ذرا سوچیے

مصنف : جاوید چودھری

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مئی 2020

کیلیفورنیا کے اس نرسنگ سکول کا پرچہ بہت دلچسپ تھا۔ پرچے میں دس سوال تھے، نو سوال میڈیکل سائنس طبی سہولتوں اور مریضوں کی نگہداشت سے تعلق رکھتے تھے جبکہ آخری سوال نرسنگ سکول کی سویپر کے بارے میں تھا۔ ایگزامینرز نے زیر تربیت فی میل اور میل نرسوں سے پوچھا تھا ‘‘آپ سکول کے کوریڈور صاف کرنے والی سویپر کا نام لکھیں’’۔طالب علم یہ سوال پڑھ کر حیران رہ گئے۔ یہ میڈیکل کا پرچہ تھا اور میڈیکل کے پرچے میں اس قسم کا سوال بے تکا اور غیر ضروری دکھائی دیتا تھا۔کمرہ امتحان میں ایک طالب علم نے ہاتھ اٹھایا، ایگزامینر نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا کر پوچھا ‘‘یس’’۔طالب علم نے پوچھا ‘‘کیا آخری سوال کے نمبر دوسرے سوالوں کے برابر ہیں؟’’ ایگزامینر نے ہاں میں سر ہلایا اور پر جوش لہجے میں جواب دیا ‘‘سو فیصد’’۔ طالب علم مزید حیران رہ گئے۔
یہ نوجوان جوں جوں دسویں سوال کی طرف بڑھ رہے تھے انہیں اسی قدر بے چینی محسوس ہو رہی تھی۔ یہ چار سال سے اس سکول میں پڑھ رہے تھے، ان چار برسوں میں ہر طالب علم نے اس سویپر کو دن میں اوسطاً چار پانچ مرتبہ دیکھا تھا لیکن کسی نے اس کا نام جاننے کی کوشش نہیں کی، یہ لوگ صبح سکول آتے تھے تو خاتون سویپر وائپر سے کوریڈور صاف کر رہی ہوتی تھی، یہ لوگ کلاس روم سے لیبارٹری آتے تھے تو یہ خاتون کو اسی لیبارٹری کے شیشے صاف کرتے دیکھتے تھے۔دوپہر کی لنچ بریک کے دوران یہ خاتون سکول کا لان صاف کرتی دکھائی دیتی تھی اور سہ پہر کو جب طالب علم ہاسٹل کی طرف روانہ ہوتے تھے تو یہ ڈسٹ بن کی صفائی میں مصروف ہوتی تھی۔ آندھی ہو، طوفان ہو، بارش ہو، گرمی ہو یا پھر سردی ان طالب علموں نے اس خاتون کو ہمیشہ کیمپس میں کام کرتے دیکھا لیکن کوئی طالب علم کبھی اس خاتون کے پاس نہیں رکا، کسی نے اس سے ہاتھ نہیں ملایا اور کسی نے اس کا نام جاننے کا تکلف نہیں کیا۔ 
یہ رویہ صرف اس خاتون سویپر تک محدود نہیں، ہم سب لوگ اسی ‘‘مائینڈ سیٹ’’ کے مالک ہیں، ہم کبھی اپنے سے کم تر سٹیٹس کے لوگوں کا نام اور حال معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتے، ہمیں اپنے افسروں اور مالکان کے آنے سے پہلے ان کے نام، ان کے والدین کے نام، ان کے بچوں کے نام حتیٰ کہ ان کے عزیزوں، رشتے داروں اور دوستوں تک کے نام معلوم ہوتے ہیں لیکن جب ہماری توجہ ماتحتوں کی طرف شفٹ ہوتی ہے تو ہم ان کے درجوں اور سٹیٹس کے مطابق ان کے ناموں سے لا تعلق ہوتے چلے جاتے ہیں، ڈائریکٹر کیلئے ڈپٹی اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر محض اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر ہوتا ہے۔ ان افسروں کیلئے سیکشن افسر، اسسٹنٹ اور سٹینو گرافر ناقابل توجہ ہو جاتے ہیں اور یہ ان کا نام معلوم کرنا یا ان کا نام یاد رکھنا مناسب نہیں سمجھتے۔ پیچھے رہ جاتے ہیں کلرک، چپڑاسی، چوکیدار اور سویپر تو یہ لوگ ایسی مخلوق ہیں جس کے ناک، کان، آنکھیں، بازو اور ٹانگیں تو انسانوں جیسی ہوتی ہیں لیکن یہ انسان نہیں ہوتے۔ چنانچہ جس طرح ہماری نظر میں تمام بطخیں محض بطخیں، تمام مرغیاں صرف مرغیاں اور تمام بلیاں صرف بلیاں ہوتی ہیں بالکل اسی طرح ہم لوگ تمام سویپرز کو سویپرز، تمام چوکیداروں کو چوکیدار اور تمام چپڑاسیوں کو چپڑاسی سمجھتے ہیں اور ہمارا دماغ یہ سمجھنے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتا کہ ان بے چاروں کا بھی کوئی نام ہو سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے ہم لوگ کبھی ان کا نام جاننے یا ان کا نام یاد رکھنے کی کوشش نہیں کرتے، ہم اپنی یادداشت کو صرف بالائی طبقوں پر استعمال کرتے ہیں۔ ان طالب علموں کے ساتھ بھی یہی ہوا، یہ اس سویپر کو روز دیکھتے تھے لیکن ان میں سے کسی نے اس کا نام پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی یہاں تک کہ امتحان کا دن آگیا۔ امتحان کے وقت بھی وہ خاتون سویپر معمول کے مطابق عمارت کے شیشے صاف کر رہی تھی لیکن اس دن طالب علم پرچے سے نظریں اٹھا اٹھا کر اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اور اس دن ان نوجوانوں کو پہلی بار معلوم ہوا خاتون سویپر کے بال مہندی رنگ کے ہیں، وہ ذرا سی فربہی مائل ہے اور اس کی ایک آنکھ دوسری آنکھ سے چھوٹی ہے، پوری کلاس میں سے صرف فلپ کو اس کا نام معلوم تھا، فلپ نے سویپر کا نام لکھا اور پرچہ ممتحن کو دے کر باہر آگیا، اس نے سویپر سے ہاتھ ملایا، جھک کر اس کا شکریہ ادا کیا اور عمارت سے نکل گیا۔ خاتون سویپر بڑی دیر تک اپنا ہاتھ دیکھتی رہی کیونکہ کالج کی ہسٹری میں پہلی بار کسی طالب علم نے اس کے ساتھ ہاتھ ملایا تھا۔
میں نے یہ کہانی کل عرفان جاوید کو سنائی تو اس نے جواب میں مجھے روسی کہانی سنا دی ماسکو شہر میں ایک کوچوان رہتا تھا، یہ کوچوان شہر کے ایک چوک سے پروفیسروں، اعلیٰ سرکاری افسروں اور ڈاکٹروں کو اٹھاتا تھا اور دوسرے چوک میں پہنچا دیتا تھا۔ وہ دس پندرہ بیس برسوں سے یہ کام کر رہا تھا، ایک دن وہ کام پر نہ آیا، اس کی سواریوں نے دوسرا تانگہ لے لیا، وہ دس دن غائب رہا، سواریاں دوسرا تانگہ لیتی رہیں، دس دن بعد وہ واپس آیا تو اس کا خیال تھا اس کی سواریاں اس سے پوچھیں گی ‘‘پیٹر تم دس دن تک کہاں غائب رہے’’ لیکن سواریوں کیلئے وہ محض ایک کوچوان تھا وہ آگیا تو ٹھیک ہے، نہیں آیا تو دوسرا کوچوان لے لیا، بات ختم چنانچہ کسی نے اس سے نہیں پوچھا ‘‘پیٹر تم اتنے دن کہاں رہے؟’’ وہ سارا دن ہر مسافر کی طرف اس امید سے دیکھتا رہا کہ وہ اس سے دس دنوں کی غیر حاضری کے بارے میں پوچھے گا لیکن کسی نے نہ پوچھا، رات ہوئی تو اس نے تانگہ کھڑا کیا، گھوڑا کھولا اور اسے اصطبل میں لے گیا، اس نے گھوڑے کی کاٹھی اتاری، اس کی کمر پر ہاتھ پھیرا اوراس سے مخاطب ہوا ‘‘ میرے دوست مجھے یقین ہے تم مجھ سے پوچھنا چاہتے ہو’’ میں دس دن کام پر کیوں نہیں آیا، میرے بھائی میرا اکلوتا بیٹا فوت ہوگیا تھا۔ میں نے اس بیٹے کو بڑی مشکل سے پالا تھا، یہ جوان ہوا، بیمار ہوا اور دس دن پہلے انتقال کر گیا۔ چنانچہ میں اس کی وجہ سے کام پر نہیں آسکا لیکن میں آج سے ریگولر ہوں’’ ۔
آپ اگر غور کریں تو ماسکو کا وہ کوچوان، کیلیفورنیا کی وہ سویپر اور پاکستان کے تمام لوئر گریڈ ورکرز ایک ہی المیے کے ساتھ منسلک ہیں، ان لوگوں کو دنیا کے کسی کونے میں انسان کا سٹیٹس حاصل نہیں۔ یہ لوگ تیس، تیس سال تک ایک ہی دفتر، ایک ہی گھر، ایک ہی گلی اور ایک ہی فیکٹری میں کام کرتے رہتے ہیں لیکن کوئی شخص ان کا نام تک جاننے کی زحمت نہیں کرتا، یہ لوگ بیمار ہوجائیں تو ان کی جگہ دوسرا سویپر، دوسرا چپڑاسی، دوسرا چوکیدار اور دوسرا گیٹ کیپر آجاتا ہے اور صاحب کو معلوم ہی نہیں ہوتا اللہ دتہ، محمد جمیل یا جوزف دفتر کیوں نہیں آرہا۔ بڑے لوگ اس کے وجود اور اس کے وجود کو درپیش مسائل تک سے ناواقف رہتے ہیں، محلے داروں نے گلی میں کبھی جھانک کر اس جمعدار کا نام نہیں پوچھا جو روزانہ منہ اندھیرے گلی میں آتا ہے اور ہمارے جاگنے سے پہلے ہماری گلی اور ہماری نالیاں صاف کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے ہماری گلیاں، ہمارے گھر صاف ہیں، ہم وین، بس اور ٹیکسی کے اس ڈرائیور کا نام بھی نہیں پوچھتے جس کے ساتھ ہم روزانہ سفر کرتے ہیں اور جس دن یہ نہیں آتا اس دن اس کا بیٹا، اس کا بھائی یا کوئی عزیز ڈیوٹی پر آجاتا ہے اور ہم نے کبھی اس کے واپس آنے پر اس سے اس کا دکھ شیئر نہیں کیا، ہم نے کبھی نہیں سوچا ماں چپڑاسی کی ہو یا چیئر مین کی وہ ماں ہی ہوتی ہے اور اگر یہ ماں فوت ہو جائے تو اس کا دل بھی اتنا ہی دکھی ہوتا ہے جتنا ہمارا ہو سکتا ہے۔ ہمیں بس ایک مالی، ایک خانساماں، ایک چوکیدار اورایک چپڑاسی چاہیے ہوتا ہے، وہ محمد بشیر ہو، اللہ دتہ ہو یا پھر جوزف ہو ہماری نظر میں وہ محض چپڑاسی اور مالی ہوتا ہے اور ہم نے کبھی نہیں سوچا اس مالی، اس چوکیدار کے سینے میں بھی دل ہے اور یہ بھی انسان ہونے کے ناتے اتنا ہی دکھ اور اتنی ہی خوشی محسوس کرتا ہے جتنی ہم لوگ کرتے ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں یہ لوگ اپنے دکھ کس کو سناتے ہوں گے؟ کیونکہ آج کل تو گھوڑے بھی نہیں ہوتے کہ یہ لوگ انہیں اپنا دکھ سنا کر خود کو ہلکا پھلکا کر لیں۔کاش ہم لوگ آج سے ان لوگوں کے نام جاننا شروع کر دیں جن سے کسی نے کبھی نام نہیں پوچھا۔
٭٭٭