ایران سے برطانیہ ، بیٹی کی تلاش میں

مصنف : بی بی سی

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : اپریل 2020

اس کہانی کی ابتداء لیڈز میں ایک سابق فوجی انسٹرکٹر راب لوری اور قالینوں کا کاروبار کرنے والے ایک شخص سے ہوتی ہے۔سن 2015 کی ستمبر میں بحیرہ روم میں ڈوب جانے والے ایک شامی بچے ایلن کردی کی تصویر نے دنیا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔سمندر سے بہہ کر ساحل پر آنے والی دیگر ٹوٹی پھوٹی اشیا کے درمیان اس پورے کپڑے پہنے ہوئے صحتمند بچے کی لاش کی تصویر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ راب اس تصویر کو اپنے ذہن سے نہیں نکال سکے۔
انہوں نے کہا کہ ‘میں تصور کرنے کی کوشش کرتا تھا کہ اس بچے کی زندگی کے ہوش و حواس میں آخری دو منٹ کیسے ہوں گے۔’ ‘سمندر میں ہچکولے کھاتے ہوئے اس کے ذہن میں ماں باپ کا خیال آیا ہو گا کہ وہ کہاں ہیں؟ اس کا تصور بھی بہت مشکل ہے۔’
راب برطانیہ کے شہر لیڈز میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہے تھے، لیکن ان کا لڑکپن اپنے ماں باپ سے دور بچوں کا خیال رکھنے والے ایک مرکز میں گزرا تھا۔یہ تصویر دیکھنے کے بعد راب نے فیصلہ کیا کہ کہ وہ ایک ٹی وی گیم شو میں جیتی ہوئی رقم کو ایکن کردی جیسے پناہ گزینوں کی مدد کے لیے استعمال کریں گے۔
سن 2015 کے خزاں کے موسم میں وہ اپنی ویگن میں فرانس کے ساحلی شہر کالے میں پناہ گزینوں کے ایک مشہور عارضی کیمپ کی طرف روانہ ہو گئے۔ اس وقت اس میں 25 ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً 6 ہزار لوگ خیموں میں رہ رہے تھے اور اپنے خطرناک سفر کے آخری مرحلے میں برطانیہ پہنچنے کی کوشش میں تھے۔ابتدائی طور پر راب کا ارادہ کچھ دن وہاں گزارنے کا تھا لیکن وہ کئی بار وہاں گئے۔
انتہائی بری حالت میں اس کیمپ میں رضاکاروں کی ایک ٹیم لوگوں کے لیے زندگی آسان بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ چھ فٹ دو انچ کی قدامت والے راب ان سب میں بہت نمایاں تھے۔ ان کے سر پر ہر وقت وہ ہیٹ ہوتی تھی جو انہوں نے ٹی وی گیم شو کے دوران پہنی تھی جب وہ انعام جیتے تھے۔ یہ ہیٹ ان کی پہچان بن گئی۔
وہاں پر ان کی ملاقات رضا اور اس کی ننھی بیٹی برو سے ہوئی۔ رضا نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں راب کو اپنی کہانی سنائی۔ رضا نے کہا کہ وہ طالبان سے بچ کر افغانستان سے بھاگا ہے اور انہوں نے راب کو ایک کاغذ بھی دکھایا جو ان کے مطابق طالبان کی طرف سے موت کی دھمکی تھی۔رضا تو بچ کر نکل آیا لیکن اس کے مطابق اس کی بیوی اتنی خوش قسمت نہیں تھی۔ اس کا خیال تھا کہ شاید وہ مر چکی ہے۔ رضا نے بتایا کہ ان کا چھوٹا بیٹا ان کے رشتہ داروں کے پاس ہے رضا نے بتایا کہ اس کی بس اب یہی خواہش ہے کہ برطانیہ پہنچ کر اپنی بیٹی کو ایسی زندگی دے سکے جس سے وہ اپنے ماضی کو بھول جائے۔
وہ درختوں کے بیچ میں ایک چھوٹے سے ٹینٹ میں رہ رہے تھے جہاں بارش کے وقت ان کے بستر اور کمبل سمیت ہر چیز بھیگ جاتی تھی۔ انھیں خیراتی اداروں سے ملنے والے کپڑوں میں بھی اپنے آپ کو گرم رکھنا مشکل تھا۔ ہر طرف نمی کی وجہ سے بو پھیلی ہوئی تھی۔
راب نے ان کی کہانی سے متاثر ہو کر رضا اور اس کی بیٹی کو برطانیہ سمگل کرنے کا فیصلہ کیا۔ رضا نے راب کو بتایا کہ لیڈز میں ان کے رشتے دار ہیں جو ان کا خیال رکھ سکتے ہیں۔وہ شاید پاگل پن کا لمحہ تھا، لیکن راب نے رضا کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسے اس کی بیٹی سے ہمدردی ہو گئی تھی جو اس کے ساتھ کھیلنے کے لیے اس کے آگے پیچھے دوڑتی رہتی تھی۔ وہ رضا کی کہانیوں سے بھی متاثر ہوا کہ طالبان عورتوں اور بچیوں کو کس طرح نشانہ بناتے ہیں۔ اس کو معلوم تھا کہ وہ اپنی بیٹیوں کی سلامتی کے لیے کس حد تک جا سکتا ہے۔ اس کی نیت جیسی بھی تھی لیکن اس نے جو کیا وہ بہت عجیب تھا۔
منصوبہ یہ تھا کہ وہ رضا اور اس کی بیٹی کو اپنی ویگن میں چھپا لے گا۔ ایک رات کو ان دونوں نے آگ کے قریب رضا کی سوئی ہوئی بیٹی کو اٹھایا اور ویگن میں سونے کے لیے مخصوص جگہ میں لٹا دیا۔ لیکن رضا کے لیے جگہ بنانا مشکل تھا۔ راب نے منصوبے کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا لیکن رضا کا اصرار تھا کہ وہ اس کی بیٹی کو لے جائے اور وہ خود انسانی سمگلروں کو پیسے دے کر برطانیہ پہنچنے کی کوشش کرے گا۔اس نے ننھی برو کو پیار سے چوما اور راب کو بتایا کہ لیڈز میں اس کے رشتے دار آ کر اس کی بیٹی کو لے جائیں گے۔لیکن یہ منصوبہ فرانس کی سرحد پر سمگلنگ روکنے والے کتوں نے ناکام بنا دیا راب کی ویگن کی تلاشی پر اس میں دو افریقی بھی چھپے ہوئے ملے۔ راب کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیسے ویگن میں داخل ہوئے۔ فرانسیسی حکام نے راب کی بات پر اعتبار کیا ، لیکن اسے انھیں برو کے بارے میں بھی بتانا پڑا جو سو رہی تھی اور جس پر ابھی تک ان کی نظر نہیں پڑی تھی۔راب نے کہا کہ اسے بہت دیر سے احساس ہوا کہ اسے رضا کی باتوں میں نہیں آنا چاہیے تھا۔ اسے گرفتار کر لیا گیا اور اب اسے انسانی سمگلنگ کے الزام میں 5 سال سزا ہو سکتی تھی۔
میں ان بہت سے صحافیوں میں سے ایک تھی جو راب کے مقدمے کے فیصلے وقت بولون کی عدالت میں موجود تھے۔ رضا راب کے ساتھ عدالت آیا اور اس نے یہ کہتے ہوئے تمام واقعے کی ذمہ داری اپنے سر لینے کی کوشش بھی کی کہ راب کو اس منصوبے کے بارے میں بالکل علم نہیں تھا۔میڈیا کی توجہ اور راب کے لیے پیدا ہونے والی ہمدردی کی وجہ سے شاید عدالت نے نرمی دکھائی اور راب کو صرف ایک کم عمر بچے کو بغیر سیٹ بیلٹ باندھے گاڑی میں لے جانے کے جرمانے کی سزا سنائی اور یہ سزا بھی معطل کر دی۔
ایک طرح سے یہ مکمل بریت نہیں تھی۔ راب ایک سادہ لوح انسان کے طور پر سامنے آیا۔ ان کی اہلیہ ان سے سخت ناراض تھی کہ انھوں نے اتنا بڑا قدم اٹھانے سے پہلے ان سے مشورہ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ وہ ان سے الگ ہو گئیں اور بچوں کو بھی ساتھ لے گئیں۔ ان کی غیر حاضری کی وجہ سے ان کا قالینوں کا کاروبار بھی متاثر ہوا۔رضا اور برو واپس کیمپ چلے گئے اور راب برطانیہ آ گئے جہاں انھوں نے میرے ریڈیو پروگرام میں اپنے تجربات کے بارے میں بات کی۔اس کے کچھ مہینے بعد جب فرانسیسی حکام نے کالے میں کیمپ کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے تو راب نے دوبارہ مجھ سے رابطہ کیا۔
رضا کے فون سے جواب موصول نہیں ہو رہا تھا اور راب ان کے لیے فکرمند تھے۔ ہم نے پیرس کا رخ کیا جہاں شہر کے مختلف علاقوں میں پناہ گزینوں کے کیمپ تھے۔ ہم نے وہاں بہت سے لوگوں سے بات کی لیکن رضا اور برُو کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوا۔کہانی شاید یہاں ختم ہو جاتی لیکن پھر دو ایسی باتیں ہوئیں کہ اس میں نئی جان ڈل گئی۔ ایک تو راب کو ہالی وڈ کے ایک ڈائریکٹر سے سکرپٹ موصول ہوا جو ان کی گرفتاری کے بعد ان سے ملنے آئے تھے۔ یہ سکرپٹ رضا اور راب، دو باپوں، کی دوستی کے بارے میں تھا۔ لیکن اس کے لیے رضا اور برو کا ملنا ضروری تھا۔اور دوسری ایک ای میل تھی جس نے باپ بیٹی کی ساری کہانی کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا۔ میں اپنے والد سے ملاقات کے لیے لیڈز میں تھی جب یہ ای میل میرے فون پر نمودار ہوئی۔
اس وقت راب کو اس بچی کے بارے میں سینکڑوں پیغام موصول ہوتے تھے جسے اس نے بچانے کی کوشش کی تھی۔ میرا خیال تھا کہ یہ بھی اسی طرح کا کوئی پیغام ہے۔
لیکن یہ ای میل ڈنمارک سے پناہ گزینوں کے ساتھ کام کرنے والے ایک رضاکار کی طرف سے تھی۔ مارٹن ویسٹرگارڈ نامی اس رضاکار نے گولی نامی ایک عورت کے بارے میں لکھا تھا کہ اس کے مطابق وہ برو کی ماں ہے اور یہ کہ رضا کے دعووں کے برعکس وہ افغانستان میں مری نہیں بلکہ زندہ ہے اور اپنی بیٹی کو تلاش کر رہی ہے۔
اس رضاکار نے اپنی ای میل میں لکھا کہ ‘آپ شاید سینکڑوں پناہ گزینوں سے مل چکی ہیں اور شاید رضا اور برو سے آپ کا کوئی رابطہ بھی نہ ہو۔ لیکن میں نے گولی سے وعدہ کیا تھا کہ آپ سے پوچھوں گا ضرور کہ برو کیسی ہے، کیا وہ ٹھیک ہے؟’
گولی کے مطابق رضا افغانستان میں طالبان سے نہیں بھاگا تھا وہ ایک دکھی باپ نہیں تھا جو اس نے دعوی کیا تھا اور نہ ہی وہ سیاسی پناہ گزیں تھا۔
رضا افغانستان میں پیدا ہوا تھا لیکن بچپن میں ایران چلا گیا تھا جہاں وہ اپنی دو بیٹیوں اور گولی کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ اپنی بیوی اور نوزائدہ بچے کو چھوڑ کر اور برو کو ساتھ لے کر نئی زندگی کی تلاش میں برطانیہ کے لیے نکلا تھا۔اگر گولی کی بات سچ تھی تو راب نے اپنا سب کچھ، شادی، خاندانی زندگی اور آزادی ایک ایسے شخص کی مدد کے لیے داؤ پر لگا دیا تھا جس نے اس سے جھوٹ بولا تھا۔ہم گولی سے ڈنمارک کے ایک خستہ حال سکول میں ملے جہاں پناہ گزین خاندانوں کو ٹھہرایا گیا تھا۔ ہم اس سکول کی طرف بڑھ رہے تھے کہ ایک بچی آ کے میری ٹانگوں سے لپٹ گئی۔ میں نے نیچے دیکھا تو برو کی شکل ہی نظر آئی۔ وہ برو کی ہمشکل تھی۔گولی کھلی سی سکرٹ اور ٹی شرٹ میں ملبوس لمبے لہراتے ہوئے بالوں والی ایک خوبصورت نوجوان عورت تھی۔ اس نے بتایا کہ اس نے ڈگری سے پہلے ایک لازمی کورس میں داخلہ لیا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس نے اس مرحلے تک پہنچے کے لیے بہت کچھ برداشت کیا ہے۔اس نے ہمیں اپنی بیٹی باران سے ملایا اور پھر بتایا کہ کس طرح رضا نے اسے دھوکہ دیا ہے۔ گولی کا کہنا تھا کہ رضا نے بھی یہ دیکھ کر کہ برطانیہ میں مقیم اس کے رشتہ دار امیر ہو گئے ہیں وہاں پہنچنے کا ارادہ کیا۔اس نے بتایا کہ رضا کے رشتے دار برطانیہ سے انتہائی قیمتی تحائف بھیجتے تھے اور رضا کا بھائی بھی برطانیہ میں مقیم ہے اور جب وہ ان سے ملنے ایران آیا تو آئی فون اور لیپ ٹاپ جیسی قیمتی چیزیں لایا۔
گولی کے مطابق اس کے بھائی نے رضا سے کہا کہ ‘اپنی عورت کو چھوڑو، اگر تم آنا چاہتے ہو تو میں بندوبست کر دوں گا۔’
گولی نے بتایا کہ ان کے ہاں عورتوں کی بات زیادہ نہیں سنی جاتی۔ اس نے بتایا کہ ایران میں افغان پناہ گزیں کے طور اس کی زندگی روایتی اقدار کے مطابق گزری اور اس کا تو اپنا اکاؤنٹ بھی نہیں تھا۔ ‘مجھے گھر میں بالکل آزادی نہیں تھی، میں بہت معصوم تھی اور مجھے لگتا تھا کہ میں کچھ نہیں کر سکتی۔’
غائب ہونے کے بعد رضا نے اس سے صرف ایک بار رابطہ کیا۔ ایک خراب ٹیلی فون لائن سے بات کر کے اس نے صرف اتنا بتایا کہ وہ برو کے ساتھ ترکی میں ہے۔
‘میں نے اسے کہا کہ واپس آ جاؤ، سب کچھ تباہ مت کرو۔’ گولی کے مطابق رضا نے جواب دیا کہ ‘میں ایران میں یہ زندگی نہیں جی سکتا، میں بس کہیں اور جا کر بسنا چاہتا ہوں۔’ اس نے کہا کہ وہ برو کو اس لیے ساتھ لے گیا تاکہ اسے پناہ ملنے میں آسانی ہو جائے۔رضا نے گولی سے وعدہ کیا تھا کہ باہر سیٹ ہونے کے بعد وہ اسے اور بچوں کو اپنے پاس بلا لے گا۔ گولی نے کہا کہ اس کے بعد اس نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ وہ رضا کے گھر والوں کے ساتھ رہنے لگی جن کے پاس بہت بڑا گھر تھا، تاہم گولی اور اس کے بچے کو ایک چھوٹا سا کمرہ دیا گیا۔ گولی کو آہستہ آہستہ رضا کے گھر والوں پر بھی شک ہونے لگا۔‘میں سن سکتی تھی کہ رضا اپنی ماں اور بہن کو فون کرتا ہے لیکن وہ مجھے فون کرتا تھا اور نہ فون پر بات۔ وہ برو سے بھی میری بات نہیں کرواتا تھا۔ میں نے رضا کی ماں کو برو سے بات کرتے سنا اور مجھے احساس ہوا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔’
ایک ایسی عورت کی حیثیت میں جس کا خاوند اسے چھوڑ گیا ہو گولی کا مقام رضا کے گھر والوں کی نظر میں کم ہو چکا تھا۔ اسے شک ہونے لگا کہ وہ لوگ ایک روز اسے گھر سے نکال کر باران کو بھی اس سے نہ چھین لیں۔کچھ مہینوں کے بعد گولی کے اپنے رشتہ داروں نے کچھ پیسے جوڑ کر اس کے یورپ جانے کا بندوبست کیا۔ ایک بچے کے ساتھ اکیلی عورت کے لیے وہ انتہائی خطرناک سفر تھا۔ گولی نے بتایا کہ وہ زیادہ تر رات کو سفر کرتی تھی اور اکثر وہ پیدل ہی ہوتی تھی۔اس کی پہلی منزل پہاڑوں کے اوپر سے ترکی پہنچنا تھا جہاں اس کی بہن اور ماں رہتی تھیں۔ ‘شدید سردی میں یہ انتہائی مشکل سفر تھا۔’ اس نے بتایا کہ وہ اکیلی تھی اور انسانی سمگلر اس کے ساتھ کچھ بھی کر سکتے تھے۔جب وہ ترکی اپنی ماں کے پاس پہنچی تو اپنی بیٹی کی تلاش میں ایک ہزار میل سے زیادہ کا سفر کر چکی تھی۔ اس کی ماں نے اسے روکا کہ کچھ دن رک کر آرام کر لو لیکن وہ آگے بڑھنے پر بضد تھی۔اس نے انسانی سمگلروں کو ترکی سے یونان جانے والی ایک چھوٹی کشتی پر جگہ کے لیے پیسے دیے۔ گولی بہت ڈری ہوئی تھی۔ اسے انجان لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی کشتی پر سوار ہونے کے لیے کہا گیا اور کشتی کے ڈوبنے کی صورت میں تیرنے کے لیے ایک ٹیوب بھی پکڑا دی گئی۔ لیکن اس کی بیٹی باران کے لیے کچھ نہیں دیا گیا۔کشتی روانہ ہو گئی۔ اس نے باران کو زور سے پکڑ لیا اور دعا کرتی رہی۔ راستے میں بارش اور تیز ہوا تھی۔ اندھیرے میں دور سے یونان کے ساحل پر روشنیاں دیکھ سکتی تھی۔ اتنے میں کشتی کچھ لوگوں میں لڑائی شروع ہو گئی اور کشتی ڈوبنے لگی۔ وہ ساحل کے قریب پہنچ چکے تھے اور پانی گہرا نہیں تھا لیکن اس سے باران کا ہاتھ چھوٹ گیا۔بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ گولی بتاتی ہے کہ وہ اس کی زندگی کا سب سے خوفناک لمحہ تھا۔ خوش قسمتی ایک اور پنا ہ گزیں نے باران کو پکڑ لیا تھا اور زور زور سے پوچھ رہا تھا کہ ‘یہ کس کی بچی ہے؟’
یونان سے گولی لاریوں اور بسوں میں چھپتی چھپاتی سربیا، ہنگری، آسٹریا اور جرمنی سے گزری۔ وہ خوفزدہ اور سردی اور بھوک سے نڈھال تھی۔ اسے یہ بھی صحیح طرح احساس نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے۔شمال کی طرف سفر کرتے ہوئے وہ پناہ گزینوں کے ایک اور گروپ کا حصہ بن گئی لیکن ڈنمارک میں ان کی راہیں جدا ہو گئی۔ گولی کو یہاں اپنا سفر روکنا پڑا کیونکہ باران بہت بیمار ہو گئی تھی۔
گولی کو ایک پناہ گزیں کیمپ میں جگہ دے دی گئی اور اسے کہا گیا کہ اسے ڈنمارک میں پناہ کے لیے درخواست دائر کرنی پڑے گی جو پہلا محفوظ ملک تھا جہاں وہ اپنے سفر کے دوران رکی تھی۔ ڈنمارک میں پناہ لینا آسان نہیں اور وہاں درخواستوں کے منظوری کی شرح صرف 10 فیصد ہے۔
گولی کی درخواست مان لی گئی کیونکہ اس کے پاس برو کی گمشدگی کے دستاویزی ثبوت موجود تھے۔ وہ ایک مترجم کے ساتھ ڈنمارک میں پولیس کے پاس مدد کے لیے گئی لیکن انہوں نے کہا کہ کیونکہ یہ جرم ایران میں ہوا ہے وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔اس بات کو کئی مہینے گزر گئے۔ پھر ایک روز اس مترجم کی نظر فرانس میں کالے کے پناہ گزیں کیمپ کے بارے میں بی بی سی کی خبر پر پڑی اور اس نے اس میں برو کی تصویر بھی دیکھی۔ اس نے فوراً برو کو پہچان لیا اور گولی کا کال کیا۔اس طرح ہم گولی کے پاس پہنچے۔ ایک مکمل اتفاق جس نے ہمیں رضا کی کھوج اور گولی اور برو کو ملوانے کی کوشش میں لگا دیا۔
گولی کے پاس دستاویزات سے اس کی کہانی سچ لگتی تھی لیکن ہم رضا سے ملے بغیر اس کی کہانی نہیں سمجھ سکتے تھے اور ہمیں لگ رہا تھا کہ شاید وہ چاہتا بھی نہیں کہ ہم اس تک پہنچیں۔گولی نے راب لوری کے مقدمے کے بارے میں خبر ریڈ کراس کو بھجوا دی۔ ریڈ کراس نے رضا اور برو کی کالے میں موجودگی کی تصدیق کی اور اس سے اپنی اور برو کی تصویر بھیجنے کے لیے کہا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ یہ تصاویر صرف رضا کی اجازت سے ہی برو کو دکھائیں گے۔
گولی انتظار کرتی رہی لیکن اسے مزید کچھ معلوم نہیں ہوا۔ اور پھر ایک دن ریڈ کراس کی طرف سے اسے انتہائی اہم خط ملا جس میں لکھا تھا کہ رضا اور برو غیر قانونی طور پر برطانیہ میں داخل ہو چکے ہیں لیکن وہاں پر ان کا پتہ کسی کو نہیں معلوم۔ہم نے گولی سے رضا کے کزنوں اور دیگر رشتہ داروں کے بارے میں ملنے والی معلومات کی مدد سے رضا اور برو کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پھر ہم نے سوشل میڈیا کا رخ کیا۔کالے میں گرفتاری کے بعد سے راب کے سوشل میڈیا پر بہت زیادہ فالوور ہو گئے تھے۔ اس نے فیس بک پر رضا کے نام ایک پیغام پوسٹ کیا۔اس پیغام میں ہالی ووڈ کی فلم کے امکان کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ رضا کو اس سے ہزاروں پاؤنڈ مل سکتے ہیں۔پھر ہمیں ایک شخص کا پیغام ملا جو اپنے آپ کو رضا کا رشتہ دار کہہ رہا تھا اور پیسوں کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ ہم نے اسے تھوڑی بہت معلومات دیں۔ چند گھنٹوں کے بعد راب کو ایک نامعلوم فون نمبر سے میسج آیا۔ راب نے فوراً جواب دیا۔
کچھ سیکنڈ کے بعد جواب آیا ‘ہمیں بات کرنی چاہیے۔’ راب نے جواب دیا کیوں نہیں۔ ٹیکسٹ میسج کا تبادلہ جاری رہا اور پھر جواب آیا کہ ‘برطانیہ میں ملیں گے۔’
راب کے پوچھنے پر اس نے کہا کہ وہ برطانیہ میں نہیں ہے۔ راب نے اسے لکھا کہ اگر وہ ملے گا نہیں تو وہ اس کی مدد نہیں کر سکتا۔ کچھ منٹ کی خاموشی کے بعد جواب آیا کہ اسے مدد کی ضرورت نہیں۔ہم جاننا چاہتے تھے کہ اگر گولی کی کہانی سچ ہے تو اس نے راب سے جھوٹ کیوں بولا اور وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کیوں اس طرح ایران سے نکلا۔ ہمیں معلوم تھا کہ اگر وہ غلط ہے تو وہ ہم سے دور جانے کے لیے کوئی ایسا قدم بھی اٹھا سکتا ہے کر سکتا ہے جو اس کے اور اس کی بیٹی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ہم نے کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک وکیل، این میری ہچنسن، سے رابطہ کیا جس نے کہا کہ وہ ہماری مدد کے لیے وزارت داخلہ سے رابط کرے گی اور انہیں وہ سارے نام بتائے گی جو گولی کے خیال میں رضا استعمال کر سکتا ہے۔ گولی کے پاس ایران میں بنے مختلف شناختی کارڈوں کی سیریز تھی جو اس نے وکیل کے حوالے کر دیے۔این میری حکومتی فنڈ سے قائم لاپتہ بچوں کو والدین سے ملوانے والے ادارے ‘ری یونائٹ انٹرنیشنل چائلڈ ابڈکشن سنٹر’(Reunite International Child Abduction Centre) کی سربراہ تھی۔ وہ اس بات پر پریشان تھیں کہ یورپ میں بڑی تعداد میں بغیر بیویوں کے آنے والے ایسے مردوں کو پناہ ملی تھی جن کے ساتھ ایک بچہ تھا۔ انھیں تشویش تھی کہ بہت سے مردوں نے شاید بچوں کو یورپ میں داخلے کے لیے پاسپورٹ کے طور پر استعمال کیا تھا۔کئی ہفتے کی کوشش کے بعد ہمیں ان سے پیغام ملا کہ ان کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ اسی دوران ایک بار پھر نامعلوم نمبر سے ٹیکسٹ موصول ہونا شروع ہو گئے۔ رضا نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی لیکن اس کا مطالبہ ہے کہ یہ شہر سے باہر کسی شاپنگ سنٹر میں ہونی چاہیے اور وہ بھی رات کے وقت۔ اس نے سکاٹ لینڈ کا ایک ایڈریس دیا۔ہمیں اس کا لہجہ ٹھیک نہیں لگا۔ ہم نے رضا سے دن کے وقت ملنے پر اصرار کیا۔ خیر اتفاق رائے ہو گیا اور ملاقات طے پا گئی۔ہم نے سٹاربکس میں ملنے کا فیصلہ کیا۔ رضا نروس تھا اور شیشے سے اندر دیکھ رہا تھا۔ اس نے بیس بال کیپ چہرے پر جھکائی ہوئی تھی۔ اس نے ایک دو چکر لگائے پھر مسکراتا ہوا اندر داخل ہو گیا اور سیدھا راب کی طرف گیا۔رضا نے بتایا کہ وہ لیڈز میں رہنے کے لیے جگہ تلاش کر رہا ہے اور اسے برطانیہ میں رہنے کی اجازت مل گئی ہے۔ اس کے اپنے الفاظ میں اس نے امیگریشن حکام کو ‘کاٹ کر تفصیل’ بتائی ہے۔پھر ہم نے کچھ ہی فاصلے پر ایک چھوٹی بچی کو کھڑے ہوئے دیکھا۔ ایک جانا پہچانا چہرہ۔ وہ اب سات برس کی ہو چکی تھی اور اس چار سالہ بچی سے بہت بدل چکی تھی جو کالے میں راب کے پیچھے بھاگتی رہتی تھی۔وہ راب کے قریب آئی اور راب کو پہچانے کی کوشش کی۔ رضا نے اسے قریب آنے کے لیے کہا اور بتایا کہ وہ اپنی مادری زبان بھول چکی ہے اور اپنی نئی زندگی میں اچھی طرح سیٹ ہو گئی ہے۔ وہ رضا سے بہتر انگریزی بول سکتی ہے اور راب کی طرف سے اس کے لہجے کے بارے میں مذاق کرنے پر ہنسنے لگی۔وہ ایک پیاری اور باتونی بچی ہے اور برطانیہ میں اپنی زندگی، سکول، سکول میں ملنے والے انعامات اور دوستوں کے بارے میں بتانے کے لیے بے چین۔بالآخر ملاقات ختم ہو گئی۔ ہم رضا اور برو کو ہجوم میں گم ہوتے دیکھتے رہے۔ بظاہر رضا کی طرف سے ملاقات کی وجہ صرف ہالی ووڈ کی فلم سے پیسے ملنے کی امید تھی۔اس وقت ہمیں لگا کہ اس کو چیلنج کرنے کا غلط نتیجہ نکل سکتا ہے۔ ہم نے محسوس کیا کہ ہمیں اس کے حالات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنی چاہیں تاکہ گولی اور برو کو ملوانے کی کوئی صورت نکل سکے۔ان کے جانے سے پہلے میں نے چھپ کر برو کی ماں کو دکھانے کے لیے اس کی کچھ تصاویر اتار لیں۔ یہ تین برسوں میں پہلی تصاویر تھیں جو گولی نے دیکھیں۔ اس سے پہلے اس نے بی بی سی کی رپورٹ میں برو کی تصویر دیکھی تھی۔گولی کو جب ہم نے فون پر اس کی بیٹی کے بارے میں بتایا تو وہ جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور رونے لگی۔ اس نے ہم سے اس کی بیٹی کو گلے لگا کر پیار کرنے کے لیے کہا اور درخواست کی ہم اس کی برو سے ملاقات کروا دیں۔یہاں بہت کچھ داؤ پر لگا تھا اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ رضا کو کوئی شک ہو اور وہ پھر سے غائب ہو جائے۔
یہ 19 دسمبر کی رات تھی، میں اندھیرے میں اپنی گاڑی میں بیٹھی ایک کھلونے میں ٹریکنگ کا آلہ فِٹ کر رہی تھی۔راب نے رضا سے ایک اور ملاقات کے لیے ٹیکسٹ میسج بھیجا اور یہ اس وقت کے لیے رکھی جب برو سکول میں ہو گی۔ ہمیں معلوم تھا کہ رضا ہالی وڈ کے پیسوں کے بارے میں سوچے گا لیکن اس ملاقات میں ایک ٹیڈی بیئر سمیت صرف کچھ تحائف ہی ملیں گے۔ اس ٹیڈی بیئر کی ایک سائیڈ کھلی تھی اور اس میں کچھ رکھ کر بند کیا جا سکتا تھا۔اگر رضا وہ ٹیڈی بیئر قبول کر لیتا ہے تو ہم اس ٹریک کر سکیں گے اور ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کہاں رہتا ہے۔ ہم نے طے کیا کہ جیسے ہی ہمیں ان کا پتہ معلوم ہو گا ہم ٹریکر کو بند کر دیں گے اور کسی بھی صورت میں برو کی سکول سے واپسی سے پہلے اسے بند کر دیا جائے گا۔ایک پرائیویٹ جاسوس نے، جو ہماری مدد کر رہا تھا، تجویز کیا کہ ایک شخص پیدل بھی رضا کا پیچھا کرے۔ راب کے دوست کالن نے ہماری مدد کرنے کی حامی بھری۔رضا سے دوسری ملاقات بھی شہر سے باہر ایک شاپنگ سنٹر میں ہوئی۔ میں سڑک سے پار ایک دکان میں بیٹھی سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ راب کافی شاپ میں رضا کا انتظار کرنے لگا۔ کالن بھی اس سے ذرا دور بیٹھ گیا۔رضا کو آنے میں کچھ دیر ہو گئی۔ اس نے کچھ منٹ دکان کے باہر ادھر ادھر چکر لگائے پھر مسکراتا ہوا اندر آ گیا۔ اس نے ٹیڈی بیئر کا تحفہ ہاتھ میں لے لیا۔ وہ افغانستان میں اپنی زنگی کے بارے میں بتاتا رہا اور اس جنگ کے بارے میں بھی جس سے وہ دعویٰ کرتا تھا کہ وہ بھاگ کر آیا ہے۔ 20 منٹ کے بعد وہ جانے کے لیے کھڑا ہو گیا۔ ٹیڈی بیئر اس کے پاس تھا اور کالن اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ہم واپس گاڑی میں پہنچے جہاں لگا ٹریکر ہر بیس سیکنڈ بعد اپڈیٹ ہو رہا تھا۔ کولن رضا کا بسوں سے اترتے چڑھتے پیچھا کرتے ہوئے ہمیں فون کر رہا تھا۔ لیکن پھر ایک گھبرایا ہوا کولن فون کرتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ رضا کو اس کے بارے میں پتا چل گیا ہے۔ وہ گھبرا گیا ہے اور رضا سے دوری بڑھانا چاہتا ہے۔ ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں، یعنی اب ہمیں صرف ٹریکر کا سہارا ہے۔ مگر ٹریکر اچانک کام کرنا بند کر دیتا ہے۔بیس منٹ گزر جاتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا خدشہ ہے کہ رضا ٹیڈی بئیر کو بس میں ہی نہ چھوڑ دے۔ کولن واپس گاڑی تک پہنچتا ہے۔ رضا کے سفر کی جو تفصیل وہ ہمیں بتاتا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ راستہ پلٹ رہا ہے۔ کہیں وہ ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہا؟ہم سب پریشان اور ناامید ہیں۔ رضا کی دوبارہ ملنے کا امکان کم ہے اور ہمارے پاس دوسرا کوئی پلان بھی نہیں۔
جو جاسوس ہمارے ساتھ کام کر رہا تھا وہ کہتا ہے کہ وہ ایپ پر نظر آنے والی آخری لوکیشن پر جا کر معائنہ کرے گا۔ ہم انتظار کرتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے وقت تھم سا گیا ہو۔پھر ایک ساتھ بہت کچھ ہوتا ہے۔ ایپ دوبارہ کام کرنے لگتی ہے۔ ٹیڈی بئیر پھر سے کہیں جا رہا ہے اور جاسوس اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ شہر کے مرکز سے باہر جا رہا ہے۔ اور پھر وہ لمحہ جس کا ہم سب کو انتظار تھا۔ جاسوس کا فون آتا ہے۔ وہ رہائشی فلیٹس کی ایک عمارت کے باہر کھڑا ہے اور اس نے رضا کو چند لمحے پہلے اندر جاتے دیکھا ہے۔ وہ ہمیں مشورہ دیتا ہے کہ ہم اس بات کے شواہد تلاش کریں کہ رضا اور برو واقعی اسی عمارت میں رہتے ہیں۔ ہم باہر پڑے کچرے کے تھیلوں میں دیکھنا شروع کرتے ہیں۔ اس میں کافی وقت لگتا ہے لیکن آخر کار ہمیں ایک بچے کا بس پاس اور ایک سکول لیبل ملتا ہے جس پر برو کا نام لکھا ہے۔ہم گولی کو فون کرتے ہیں۔ ہمیں ان کی بچی مل گئی ہے۔
اب ہم معاملے کو حکام کے حوالے کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہونے والی تفتیش سے پتا چلتا ہے کہ رضا نے برطانیہ میں داخل ہونے کے لیے ویسی ہی کہانی گھڑی تھی جیسا کہ فرانس میں۔ جو ان اطلاعات اور دستاویزات کے بالکل برعکس تھی جو گولی نے فراہم کی تھیں۔پناہ کی درخواست کے دوران کیے گئے دعووں کی تفتیش شروع کی جاتی ہے۔تفتیش کے دوران ہم برو کا حال جاننے اور رضا سے ان کا موقف سننے کے لیے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رضا نے اب تک ہمیں جواب نہیں دیا ہے۔اب ہم کہانی کے اس حصے تک پہنچ چکے ہیں جہاں ایک چھوٹی بچی کی نجی تفصیلات کے تحفظ کی وجہ سے ہم آپ کو باقی کہانی اتنی تفصیل سے نہیں بتا سکتے۔
گولی کو سکوٹش نیشنل پارٹی کے ایک ایم پی، اینگس میکنیل سے مدد ملتی ہے، جنہیں پناہ گزینوں کے مسائل میں خاص دلچسپی ہے وہ گولی کو برو تک رسائی دلانے کے لیے رضا کے ساتھ غیر رسمی بات چیت کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔میکنیل سے بات کرنے کے بعد گولی کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ رضا نے جو کچھ بھی کیا ہو برو کی آدھی سے زیادہ زندگی کے لیے اس کے والدین میں سے صرف رضا ہی اس کے ساتھ تھا۔
اینگس میکنیل کہتے ہیں کہ 'ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ دونوں بچیوں کے لیے بہترین کیا ہوگا۔ دونوں کو اپنے دونوں والدین کو جاننے کا موقع ملنا چاہیے۔'
آگے چل کر کیا ہوگا اس کا فیصلہ حکام کے ہاتھ میں ہے۔ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ گولی کو ڈنمارک میں پناہ مل چکی ہے۔ اگر وہ چاہے بھی تو وہ اور اس کی چھوٹی بیٹی برطانیہ میں قیام اختیار نہیں کر سکتے۔کرسمس آنے کو ہے اور گولی اور باران تحائف سے بھرے بیگ کے ساتھ لِورپول کے ہوائی اڈے پہنچے ہیں۔ میں اور راب انہیں لینے جاتے ہیں اور فوراً ہی باران ہمیں اپنا نیا سوم سوٹ دکھاتی ہے۔ گولی نے بالکل ویسا ہی دوسرا سوم سوٹ اس کی بہن کے لیے بھی خریدا ہے، حالانکہ وہ یہ بھی کہتی ہے کہ اسے سائز کا اندازہ نہیں تھا۔ برو تین سال کی تھی جب اسے اٹھایا گیا تھا، اب وہ آٹھ سال ہے۔
گولی کے فون پر مسلسل پیغامات آ رہے ہیں، ترکی میں اس کی ماں، اور ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے کارکن مارٹن کی طرف سے۔ وہ دعا کر رہے ہیں کہ سب ٹھیک ہو۔
جب ہم ملاقات کے لیے طے مقام تک پہنچتے ہیں تو ہمیں برو اپنے والد کے ساتھ چلتی نظر آتی ہے۔ اس نے بھی اپنی بہن کے لیے تحفے اٹھا رکھے ہیں۔ اتنا وقت گزر چکا ہے کہ گولی کو اپنی بیٹی کو پہچاننے میں مشکل ہو رہی ہے، اور وہ رو پڑتی ہے۔ اسے یقین نہیں آ رہا کہ وقت آگیا ہے۔ میں ذرا دور کھڑی رہتی ہوں، تاکہ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ وقت مل سکے۔
گولی نے خود کو اس دن کے لیے تیار کیا ہے۔ وہ جانتی ہے کہ یہ آسان نہیں ہوگا۔
وہ برو کے پاس جاتے ہوئے نروس تھی اور اس نے محسوس کیا کہ ننھی بچی بھی اس کو قریب آتے ہوئے دیکھ کر کنفیوژ تھی۔ اس نے رک کر نیچے جھکتے ہوئے اپنی بیٹی کو اپنا نام بتایا اور بتایا کہ وہ کون ہے۔بارن سے تو بالکل ضبط نہ ہوا اور اس کی خوشی قابو میں نہیں تھی۔ وہ دوڑ کر اپنی بڑی بہن سے لپٹ گئی۔ وہ ہمیشہ اپنی بڑی بہن کو گلے لگانے کی خواہش کا ذکر کرتی تھی اور اب اس کا خواب سچ ہو گیا تھا۔ اس نے برو کو اپنا نیا سومنگ سوٹ دکھایا اور کہنے لگی کہ وہ دونوں ایک جیسے سوٹ پہن کر تیرنے جائیں گی۔
گولی نے اپنی بیٹی برو سے ملاقات کے لیے انگریزی سیکھنا شروع کر دی تھی۔ ان ابتدائی لمحات تینوں ایک ساتھ بول رہے تھے لیکن باران کی آواز سب سے بلند تھی۔
کچھ ہی دیر میں تینوں ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل گئیں، ایک دوسرے کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگیں۔ برو اپنے ماں کے بالوں کے گچھے بنا رہی تھی۔اس سب کے دوران گولی نے اپنی بیٹیوں کو کچھ دیر کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ اکیلے چھوڑ دیا۔ اس نے کہا کہ اسے کچھ دیر کے لیے تنہائی چاہیے، اس کے لیے ان چند منٹوں میں جو ہوا وہ بہت طاقتور تھا۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ برو پر زیادہ دباؤ پڑے۔دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد جب وہ گاڑی میں آئی تو بہت خوش تھی۔ وہ بار بار مجھے تصویریں اور وڈیو دیکھاتی رہی جو اس نے اس دوران بنائی تھیں جن میں اس کی دونوں بیٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ کھیل رہی تھیں۔ مجھے دکھانے سے پہلے وہ یہ سب کچھ اپنی ماں، بہن اور مارٹن کو بھیج چکی تھی۔
اس نے کہا کہ اسے محسوس ہوا جیسے برو کو اس کے بارے میں کچھ یاد نہیں تھا اور یہ اس کے لیے سب سے تکلیف دہ بات تھی۔ برو کو ماں کے بارے میں صرف یہ پتہ تھا ‘میری ماں زندہ نہیں اور میری کوئی ماں نہیں۔’
گولی نے بتایا کہ اس کو پہلی بار دیکھنے کے احساس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ‘اس نے میرے قریب آنے کی کوشش کی، وہ بڑی ہو چکی ہے، بہت خوبصورت اور خودمختار ہے، اس لیے میں زیادہ اداس نہیں، میں کچھ معاف کر سکتی ہوں۔’
گولی نے بہت طویل فاصلہ طے کیا تھا۔ وہ ایران میں اپنی زندگی کو ایک جیل سے تعبیر کرتی ہے جہاں اس کے بس میں کچھ نہیں تھا اور جہاں اس کی سب سے بڑی خوشی کو اس سے چھین لیا گیا تھا۔ وہ کہتی ہے کہ وہ بہت بدل چکی ہے۔‘مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے اندر اتنی طاقت ہے۔ اب میرے اندر جو عورت ہونے کا احساس ہے وہ بہت اچھا ہے۔ یہ بہت خوبصورت ہے۔ میں فیصلہ کر سکتی ہوں اور اپنے فیصلوں کی خود ذمہ دار ہوں۔’
گولی کے لیے سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ وہ رشتے جو کھو گئے تھے ان کو نئے سرے سے قائم کرنے کے لیے بہت وقت اور محنت درکار تھی۔‘میرا خواب اب اپنے بچوں کا خیال رکھنا ہے۔ ان کے ساتھ وہ تعلق بنانا ہے جو میں چاہتی ہوں۔ میں اسے وہ خوبصورت زندگی دے سکتی ہوں جو اس کا حق ہے۔راب کو رضا پر جھوٹ بولنے کی وجہ سے بہت غصہ تھا لیکن اب وہ اتنا ناراض نہیں۔ وہ رضا کو معاف کر سکتا ہے اور چاہتا ہے کہ گولی اور اس کی بیٹی برو کے درمیان نئے سرے سے رشتہ قائم ہو جائے۔
راب نے وہ کر لیا جو وہ کرنا چاہتا تھا، یعنی پناہ گزینوں کے بحران میں اپنی حد تک ایک اچھا کردار۔ آخر میں یہ کہ پناہ گزینوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے جتنا اچھا نظام بھی وضع کیا جائے حکام کبھی بھی ہر کہانی کی طے تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہنگامے اور شور میں سچ آسانی سے گم ہو سکتا ہے۔٭٭٭

بشکریہ : (بشکریہ بی بی سی ڈاٹ کام ۷ ، اپریل ۲۰۲۰)