جج اور اس کا گن مین

مصنف : نیاز احمد کھوسہ

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : مئی 2020

اُن دنوں میری پوسٹنگ سی۔آئی۔ اے جمشید کوارٹر میں تھی۔ایک دن کورٹ مُحرر ASI صدیق نے مجھے بتایا کہ سر ہماری ایک جج صاحبہ ہیں ابھی نئی نئی امتحان دیکر جج لگی ہیں بڑی شریف اور خاندانی لڑکی ہے وہ آپ سے ملنا چاہتی ہے۔ میں نے کورٹ محرر کو کہہ دیا کہ کسی دن بھلے آپ اُن کو دفتر لے آئیں۔کچھ دنوں بعد کورٹ مُحرر صدیق دوبارہ آیا اور کہا کہ سر اگر آپ ناراض نہ ہوں تو ایک بات کروں۔ میں نے کہا آپ بتاؤ کیا بات ہے؟کورٹ محرر نے کہا صاحب جی ہمیں جج صاحبہ سے روز کام پڑتے رہتے ہیں وہ بیچاری پوچھتی بھی نہیں اور آپ کے نام پر کام کر دیتی ہیں۔ جج صاحبہ آپ کے دفتر آنے سے شرما رہی ہے اس لیئے آپ کبھی میرے ساتھ چلیں اُن کا چھوٹا سا کام بھی ہے آپ سے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے کسی دن چلیں گے۔
ایک دن میں Asi صدیق کے ساتھ سٹی کورٹ چلا گیا جیساکہ صدیق پہلے ہی جج صاحبہ کو بتاچُکا تھا جج صاحبہ اپنے چیمبر میں بڑے تپاک سے ملیں۔ واقعی جج صاحبہ بڑی نازک نفیس، عزت دار اور ایک شریف گھرانے کی نوعمر لڑکی تھی۔ گفت و شُنید کے بعد ہم نے اپنے فون نمبر ایک دوسرے کو دیئے۔ جب میں جانے لگا تو جج صاحبہ نے ایک لا بُک اور پاکر کا فاؤٹین قلم مجھے تحفے میں دیا اور کہا کہ ASI صدیق نے مجھے بتایا تھا آپ زیادہ تر پار کر کا فاؤٹین قلم استعمال کرتے ہیں اسلئے میں آپ کے لیئے لائی تھی اور کہا کہ مجھے ایک گن مین کی ضرورت ہے آگر ہوسکے تو کل Asi صدیق کے ساتھ بجھوادیں۔میں نے دفتر پہنچ کر ڈیوٹی محرر پرویز کیانی کو کہا کہ کوئی گن مین Asi صدیق کو دے دیں اُس نے علاقے کی جج صاحبہ کے ساتھ ڈیوٹی کرنی ہے۔دوسرے دن جج صاحبہ نے فون کرکے میرا شُکریہ ادا کیا اور اُس کے بعد وہ فون پر مسلسل رابطے میں تھی۔
کچھ دنوں بعد ڈیوٹی محرر پرویز کیانی میرے پاس آیا اور ڈرتے ڈرتے بتایا کہ صاحب جی وہ آپ کویاد ہے نا آپ نے ایک گن مین جج صاحبہ کو دیا تھا۔ میں نے کہا ہاں دیا تھا تو کیا ہوا ہے اب؟پرویز کیانی نے مجھے بڑے رازدارانہ انداز میں بتایا کہ صاحب جی گن مین روزانہ شام کو دفتر آتا ہے اُس کی اور جج صاحبہ کی آپس میں دوستی ہوگئی ہے اور وہ دونوں شام کو ایک ساتھ گھومتے رہتے ہیں۔مجھے جج صاحبہ کی بدقسمتی پر بڑا افسوس ہوا اور اعتبار بھی نہیں آیا کہاں وہ پڑھی لکھی نازک نفیس لڑکی اور کہاں ہمارا میٹرک پاس پولیس کانسٹیبل۔ کچھ دنوں بعد Asi صدیق میرے پاس آیا اور اُس نے بتایا کہ سر وہ گن مین اور جج صاحبہ کی دوستی ہوگئی ہے اور اب عملی طور جج صاحبہ کی عدالت کا پورا کام گن مین کے حوالے ہے۔ جس کی ضمانت کروانی ہے یا جس کسی کا کیس ختم کروانا ہو گن مین سارا کچھ ڈیل کرتا رہتا ہے اور مجھے کہا صاحب آپ گن مین کو واپس بُلا لیں اور جج صاحبہ کو بتائیں کہ ان کی بڑی بدنامی ہو رہی ہے۔ میں نے صدیق کو جواب دے دیا کہ صدیق یہ ہمارا کام نہیں ہے۔ جج صاحبہ بچی نہیں ہے جو میں اس سے اُس کے پرسنل معاملات پر بات کروں۔
یہ سلسلہ چلتا رہا ڈیوٹی مُحرر پرویز کیانی الگ سے خبریں لاتا اور کورٹ محرر صدیق الگ سے ۔
دو سال بعد ایک دن پرویز کیانی کچھ تصویریں میرے پاس لایا اور میرے ٹیبل پر پھیلا کر رکھتا گیا تصویریں جج صاحبہ اور گن مین کی خفیہ شادی کی تھیں۔ پرویز کیانی نے بتایا کہ سر جج صاحبہ نے گن مین سے شادی کر لی ہے اور گن مین باہر کھڑا آپ سے ملنا چاہتا ہے۔میں نے اُسے بلا لیا میں پہلی دفعہ گن مین کو دیکھ رہا تھا وہ پچیس چھبیس سالہ نوجوان لڑکا تھا اور چہرے سے ہی بڑا چالاک اور لڑاکو لگ رہا تھا۔ میں نے اُسے کہا تم کو اسلئے یہاں سے نہیں بھیجا گیا تھا کہ وہاں جاکر یہ گُل کھلاؤ بہرحال جو تم نے کیا ہے اچھا نہیں کیا ہے۔ اور مزید کہا کہ وہ شریف لوگ ہیں اور تُم نمبر ون کے بدمعاش لگ رہے ہو یہ نبھا کب تک ہوگا؟
جیساکہ لڑکی جج صاحبہ میرے ساتھ مسلسل فون پر رابطے میں تھی اور کئی بار اپنے گھر کھانے پر بُلایا، جج صاحبہ نے نہ کبھی گن مین کی بات کی اور نہ ہی میں نے کبھی ان سے یہ بات چھیڑی۔ گن مین ایسے موقع پر میرے سامنے نہیں آتا تھا۔ جج صاحبہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ نیاز صاحب مجھے آپ کا بُہت بڑا سہارا ہوتا ہے ہر مُشکل گھڑی میں آپ کو تنگ کرتی رہتی ہوں۔ میں آپ کے نام پر لوگوں کو دھمکاتی رہتی ہوں۔
اس طرح تین چار سال گزر گئے جج صاحبہ سال میں وہ دو تین دفعہ اپنے گھر مجھے کھانے پر ضرور بُلاتی، حقیقت یہ ہے کہ میں اُن سے کوئی راہ رسم نہیں رکھنا چاہتا تھا اور مجھے یہ سب کچھ پسند بھی نہیں تھا۔ سچ یہ ہے کہ میرے دل میں جج صاحبہ کی حماقت کی وجہ سے افسوس اور غصہ تھا مگر جج صاحبہ فون پر اتنا مجبور کرتیں کہ مجھے اُن کا بھرم رکھنے کیلئے دل نہ چاہتے ہوئے بھی جانا پڑتا، یہ میری سمجھ سے بالا تر تھا کہ جج صاحبہ کیوں یک طرفہ تعلقات کی آبیاری کرتی آ رہی ہیں؟ میری جج صاحبہ کے خاندان سے اچھی بھلی شناسائی ہو گئی تھی۔میں نے اپنے موبائل فون پر کچھ خاص نمبروں پر الگ رنگ ٹون سیٹ کی ہوئی تھی جن میں میرے سینءئر افسران، میرے دفتر اور میری فیملی کے نمبر تھے باقی نمبروں پر فون سائلنٹ موڈ پر رہتا تھا۔ایک دن صبح جب میں نے فون دیکھا تو اُس پر بے تحاشہ جج صاحبہ کے مس کالز تھیں۔میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ان کو جوابی فون کروں میں نے Tv آن کیا تو خبر چل رہی تھی کہ جج صاحبہ کی لاش پنکھے سے لٹکی ملی ہے اور اُن کی لاش پوسٹ مارٹم کے بعد تدفین کیلئے اُن کے گھر روانہ کردی گئی ہے۔میں نے جوابی فون جج صاحبہ کے نمبر پر کیا مگر وہ بند تھا۔ میں نے کورٹ محرر صدیق کو فون کیا اور کہا کہ Tv پر یہ خبر چل رہی ہے آپ فوراً جج صاحبہ کے گھر جاؤ اور واقعہ کے متعلق معلومات لو اور نماز جنازہ کا وقت معلوم کر کے مجھے بتاؤ۔صدیق نے جج صاحبہ کے گھر جاکر بتایا کہ جج صاحبہ کا جنازہ ہوچُکا ہے اور اہل خانہ، رشتے دار،وکلا اور کافی تعداد میں جج صاحبان تدفین کیلئے جارہے ہیں اور بتایا جارہا ہے کہ یا تو جج صاحبہ نے خودکشی کی ہے یا ان کو قتل کیا گیا ہے صدیق نے بتایا کہ صاحب!! گن مین کہیں بھی نظر نہیں آرہا۔
مجھے جج صاحبہ کے المناک انجام پر بہت افسوس ہوا میں اُسی دن اُن کے بھائی اور والدین سے تعزیت کرنے چلا گیا اس افسوسناک واقعہ کی وجہ سے دل بوجھل بوجھل سا ہوگیا تھا۔ مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ جس گھر میں وہ مجھے بار بار نیاز صاحب نیاز صاحب کہا کرتی تھی اب وہ اس دنیا نہیں ہے۔ اُس دن پہلی بار مجھے اندازہ ہوا کہ زندگی کتنی بیوفا چیز ہے۔
رات کے وقت جج صاحبہ کے فون سے میرے فون پر کالیں تھیں۔ جج صاحبہ کب اس دنیا سے چلی گئیں وہ چیک کرنے کیلئے میں نے پوسٹ مارٹم رپورٹ چیک کی تو اُس میں جج صاحبہ کے مرنے کا وقت مبہم تھا۔ میں نے اپنا ایک افسر بھیج کر پوسٹ مارٹم کرنے والے میڈیکل افسر سے معلومات لیں تو پتہ چلا کہ جج صاحبہ کی باڈی کے ساتھ کافی جج صاحبان اور وکلا اسپتال آئے تھے انھوں نے پوسٹ مارٹم نہیں ہونے دیا اور باڈی رسمی کارروائی کے بعد گھر لے گئے تھے۔
کچھ دنوں بعد جج صاحبہ کے بھائی نے مجھے فون کیا کہ نیاز صاحب ہم گھر والے آپ کے پاس آنا چاہتے ہیں کچھ باتیں بتانی ہیں۔ میں نے ان کو کہا کہ آپ لوگ اب بھی میرے لیئے قابل عزت ہو میں آپ کے پاس آتا ہوں۔میں جج صاحبہ کے گھر چلا گیا۔ انُ کے بھائی اور والدین بڑے دُکھ کی کیفیت میں تھے انھوں نے بتایا کہ گن مین نے کس طرح کے گُل کھلائے وہ آپ کو پتہ ہوگا، پتہ نہیں جج صاحبہ کیسے گن مین کے چکر میں آگئی۔ جج صاحبہ نے پہلے چھپ کر نکاح کر لیا بعد میں والدین کو بتادیا عدالت اور گھر میں گن مین کا حُکم چلتا تھا۔ ان کے مطابق جج صاحبہ گن مین کے آگے بلیک میل ہوگئی تھی، گن مین جج صاحبہ کو بہت مار پیٹ بھی کرتا رہتا تھا۔
جج صاحبہ کے بھائی نے بتایا کہ جب گن مین کی گھر میں ہر بات پر مُداخلت بڑھ گئی اور گھر والے گن مین سے تنگ آگئے تو انھوں نے گن مین کا گھر میں آنا جانا بند کر دیا تو جج صاحبہ نے دھوراجی کالونی میں ایک مکان کرایہ پر گھر والوں کو بتائے بغیر لیا تھا اور عدالت کے بعد ایک دو گھنٹے کرایہ کے مکان میں گزارتی اور شام کو لازماً اپنے گھر آجاتی۔ کرایہ کے گھر سے ہی جج صاحبہ کی لاش ملی تھی۔جج صاحبہ کے بھائی نے بتایا کہ گن مین آپ سے بہت ڈرتا ہے اور جج صاحبہ کو آپ کا بہت سہارا ہوتا تھا۔ اس لیئے جج صاحبہ آپ کو وقت بہ وقت گھر بُلاتی رہتی تھیں کہ گن مین آپے میں رہے انھوں نے بتایا کہ گن مین نے جج صاحبہ کا قتل کیا ہے اور ہمارے پاس آیا تھا اور دھمکیاں دے کر گیا ہے کہ گھر بیچ کر اس میں سے مجھے حصہ دو وغیرہ وغیرہ جج صاحبہ کے گھر والے گن مین سے بہت ڈرے ہوئے تھے ان کو خطرہ تھا کہ اگر ہم نے گن مین کو پیسئے نہ دیئے تو وہ جج صاحبہ کے اکلوتے بھائی کو قتل کر دیگا۔
میں نے گن مین کو بُلا کر پوچھا کہ جج صاحبہ کو کیا ہوا تھا۔ اُس نے بتایا کہ میری جج صاحبہ سے شادی سے پہلے اپنے گاؤں میں منگنی ہو چُکی تھی میری والدہ اصرار کر رہی تھی کہ اُس لڑکی سے شادی کرلو جج صاحبہ نہیں مان رہی تھی واقعہ کے دن ہمارا اسی بات پر جھگڑا ہو گیا اور مجھے گھر سے نکال دیا میرے جانے کے بعد جج صاحبہ نے خودکشی کر لی۔ میں نے گن مین کو کہا کہ جس سے تمھارا رشتہ تھا وہ تو اب اس دنیا سے چلی گئی ہے پھر تم کیوں اُس کے گھر والوں کو تنگ کر رہے ہو؟ گن مین سر جُھکائے کھڑا رہا اور اُس نے کوئی جواب نہیں دیا۔مگر دوسری طرف گن مین جج صاحبہ کے گھر والوں کو دھمکیاں دینے لگا اور گھر والوں نے خود کو بچانے کیلئے گن مین کے خلاف قتل کا پرچہ کرا دیا اور آئی جی صاحب سے کیس کی تفتیش میرے پاس ٹرانسفر کرادی۔
ہم نے گن مین کو گرفتار کر لیا جیسا کہ کیس میں کوئی گواہ نہیں تھا اور جلد بازی کی وجہ سے جج صاحبہ کا تفصیلی پوسٹ مارٹم بھی نہیں ہو پایا تھا۔ میں ڈبل مائنڈڈ تھا پھر بھی جج صاحبہ کی فیملی کو گن مین کی بدمعاشی سے بچانے کیلئے جیسے تیسے کر کے گن مین کو جیل بھیج دیا۔ جیساکہ گن مین میرا ماتحت تھا محکمہ جاتی کارروائی کے بعد اُس کو ڈسمس بھی کر دیا۔تفتیش کے دوران گن مین کو کئی بار مار کھانی پڑی اور وہ آخر تک اپنے بیان پر قائم رہا کہ میری غیر موجودگی میں جج صاحبہ نے خودکشی کرلی۔دوسری جانب ہم نے جج صاحبہ کے وارثان کو قبرکشائی کیلئے راضی کرنے کی کوشش کی مگر وہ اپنے جذباتی لگاؤ کی خاطر نہ مانے۔
گن مین کو اللہ پاک کا شُکر ادا کرنا چاہیئے تھا کہ اللہ پاک نے ایک نعمت خدا وندی جج صاحبہ کی صورت میں اس کے حوالے کی تھی جج صاحبہ نے آگے چل کر ہائیکورٹ کا جج بننا تھا گن مین اور اس کے بچوں نے عیش اور عزت والی زندگی گُزارنی تھی۔ مگر گن مین کو اتنی عقل کہاں تھی۔مجھے ایک دن میرے انسپکٹر نے بتایا کہ سر گارڈن ہیڈ کواٹر میں گن مین کا کواٹر میرے قریب ہی تھا، گن مین کے جیل جانے کے بعد اُس کی والدہ دو وقت کے کھانے کیلئے بھی ترس گئی تھی اُس پر نئی آفت اُس وقت ٹوٹی جب گن مین کو آپ نے ڈسمس کردیا اُس کی تنخوا ہ بند ہوگئی اور اُس کا کواٹر کسی اور نے اپنے نام الاٹ کرالیا اور گن مین کی والدہ سے زبردستی خالی کروا دیا۔ انسپکٹر کی بات سُن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور انسپکٹر بھی اپنے آنسو پوچھنے لگا۔ میں نے انسپکٹر کو کہا کہ اب گن مین کی والدہ کہاں ہے؟ اُس کو کوئی کرائے کا فلیٹ لیکر دیتے ہیں اور مہینے کا خرچہ بھی دیتے رہیں گے مگر باوجود کوشش اُس بیچاری بے سہارا ماں کا پتہ نہیں چل سکا کہ کواٹر خالی کرنے کے بعد کہاں گئی اور کس حال میں ہے۔
کرتی اولاد ہے اور بُھگتنا والدین کو پڑتا ہے
گو کہ میں نے اُس بے سہارا ماں کو دیکھا نہیں تھا مگر وقت بہ وقت اُس کا دُکھی چہرا میرے آنکھوں میں گھومتا رہتا ہے۔ آج بھی جب گن مین کی بیچاری والدہ کا خیال آتا ہے تو دل دُکھی ہوجاتا ہے کہ کاش گن مین کو نوکری سے نہ نکالا ہوتا کم از کم اس کی والدہ سے کواٹر تو نہ چھینا جاتا ہر مہینے تنخواہ تو آتی رہتی۔ یہ سب میں آسانی سے کرسکتا تھا
عدالت میں گن مین پر قتل کا جرم بھی ثابت ہوگیا تھا اور عمر قید کی سزا ہوئی تھی۔


نیاز احمد کھوسہ سابق ایس ایس پی