دعوت فروختند و چہ ارزاں فروختند

مصنف : حافظ صفوان

سلسلہ : نقطہِ نظر

شمارہ : جون 2020

الحمدللہ تبلیغ میں وقت لگاتے انتالیس سال ہوچکے۔ اس دوران میں جن لوگوں کو بچشمِ خود دیکھا اور بگوشِ خود سنا کہ بتکلف خود کو قرآن تک محدود رکھتے ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے۔ سب سے پہلے حاجی محمد بشیر صاحب کو دیکھا کہ اپنی بات کی دلیل قرآن کی آیت کے ترجمے سے لاتے ہیں۔ پھر مفتی زین العابدین اور مولانا سعید احمد خاں صاحب کو دیکھا کہ بیان کے عربی خطبے میں حدیث ضرور سناتے ہیں لیکن بیان میں شاید ہی کبھی قرآن کے علاوہ کوئی بات کہی ہو۔ بالکل یہی کیفیت مولانا محمد عمر پالنپوری کی رہی، بلکہ وہ تو آیتوں پہ آیتیں سناتے جاتے تھے اور آیت کی تلاوت میں متشابہ لگنے سے بچنے کے لیے حفاظ کی جماعت سے تصدیق کراتے جاتے تھے۔ اور پھر وہ شخصیت جس کا ہر بیان الحمدللہ الذی ہدانا لہٰذا سے شروع ہوتا تھا اور جنابِ ابراہیم و موسیٰ سے ہوتا ہوا ان اللہ یامر بالعدل والاحسان پر ختم ہوتا تھا، یعنی مولانا محمد احمد انصاری صاحب۔ خدا سب کو غریقِ رحمت فرمائے۔
جنابِ کلیم عاجز نے لکھا تھا کہ تبلیغ کے تین امیروں کے تین ادوار ہیں۔ پہلے یعنی مولانا محمد الیاس کے دور میں بیانات میں قرآن کا غلبہ رہا؛ دوسرے یعنی مولانا محمد یوسف کے دور میں صحابہ کے واقعات زیادہ سنائے جانے لگے؛ اور تیسرے یعنی مولانا محمد انعام الحسن کے دور میں مشائخ کے واقعات بھی سنائی دینے لگے۔ میں نے انھیں ایک خط میں لکھا کہ یہ بات جزواً درست ہوسکتی ہے کیونکہ جو میں دیکھ رہا ہوں یعنی تیسرے دور کا آخر اور مابعد، تو اس میں بھی صرف قرآن کی آیات سے چھ نمبر سنانے والے اور لمبے لمبے بیانات میں صرف قرآن سنانے والے لوگ موجود ہیں، اور ان کو ایسے بعض بزرگوں کے نام بھی بتائے۔ انھوں نے جواب میں یہ بات تسلیم فرمائی اور دعا دی۔
یہاں یہ ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے ابا جان پروفیسر عابد صدیق صاحب نے مجھے اور بعض دوستوں کو میٹرک کے بعد پروفیسر چودھری ظفر احمد صاحب کے حوالے کیا جنھوں نے ہمیں مقامِ صحابہ قرآن میں سے سبقًا سبقًا پڑھایا۔ انہی ایام میں تفسیر منسوخ القرآن از علامہ رحمت اللہ طارق بھی چاٹ ڈالی تھی۔ اس مطالعے سے یہ مزاج بنا کہ ہر آمدہ حال کے لیے قرآن اور سنت ہی سے روشنی تلاشی جائے۔ یہ تحدیث بالنعمت ہے کہ تبلیغ میں شروع سے آج تک امکانی طور پر قرآن ہی سے واقعات اور انبیائے کرام کی تبلیغی محنت کو بیان کرنا گویا عادتِ ثانیہ بن گیا ہے۔ فللہ الحمد۔ نیز پھر تبلیغ میں ایسے ہی لوگوں سے زیادہ ذہنی و قلبی ہم آہنگی رہی جو تبلیغی بیانات میں قرآن کی آیات اور واقعات کو ذکر کرنے کا معمول رکھتے تھے جیسے ڈاکٹر مظہر محمود قریشی، جناب محمد مسیح الزمان اور حافظ خالد محمود صاحب وغیرہ۔
میں اعتراف کرتا ہوں کہ جاوید غامدی صاحب آج جن باتوں کی جو تفہیم بتاتے ہیں ان میں سے کئی ایک کے لیے میرا ذہنی شاکلہ اس وقت سے بنا ہوا تھا جب میں نے ان کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ غامدی صاحب سے اس وہبی، قلبی و ذہنی ہم آہنگی کی وجہ قرآن و سنت سے جڑے رہنے کے مزاج کے سوا کچھ نہیں۔ نیز یہ بھی عرض کر دوں کہ دورِ حاضر میں ڈاکٹر راشد شاز بھی التقائے قرآن و سنت والے اسی خاص گن کی وجہ سے دل سے بہت قریب محسوس ہوتے ہیں۔
ایک بار مسجد نور مدینہ منورہ میں مولانا سعید احمد خاں صاحب نے اپنا ایک خط سنایا جو غالبًا مولانا جمشید علی خاں صاحب کو لکھا تھا اور جسے خطوط کے ایک مجموعے میں جنابِ یعقوب باوا نے برطانیہ سے شائع کیا تھا۔ اس خط میں انھوں نے لکھا تھا کہ یہ بات بہت دھکے کھاکر سمجھ آئی کہ چھ نمبر کے اندر رہنے ہی میں حفاظت ہے، اور بتایا کہ چھ نمبر قرآن سے بیان کیا کرو۔ مولانا محمد الیاس بھی فرماتے تھے کہ ایک وقت آئے گا کہ لوگ سمجھ رہے ہوں گے کہ وہ تبلیغی کام کر رہے ہیں حالانکہ وہ کام نہیں کر رہے ہوں گے؛ کام تو چھ نمبر کی پابندی ہے۔
یہ باتیں آج یوں یاد آئیں کہ تبلیغ کے ایک مشہور مبلغ کو چھ نمبر سے بہت دور نکل کر تبلیغی بیانات کرنے کی مکافات کا ایک بار پھر سے سامنا ہے۔ اس محترم مبلغ کا اور اس کے سیاسی و مذہبی ہواخواہوں کا اصرار و تمنا ہے کہ اسے وہی عزت دی جائے جو تبلیغی بیان کرنے والوں کو دی جاتی ہے جب کہ عوام اسے سستی شہرت کے پیچھے بھاگنے والے درباری گوئیے سے زیادہ اوقات دینے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ عوام کے غم و غصے اور استہزائیہ رویے کے کارن گراوٹ کی صورتِ حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اصلاحِ احوال کی ہر تدبیر بھی الٹی ہونے لگی یعنی بھد اڑنے کا سامان ہونے لگی ہے۔
شرافت سر پیٹ رہی ہے کہ مبلغِ اخلاق کی تائید میں اس کے سیاسی و مذہبی مریدین اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنے ممدوح کی تربیت کو ناکام ثابت کر رہے ہیں۔ افسوس کہ ایک شخص کے پیہم عمل کی وجہ سے مسلمان عوام تبلیغی جماعت کا نہیں بلکہ نبیوں والے کام کا مذاق بناکر اپنی آخرت برباد کرنے پر مجبور کر دی گئی، اور افسوس در افسوس یہ کہ ایک پرانے تبلیغی عالمِ دین کا میڈیائی وجود اسٹیبلشمنٹ کے خود کاشتہ ایک کھلنڈرے سیاسی پریشر گروپ کے ہاتھوں بازیچہ اطفال بن کر رہ گیا۔ وااسفا!
انگریزی کی کہاوت ہے کہ Do in Rome as the Romans do. یعنی روم میں وہی کیجیے جو روم والے کرتے ہیں۔ اگر آپ تبلیغ کی تنگنائے کو تج کر سیاست اور میڈیا یا شوبز میں آگئے ہیں تو ان شعبوں کی عوامی پذیرائی کے عمومی اسلوب کو بھی قبول کیجیے۔ مولانا محمد الیاس ہی نے فرمایا تھا کہ کسی راہ کی ذلت اٹھائے بغیر اس راہ کی عزت کو پانا عادۃً نہیں ہوتا۔ جب تبلیغ کی لوئی اتار لی تو بازاری دھمکوں کا کیا ڈر؟ بسم اللہ کیجیے۔ گھوڑا میدان حاضر۔ ہمت آزما لیجیے۔‘‘دعوت فروختند وچہ ارزاں فروختند’’۔