اونچائی کم اور پھیلاؤ زیادہ رکھا گیا تاکہ سینٹر آف گریوٹی سطح کے قریب ہو اور یہ چاند کی سطح پر الٹ نہ جائیں، جس وجہ سے انہیں جھٹکے نہ لگیں، یہی وجہ ہے کہ یہ ''اُچھلتی کُودتی'' نہیں دکھائی دیں۔
سوال نمبر 13: نیل آرم سٹرونگ صاحب چاند کے مدار سے واپس کیسے نکلے ۱۲۹۰۰۰۰ کلومیڑ گھومتے مدار سے نکلنا کیا مذاق ہے؟
جواب: یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ تمام اعتراضات میں صرف نیل آرمسٹرانگ کا نام ہی استعمال کیا گیا ہے، جس کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ اعتراض کرنے والا بقیہ 11 انسانوں کے متعلق بالکل بھی نہیں جانتا، جو چاند پر اُترے تھے، ہر اعتراض میں ''نیل آرمسٹرانگ'' کی تکرار بتاتی ہے کہ یہ طبقہ اپالو مشنز کی تفصیلات سے بالکل لاعلم ہے، صرف سنی سنائی باتوں پر ہوائیاں چھوڑ رہے ہیں۔ بہرحال اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ''نیل آرم سٹرانگ'' راکٹ میں بیٹھ کر چاند کے مدار سے نکلے اور یہ بالکل بھی ''مذاق'' نہیں ہے، اس کی سنجیدگی کو سمجھنے کیلئے سائنس کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔ ہم نے اعتراض نمبر 11 میں تفصیلی سمجھ لیا ہے کہ اپالو مشنز کیسے چاند سے اڑ کر واپس آئے، اس دوران چاند کا چکر لگاتے ہوئے اس کے ہل سفئیر سے کیسے نکلے۔ فلکیات کا ادنیٰ سا طالبعلم سمجھتا ہے کہ ہل سفئیر میں موجود اشیاء اپنے سے بڑے اجرام فلکی کے ساتھ ہی چلتی رہتی ہیں لہٰذا یہ اعتراض بے بنیاد ہے۔ (ہل سفئیر کی تفصیل حصہ اول میں شئیر کرچکے ہیں) 
سوال نمبر 14: چاند پر رات کے وقت فلم بنائی گئی اس میں کئی دفعہ آسمان دکھایا گیا کسی بھی دفعہ آسمان پر ستارے نہیں دکھائے گئے کیا فضا میں ستارے ختم ہوگئے یا ایک سٹوڈیو میں فلم بنائی گئی؟
جواب: اس سوال کا جواب جاننے کیلئے ہم ایک تجربہ کرتے ہیں، آپ دن کے وقت اپنے کمرے میں جائیں، اور ہر طرف سے کھڑکیاں بند کرکے اندھیرا کردیں، صرف ایک کھڑکی کھُلی رہنے دیں جہاں سے روشنی آرہی ہو۔ اب آپ موبائل کیمرہ نکالیں اور اس کوکھڑکی کے ساتھ دیوار پر فوکس کریں تو آپ کو کھڑکی سے آنے والی روشنی بے حد روشن لگے گی، یعنی کھڑکی دکھائی نہیں دے گی۔ یہ کرلینے کے بعد آپ کھڑکی سے آنے والی روشنی پر فوکس کریں، آپ دیکھیں گے کہ اب کھڑکی تو دکھائی دے رہی ہے مگر کمرے کی دیواریں روشن نہیں ہیں بلکہ کالی دکھائی دے رہی ہیں۔کیمرہ تکنیک میں اس کو ایکسپوژر کہتے ہیں، جب آپ روشن شے کو فوکس کرتے ہیں، ISO، اپرچر اور شٹر اسپیڈ اُس روشنی کے مطابق سیٹ ہوجاتا ہے تو دیگر مدھم اشیاء دکھائی دینا بند ہوجاتی ہیں۔ چاند کی سطح انتہائی روشن ہے جس وجہ سے اسے فوکس کرنے کی وجہ سے ستارے کیمرے میں کیپچ نہیں ہوپائے۔
سوال نمبر 15: چاند گاڑی جو دیکھلائی گئی اس میں سلور اور گولڈن رنگ کے پیپر / کاغذ لپٹے ہوئے تھے۔چاند گاڑی پلاسٹک کے ٹائیروں والے پیپر کے ساتھ جو چمکیلے سے ہوتے ہیں اکثر بچوں کی سائیکلوں کی پیکنگ میں بھی استعمال ہوتے ہیں اور گفٹ پیپر میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔یہ کاغذ یعنی چمکیلے شاپر لینڈنگ میں الگ نہیں ہوئے؟؟
جواب: چاند پر فضائی کُرہ نہ ہونے کی وجہ سے سورج کی ریڈیشنز اچھی خاصی تعداد میں ہوتی ہیں جو لونر ماڈیول کو شدید گرم کرسکتی تھیں، جس وجہ سے لُونر ماڈیول کو ریڈیشنز سے بچانے کیلئے اُس کے گردنِکل فوائل، ٹائٹینیم سمیت aluminized polyimide کی کئی تہیں لپیٹی گئیں۔ اِن پرتوں کے باہری حصے پر گولڈن رنگ کی پرتیں بھی شامل کی گئیں کیونکہ گولڈن رنگ ریڈیشنز کو زیادہ منعکس کرتا ہے۔ آجکل جو گھروں کی انولیشن کی جاتی ہے، یہ اسی کی جدید قسم ہے۔ یہ پرتیں لینڈنگ کے دوران خلائی گاڑی سے الگ اس خاطر نہیں ہوئی کہ چاند پر ہوا موجود نہیں ہے جس وجہ سے وہاں انہیں مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
سوال نمبر 16: جب نیل آرمسٹرونگ صاحب چاند پر چل رہے تھے تو ساتھ ساتھ بے تحاشہ گرد بھی اڑا رہے تھے کیونکہ ریگستانی علاقے میں فلم بن رہی تھی۔ سوال یہ ہے کہ یہ گرد ان چمکیلے پنی نما شاپر پرذرا سی بھی نہیں پڑی۔ حلانکہ لینڈنگ کے وقت بے تحاشہ گرد اڑنی چاہیئے تھی۔
جواب: چاند کی مٹی زمین کی ریت جیسی نہیں ہے، اسکا ریت سے موازنہ کروانا ٹھیک نہیں ہے، یہ کروڑوں سال تک سورج کی براہ راست ریڈیشنز پڑنے کے باعث چارجڈ پارٹیکلز پر مشتمل ہے، یعنی یہ پاؤڈر کی طرح جُڑی ہوتی ہے، بہت سی جگہوں پر سخت بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ خلاء بازوں کے کپڑوں پر لگ جانے والی چاند کی مٹی نے اپالو مشن کے دوران کافی مسائل پیدا کیے، ان مسائل کو ناسا نے بعد ازاں ایک ڈاکومنٹ کی شکل میں پبلش بھی کیا جسے آپ اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں:
چارجڈ پارٹیکل ہونے کے باعث چاند کی پاؤڈر نما مٹی جُڑی رہتی ہے اور اگر کسی قوت کے باعث اڑے تو فوراً بیٹھ جاتی ہے کیونکہ وہاں زمین کی طرح ہوا موجود نہیں جو انہیں فضا میں معلق رکھے، چونکہ سافٹ لینڈنگ کے دوران چاند کی سطح سے چند فٹ اونچائی پر لونر ماڈیول کے تھرسٹرز آف کردئیے گئے تاکہ فیول بچایا جاسکے، جس وجہ سے اُڑنے والی مٹی لینڈنگ سے پہلے بیٹھ چکی تھی ۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے زمین کے حالات کو سامنے رکھ کر اعتراضات کرتے ہیں، جس وجہ سے وہ مون لینڈنگ کی حقیقت کو سمجھ نہیں پاتے۔
سوال نمبر 17: نیل آرم سٹرونگ صاحب نے جو ہیلمٹ پہنا ہوا تھا ان کے ہیلمٹ کے گلاس کور کے کونے میں ایک سرچ لائٹ کی روشنی نظر آرہی تھی۔ یہ چاند پر کیا اسٹریٹ لائٹیں لگائیں گئیں تھی یا اسٹوڈیو کی لائٹ تھی؟
جواب: اس اعتراض کا جواب دینے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ جس تصویر کو یہاں اعتراض کرنے والوں کی جانب سے refer کیا جارہا ہے وہ ''نیل آرمسٹرانگ'' کی نہیں بلکہ Buzz Aldrin کی ہے، جو اُس وقت ان کے ساتھ تھے۔ اس تصویر کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس میں بزالڈرن کے ہیلمٹ میں امریکی جھنڈے کے عکس کے علاوہ اُس چھڑی کا عکس دکھائی دے رہا ہے جو Solar winds کی composition چیک کرنے کیلئے گاڑی گئی تھی۔ (تصاویر ساتھ منسلک ہیں)
سوال نمبر 18: جب چاند پر سے دنیا دکھلائی گئی تو وہ رنگین دکھلائی۔ کیا کبھی رات کو چاند رنگین سات رنگ کا دکھلائی دیتا ہے؟ کہتے ہیں چاند پر سے دنیا بھی ریفلیکٹ ہوتی نظر آتی ہے جیسے چاند نظر آتا ہے۔ کیا کبھی ریفلیکشن بھی رنگ برنگی ہوتی ہے؟
جواب: چاند اس خاطر رنگین دکھائی نہیں دیتا کیونکہ وہاں عناصر کی composition زمین کی نسبت مختلف ہے، وہاں ہوائی کُرہ موجود نہیں ہے، پانی موجود نہیں ہے، چاند کی سطح آتش فشاں چٹانوں پر مشتمل ہے۔جبکہ زمین پر مختلف عناصر کی بھرمار ہے، جس وجہ سے چاند سے بھی زمین رنگین ہی دکھائی دیتی ہے۔جیسے زمین سے سیارہ مریخ کالے یا سفید رنگ کا نہیں بلکہ لال رنگ کا دکھائی دیتا ہے۔
سوال نمبر19: کہتے ہیں زمین چاند سے کئی گنا بڑی ہے۔ اگر واقعی سچ کہتے ہیں تو وہ زمین جو ناسا نے دکھلائی تھی وہ تو چاند کے برابر ہی نظر آ رہی تھی۔ کیسے چاند پر سے دنیا کا سائز بھی اتنا ہی بڑا نظر آیا جتنا ہمیں چاند نظر آتا ہے؟ کیوں دنیا کئی گنا بڑی نظر نہ آئی چاند پر سے؟
جواب: اپالو مشنز جس دوران چاند پر گئے تو اُس دوران چاند کی پہلی تاریخ نہیں تھی، کیونکہ پہلی تاریخ پر چاند کی سطح سے زمین مکمل دکھائی دیتی ہے، بقیہ تاریخوں میں یہ چاند کی طرح شکلیں بدلتی رہتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اِن تصاویر میں زمین مکمل نہیں ہے۔ نیز آپ ایک تجربہ کیجیے، کبھی چودھویں کا چاند جب اپنے عروج پر ہو، اس دوران اس کو عام آنکھ سے دیکھیے، اس کے بعد اس کی تصویر کیمرے سے لینے کی کوشش کریں، دونوں کے مابین کافی فرق دکھائی دے گا۔
یہ اُن کچھ اعتراضات کے جوابات تھے، جو بارہا انبکس میں بھیجے جارہے تھے، اس کے علاوہ ایک اور اعتراض وین ایلن بیلٹ کے حوالے سے کیا جاتا ہے کہ زمین کے گرد Van Allen Belt نامی ایک پٹی موجود ہے جہاں سورج کی ریڈیشنز بیحد شدید ہیں، وہاں سے خلا باز کیسے گزرے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آج بھی عالمی خلائی اسٹیشن کبھی کبھار وین ایلن بیلٹ سے گزرتا ہے، عالمی خلائی اسٹیشن میں چھ انسان ہر وقت سوار ہوتے ہیں، لہٰذا خلائی گاڑی کو ایسی دھاتوں سے بنایا جاتا ہے کہ Van Allen Belt سمیت کہیں بھی سورج کی خطرناک ریڈیشنز سے خلا باز محفوظ رہتے ہیں۔یاد رہے کہ ان تمام باتوں سے قطع نظر اپالو مشن کی کامیابی کیلئے یہی ثبوت کافی ہے کہ اس مشن میں لوگوں کی جانیں گئیں، 10 سال تک ساری محنت دنیا کے سامنے ہوتی رہی، لاکھوں امریکی اس مشن کا حصہ رہے، اس پر اعتراضات وہی لوگ کرتے ہیں جو اس مشن کا حصہ نہیں تھے یا جو فلکیات سے لاعلم ہیں، جو اس مشن کا حصہ رہے انہوں نے مرتے دم تک اس مشن کا حصہ ہونے پر فخر کیا۔اس کے علاوہ سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ جھوٹ ہے تو پھر چاند کی سطح پر retro-reflector کیسے پہنچے؟ جنہیں آج بھی سائنسدان استعمال کررہے ہیں۔ لہٰذا ان تمام حقائق کی بنا پر بلا جھجھک کہا جاسکتا ہے کہ انسان چاند پر پہنچا ہے یہ ایک حقیقت ہے اور بڑی حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے سوچ کی وسعتیں بھی کھولنی پڑتی ہیں ورنہ کنویں کا مینڈک بننا کوئی بڑا کام نہیں۔ کائنات بے انتہاء وسیع ہے اس کو سوچتے ہوئے اپنے vision کو بھی وسیع رکھیے ورنہ یہ دماغ زمین سے پرواز تک نہیں کرنے دے گا۔ اسی خاطر تو اقبالؒ نے کہا کہ
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں! 
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں!
اِسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا!کہ
 تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں!
٭٭٭