مثبت سوچ کیوں ضروری ہے؟

مصنف : محمد شارق

سلسلہ : نفسیات

شمارہ : جون 2020

جس طرح ایک سرور (Server)کے ذریعے مختلف کمپیوٹرز فاصلوں کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے اذہان ایک دوسرے سے میگنیٹک ویوز کے ذریعے باہم جڑے ہوئے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ موبائل فونز الگ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہیں، اسی طرح انسانی دماغ بھی براہ براست بغیر کسی ظاہری واسطے کے دوسرے دماغ کو نہ صرف پیغام ارسال کر سکتا ہے کہ بلکہ اس پر اثرانداز بھی ہوتا ہے فاصلے اور ناواقفیت بھی اس عمل میں حائل نہیں ہوتی، بلکہ مطلوبہ فرد خواہ کہیں بھی ہو، آپ اسے جانتے ہوں یا بالکل بھی معلوم نہ ہو، آپ کا مائنڈ پیغام کی ترسیل کے لیے خود اسے تلاش کرکے آپ کے خیالات منتقل کردیتا ہے۔ دوسروں کے ذہن میں اپنے خیالات و احساسات انڈیلنے کا کام شعوری طور پر بھی ہوتا ہے اور لاشعوری طور پر بھی۔ شعوری طور پر پیغام یا احساسات کی ترسیل کو ہی ٹیلی پیتھی کہتے ہیں۔
ہمارے ذہن میں اللہ نے بہت طاقت رکھی ہے۔ جب ہم سوچتے ہیں تو نہ صرف ہمارے ذہن میں کیمیائی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں بلکہ اس کی میگنیٹک فیلڈ میں شدت ہو تو دوسرا فرد بھی اس سے متاثر ہوسکتا ہے۔اس کی تاثیر ہر ایک انسان کی اپنی ذہنی قوت پر مبنی ہوتی ہے بعض لوگوں کا خواب سچ ہوجاتا ہے، بعض لوگوں کی نظربد بہت تیز ہوتی ہے اور بہت سے لوگ جب کسی کا خیال کرتے ہیں تو فوراً اُس مخصوص فرد کی جانب سے کال یا میسج موصول ہوجاتا ہے۔ ممکن ہے یہ اتفاق ہو لیکن بہت سی صورتوں میں درحقیقت ہوتا یہ ہے کہ آپ کا ذہن غیر مرئی شعاع (الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ) کے ذریعے اس فرد کو آپ کا خیال پہنچا دیتا ہے اور وہ فرد آپ سے رابطہ کرلیتا ہے۔یہ واضح رہے کہ الیکٹرومیگنیٹک ویو کے ذریعے ہمارے دماغ کو دن بھر دوسروں کے جو خیالات موصول ہوتے ہیں، ہم ان مثبت یا منفی خیالات کو ماننے پر مجبور نہیں۔ بلکہ ان خیالات کی اثراندازی کا انحصار ہمارے ذہن کی حالت پر ہے۔اسے ہم ایک بہتر مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔
مختلف ٹی وی چینلز کے سگنلز ہر وقت فضا میں موجود ہوتے ہیں لیکن انہیں کیچ کرنے کے لیے ٹی وی کا ہونا، اس کا آن ہونا اور مخصوص فریکوئینسی پر ہونا ضروری شرائط ہیں۔ اسی طرح کسی بھی چیز کے بارے میں جب ہم شدت سے سوچتے ہیں تو ہم اپنے خیالات دانستہ یا نادانستہ پیدا کرکے اسے نشر کررہے ہوتے ہیں۔ اب سامنے والا اس کا اثر کس طرح لیتا ہے یہ اس کی دماغی قوت، فریکوئینسی کا میچ کرنا اور اس خیال سے متاثر ہونا ہے۔ جیسا کہ شیاطین ہمارے دماغ میں وسوسہ ڈالتے ہیں لیکن سب پر اس کا یکساں اثر نہیں ہوتا۔ کسی شخص کی دماغی حالت اتنی کمزور ہوتی ہے کہ وہ کسی وسوے یا شیطانی خیال کے آتے ہی اس پر عمل کرنے لگ جاتا ہے اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو ایسے خیالات کو فوراً جھٹک کر اللہ کی پناہ مانگ لیتے ہیں۔آپ کہیں کسی جاب کے لیے اپلائی کرتے ہیں، آپ پوری طرح اہل بھی ہیں لیکن اس کے باوجود منفی خیالات بہت ہی موثر انداز میں آپ پر حاوی ہیں کہ آپ کو جاب نہیں ملے گی۔ اب ہوتا یہ ہے کہ آپ ان منفی سوچ کے ذریعے ایک پیغام متعلقہ فرد کو ارسال کر دیتے ہیں جو آپ کے انتخاب کا ذمہ دار ہو؛ اور جونہی آپ کی فائل اس کے سامنے آتی ہے وہ نیورون ایکٹو(فعال) ہوجاتا ہے جو درحقیقت آپ نے ہی اپنے منفی خیالات سے اسے بھیجا ہوتا ہے کہ ‘‘آپ کو جاب نہیں ملے گی۔’’ چنانچہ اگر وہ اس خیال کو نہیں جھٹک دیتا تو کسی جواز کو تراش کر وہ شخص آپ کو ری جیکٹ کردیتا ہے۔ آپ کے نزدیک وہ شخص ہی آپ کے مسترد ہونے کی وجہ ہے لیکن حقیقتاً یہ پیغام آپ نے ہی اسے بھیجا ہوتا ہے کہ آپ کو مسترد کیا جائے اور اس شخص کے ساتھ آپ بھی اپنے مسترد ہونے کے ذمہ دار ہیں۔
بظاہر یہ باتیں بڑی طلسماتی محسوس ہوتی ہیں لیکن فزکس میں ہگس فیلڈ کے نظریے کے بعد یہ مفروضہ سائنس کی روشنی میں بھی قبول کرلیا گیا ہے۔ مشہور نیورو سائنٹسٹ کارلس گراؤ نے اس بارے میں ECG اور MRIکے ذریعے تجرباتی شواہد سے یہ بات ثابت کی ہے کہ کس طرح بغیر کسی ظاہری واسطے کے، ایک فرد کے خیال نے دوسرے فرد کے دماغ میں کیمیائی تبدیلیاں پیدا کیں۔لہٰذا آج یہ بات سائنسی طور پر ثابت شدہ ہے کہ ہماری منفی سوچ حالات میں تبدیلی پیدا کرسکتی ہے۔ مثبت سوچ رکھنے کی نصیحت محض ایک نصیحت یا ‘‘قولِ
 زریں’’ نہیں بلکہ کائنات کے آفاقی اصولوں کی روشنی میں بھی انتہائی لازم ہے۔
اپنے طور پر بہترین پلاننگ کے بعدہمارے ساتھ جو کچھ برا ہوتا ہے، کاروبار میں نقصان، بیماری، امتحان میں ناکامی، ناگہانی حادثات وغیرہ، ان میں سے بہت سے مسائل فی الواقع قسمت، حالات اور خارجی عوامل کے سبب سے پیدا ہوتے ہیں لیکن اکثر مسائل درحقیقت ہماری اپنی ہی منفی سوچ کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ہم اپنے ہی ٹیلی پیتھک پیغامات سے لوگوں کے رویے اور حالات بناتے ہیں اور پھر اپنی قسمت پر روتے ہیں حالانکہ اس کے ذمہ دار ہم خود ہوتے ہیں۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم ہمیشہ مثبت سوچنے کی کوشش کریں، بلا وجہ حالات سے بدگمان نہ ہوں۔بائیبل کی کتابِ امثال میں ایک بہت خوبصورت فقرہ ہے کہ‘‘شادمان دل شفا بخشتا ہے لیکن افسردہ دلی ہڈیوں کو خشک کر دیتی ہے۔’’ (امثال 17:۲۲) ہمارے دین نے بھی ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم حکمت عملی کے بعد اللہ پر مکمل بھروسہ رکھیں، دعا کریں اور منفی خیالات سے گریز کریں وگرنہ اللہ کا قانون یہی ہے کہ بندہ جیسا گمان کرتا ہے، ویسا ہی معاملہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔
٭٭٭