درویش شاعر مولوی اسلم

مصنف : ضیا الدین ضیا

سلسلہ : شعر و ادب

شمارہ : اگست 2020

سرگودھا کے درویش منش شاعر مولوی اسلم کا پچھلے سال انتقال ہو گیا۔
مولوی صاحب پڑھنے لکھنے سے واقف نہ تھے شعر بے ساختہ اور انقلابی کہتے۔ ان کے چند اشعار۔
میں جب بھی بات کرتا ہوں وہ مجھ کو ٹوک دیتا ہے
مرا بیٹا ہی مجھ کو معتبر ہونے نہیں دیتا
٭٭٭
تجھے اب کس لیے شکوہ ہے بچے گھر نہیں رہتے
جو پتے زرد ہو جائیں وہ پیڑوں پر نہیں رہتے
تو کیوں بے دخل کرتا ہے مکانوں سے مکینوں کو
وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جن کے گھر نہیں رہتے
اسے جس دھوپ میں جبری مشقت کھینچ لائی ہے
گھروں سے سائے بھی اس دھوپ میں باہر نہیں رہتے
جھکا دے گا تری گردن کو یہ خیرات کا پتھر
جہاں میں مانگنے والوں کے اونچے سر نہیں رہتے
یقیناً یہ رعایا بادشاہ کو قتل کر دے گی
مسلسل جبر سے اسلم دلوں میں ڈر نہیں رہتے
٭٭٭
اپاہج اور بھی کر دیں گی یہ بیساکھیاں تجھ کو
سہارے آدمی سے استقامت چھین لیتے ہیں
٭٭٭
رہنے کے یہ جہان اب قابل نہیں رہا
تعمیر اس کی بارِ دگر ہونی چاہیے
٭٭٭
کسی کے ہاتھ میں کاسہ کسی کے ہاتھ میں جھاڑو
کھلونے ہاتھ میں لے کر کوئی بچہ نہیں نکلا
خدائی بانٹ دی تو نے ہے جن آدم کے بیٹوں میں
خدایا ان میں تیرا ایک بھی بندہ نہیں نکلا
٭٭٭
بانجھ رہتی سدا زمیں ہے وہ
جس کی مٹی میں نم نہیں ہوتا
ایسے لوگوں سے ہم نہیں ملتے
جن کی گردن میں خم نہیں ہوتا
٭٭٭
جن پرندوں کے پر نہیں ہوتے
ان کے پیڑوں پہ گھر نہیں ہوتے
لوگ ان کو پہاڑ کہتے ہیں۔۔!!
جو ادھر سے ادھر نہیں ہوتے
٭٭٭
ہم ستارے تھے جل نہیں پائے
ظلمتوں سے نکل نہیں پائے
لڑکھڑائے تھے ایک بار قدم
عمر بھر پھر سنبھل نہیں پائے
٭٭٭
کس کے حق میں کوئی بخشش کی دعا مانگیں ہم
کوئی مرتا ہی نہیں شہر میں ایمان کے ساتھ
مجھے اندر کا وحشی معتبر ہونے نہیں دیتا
جدھر انسانیت ہے یہ ادھر ہونے نہیں دیتا
نموکی ساری خاصیت پنہاں ہے میرے سینے میں
زمیں کا شور ہی مجھ کو شجر ہونے نہیں دیتا
اچانک ٹوٹ پڑتیں بجلیاں ہیں میرے خرمن پر
برا دن اپنے آنے کی خبر ہونے نہیں دیتا
میں جب بھی بات کرتا ہوں وہ مجھ کو ٹوک دیتا ہے
مرا بیٹا ہی مجھ کومعتبر ہونے نہیں دیتا
٭٭٭
یاد آئے گا بہت دھوپ میں سایا ان کا
اپنے آنگن میں ہی یہ بوڑھا شجر رہنے دو
غیر کے ہاتھوں میں کیوں دیتے ہو اپنی پگڑی
بات گھر کی ہے تو پھر بات کو گھر رہنے دو
آنے جانے سے ہی قائم ہیں جہاں کے رشتے
آنا جانا ہے تو دیوار میں در رہنے دو
٭٭٭
جو آگ کو گلزار کرے، کوئی نہیں ہے
حق بات سرِ دار کرے، کوئی نہیں ہے
منسوب تو سورج سے کئی نام یہاں ہیں
جو تیرگی کو تار کرے، کوئی نہیں ہے
آباد جہاں صورتِ انساں ہیں درندے
ان محلوں کو مسمار کرے، کوئی نہیں ہے
سب گنگ زبانیں ہیں یہاں شاہ کے آگے
جو رائے کا اظہار کرے کوئی نہیں ہے
قاتل کو ہی شاباش دیئے جاتے ہیں سب لوگ
جو اس کو نگوں سار کرے، کوئی نہیں ہے
سب نیند کی گولی ہی کہلاتے ہیں مسیحا
جو نیند سے بیدار کرے، کوئی نہیں ہے
مجرم تو مرے دیس کا ہر شخص ہے اسلم
جو جرم کا اقرار کرے، کوئی نہیں ہے

٭٭٭