امام غزالی ؒ

مصنف : زاہد مغل

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : جون 2020

کسی سوچے سمجھے لائف ٹائم پراجیکٹ کے تحت کام کررہا ہو۔ غزالی نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہاں ہر کلامی گروہ مسئلہ تاویل کے پیش نظر ایک دوسرے کی تکفیر پر دلیر تھا۔ اس ماحول میں لازم تھا کہ امت کو جمع کرنے کے لئے نظریاتی فریم ورک تیار کیا جائے۔ اس کے پیش نظر انہوں نے ''فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقہ'' لکھی جس میں وہ یہ بتاتے ہیں کہ کفر اور اسلام کے مابین خط امتیاز کھینچنے کا اصول کیا ہے۔ اس کتاب میں وہ ایسا نظریاتی فریم ورک دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ کلامی گروہوں کو تکفیر سے بچایا جا سکے۔ اصول تکفیر پر کام کرنے والے اصحاب علم کے لئے ان کی یہ کتاب آج بھی اہم ہے۔ غزالی کا کمال یہ تھا کہ وہ مسئلے کو جڑ سے پکڑنے کی کمال صلاحیت رکھتے تھے۔ مختلف گروہوں کے مابین تاویل کے باب میں جھگڑے کی بنیاد ان سب کا ''تصور ناممکن'' تھا جس کی بنیاد ''علم ضروری'' کا تصور تھا۔ علم ضروری کیا ہے اور کیا نہیں نیز اسے معلوم کرنے کے اصول کیا ہیں، اس کے لئے ''قسطاس المستقیم'' تحریر کی (نیز ''معیار العلم'' کے نام سے منطق پر بھی ایک کتاب لکھی)۔ لیکن صرف کفر و اسلام کے مابین خط امتیاز قائم کردینا ہی کافی نہیں تھا، دائرہ اسلام کے اندر عقیدے کے باب میں مناسب و معتدل رویہ کیا ہے اس کے لئے ''الاقتصاد فی الاعتقاد'' تحریر کی جس میں مختلف فیہ بحثوں میں درست عقیدے سے متعلق اصولوں کی نشاندہی کی (امام غزالی کے اصول تاویل کو سمجھنے کے لئے ان تین کتب کا مطالعہ ضروری ہے)۔
مسلم دنیا میں فلاسفہ کی تعلیمات کے نتیجے میں علم کی سیکولرائزیشن کے جس پراجیکٹ کا آغاز ہوا چاہتا تھا اس کا زور توڑنے کے لیے ''تہافت الفلاسفہ'' تحریرکی۔ یہ کتاب فلاسفہ کی تعلیمات کے بجائے نبی علیہ السلام کی تعلیمات کی طرف رجوع کی دعوت دیتی ہے۔ البتہ ''تہافت الفلاسفہ'' صرف ایک انہدامی کارروائی تھی، کس چیز کو تعمیر کرنا ہے اور کیسے، اس کے لئے ''احیاء العلوم الدین'' لکھی۔ یہ کتاب چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ آدھی سے بھی کم جلد عقیدے کی بحث سے متعلق، ڈیڑھ جلدیں عملی فقہی مسائل کے بارے میں اور دو جلدیں تہذیب اخلاق (احسان یا عملی تصوف) پر مشتمل ہیں۔ یہ ان کے تصور دین کا اظہار تھا کہ مسلم معاشروں کو کس چیز پر کتنی محنت کرنے و توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ احیاء العلوم میں 'کتاب العلم' کے اندر امام غزالی علوم کی جو درجہ بندی کرتے ہیں وہ بذات خود خاصے کی چیز ہے اور جس کی روشنی میں مسلم معاشرے آج بھی اپنی تعلیمی پالیسی کے خطوط وضع کرسکتے ہیں۔ کلامی بحثوں کے طریقے سے کیا حاصل کیا جاسکتا ہے اور کیا نہیں، اس کی حدود واضح کرنے کے لئے علم الکلام پر کتاب لکھی تاکہ کوئی شخص اس کے بارے میں ضرورت سے زیادہ خوش فہمی کا شکار نہ ہوجائے۔ کلام کے بجائے غزالی اصلاح نفس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں اور اس کے لئے بہت سی کتب تحریر کیں۔
 اصول فقہ کے معاملے میں ان کی کتاب ''المستصفی'' کا مقام کیا ہے، یہ کسی شافعی عالم سے پوچھ کر دیکھئے۔ شوافع کے علاوہ اس علم کے تمام ماہرین کے یہاں غزالی کی اس کتاب کو اصول فقہ کی چند اہم ترین ابتدائی کتب میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ اس کتاب میں اصول فقہ کو منطقی استدلالات کی ساخت پر لکھا گیا ہے جو اس طرز پر لکھی گئی اصول فقہ کی پہلی کتاب تھی۔ احکامات دین کو مقاصد و مصالح دین کے ساتھ کیسے جوڑا جانا چاہئے، اس کا فریم ورک تیار کرنے کے لئے ''شفاء الغلیل'' تحریر کی۔ اہل فن کا کہنا ہے کہ مقاصد شریعہ کے ضمن میں جوینی اور غزالی کے اس کام نے شافعی فقہ کو نئی اٹھان اور وسعت بخش دی جو اس سے قبل شافعی فقہ میں موجود نہ تھی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس شخص نے محض 53 قمری سال کی عمر پائی جس میں حصول حق کی خاطر صحرانوادی کے ماہ و سال بھی شامل ہیں، وہ بھی دنیا کے تمام لذائذ میسر آچکنے کے بعد۔ ''المنقذ من الضلال'' میں اس شخص کی ہمت و جستجو دیکھ کر بندہ حیران ہوجاتا ہے۔ اور ایسا تھوڑی ہے کہ اللہ نے اس کی محبت مسلمانوں کے دل میں نہ ڈالی ہو: اہل سنت کی ہر فقہ و مسلک والا پکار اٹھا: ہاں وہ 'حجۃ الاسلام' تھا۔