اردگان کے دیس میں

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : فروری 2018

ایک دن میں اپنے کلینک میں بیٹھامریضوں کا معائنہ کر رہا تھا کہ ایک میڈیسن کمپنی سے متعلق ایک دوست کا فون آیا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو ترکی کی سیر نہ کروائی جائے،میں نے عرض کی کہ’’ کیوں نہیں، یقیناًکروائیں ،یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔‘‘وہ کہنے لگے کہ پاسپورٹ تیار رکھیں،میں آکر لے جاتا ہوں۔ایک طویل عرصہ ہو گیا ہے میڈیکل پریکٹس کرتے ہوئے،یہ پہلا موقع تھا کہ کسی میڈیکل کمپنی نے یوں آفر کی تھی اور میرا خیال ہے کہ یہ برادر مبشر صاحب سے پرانا تعلق ہے کہ جواس طرح انھیں میرا خیال آ گیاوگرنہ عموماًیہ کمپنیاں ہمارے جیسے دور دراز دیہاتوں میں رہنے والے ڈاکٹرز کو اس قسم کی activitiesکے لائق کہاں گردانتی ہیں۔چونکہ ترکی ہمار برادر اسلامی ملک ہے اور بچپن سے ہی اس ملک سے ہماری قلبی وابستگی ہے،اس لیے اس آفر کو قبول کرنے میں ہمیں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہوئی اگرچہ میرے ذاتی معاشی مسائل اور ضروریات اس قسم کی’’ عیاشی‘‘ کی اجازت ہرگز نہیں دیتے۔ رانا مبشر صاحب اس عاجز کے لیئے مبشر بن کر آئے تھے۔
ابھی میں دوسری جماعت میں پڑھتا تھا جب استاد صاحب نے املا لکھواتے ہوئے ہمیں ’’ قسطنطنیہ ‘‘ لکھوایا۔الحمد للہ،پوری کلاس میں سے صرف یہ میں ہی تھا جویہ لفظ صحیح لکھ پایاتھا،بعد میں استاد محترم نے اس کے بارے میں یہ بتایا تھا کہ یہ ترکی کے ایک شہر کا نام ہے۔اس دن سے لے کرآج تک یہ نام کئی حوالوں سے ہمارے دل و دماغ میں موجود رہا ہے۔ترکی کے بارے میں،ہماری بچپن کی یادوں میں سے ایک یاد یہ بھی تھی کہ خود ہماری قومی زبان اردو کا لفظ اصلاًترکی زبان کا لفظ ہے،جس کے معنی لشکر کے ہیں اور یہ کہ ترکی میں’’ اردو ‘‘نام کا ایک شہر بھی آباد ہے۔
مجھے شعروشاعری سے کچھ زیادہ شغف تو نہیں لیکن اقبال کا یہ شعر اکثر دہرایا کرتا ہوں کہ اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں۔۔کبھی سوزو ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی۔۔یہ جو حضرت علامہ کے پیر رومی رحمۃاللہ علیہ ہیں ،وہ بھی ترکی میں مدفون ہیں،یہ بھی ہماری ایک نسبت بنتی ہے ترکی سے اور ہمارے لیے وہاں جانے کی ایک attractionبنتی ہے۔اور پھر ترکی نے ترکان عثمانی کی شکل میں برسوں عالم اسلام کی قیادت کی تھی اور یہ کہ عثمانی خلفا نے ،صدیوں،دنیا کے تین بر اعظموں پراسلام کا پرچم لہرایا ہے،اور ان کی سلطنت اپنے وقت کی ایک عظیم سپر پاورکی حیثیت رکھتی تھی،جب سے پڑھنے کی عادت ہوئی تب سے کچھ نہ کچھ خلافت عثمانیہ کے بارے میں پڑھتے آئے تھے۔اور ترکی ،سلطان محمد فاتح کا وطن بھی تو ہے ،جس نے اپنی بے مثل جرأت اور بے نظیر حکمت عملی سے قسطنطنیہ فتح کیا تھا،وہ قسطنطنیہ جو صدیوں تک عیسائیوں کا مرکز اور صدیوں مسلمان مجاہدین کی چڑھائیوں کا محور رہا تھا۔اور سلطان سلیمان اعظم کا وطن کہ جس نے اہل یورپ کو ناکوں چنے چبوائے تھے۔
اور پھر سب سے بڑھ کر میں کمال اتا ترک کا دیس دیکھنا چاہتا تھا،جو جدید جمہوری ترکی کا بانی ہے اور جس نے ’’یورپ کے مرد بیمار ترکی‘‘ کو تازہ زندگی عطا کی تھی۔پھر ،یہ وہ سر زمین ہے، جہاں بدیع الزمان سعیدنورسی رحمۃ اللہ علیہ نے کمالی سیکولرزم کا مقابلہ کیاتھا اورکمال جرأت اور تدبر اور حکمت سے دینی اقدار کا تحفظ کیا تھا، اورجناب مجاہد کبیر ،نجم الدین اربکان رحمۃ اللہ علیہ کا دیس بھی ،کہ جس نے سیکولرترکی میں اسلامی نظام کی شمع جلائی تھی،اور سیکولر ترکی کواسلامی ترکی میں بدلنے کی بے مثال جدو جہد کی تھی اور بے پناہ قربانیاں دی تھیں حتیٰ کہ وزارت عظمیٰ کی کرسی تک کو بھی قربان کر دیا تھا۔ اور پھر آج کے جدید ترکی کے مرد آہن طیب اردگان کا دیس بھی۔
مجھے ترکی سے محبت ہے،مجھے ہی نہیں بلکہ ہر پاکستانی کے دل کی دھڑکن ہے ترکی،اور ہر پاکستانی اس سے محبت کرتا ہے۔ایسے دیس کو دیکھنے کی کوئی دعوت دے اور بندہ ہاں نہ کرے،ناشکری ہی تصور ہوگا۔اور پھر رانا مبشر صاحب واقعی تشریف لے آئے اور مجھ سے ویزہ لگوانے کے لیئے مختلف ضروری دستاویزات طلب کیں جو میں نے مہیا کر دیں۔
ٹام اینڈجیری
رانا مبشر صاحب ایک ہنس مکھ اور ملنسار شخصیت ہیں۔ان سے بڑے پرانے تعلقات ہیں ،ابھی یہ میڈیکل فیلڈ میں نہیںآئے تھے کہ ہمارے پاس ان کا آنا جانارہتا تھا۔اپنے فیلڈ میں اپنی محنت، خلوص ،دیانتداری اور پروفیشنل ازم کے باعث خوب ترقی کر رہے ہیں۔میرے ترکی کے اس وزٹ کے مجوز وہی تھے۔ ویزہ لگوانے کے عمل میں،پروگرام کو فائنل کرنے اور سفر ترکی پر جانے اور واپس آنے تک ،ان سے جو مسلسل رابطہ رہا ،اس دوران میں ان کی شخصیت کا حسن اور طبیعت کا انکسار اور اپنے مقصد اور پروفیشن سے لگن مزید واضح ہوئی۔ اصلاً تو یہ مجھ پر مہربانی کر رہے تھے اور ان کا رویہ اس حد تک مودبانہ اور عاجزانہ تھا، جیسے ترکی کے اس مجوزہ سفرتفریح پر جانے کا فیصلہ کر کے، ہم نے ان پر کوئی بڑا احسان کیا ہے۔ایک دِن فون کیا کہ ’’ ڈاکٹر صاحب،sorry،آپ کے کاغذات میں bank statementکی کمی ہے،براہ مہربانی اپنے بنک سے اس کو فوراً تیار کروائیں، میں آ کرلے جاتا ہوں۔‘ ‘ اگلے دن پھر معذرت بھرا فون کیا کہ آپ کے فوٹو قابل قبول نہیں بلکہ فلاں قسم کے فوٹو سفارت خانے والے مانگتے ہیں۔ کھردرا کاغذ اور فلاں قسم کا بیک گراؤنڈ اور یہ اور یہ سائز وغیرہ وغیرہ،وقت کم تھا ،بیچارے خود بھاگے بھاگے آئے،مجھے ساتھ لیا اور فوٹو گرافر کے پاس جا کر مطلوبہ فوٹو بنوائے اور پھر کھاریاں جا کر رات کو ہی اپنے ہیڈ آفس TCSکر کے آئے۔پھر ایک دِن مبشرصاحب کا فون آیا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو تکلیف دینی ہے، تیار رہیں ،کل گوجرانوالہ جانا ہے ’’ٹام جیری‘‘ کے دفتر‘‘۔میں نے عرض کی’’ ۔۔ٹام جیری ؟؟یہ تو کارٹون سیریز ہے ۔‘‘ اس پر حسب عادت کھل کر قہقہہ لگایا اور کہنے لگے ’’نہیں نہیں، فیڈکس اینڈجیری کے آفس‘‘ ۔’’یہ کیا چیز ہے ؟ ‘‘خاکسار نے عرض کی۔وہ بولے ، کہ ’’ہر سفارت خانے نے ویز ے کی درخواستیں مع کاغذات و دستاویزات جمع کرنے،سفارت خانے تک پہنچانے اور ویزے لگے ہوئے پاسپورٹ واپس پہنچانے کے لیئے اس کمپنی کو ٹھیکہ دے رکھا ہے،تاکہ لوگ اسلام آبادکو رش نہ کریں اور سیکورٹی مسائل پیدا نہ ہوں۔ یہ کمپنی ہی ابتدائی طور پر ہر سفارت خانے کی ضرورت کے مطابق دستاویزات جمع کرتی، ان کی چھان بین کرتی اور ردو قبول کے بعد متعلقہ سفارت خانے میں پہنچاتی ہے۔اس کے دفتر میں بنفسِ نفیس حاضر ہونا ہوتا ہے۔اس لیئے کل صبح سویرے ہم گوجرانوالہ جائیں گے۔‘‘اور پھر اگلے دِن ، واقعی صبح سویرے ہی غریب خانے پر تشریف لے آئے اور مجھے ساتھ لے گئے۔ ہمارے دیگر ساتھی بھی ،ان سے رابطے میں تھے اور وہ بھی گوجرانوالہ تشریف لا رہے تھے۔وہاں پہنچ کر پہلے تو انھوں نے ہمیں گوجرانوالہ کا مشہور ناشتہ کروایا اور پھر ہمیں اس دفتر لے گئے۔
اینڈرائیڈ فون
رانا صاحب کے سینئر، بٹ صاحب نے ،کاغذات کا پلندہ،ہمیں تھمایا اور دفترکی راہ دکھلائی اورہم جیری کلرک یا ہو سکتا ہےِ ان کا کوئی آفیسر ہو،کے حضور حاضر ہونے کے لیے لائن میں لگ گئے بلکہ لائن میں بیٹھ گئے اور جلد ہی میری باری آگئی ۔اس پر میں خوش ہواکہ اس کام سے جلد فارغ ہوکر کلینک واپس پہنچ جاؤں گا اور یوں اپنی دیہاڑی لگا لوں گا۔کلرک نے ایک خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ میرے ہاتھ سے کاغذات پکڑے اور ان کو اُلٹ پلٹ کرنے لگااور میرے اندر کی کیفیت وہی تھی جو بچپن میں استاد صاحب کو ٹیسٹ چیک کرواتے ہوئے ہوتی تھی کہ نہ جانے ابھی کیا حکم صادرہو۔’’پرانا پاسپورٹ کہاں ہے؟‘‘ اس نے سوال داغا،’’جی گھر میں ہے۔‘‘ کہنے لگا ،ڈاکٹرصاحب، اُس کی نقل لف کرنی تھی،وہ لے آئیں تو تبھی یہ کاغذات آگے جا سکتے ہیں۔‘‘یہ کہتے ہی انھوں نے وہ پلندہ مجھے پکڑا دیا اور nextکی آواز لگادی۔اب کیا ہوگا،ہم گوجرانوالہ میں تھے،پاسپورٹ ڈنگہ میں میرے آفس ٹیبل کی دراز میں اور دراز کی چابیاں میرے پاس،یہ باتیں سوچتا،افسردہ افسردہ ،بوجھل قدموں سے دفتر سے باہر نکلا۔میرے چہرے کی اُڑتی ہوائیوں کو دیکھ کر،رانا صاحب اور ان کے ساتھی بھاگتے ہو ئے میرے پاس آئے،کیا ہوا؟رانا صاحب نے پوچھا،میں نے کہا ،’’ڈنگہ واپس جا نا پڑے گا۔‘ ‘میں نے ساری صورت حال بتائی ،تو ایک صاحب کہنے لگے ،خود کیوں جانا ہے،وہاں کسی ملازم سے کہیں کہ وہ لے کر آ جائے ،ہاں یہ ٹھیک ہے،لیکن ،پھربھی دو تین گھنٹے تو کہیں نہیں گئے۔ ابھی یہ سوچ رہا تھا کہ کس کو فون کروں کہ ایک ساتھی بولے ارے وٹس ایپ کے ذریعے منگوا لیں نامطلوبہ نقل ،ایسا کونسا مسئلہ ہے ،پانچ منٹ میں نقل آ جائے گی۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ میرے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی،بس پھر ساری گرہیں کھلتی چلی گئیں اور دس منٹ کے اندر مطلوبہ کاپی میرے ہاتھ میں تھی اور میں متعلقہ کلرک صاحب کے پاس وہ پلندہ جمع کرا چکا تھا۔ یہ معجزہ جدید ٹیکنالوجی کے اُس جناتی پرزے کے باعث ممکن ہواجو آج کل ہر لڑکے بالے کی جیب میں ہے جسے اینڈرائیڈ فون کہتے ہیں اور یہ حال ہی میں میرے پاس بھی آگیا تھا۔ میں ایک عرصے تک اس پُرزے سے مجتنب رہا کیونکہ میرے نزدیک یہ گندگی کی ایک پوٹلی ہے جو یہ بچے اپنی جیب میں لیئے پھرتے ہیں۔قبل ازیں،میں، اینڈرائیڈفون کے بڑے بھائی، سادہ موبائل فون سے بھی،ایک عرصہ تک مجتنب رہا اور اسے اپنے ہاتھ میں لینے سے کنی کتراتا رہا،حتیٰ کہ ۲۰۰۰ ء میں، جب اللہ کریم نے، مجھے اپنے گھر آنے کی سعادت بخشی تو،احباب کے پرزور اصرار پر اسے اپنے ساتھ لے گیااور وہاں اس فون نے جس طرح میری خدمت کی تو مجھے اس کی افادیت کا قائل ہونا پڑا۔اور اب گوجرانوالہ کے اس مذکورہ واقعہ کے بعد تو مجھے اینڈرائیڈ پر پیار آنے لگاہے۔
میں جو اس اینڈرائیڈ فون کو ’’گند گی کی پوٹلی‘‘ کہا کرتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندرآپ کو ہر وقت انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہوتی ہے۔انٹر نیٹ کے باعث،ہر طرح کی گندی فلمیں،فحش وڈیوز،عریانی اور فحاشی کے مناظر، گندے ناول، لطیفے،بری شاعری، غرض وہ سارا اخلاق سوز گند،جس سے بچنے کی ترغیب ہمارا دین ہمیں دیتا ہے،آپ کی انگلیوں کے نیچے ہوتا ہے۔میں اپنے بچوں سے کہا کرتا ہوں،کہ ہم سب کمزور ایمان کے لوگ ہیں،اور ہم میں سے بیشتر اس لیئے متقی اور پرہیز گار ہیں کہ برائی کے مواقع اور برائی کی سہولیات ہم سے دور ہیں،لیکن اس فون نے یہ سارا مواد لا کرآپ کی جیب میں رکھ دیا ہے۔ گویا برائی دیکھنے کے مواقع اور سہولیات اورگناہ کی ترغیبات شیطان نے لا کر آپ کی جیب میں رکھ دی ہیں اوراب ان سے بچنا آپ کی اپنی بہادری ہے۔ باقی رہی اس کی افادیت،وہ تو ہے ہی،اس سے کس کو انکار ہے۔میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس کے بغیر،جہاں تک گزارہ ممکن ہو بندے کو کرنا چاہیئے اور اپنے آپ کو امتحان میں نہیں ڈالنا چاہیے اور مجھے اس امتحان میں ڈالنے والے، کوئی اور نہیں میرے عزیز ترین دوست محمد یوسف رضوان ہیں۔ پہلے تو وہ ایک عرصے تک مجھے اس کی افادیت پر قائل کرتے رہے۔ لیکن جب دیکھاکہ بندہ اینڈرائیڈ نہ خریدنے پربضد ہے توانھوں نے ایک قیمتی موبائل مجھے گفٹ کردیا ۔ اور یوں اینڈ رائڈ فون کے خلاف ہمارا سارا نقطہ نظر دھر ے کا دھرا رہ گیا۔
سفر کی تیاری
گوجرانوالہ سے واپسی پر،ہم نے اس سفر کی تیاری شروع کر دی۔ہمارا یہ سفر خالص سیرو تفریح کے لیے تھا اورچونکہ ایک ٹورسٹ کمپنی کی طرف سے arranged تھا،اس لیئے اندازہ تھا کہ یہ سفر منظم اوربہتر ہوگا،اس لیئے یہ پریشانی تو ختم ہوئی کہ رہیں گے کہاں اور کھائیں گے کیا؟اب مسئلہ یہ رہ گیا تھا کہ اس سفر سے علمی طور پر استفادے کی کیا صورت ہو سکتی ہے اور ایسا کیا کیا جائے کہ وہاں جانا ہمارے لیے علمی طور پر سود مند ثابت ہو۔ ایک دینی سیاسی جماعت سے طویل وابستگی کے باعث، معاملات کو ایک خاص نقطہ نظر سے پرکھنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔قدیم و جدیدترکی کے بارے میں بہت کچھ پڑھ اور سن رکھا تھااو ر اب جب وہاں کا سفر درپیش تھا تو ذہن میں کئی قسم کے سوالات جنم لے رہے تھے۔سب سے بڑا سوال تو یہ تھا کہ جب مصطفیٰ کمال کے زمانہ اقتدار میں اسلامی شعائر و اقدار پر شدیدقدغن عائد ہو گئی تھی تو اس دور کے اسلام پسندوں نے اس کو کیسے برداشت کیا اوران کا کس طرح مقابلہ کیا تھا اورکس طرح یہ پابندیاں ختم ہوئیں اوراب وہاں اسلامی اقدار و روایات کے احترام کا کیا حال ہے۔
ترکی کاتاریخ جغرافیہ بھی پڑھنا تھا تاکہ وہاں جانے سے قبل اس ملک کے بارے میں ضروری مواد اکٹھا کرلیا جائے اس کام میں ’’حضرت نیٹ اور برادر وکی پیڈیا‘‘ نے بڑا تعاون فرمایا۔
ایک اہم مسئلہ کلینک میں اپنی غیر حاضری کے دوران میں، کسی ڈاکٹر کا بندوبست کرنا تھا تاکہ کلینک کا نظام چلتا رہے۔ عزیزی عبدالرحمان ابھی حال ہی میں ہاؤس جاب سے فار غ ہوئے تھے ان سے بات کی تو وہ مان گئے اور یوں یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا۔اللہ کریم ان کو عمدہ جزا عطا فرمائیں کہ انھوں نے بڑے اچھے طریقے سے کلینک کو چلایا۔
ایک مسئلہ وہاں کے موسم کے مطابق کپڑوں کے ساتھ لے جانے کا تھا کہ جس کی کوئی خبر نہیں مل رہی تھی ۔حضرت نیٹ کچھ خبریں دے رہے تھے اور واقفانِ حال کچھ اور راگ الاپتے تھے۔ ہمارے ہاں ابھی موسم گرما چل رہاتھا اور وہاں کے بارے میں سنا کہ سمندری یخ بستہ ہوائیں چلتی ہیں لہٰذاکسی اوورکوٹ کا ،گرم جرابیں اور گرم ٹوپیوں کابندو بست کر کے جانا لازم ہے۔غرض عجیب کشمکش تھی،ہم نے آخرکار’’ حضرت انٹرنیٹ دام برکاتہ ‘‘کی ہدایات پر عمل کیا اور درمیانے درمیانے موسم کے کپڑے تیار کرکے رکھ لیے اور وہاں جا کر اندازہ ہوا کہ آنجناب کا مشورہ ہی صائب تھا۔
لاہور روانگی
ہم اسی تیاری میں تھے کہ ایک دِن مبشر صاحب کا فون آگیا کہ ’’جناب ۲۱ ستمبر۲۰۱۷ء کو صبح ۵ بجے ،آپ کی لاہور ایئر پورٹ سے ،ترکش ائیر لائن کے ذریعے روانگی ہے اور صبح کے۲ بجے تک وہاں پہنچنا ہے،آپ فرمایئے کہ آپ خود وہاں تشریف لے جائیں گے یا بندہ یہ خدمت سرانجام دے۔‘‘میں نے عرض کی کہ میں خود ہی حاضر ہوجاؤں گا،آپ تکلیف نہ کریں۔میرا بیٹا چونکہ لاہور میں ہے اور کام بھی ائیرپورٹ پر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہی ایئر پورٹ چلا جاؤں گا۔ مقررہ دِن یعنی ۲۰ ستمبرکو، میں مولانا یوسف رضوان اور بھائی مظہر مغل کے ساتھ ،لاہور کے لیئے روانہ ہوا ان دونوں بھائیوں نے کمال عنایت فرمائی اور اپنے قیمتی وقت کو میری دِل جوئی کے لیئے صرف کیا۔
ٹرکش ائر لائن
لاہور بیٹے کے گھرپہنچاکر،یہ دوست تو واپس روانہ ہو گئے اور میں کچھ دیر کے لیئے سوگیا تاکہ اگلے سفر کے لیے تازہ دم ہو جاؤں۔رات کو تقریباً ایک ، ڈیڑھ بجے ہم جوہرٹاؤن سے ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔ائیرپورٹ پہنچ کر ہم انتظارگاہ میں تشریف فرما ہو گئے اور ہمارے دیگر ہمسفر بھی،ایک ایک کرکے تشریف لاتے گئے۔سب سے باہمی تعارف ہوا۔ہماری میزبان کمپنی کے بھی کچھ لوگ آ ئے ہوئے تھے۔وہیں کچھ کچھ بریفنگ ہوئی اورکچھ تبادلہ خیالات ہوا۔اللہ کا شکر ہے کہ یہیں سے ہی اندازہ ہو گیا کہ ہماری ہم سفروں کے ساتھ آئندہ دِنوں میں خوب گزرے کی کہ سب قریب المزاج دکھائی دیتے تھے جلد ہی چیک اِن شروع ہوگیا اور ہم تفتیش و پڑتال کے مختلف مراحل طے کرتے کرتے لاؤنج میں آ گئے۔ابھی لاؤنج کے ماحول کا جائزہ ہی لے رہے تھے کہ اذان فجربلند ہوئی۔قریباًہم سب لوگ مسجدکی طرف لپکے اور اللہ کریم کے حضور سجدہ ریز ہو گئے۔سفر کی دعائیں کرتے اور خیر و عافیت طلب کرتے ہم اپنے مالک کے حضورحاضر تھے،کہ ساتھ ہی جہاز پر پہنچنے کے احکامات سنائی دینے لگے اور ہم لائن میں لگے خراماں خراماں جہاز میں داخل ہونے کے لیئے چل پڑے۔اگرچہ ہمارا یہ پہلا ہوائی سفرنہیں تھا،لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں پریشانی تھی۔ترکش ایر لائن کا عملہ مستعدی اور بشاشت سے مسافروں کا استقبال کر رہا تھا اور میرے جیسے مسافروں کی سیٹوں تک رہنمائی بھی کر رہا تھا ۔جہاز تو بڑا تھالیکن سیٹوں کی ترتیب و آراستگی میں کشادگی نہ تھی۔جہاز اپنی بناوٹ، سجاوٹ اور نشستوں کے استعمال میں ہرگز متائثرکن نہ تھا۔ماحول میں ایک قسم کی گھٹن ،تنگی اورپرانا پن تھاجس طرح کااپنے ہاں کی نان اے سی بسوں میں ہوتا ہے۔یہ حسن اتفاق ہے کہ مجھے کھڑکی والی سیٹ ملی،جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ جب چاہیں،بہ آسانی باہر کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ کھڑکی سے باہر جھانکا ،تولاہور میں ہلکی ہلکی بوندا باندی جاری تھی۔لاہور ایئرپورٹ میں نورصبح پھیل رہا تھا کہ جہاز کے ساؤنڈ سسٹم سے جہاز کی روانگی کا اعلان ہوا اور پھر چند لمحوں بعد مشاق کپتان نے جہاز کو فضا میں بلندکردیا۔میں جہاز کی کھڑکی سے ابھی لاہور کا دِلفریب منظرآنکھوں میں اُتار رہا تھا کہ جہاز کی راہداریوں میں ٹرالیوں کے کھینچے جانے کی آوازیں آنے لگیں، دیکھا تو مسافروں کو ناشتہ سروکرنے کا آغاز ہو چکا تھا۔ناشتے کی ننھی منی ٹرے وصول کی تو اُس کے اندر کھانے کو بہت کچھ تھا لیکن ناشتہ نہ تھا۔ چند بے نام اور بے ذائقہ اشیا، کہ جن کا وزن گراموں میں اورحجم سینٹی میٹرز میں تھا۔ایئر ترکی والوں نے ’’ہم بچوں‘‘ کا بس دِل بہلایا تھا۔ ابھی دستر خواں سمیٹا جا رہا تھا کہ کپتان صاحب نے جہاز کی بتیاں گل کر دیں تاکہ مسافر سو جائیں۔ پھر واقعی چندہی لمحوں بعدمیرے آس پاس سے خراٹے بلند ہونے شروع ہو گئے اورجلد ہی ہمارا جہاز سوئے ہوئے محل کا منظر پیش کرنے لگا۔میں نے سوچا کہ ایسے ماحول میں نہ سونا ناشکر ی ہے چنانچہ ہم بھی نیند کی آغوش میں چلے گئے ۔چلیے آپ بھی، اب آرام کریں ،قریباً پانچ گھنٹے بعد استنبول میں ملاقات ہوگی۔***
(جاری ہے )