میں کیسے مسلمان ہوا

مصنف : چوبل سنگھ

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : جون 2017

  سوال   : برائے کرم اپنا مختصر تعارف کرائیں ؟

 جواب  : بھیا میں اتنا پڑھا لکھا نہیں ہوں مجھ سے دیسی بھاشا میں بات کرو۔

  سوال  : میرا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے بارے میں بتائیں،اپنے خاندان اور گھر والوں کے بارے میں سنائیں۔

 جواب  : میرا نام اب اللہ کا شکر ہے محمد لیاقت ہے کچھ سال پہلے میرا نام چوبل سنگھ تھا۔ ہم مظفر نگر ضلع کی تحصیل جانسٹھ کے ایک گائوں کے رہنے والے ہیں ہم لوگ گوجر برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ اچھے کسان ہیں۔ ہم پانچ بھائی ہیں اللہ کا شکر ہے کہ چار بھائی پورے خاندان کے ساتھ اسلام قبول کر چکے ہیں میرے بڑے بھائی گائو ں کے بڑے چودھری کانگریس کے علاقے کے اچھے لیڈر ہیں وہ ابھی ہندو ہیں میرا نمبر دوسرا ہے ۔مجھ سے چھوٹے بھائی جن کا پہلا نام رام سنگھ تھا ان کا نام محمد ریاست ہے ان سے چھوٹے جن کا پہلا نام پرکاش چند تھا اب ان کا نام محمد فراست ہے میرے چھوٹے بھائی جن کاپہلا نام راجیندر سنگھ تھا محمد بشارت ہے۔ میرے دولڑکے اور دو لڑکیاں ہیں اور ریاست کے دو لڑکے اور ایک لڑکی ہے، فراست کے تین لڑکے ہیں اور بشارت کے دو لڑکے اور چار لڑکیاں ہیں اس طرح ابھی تک اللہ کے کرم سے ہمارے خاندان کے ۲۴ لوگ مسلمان ہوچکے ہیں اللہ کا شکر ہے سب بچے پڑھ رہے ہیں چاروں بھائیوں کے پانچ بچے اور تین بچیاں حفظ کر رہی ہیں۔

  سوال   : اپنے اسلام قبول کرنے کاواقعہ سنایئے ، آپ کے مسلمان ہونے کا کیا سبب ہوا؟

 جواب  : بھیا مالک کی مہربانی ہوئی مجھے شیوجی کی مورتی نے مسلمان ہونے کو کہا۔

  سوال  : شیوجی کی مورتی نے وہ کیسے؟

 جواب  : اب سے شاید نو سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے یہاں گنیّ کا بھائو اچھا رہا اور فصل بھی بہت اچھی ہوئی ہم نے اپنا پرانا مکان گراکرنیا مکان بنایا۔ نئے مکان میں ایک چھوٹا کمرہ پوجا کے لئے بنایا ، خوب ٹایل وغیر ہ لگائے، گھر میں ایک چھوٹا سامندر بنالیا، اس میں لگانے کے لئے شیوجی کی مورتی خریدنے کے لئے مظفر نگر گیا ۔ ایک قیمتی مورتی پانچ ہزار روپے کی خریدی ،دوکاندار نے اس کو ایک اخبار میں پیک کرکے دے دیا۔ میں مظفر نگر میں شیوچوک سے پہلے ایک مسجد کے سامنے سے گزررہا تھا اچانک میرے دل میں خیال آیا بلکہ میرے اللہ کی طرف سے ہدایت کی ہوا چلی، میں نے سوچا اگر یہ مورتی میرے ہاتھ سے چھوٹ جائے تو یہ گرے گی اور گر کر ٹوٹ جائے گی ، جو گر کرخود ٹوٹ جائے وہ بھگوان میرے کس کام آسکتا ہے ؟ یہ خیال آہی رہا تھا کہ مورتی میرے ہاتھ سے چھوٹ کر گری اور اسطرح گری جیسے کسی نے میرے ہاتھ سے چھین کردے ماری ہو ، گر کر دو چار ٹکڑے ہو کر چورچور ہو گئی جیسے کسی نے ارادتاََ اسے چور چور کیا ہو ۔ میرے دل ودماغ میں انقلاب آگیا اور میں نے اپنے آپ سے کہا کہ مسلمانوں کادھرم ہی اچھاہے ان کا خدا نہ ٹوٹے نہ پھوٹے ہر جگہ موجود، بس ایک کی پوجا کرو اور آرام سے رہو اس خیال میں جذباتی ہوکر میں سامنے مسجد کی طرف چڑھ گیا ۔ اونچی مسجد میں زینہ چڑھ کر داخل ہونا پڑتا ہے وہاں ایک صاحب رہتے ہیں وہ حضرت جی کا ندھلہ والوں کے مرید بھی ہیں کالے کپڑے پہنتے ہیں ان سے میں نے کہا میاں جی مجھے مسلمان کرلو ، وہ ہچکچائے۔ میں نے ان سے زور دیکر کہا شک نہ کرو گھبرائو نہیں میں خوب سمجھ کر آیا ہوں مسلمانوں کا دھرم ہی سچا ہے، ان کا خدا نہ ٹوٹے نہ پھوٹے ہر جگہ موجود ہر ایک کو دیکھتا ہے ، مجھے مسلمان کر لو ۔وہ بھی میرے جذبہ سے متاثر ہوگئے انہوں نے کلمہ پڑھایا اور میر ا نام محمد لیاقت رکھ دیا ۔ کلمہ پڑھنے اور اسلام میں آجانے کے بعد میں نے اپنے من میں ایک عجیب سکون و شانتی محسوس کی ۔ میں خوشی خوشی گھر گیا گھر والے معلوم کرنے لگے کہ مورتی کیوں نہیں لائے میں نے کہا کہ بتادوں گا، رات میں سب سے پہلے میں نے اپنی بیوی کو بتا یا بیوی پوراقصہ سن کر بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی میں تو خود بہت دنوں سے مسلمان ہونے کو سوچتی تھی۔ مسلمان گھروں میں جب جاتی تھی تو مجھے مسلمان عورتیں نماز پڑھتی بہت اچھی لگتی تھیں۔ ایک لڑکی ہے شائستہ ، وہ مجھے تبلیغ کی کتاب بھی سناتی تھی میں نے اس سال تین جمعوں کے روزے بھی رکھے ہیں، میں جمعہ کو اسکو اپنے گائوں کے امام صاحب کے پاس لے گیا اور مع بچوں کے کلمہ پڑھوایا۔ میری بیوی کا نام امام صاحب نے فاطمہ رکھ دیا بچیوں کا نام عائشہ اور زینب اور لڑکوں کا محمد حامد اور محمود احمد رکھا۔

  سوال  : اسکے بعد باقی بھائیوں نے کس طرح اسلام قبول کیا؟

 جواب  : میرے تینوں بھائیوں اور ان کے پریوار نے آپ کے والد صاحب کے یہاں اسلام قبول کیا ۔ میری بیوی اور بچوں کے کلمہ پڑھنے کے بعد میں نے سب سے چھوٹے بھائی راجندر کے سامنے بہت محبت اور دردسے بات رکھی اس نے اپنی گھر والی سے مشورہ کیا وہ راضی ہوگئی مگر ہمارے یہاں جو امام تھے وہ گائوں سے چلے گئے ۔دوسرے امام صاحب جو آئے انہوں نے مجھے کلمہ پڑھوانے کے لئے منع کر دیا ، وہ ڈر گئے میں نے گائوں کے کچھ مسلمانوں سے ذکر کیا انہوں نے مجھے پھلت جانے کا مشورہ دیا۔ دو پہر کو پھلت پہنچے مولانا کلیم صاحب سفر پر جانے کے لئے گاڑی میں بیٹھ چکے تھے میںنے گاڑی میں ان سے ملاقات کی اور اپنے بھائی اور بھابھی کو ملوایا، وہ گاڑی سے اترے ہمیں کلمہ پڑھوایا اور قانونی کارروائی کا طریقہ بتایا،ا پنے سامنے کھانا کھلایا چائے پلائی اور ڈیڑھ گھنٹے بعد سفر پر گئے ۔ ہمیں ہندی کی کتابیں بھی دیں اور باقی بھائیوں اور گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر کے لئے ان کو اسلام کی دعوت دینے کا وعدہ مجھ سے لیا۔گھر جانے کے بعد میں نے وہ کتابیں پڑھیں اور پھر گھر کے لوگوں کو سنائیں ۔ خاص طور پر آپ کی امانت مولانا صاحب نے بڑے درد کے ساتھ لکھی ہے ، وہ دل کے اندر گھسنے والی کتاب ہے اس کو پڑھنے کے بعد اسلام کی قدر ہم نے اورپہچانی ۔ دوسال میں کوشش کرتا رہا اور اللہ کا کرم ہے کہ میرے اور دو بھائی اور انکے بچے مسلمان ہونے کو تیار ہوگئے اور میںنے انہیں پھلت لاکر کلمہ پڑھوایا۔

  سوال   : گھر کے لوگوں نے بات مان لی ؟خصوصاََ عورتوںکا ماننا تو بہت مشکل ہے۔

 جواب  : اصل میں اللہ کی طرف سے ہدایت کی ہوا چل رہی تھی جب بھی تو شیوکی مورتی نے مجھ سے کہا میں پوجا کے لائق نہیں ہوں اور اسلام ہی سچا مذہب ہے۔ مورتی ٹوٹ گئی تو میں عیسائی بن جاتا ، بودھ مذہب کو پڑھتا یا جاننے کی کوشش کرتا ، مگر مسجد کے سامنے میرے دل میں کوئی خیال ہی نہیں آیا ، یہ صرف اللہ کی طرف سے ہدایت کا فیصلہ اور اس کی رحمت تھی ۔ پرکاش کی بیوی مایا نے تو شروع میں بہت مخالفت کی اور پورے علاقہ میں شور مچانے کی دھمکی دی ، مگرہم  لوگ اس کے پیر پکڑ لیتے اور راتوں کو اللہ سے دعا کرتے ، اللہ نے اس کا دل پھیر دیا۔

  سوال   : اسلام قبول کرنے کی خبر سے ہندوئوں نے مخالفت نہیں کی اور خاندان کے لوگوں کی طرف سے آپ لوگوں پر دبائو نہیں پڑا؟

 جواب  : میں اب یہ بتانے جارہا تھا کہ میرے چھوٹے بھائی راجندر نے اسلام قبول کیا تو ہمارے بڑے بھائی نیتا جی کو اس کا پتہ لگ گیا وہ آپے سے باہر ہوگئے ،لاٹھی لیکر ہم دونوں کو بہت مارا ۔ ہم دونوں مار کھاتے رہے اور انکی خوشامد کرتے رہے کہ آپ اسلام کے بارے میں جان تو لیں مگر وہ سننے کو تیار نہ تھے ، انہوں نے دبائو دینے کے لیے علاقے کے تھانے دار کو دوہزار روپئے دیئے ، میں تو بھاگ کر پھلت چلا گیا، چھوٹے بھائی کو پولیس لے گئی اور تھانے میں بہت پٹائی کی۔ چھوٹا بھائی بشارت کسی طرح تیار نہ ہوا تو انہوں نے اس کو طرح طرح سے اذیت دی اور شکنجہ لگایا جس سے اس کے ایک پائوں کی ہڈی بھی دوجگہ سے ٹوٹ گئی ، مجھے دو روز بعد کسی طرح پتہ لگا، رات کو اندھیرے میں اسے تانگے میں ڈال کر گھر سے اٹھا کرلایا اور مظفر نگر ڈاکٹر خان کے یہاں پلاسٹر کرایا۔ مولانا کلیم صاحب کے پر چہ کی وجہ سے ڈاکٹر خان صاحب نے کوئی پیسہ نہیں لیا بلکہ ہمارے کھانے کا انتظام بھی اپنے آپ کیا۔ اسکے بعد ہم نے قانونی کاروائی پوری کی اور مشورہ سے ایس پی اور کلکٹر کے یہاں درخواستیں لگائیں۔ مظفر نگر میں ایک اے ایس پی جین صاحب تھے وہ بڑے اچھے آدمی تھے انہوں نے مظفر نگر سے ایک داروغہ کو ہمارے تھانے بھیجا اور ہمارے بڑے بھائی اور گائوں والوں کو بھی خبر دار کیا، اس طرح ہمارے اللہ نے ہمارے لئے مصیبت سے بچنے کا انتظام کردیا۔

  سوال   : اب آپ کے بڑے بھائی نیتا جی کا کیا حال ہے؟

 جواب  : اصل میں انکے کوئی اولاد نہیں ہے ، انہوں نے ریاست عرف رام سنگھ کے چھوٹے بچے کو گود لے رکھا تھا، اس مسئلہ کے بعد ہم لوگوں نے مشورہ کیا کہ اپنے لڑکے کو واپس لے لیں اور اسکو ان کے گھر جانے سے روک دیا اس کو پیار سے گڈو کہتے تھے اس کا پہلا نام رام پال تھا اب محمد بلال ہے، اسکو مدرسہ میں پڑھنے بھیج دیا ایک دن بڑے بھائی نیتاجی کے پیٹ میں درد ہوا کئی انجکشن لگے درد ٹھیک نہیں ہوا، میں مظفر نگر جماعت میں گیا ہو اتھا گڈو کو معلوم ہوا تو وہ انکے پاس گیا وہ دردسے رورہے تھے گڈو کو چمٹا کر خوب روئے۔ اس نے ان سے کہا کہ ڈیڈی لیاقت تائو سے دعا کرالو،وہ ان کو ڈیڈی کہتا تھا وہ اس پر ناراض ہوئے ایک ہفتہ تک مظفر نگر اور مختلف ڈاکٹروں کے علاج کے باوجود بھی درد ٹھیک نہیں ہوا، تھوڑی بہت دیر دوا کے اثر سے آرام ہوجاتا تھا اور پھر وہ تڑپنے لگتے تھے ۔ گڈو نے باربار ان سے مجھ سے دعا کرانے کے لئے کہا ایک دن ریاست سے معافی مانگنے کے لئے بھی کہا، میں دس دن جماعت میں لگا کر کر آیا تو معلوم ہوا کہ بھائی صاحب دوبار میرے گھر آئے ۔ میں سوچ رہا تھا کہ مجھے ان کی طبیعت پوچھنے جانا چاہئے یہ میرا اسلامی فریضہ ہے، کہ وہ خود کراہتے آگئے، مجھ سے چمٹ گئے، خوب روئے ، ریاست بھی آگیا اس سے بھی لپٹ گئے اور معافی مانگنے لگے ہم سبھی رونے لگے میں نے موقع غنیمت جانا اور کہا بھیا آپ ذراسا درد نہیں سہ سکے ہمیشہ کی نرک کی آگ کو کیسے برداشت کروگے اور مسلمان ہونے کے لئے کہا ، انہیں یہ بات اچھی تو نہ لگی مگر درد کی وجہ سے وہ پریشان تھے، کہنے لگے میں ٹھیک ہوجائو نگا تو سوچونگا تم اپنے اللہ سے پرارتھنا (دعا) کرو، وہ چلے گئے۔ میں نے دو رکعت نماز پڑھی اور خوب دل سے دعا کی اللہ کا کرم ہے میرے اللہ نے میری باتوں کی لاج رکھ لی اور شام تک انکو آرام ہوگیا اور ابھی تک ٹھیک ہیں۔

  سوال  : پھر آپ نے ان کو دعوت نہیں دی؟

 جواب  : میں نے ان کو دعوت دی اور وعدہ یاد دلایا اور ڈرایا کہ جس اللہ نے آپ کو اچھا کیا وہ پھر بیمار کر سکتا ہے، مگر ابھی ان کے لئے ہدایت نہیں آئی اصل بات ہدایت کے اوپر سے آنے کی ہے مگر وہ اب ہمارے ساتھ اچھی طرح ملتے ہیں اور شاید ہمیں ناراض کرنے سے ڈرتے بھی ہیں ، دوسری ایک بڑی بات یہ ہوئی کہ ہماری زمینیں ایک ساتھ ان ہی کے قبضہ میں تھیں ہم چاروں بھائیوں کی زمین بھی پچھلے سال انہوں نے ہمیں دے دی ہے۔

  سوال  : آپ نے اپنے خاندان کی دینی تعلیم و تربیت کا کیا انتظام کیا؟

 جواب  : اللہ کا کرم ہے ہمارے چاروں بھائیوں کے گھر والوں میںدین پڑھنے کا شوق ہے ہمارے پانچ بچے اور تین بچیاں حفظ کررہی ہیں ، ہمارا ارادہ ہے کہ ان سب کو عالم اور داعی بنائیںگے۔ بلال تو بہت ہونہار ہے بے دھڑک اپنے رشتہ داروں کومسلمان ہونے کے لئے کہتا ہے گھر کی تعلیم پابندی سے ہوتی ہے اور ایک ایک کر کے ہم میں سے کوئی ایک مستقل جماعت میں رہتا ہے۔

  سوال   : آپ اسلام قبول کر کے کیسا محسوس کرتے ہیں، پچھلی زندگی کے بارے میں آپ کو کیسا لگتا ہے؟

 جواب  : ہمارا اسلام ہمارے مالک کا ہم پر خاص اور بہت خاص کرم ہے ، میرے اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے خود شیوجی کی مورتی سے ہمیں دعوت دلائی ، مجھے جب بھی اسلام اور پھر اپنے خاندان کے لوگوں کی اتنی آسانی سے ہدایت کا خیال آ جاتا ہے تو میرا دل میرے اللہ کے شکر سے جھک جاتا ہے کبھی کبھی تو بے اختیار میں چلتے چلتے سجدہ میں پڑجاتا ہوں ۔ اگر خدانہ کر ے خدانہ کرے میرے اللہ مجھ پر مہربانی نہ کرتے اور ہم کفر پر رہتے اور ہندو مرجاتے تو ہم کیا کرسکتے تھے ہماری اللہ کی ذات پر زبردستی تو تھی نہیں،میرے اللہ مالک کے صدقہ جائوں (روتے ہوئے) کہاں ہم گندے اور کہاں ایمان کی دولت ، الحمدللہ الحمدللہ 

  سوال  : اپنے حالات کے بارے میں اور کچھ بتائیں ؟

 جواب  : ہماری زندگی کا ہر پل اللہ کی رحمت کا نمونہ ہے ، ہردن رحمت کا کوئی کرشمہ سامنے آتا ہے، سچی بات یہ ہے کہ ہماری زندگی کیا دنیا کے ہر انسان کی کی زندگی کے ہر پل میں اسے اللہ کی خاص رحمت دکھائی دے گی اگر انسان کے پاس دیکھنے والی آنکھیں ہوں، بس انسان اس ایک سے لو لگالے اور اسی کا بن جائے اور زندگی کی ہر ضرورت او ر اپنی ہر پریشانی اللہ سے کہے اور اپنی ہمت بھر اس کے دین پر چلنے کی کوشش کرے پھر دیکھئے کہ وہاں سے ہر سوال پورا ہوتا ہے کہ نہیں۔

  سوال  : آپ دعا مانگتے ہیں ؟ آپ کی دعائیں اکثر قبول ہوتی ہیں کوئی خاص واقعہ بتائیے؟

 جواب  : ہر انسان کو اپنے اللہ سے خوب مانگنا چاہیے وہ سبھی کی دعائیں قبول کرتا ہے میری تو آج تک کوئی دعا بھی لوٹائی نہیں گئی ، میرے لئے تو زندگی کا ہر دن اللہ کی نئی رحمت کے ساتھ آتا ہے، میں تو صبح کے بعد انتظار کرتا ہوں کہ کیا خاص رحمت کا معاملہ سامنے آتا ہے ۔میں دوروز پہلے جماعت سے چلہ لگا کرآیا ہوں ، جماعت میں جانے سے پہلے میری بیوی بیمار تھی ان کا آپریشن کرانا پڑا میرے پچیس تیس ہزار روپیئے خرچ ہوئے کچھ اور بھی مسائل تھے ہمارے علاقہ میں جوڑ تھا ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کا جماعت میں جانے کا نمبر ہے،میں نے ابھی موقع نہ ہونے کا عذر کیا ۔ جانسٹھ کے ایک ساتھی نے زور دے کر نام لکھوادیا اور کہا کہ خرچ کی فکر نہ کرو خرچ میرے ذمہ ہے ، شاید نو مسلم سمجھ کر انھوں نے ایساکیا، نو مسلم سمجھ کر جب میرے ساتھ کوئی تعاون کا معاملہ کرتا ہے تو نہ جانے کیوں مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے ، ہم نے اسلام قبول کیا ہے غیروں کے آگے بھکاری بننا تو اسلام نہیں ؟ میں نے آج تک اس طرح کا تعاون نہ خود قبول کیا ہے نہ الحمدللہ بھائیوں وغیرہ کو قبول کرنے دیا ہے، سختی برداشت کی، ابتداء میں تو بہت مالی پریشانی رہی مگر اللہ نے مجھے جمائے رکھا اور میرے بھائیوں کو بھی ہمت دی۔ میرا ارادہ تھا کہ اگر وقت پر خرچ کا انتظام نہ کر سکا تو منع کردوں گا، دوسروں سے قرض لے کر نہیں جائوں گا، جماعت کا وقت آگیاخرچ کا انتظام نہ ہوسکا دوسو روپیئے صرف میرے پاس تھے ، ساتھیوں نے اصرار کیا ، اس قدر دبائو دیا کہ میں منع کرنے کے حال میں نہیں رہا اور دل میں خیال کیا کہ میں نے سوال تو نہیںکیا خود پیشکش کررہے ہیں، تو کیا حرج ہے میںجماعت میں چلاگیا ۱۵۰۰ روپیئے خرچ کی جماعت تھی، جماعت مرکز سے گجرات پالن پور حلقہ میں گئی ، ساتھیوں نے پیسے جمع کرنے شروع کئے تھے ہمارے ساتھی نے ہمارے پیسے جمع کرنے چاہے، مگرعین وقت پر میرے دل نے مجھے اجازت نہیں دی۔ میں نے ان کو منع کردیا اوردوسوروپیئے ابتدائی خرچ وغیر ہ کے امیر صاحب کو دئیے اور کہا انشاء اللہ بقیہ میں جمع کردونگا ۔ جماعت پالن پور پہنچ گئی روز خرچ جمع کرنا تھا ، میں نے دو رکعت صلوۃالحاجۃ پڑھی اپنے اللہ کے سامنے فریاد کی، رات کو سویا تو ہمارے حضورﷺ کی زیارت ہوئی مجھے تسلی دے رہے ہیں کہ گھبرائو نہیں اللہ تعالیٰ تمہیں شرمندہ نہیں کریں گے اگلے روز ظہر کے بعد میں یہ دیکھ کر حیرت میں رہ گیا کہ ہمارے بڑے غیر مسلم بھائی نیتاجی پالن پور مرکز کے ایک ساتھی کو لے کر میری تلاش میں میرے پاس آئے ۔میں تعجب میں تھا، تو انہوں نے بتایا کہ دو روز پہلے میں نے تم کو دیکھا تم بہت رو رہے ہو،مجھے خیال ہوا کہ تمہارے پاس پیسے نہیں ہیں میں تمہارے گھر گیا تو پتہ چلا کہ تم جماعت میں گئے ہو ، میں منشی ریاض کو لیکر دہلی مرکز نظام الدین آیا وہاں سے تمہارا پتہ چلا کہ پالن پور گئے ہو، احمد آباد میل سے پالن پور آیا، یہ بتاکر دو ہزار روپیئے دیئے کہ وہ جو دس ہزار روپیئے تمہارے مجھ پر ہیں ان میںسے دو یہ ہیں ، آٹھ ہزار گائوں میں آکر لے لینا ایک روزوہ میرے ساتھ رہے اگلے روز واپس آئے میں بار بار شکرانے کی نماز پڑھتا رہا۔ یہ دس ہزار روپیئے اسلام قبول کرنے سے پہلے کے تھے اور انہوں نے دینے کے لئے بالکل منع کردیا تھااس طرح نہ جانے کتنے واقعات زندگی میں روز روز ہوتے رہتے ہیں۔

  سوال   : لیاقت بھائی واقعی آپ پر اللہ کا بڑا کرم ہے اور آپ کا اللہ سے خاص تعلق ہے آپ ہمارے لئے بھی دعا کیجئے۔

 جواب  : مولوی احمد بھائی، اللہ کا کرم تو سب پر ہی ہوتا ہے، ہم پر یہ کر م خاص ہے کہ وہ اپنے کرم اور رحمت کا احساس بھی کرادیتا ہے، آپ کے لئے میں کیوں دعا نہ کروں گا آپ کی تو نسلوں کے لئے بھی میں دعا کرتا ہوں ،مولانا کلیم صاحب تو ہمارے رہبر ہیں،ہمارے بڑے محسن ہیں، اپنے محسن کا حق ہم نہیں پہچانیں گے تو کون پہچانے گا ، اللہ تعالیٰ آپ کو دونوں جہانوں میں چمکائے  

  سوال   : آپ مسلمانوں سے کچھ کہنا چاہیں گے؟

 جواب  : بس میرا کہنا تو یہ ہے کہ میرے، میرے گھروالوں کے اسلام و ایمان پر موت کے لئے اورجو عزیز رہ گئے ہیں بلکہ سارے انسانوں کے لئے ہدایت کی دعا کریںکہ اصل ہدایت کا فیصلہ اللہ کے یہاں سے ہو کر آتا ہے پھر تو خود راستے ملتے جاتے ہیں۔

منزلیں کسی کے گھر حاضری نہیں دیتیں 

راستوں پہ چلنے سے راستے نکلتے ہیں 

مستفاداز ماہ نامہ ارمغان مارچ ۲۰۰۴؁ئ