امیر تیمور ، امام بخاری اور خواجہ نقشبند کے دیس میں ؍ قسط ۴

مصنف : صاحبزادہ ڈاکٹر انوار احمد بُگوی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : اپریل 2020

    مزارکے نزدیک ایک چھوٹا سا چبوترہ ہے جس کے چار در اور چار ستونوں پرپر چار چھوٹے چھوٹے نیلے گنبد ہیں۔ دروں کے اوپر نیلی ٹائیلز اورپھول بنے ہوئے ہیں۔اس تعمیر میں چھت کے نیچے زمین سے بلندفرش پرایک گڑھا ہے اور گڑھے میں پتھر میں تراشیدہ بڑاساپیالہ ہے ۔اس میں پانی بھرا جاتا تھا جس کو یہاں رہنے والے یاآنے والے استعمال میں لاتے ہوں گے شاید برکت کے لئے؟ اب پیالہ خالی ہے اور چبوترے کے باہر کچھ نہیں لکھا ہوا۔مزار کے نزدیک ایک حوض ہے جس کا پانی پرانا ہوکر کائی سے سبزہوچکا ہے۔حفاظت کے لئے کناروں پر سٹیل کے پائپ لگے ہوئے ہیں۔مزار والے دالان میں ایک تو زائرین کے بیٹھنے کے لئے سائڈوں پر بنچ لگے ہوئے ہیں برآمدوں میں بھی بنچ ہیں شایدتلاوت کے لئے ؟اُن برآمدوں کی چھتوں پرمختلف رنگوں اور ڈیزائنوں کے خانے بنے ہیں اوربرآمدے کی چھت کے مختلف حصوں میں چھوٹے چھوٹے خوبصورت آرائشی فانوس آویزاں ہیں۔مزار کے ساتھ دودرخت ہیں ایک تو شکل میں بیری جیسا ہے اوربہت پرانا ہے ، دوسرا تازہ اور کوئی پھلدار ہے۔مزار کے ایک ساتھ ایک علم جیسا پول ہے جس کے اوپرصراحی نما نشان بنا ہواہے جیسے سرمہ دانی ہو۔پول کے ساتھ ذرا نیچے ایک تکونہ جھنڈاہے اورساتھ بالوں کا گچھا لٹکا ہواہے میوزیم میں کاٹن کا ایک کھلا لمبا سا چغہ تھا جس پر ایک طرف بِسمِ اللہ قُل یَاعِبادُ الدین اسرفو ،سورۃوالعصرO اورکوئی سورت لکھی ہوئی ہے۔معلوم نہیں کہ قرآنی آیات سے مزین چغہ زیب تن بھی کیاجاتا ہوگا کیونکہ عام طورپر قرآن کی آیات کا ایسااستعمال بے ادبی میں شمارہوتاہے؟
تصوف پر مسلمانوں کے ایک مکتب فکر کے اثرات نہایت قدیم اورگہرے ہیں۔اس عجمی آمیزش کی وجہ وہ روایات ہیں جوایک خاندان کو نسب کی بنیاد پر فضیلت اوراہمیت دینے کے لئے اختراع کی گئی ہیں،ان روایات کامنفی پہلو دین کے اصل خادموں کی قدروقیمت کو گھٹانا اورخاص قسم کے مذہبی مزعومات کو بڑھانا تھا۔چنانچہ تمام تر پرانے سلسلہ ہائے تصوف کی بنیاد اورا بتداء سیّدنا علی المرتضیٰ ؓ کوقرار دیاجاتاہے جیسے رسالتِ مآ بؐ کاسارا فیضان ایک فرد یا چند افراد کے لئے تھا۔خواجہ بہاؤالدین نقشبندؒ تعلق کے حوالے سے نقشبندی طریقہ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ سے ابتدا کرتاہے۔یوں انہوں نے واضح کیا کہ اگرروحانی سلسلہ جاری ہوسکتا ہے توپھرہرصحابیؓ رسولﷺ کی ہدایت کا ستارا ہے،اس کی اقتدا میں اللہ کی رضا اور سُنتِ رسولؐ کوحاصل کیا جائے ۔صوفی میوزیم دیکھ کر اولین صوفیاکی سادگی، ہم عصردنیا سے بے رغبتی، ضروریات وقت سے بے نفسی،ہاتھ سے رزق حلال کی محنت ،دنیاداروں سے دوری،کتاب سے محبت اوراُن کے بہت سادہ مشاغل کااندازہ ہوا وہ سارادن ایک حجرے میں بیٹھ کر حلقہ مریدین کے قلوب پر چوٹیں نہیں لگاتے تھے۔زندہ رہنے کے لئے اپنے نبیؐ اور اس کے صحابہؓ کے طریقے پرجدوجہدکرتے تھے یعنی ان کے ہاتھ محنت شاقہ کے لئے اور دل وجان اپنے مالک کی رضا اورخوشنودی کے لئے صرف ہوئے تھے۔سابقہ دور کا ایک بڑا ہال کمرہ جو پہلے مراقبے اورباطنی حرکات کے لئے استعمال ہوتاتھااب وہ خانہ خداہے۔یہاں پر ایک تنہا مینار بھی ہے اس پر کچھ لکھاہوانہیں تھا،اندر جانے کا راستہ بھی نہ تھا۔شاید یہ مینار مسجد کے لئے بنایا گیاہو؟ اس حصے کے پیچھے پارک اورسبز پلاٹ ہیں۔ایک تالاب ہے جس میں بطخیں تیر رہی تھیں۔آخر میں ایک مدرسہ ہے جہاں طلبہ غالباً قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل کرتے ہوں گے۔تصوف کی تعلیم ممکن نظر نہیں آتی کیونکہ پاکستان کی خانقاہوں میں بھی ایسا کوئی انتظام نہیں ہے وہاں قرآن وحدیث کا درس تونہیں ہوتا البتہ کہیں مثنوی مولوی روم کادرس ہوتا ہوگا یا فتوحات مکیہ کامطالعہ اگر کوئی اب عربی فارسی شناس زندہ ہے تو! مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم کی خانقاہ تھانہ بھون میں یادپڑتاہے سائلوں اور شائقوں کے لئے تصوف کی تعلیم کا خاص بندوبست تھا ۔اُن کے معتقد گھر بار چھوڑ کرآتے اور ایک متعین مدت کے لئے وہاں رہ کر سلوک کی منزلیں طے کرتے تھے۔ مدرسہ کے دروازہ تک گیا لوٹتے ہوئے ایک سیاہ ریش،عبا پہنے اور سرپرکلاہ پوش ایک مولوی صاحب نظر آئے ، ان سے مصافحہ ہوا اوربس۔بہت سرسبز اور خوبصورت ماحول سے نکلتے ہوئے اس راستے تک پہنچے جہاں سے داخل ہوتے تھے ۔یہاں بائیں طرف مزار کاراستہ ہے دائیں طرف ایک اورسیاہ ریش ،لمبا فرغل اورکلاہ پوش صاحب بیٹھے تھے۔یہ اُن زائرین کو جنہیں قرآن پڑھنا نہیں آتا تھا اپنے خوبصورت لہجے میں آیات سنا رہے تھے۔ان کے سامنے روٹیوں کاڈھیرتھا۔وہ زائرین کے لئے دعا بھی کرتے تھے اوراُن کوتبرک کے طور پرروٹی کا ٹکڑا بھی دیتے تھے۔جواباً زائرین ایک چھابے میں سکے یا کرنسی ڈال دیتے تھے۔کسی زائر کو نکلتے وقت اس حال میں نہیں دیکھا کہ وہ مزار یا قرآن کو پشت یعنی پیٹھ کرنے سے بچ رہا ہو یاادب کے ساتھ مزار کی طرف سرجھکا کر کھڑاہو۔یہاں پرمیرعرب مدرسہ نئی عمارت میں قائم کیاگیاہے۔
ازبکستان میں جانے پہچانے آثار واماکن کے ساتھ اسلام کامضبوط اور ازلی رشتہ تو ہے ہی،پاکستان کے نام کی "تان" وسطی ایشیا کے تمام ملکوں کی"تان" کے ساتھ ہم آہنگ اور ہم وزن ہے۔چودھری رحمت علی مرحوم نے انہی ترک یا تاتاریوں کی لمبی تانوں سے ایک تان برصغیر کے مسلمانوں کے لئے منتخب کی جو آج22کروڑ انسانوں کا مسکن ہے۔تہذیب و ثقافت میں،اقدار واقوال میں اشخاص اورافکار مماثلت کے ساتھ۔
مغل سلطنت کا بانی ظہیر الدین بابر ازبکستان کے شہر فرغانہ کارہنے والاتھا۔گو دہلی فتح کرنے کے بعد وہ واپس ترکستان نہیں گیا لیکن وہ اپنے وطن مالوف کو نہیں بھولا۔تزک بابری میں اس کا ذکر کرتا رہتا ہے۔ازبک بابر کا سرسری ذکرکرتے ہیں کیونکہ اس نے وطن میں کوئی یادگارنہیں چھوڑی۔اس کے برعکس امیر تیمور نے اس وقت کی جانی پہچانی دنیا کاایک تہائی چھان مارامگر ہربار واپس تاشقند لوٹااوراپنی لوٹ مار سے اپنے وطن میں تعمیروترقی کے دریا بہادئیے،علم وہنر کے معجزے دکھا دئیے ۔ دینیات،حدیث،فقہ،ریاضی،جغرافیہ،فلکیا تاریخ،طب،مصوری،شاعری،علم و ادب ، پارچہ بافی ،قالین بافی،کاغذ سازی ، مساجد ،مقابر،مینار اوردیگر یادگارعمارات غرض مختلف علوم فنون اورآثار وتعمیرات میں ازبکستان کومالامال کردیا۔
اسلام کی تاریخ میں بنواُمیہ کادور مقتدر اورزبردست اہمیت کاحامل ہے۔اکثر مسلمان فرقوں کے تعصب اور بے تحقیق پراپیگنڈے کے باعث دور بنواُمیہ میں اسلام اورمسلمانوں کی خدمات کے زریں کارنامے آنکھوں سے اوجھل کردئیے گئے ہیں۔بنواُمیہ کے خلیفہ ولید بن عبد المالکؒ 715 - 705)ع)کے مختلف جرنیلوں نے تین براعظموں میں شاندار فتوحات حاصل کیں۔
Oمسلمہ بن المالکؒ(ایشیائے کوچک قسطنیطیہ تک)O مُوسیٰ بن نصیرؒ (افریقہ بحراوقیانوس تک O طارق بن زیادؒ (سپین فرانس تک)O قتیبہ بن مسلمؒ باہلی حاکم خراساں(سمرقند سے کاشغر تک)Oمحمد بن قاسمؒ ثقفی(شیراز سے سندھ ، ملتان تک)
پہلے بخارا اوراب سمر قند کی بڑھتی ہوئی سردی میں شدید سرما کی نوید ہے۔بقول گائڈ عزیز کل سے سردیوں کاسیزن شروع ہونے والا ہے۔تب سیاحوں کی آمد ختم ہوجائے گی پھر ہفتے میں اس کے ٹور کا ایک آدھ پروگرام ہوگا۔اس کی باتوں سے اندازہ ہوتاہے کہ اس کاشمار ازبکستان کے اس طبقے سے ہے جو سوویت روس کے احسانات کا مرہون ہے۔سرخوں نے عام لوگوں کے لئے شہرشہر سستے مکان بنائے جو ایک جیسے قطار اندرقطار زیراستعمال ہیں ۔ اس دور میں فیکٹریاں اورسکول بنے۔ سارے علاقے میں یکساں نظام تعلیم رائج ہوا۔روسی رسم الحظ کے ساتھ ازبک رابطے کی اورروسی ذریعہ تعلیم کی زبان بنی۔لیکن اس خوشحالی کی قیمت دین کی تعلیمات ، قرآن کی تلاوت اورشخصی اورمذہبی آزادی تھی۔آج ازبک اسلام سے دورہیں مگر اسلام ان سے دور نہیں،اُن کی تہذیب اسلامی تمدن،حسن اخلاق اورشائستگی سے مزین ہے۔ہر آثار پرقرآن کے ازبک ، روسی اورتاجک ترجمے اورعربی نسخے موجود ہیں۔لوگوں میں اسلام کی ایک طلب ہے ، قرآن کی پیاس ہے ،حق کی تلاش ہے جوفضا میں محسوس کی جاسکتی ہے۔گویازمین زرخیز ہے۔دیکھیں کون مبلغ جماعت وہاں خیر کا بیج ڈالتی ہے؟صوفی اورہردو تبلیغی (سبز اوربستر)دونوں سے ہٹ کر ازبکستان کی شرح خواندگی 99فیصد ہے۔یہ سرخوں کاکمال ہے کہ انہوں نے اس علمی اورقابل زمین کو تعلیم سے گوہرقابل بنادیا۔
سمرقند:
واپسی افراسیاب بلٹ ٹرین سے ہوئی۔ گاڑی 3:50 سہ پہرپرچلی اور 5:20منٹ شام کوسمر قند پہنچی۔ سفر آرام سے کٹا۔سامان مجتبیٰ نے لادا اورٹرالی کو کشاں کشاں ٹیکسی سٹینڈ تک لے گیا۔ رات کے سائے اور خنکی بڑھ رہے تھے۔ امیر سفر کا حسن انتظام ،لے جانے والا ٹیکسی ڈرائیور حُسین سٹینڈ پر منتظر تھا۔طویل مسافت کے بعد جگمگاتی سڑکوں اورروشن چوکوں سے گذرتے ائیرپورٹ کے نزدیک واقع ریگل پیلس ہوٹل پرلے آیا۔پہلی نظر میں خاموشی اورویرانی نظر آئی۔رات کے کھانیکاانتظام بھی نہ تھا۔بعض ضروریات کے لئے یاددلاناپڑا لیکن بعدمیں ریگل نے تمام بنیادی آسائشیں بہم پہنچائیں۔سمر قند کی پہلی رات بھی بڑی یادگار تھی ۔ ریلوے سٹیشن سے آتے ہوئے رات ہوگئی تھی اورآسمان بادلوں سے گِھر چکا تھا ۔ تھوڑی دیر میں ہلکی ہلکی بوندیں سامنے ونڈ سکرین پر گرنے لگیں۔کمرے میں پہنچ کر جب ریلیکس ہوئے اوربالکونی کا دروازہ کھول کر جھانکا تو حیرت اورخوشی کی کوئی انتہانہ رہی۔فضا سے برف کے ننھے ننھے گالے چھوٹے چھوٹے پتنگوں کی مانند، سفید پھولوں کی پتیوں کی طرح زمین پر گر رہے تھے۔سڑک کنارے لیمپ کی روشنی میں بہت نازک سی پھوارپڑرہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے گرین بیلٹ اور ہوٹل کا سبزہ زار سفید ہوگئے۔
سمرقند ازبکستان کادوسرابڑا شہر ہے جسکی آبادی سواپانچ لاکھ ہے۔ملک کے 12 ریجن میں سے سمرقند ایک ریجن ہے۔ سڑکوں پر،چوکوں پرپاکستان کی طرح انسانوں کاہجوم،شورنظر نہیں آتا۔ایک ٹھہراؤ ہے۔کپاس کا پھول ازبکستان کے قومی نشانوں میں شامل ہے۔یہ گویا یہاں کا سفید سونا ہے۔تیل اورگیس کی فراوانی ہے شہر کو زرفشاں دریا سیراب کرتاہے۔اس نام میں کتنی خوبصورتی ہے! برف سال میں کبھی کبھار ہوتی ہے۔اس سال زیادہ برف کی توقع ہے۔90فیصد آبادی سُنی اور 5فیصد شیعہ ہے۔باقی روسی شمارکئے جاسکتے ہیں جن کے ساتھ مذہب کا خانہ خالی رہتاہے۔لوگ اسلامی مروت واخلاق، حجاب پردہ پرکاربند ہیں۔آوارہ جانور نظر نہیں آتے۔اکادکا پالتو کتے دکھائی دیئے مگر وہ زنجیر کے ساتھ اورگرم کپڑے پہنے ہوئے !ملک ہماری طرح کا اسلامی نہیں لیکن جمہوری اورمسلمان ہے البتہ روسی تسلط نے اُسے مغربی بنادیا۔بھکاری نہ ہونے کے برابر ۔صفائی اور حُسن ترتیب قابلِ دید، سڑکوں پرتمام بورڈ اورنشانات اپنی زبانوں میں۔جگہ جگہ عملہ مقررہ یونیفارم میں۔ روزمرہ کے کاروبار میں خواتین جگہ جگہ نظر آئیں۔شاید یہ جدید دور کاتقاضا ہے کہ کمائی کے چکر میں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ بازاروں،دفتروں میں شریک ہوں سمرقند میں ہمارا مقامی گائڈ سار بوز (Sarboz)تھا۔وہ ایک متحرک اورمستعد نوجوان تھا جسے اس کی ماں نے پالا تھا۔وہ مزید پڑھنا چاہتاتھا۔بخارا اور سمر قند کی آبادی کا90فیصد تاجک ہے۔علی شیر نوائی یہاں کا مقبول اورمعروف شاعر ہے۔
امام بخاریؒ 
امام بخاریؒ کا مقبرہ شہر سے باہر کچھ فاصلہ پرہے۔مین روڈ سے اتر کر ایک بازار ہے جس کے دونوں طرف تحائف وغیرہ کی دکانیں تھیں۔امام بخاری کمپلیکس کے نزدیک مسجد کے تین گنبد نظر آتے ہیں۔ باہر سرو کے درخت اورسبز لان ہیں۔مین گیٹ پرخوبصورت محراب اوراس کے اوپر کوفی اور نسخ میں سفید قرآنی آیات نیلی ٹائیلوں پر۔ دروازہ پر لکڑی کا خوبصورت کام۔ٹکٹ خرید کرڈیوڑھی میں داخل ہوئے یہاں سخت سردہوا تھی۔سامنے ایک وسیع قطعہ ہے جس کے چاروں طرف عمارات ہیں۔اس قطعے میں ٹف ٹائیلز کے راستے ، روشیں،درخت،پودے اورگراسی پلاٹ ہیں۔خزاں کے باعث ماحول میں وہ تروتازگی نہ تھی جو بہار کے موسم میں یہاں ہوتی ہوگی۔درمیانی قطعے کوبڑی نفاست اورمہارت سے پُروقار اورسادہ بنایاگیا ہے مزار کے حصے میں تین طرف برآمدے ہیں مزار ایک مربع شکل عمارت میں ہے جس کے چاروں سمت محراب اور ان میں درہیں جن سے قبر نظر آتی ہے۔اوپر سبز گنبد ہے۔ رکاوٹوں کی وجہ سے قبر تک ہاتھ نہیں پہنچ سکتا۔ ہرمحراب کے اردگرد پانچ چھ قرآنی آیات انتہائی خوبصورت خط میں تحریر ہیں۔ بعض میں بیل بوٹے ہیں۔یہی انداز چاروں طرف کاہے۔کاریگری اس طرح کہ چاروں سمت کے نقش ونگار اورتحریروں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔کام اتنا خوش نظر اوردلکش کہ دیکھ کربھی جی نہیں بھرتا۔جیسے کاریگر نے اپنا دل یہاں رکھ دیاہے۔قبر ایک اونچے پلیٹ فارم پربنی ہوئی ہے۔قبر کے گنبد کے نیچے چھت پر اورچاروں دیواروں پر ہلکے نیلے،سنہری اوردوسری رنگوں کے امتزاج سے خوبصورت آیات قرآنی لکھی گئی اوربیل بوٹے نقش ونگار بنائے گئے ہیں۔یہ ایک عالی شان کمپلیکس ہے جس میں امام کامزار واقع ہے۔ اطراف میں ایک جانب جامع مسجد ہے اوردوسری طرف تدریسی،تعلیمی اورتحقیقی ادارہ ،شدید سردی کے باوجود سیاحوں کے مختلف گروہ مقبرے کے پاس آجا رہے تھے اوراُن کے گائڈ ان کو بتارہے تھے۔مزار کے اطراف اورپیچھے تین جانب برآمدے ہیں،دائیں برآمدے میں ایک صاحب تلاوت کررہے تھے اورغالباً عربی نہ جاننے والے زائر فاتحہ خوانی کاانتظارکررہے تھے۔
ابو عبداللہ محمد ابن اسماعیل البخاری 194ھجری810)عیسوی)میں ایک عالم دین کے گھر پیداہوئے۔والدہ بہت زیرک اورپارساخاتون تھیں۔انہوں نے اپنے بیٹے کوکبھی بغیروضو اپنا دودھ نہیں پلایا۔محمد نے قرآن کو حفظ کیا اورپھر موطاامام مالک کو 16سال کی عمر میں اپنے بھائی احمد اوروالدہ کے ساتھ حج کوچلے گئے۔محمد علم حدیث میں تخصص اورریسرچ کے لئے وہیں رک گئے اس وقت اقوال رسولؐ عام طورپرزبانی ازبر کیے جاتے تھے اورلکھائی اس خوف سے نہیں کی جاتی تھی کہ کہیں قرآن کے ساتھ نہ مل جائیں۔جعلی روایات کاآغاز زیادہ تر بنو عباس کے دور میں شروع ہواجب علویوں اورغیرعلویوں میں سیاسی کش مکش بھی جاری تھی اورنئی تہذیبوں کے افکار وعلوم بھی سامنے آرہے تھے۔صحیح احادیث کے جمع اور اُن کی تحقیق اورتوثیق کے لئے امام بخاریؒ نے مکہ ،مدینہ، طائف، جدہ، بصرہ ،کوفہ،مصر،خراساں،نیشاپور کاسفر کیاجہاں صحابہؓ اور تابعین کے شاگردوں کے اثرات موجود تھے۔امام بخاریؒ نے روایت پرزور دیاکہ صرف انہی احادیث کو قلم بند کیا جن میں راویوں کا سلسلہ اوران کی دیانت معلوم تھی۔چنانچہ ان کی تصانیف میں الجامع الصحیح اہم ترین ہے۔یہ انتخاب لاکھوں وضعی اور غیرمصدقہ روایات میں سے چناگیا ہے ۔ چالیس سال کے بعد امام بخاری ؒاپنے وطن بخارالوٹے اورمدرسے میں طلباکوپڑھانا شروع کیا۔256ھجری(870عیسوی) میں رمضان کے آخری روزے میں اُن کا انتقال ہوا۔ازبکستان حکومت نے 1997 ع میں امام کی1225ویں برسی منائی ۔ موجودہ خوبصورت اور عالیشان مقبرہ8ماہ کی قلیل مدت میں ازبک کاریگروں نے تعمیر کیاہے۔عالم اسلام میں صحیح بخاری مقبول ترین اوربڑی معتبر کتاب ہے جس پر احناف کے تمام فرقے اورفرقہ اہلحدیث متفق ہیں۔فقہ حنفی میں اکثر مسائل کا استنباط اور استخراج بخاری کی روایات پر ہے ۔یہ کتاب دینی مدارس کے نصاب کا اہم جزو ہے۔اب تک بخاری کی دوصد سے زائدشرحیں اورحاشیے لکھے جاچکے ہیں اورکئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکاہے۔
لنچ کا وقت نکلتاجارہا تھا Kagan کوجاتے ہوئے راستے میں ایک ریستوران آیا۔گائڈ عزیز کے مشورہ پر کھانے کاآرڈر دیا۔کھانے کے ہال میں باہر کی نسبت موسم زیادہ آرام دہ تھا۔عزیز نے اصرار کے باوجود صرف سموسے پر اکتفاکیا۔مہمانوں نے روٹی،سوپ جس میں گوشت کے ٹکڑ ے تھے، سیخ کباب اورازبک لیمن بلیک ٹی کے ساتھ کھانا کھا یا 
ازبکستان میں پڑول کا نرخ60سینٹ فی لیٹر ہے جو پاکستانی کرنسی میں قریباً 70 روپے فی لیٹر بنتاہے۔آج روز کے سات آٹھ گھنٹے کے سفرمیں گائڈ ہمارے ساتھ تھا۔نئی گاڑی، پڑول اورپرانی تقریر اس کی تھی،اس نے گاڑی میں سامان رکھنے ، نکلوانے اورسٹیشن تک لے جانے کے لئے خدمات فراہم کیں اور ہم سے 5,425/-روپے لئے۔کام اور وقت کے اعتبار سے محنت کایہ معاوضہ معقول لگتاہے۔
آثار حضرت دانیالؑ
ٹیکسی معمول کی بڑی سڑکوں سے گزرتی،چوراہے پارکرتی آخر ایک جگہ آ کر ٹھہری،اُترے توفضاسخت ،سرد اورخشک تھی۔اس کے سامنے ایک پہاڑی جیسے خشک ٹیلے تھے۔نزدیک پہنچ کر بہت ساری سیڑھیاں نظرآئیں جن کے اوپر چند تعمیرات تھیں،آغاز میں ایک بورڈ جس پر ازبک،انگریزی اورروسی زبانوں میں درج ذیل ہدایات درج تھیں:
May your visit be blessed by Allah!
پاکستان تومزارات کاملک ہے شہرشہر،محلے محلے،چوک چوک وطن کاہرحصہ عام قبرستانوں کے ساتھ خاص قبروں سے متصف ہے۔ ہماری قبریں چونکہ پکی ہوتی ہیں اس لئے قبرستان ہمیشہ قائم بلکہ آباد رہتے ہیں۔جہاں جانے پہچانے،گمان بلکہ بدگمان جیسے اِٹ شاہ،گھوڑے شاہ، مقابر مرجع عوام اورمرکز مناجات ہیں،محکمہ اوقاف نے کہیں کہیں چھپاکرزیارت قبورکی ہدایات لکھی ہیں مگر جوہدایات ازبکستان نے اپنے آثارپر واضح کی ہیں وہ صحیح اسلامی تصورہے۔زیارت قبور کا یہ اندازہی عبرت اورمغفرت کے لئے مناسب ہے۔ کیبن سے پہلے ٹکٹ لیا جہاں انگریزی سے نابلدخاتون بیٹھی تھی اور اس کے پاس کوئی معلوماتی بروشر بھی نہیں تھا۔کئی درجن سیڑھیاں چڑھنے کے بعد دامنِ کوہ میں ایک ہموار جگہ ہے جہاں دو برآمدے ہیں ، ایک برآمدے کے ساتھ لمبا ساکمرہ ہے اس کادروازہ کھلا ہے اندر ایک لمبی سے قبر ہے ۔ قبر کے اوپرسبزرنگ کاغلاف ہے جس کے بارڈر پر وہی نشان دھاگوں سے بناہواہے جوخواجہ نقشبند کے مزار کے ساتھ پول پر بناہواتھا۔چاند تارا اوراوپر ایک سرمہ دانی جیسا خاکہ ۔غلاف پر آیات قرآنی سنہری تاروں سے بنی ہوئی ہیں۔ا لظانین باِاللہ علیھم دائرۃ السوء وَ غَضَب اللہ عَلیھیمOقبر کے ساتھ بیٹھنے کے لئے چار پانچ کرسیاں بھی پڑی تھیں لیکن اندر جانے کاراستہ روکا ہواہے۔قبر بہت لمبی ہے،کئی میٹر،لیکن کسی آدم زاد کی اتنی لمبی قبر تو ہونہیں سکتی۔غالباً اسے نمایاں اورپُراثر بنانے کے لئے سائز میں مبالغہ کیاگیاہے۔ایک لمبی قبرمیں زیادہ اجسام اس طرح دفن نہیں کئے جاتے۔ویسے لمبی قبریں پاکستان میں بھی عام ہیں اوربعض کوصحابہؓ سے منسوب کی جاتاہے اور بعض کو بابا کے نام پر!۔روایت یہ ہے کہ اس قبر میں بنی اسرائیل کے ایک نبی دانیال ؑ کے جسم کے ساتھ مس کی ہوئی ریت ہے جس میں مزید ریت ملاکر ایک بڑے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ہے اور کہ یہ کام مقدس ریت کو بدمعاش چوروں سے بچانے کے لئے کیا گیا تھا ۔ چوری ہوبھی تو مقدس ریت کاکچھ حصہ باقی رہ جائے؟برآمدوں میں بینچ پڑے ہیں اورعطیات کے لئے سرکاری صندوق۔اس آثار کے باہر ایک پرانا درخت ہے جس کے بارے میں کئی کہانیاں ہیں۔ذرا پیچھے پہاڑ کے اندر ایک کمرہ یاغاربناہوا ہے جس کے باہردروازہ لگاہواہے، ہوسکتا ہے کہ یہ کسی بزرگ کی چلہ گاہ رہ چکاہو؟غالباً پائنیتی کی جانب باہر کی طرف ایک پول ہے جس پر وہی مخصوص نشان اور کسی جانور کے بالوں کا گچھہ لٹکاہواہے۔حضرت دانیالؑ کاعلاقہ اثر اور مزار تو کسی اورعلاقے میں ہے۔یہ تبرکات کسی معتقد بادشاہ کے حوالے سے یہاں موجود ہیں جیسے اسلام کے مشاہیر کے آثارپاکستان کے کئی شہروں اور کئی خاندانوں میں موجود ہیں جن کی اصلیت کا کسی کوبھی علم نہیں ہے۔ہم ٹہرے سادہ مسلمان ،ہمارے لئے کوئی بھی نسبت یا روایت بلکہ حکایت ہمارے وسیع الظرف ایمان کاحصہ بن جاتی ہے۔
افراسیاب قومی میوزیم
اگلی صبح ریگل ہوٹل کے لان،نیچی عمارتوں کی چھتیں،ائیرپورٹ کے نزدیک تمام درختوں اورگراسی پلاٹوں پر برف ہی برف تھی۔سفید ،بے داغ،درختوں نے گویا راتوں رات میں سفید چادراوڑھ لی تھی یا راتوں رات سفید سرہوگئے تھے۔ڈرائیور ہمیں پہلے انجیرمحلہ کی طرف لے گیا۔آبادی کے چاروں طرف انجیروں کے باغات تھے آج وہ بوڑھے راہبوں کی طرح سفید پیرہن پہنے حالت مراقبہ میں تھے۔مختلف بازاروں سے گزرتے،برف کو پھلانگتے ٹیکسی ایک بڑی عمارت کے باہرجانکلی ۔ یہاں بھی ہرطرف برف کاراج تھا۔مجتبیٰ نے گھاس سے نرم نرم برف کاگولا بنایا اور مجھ پرحملہ آور ہوامگر دونوں کے نشانے چوک گئے اوربرف ہوا میں بکھر گئی۔ٹیکسی ایک خوبصورت عمارت کے پاس جاکھڑی ہوئی جس کے چاروں طرف برف کی چادربچھی ہوئی تھی۔یہاں افراسیاب میوزیم میں ممکنہ حد تک ازبکستان کی قدیم ترین تاریخ اور تہذیب کے تانے بانے جوڑے گئے تھے ۔ کہیں حجری نشانات تھے اورکہیں ارضی آثار ، برتن کھانے پکانے ،اناج سنبھالنے کے ، رہنے سہنے کے سامان ۔بعض دیواری پینٹنگز تھیں کچھ سادہ اورکچھ رنگین۔پر ندوں، جانوروں اورانسانوں کی جن سے علاقے میں تہذیبی ارتقاکاعلم ہوتاتھا۔ایک کمرے میں میوزیم میں موجود اشیاء کے حوالے سے اور ازبکستان کی قدیم تاریخ کے بارے میں ویڈیو فلم چل رہی تھی۔آوازیں مختلف زبانوں میں تھیں۔ایک جگہ بورڈ پرتحریر تھا:
" خدا کاشکر ہے کہ سوویت روس کی "سرخ سلطنت"بالکل ختم ہوگئی۔اب ہماری قسمت کی بھاگ دوڑ ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے۔اب ہمیں اپنی شاندار تاریخ اور عظیم الشان تہذیب کوجاننے اوراسکی عظمت اور روحانی قدروں کوبحال کرنے کاموقع ملاہے۔سب سے اہم یہ کہ بطور آزاد ازبک ہمیں آزادانہ سوچنے اوراظہار کرنے کاموقع حاصل ہواہے"      بروری بو احمدوف۔ 
اگلا پڑاؤ تھا شاہ زندہ اور اس کے جوار میں دیگر آثار ومقابر
مجموعتہ الاثار الاسلامیہ شاہ زندہ اُسست (تعمیر شدہ)فی القرن12-11ھجری صدی
SHOHI ZINDA ٰیہ ایک دلچسپ نام ہے۔پاکستان میں کئی مقامات پر اس نام سے مزارات ہیں جواکثر مجہول یعنی نامعلوم ہیں۔خاندانی گاؤں بُگہ شریف کے نواح میں شاہ زندہ کے نام سے ایک مزارہے جودورونزدیک میں مرجع عوام ہے اس مردہ بدست زندہ کردارکی حقیقت تو صرف اللہ ربُ العالمین جانتا ہے لیکن مسلمان چونکہ کسی فوت شدہ کو مرنے دیتے ہیں اورنہ قبرمیں چین لینے دیتے ہیں اس لئے اگر جگہ جگہ شاہ زندہ پائے جاتے ہیں تو کوئی اچنبھا نہیں۔ شاہ توویسے بھی کبھی مردہ نہیں ہوتا۔
عمارت کے اندر جانے کاصدر دروازہ ہے۔پہلوں جیسا منقش اورجیومیٹری کی اشکال سے بھراہوا۔ڈیوڑھی میں داخل ہوئے تواندازہ ہوا کہ بائیں ہاتھ مسجد ہے یہ مسجدشاہ زندہ ہے اس کاکوئی صحن نہیں ہے بس نیلے گنبد کے نیچے نماز گاہ ہے۔ باہر سیڑھیوں پرنمازیوں کے جوتے بڑے سلیقے سے اس طرح رکھے ہوئے ہیں کہ اُنکی نوک باہرکی طرف ہے۔میں اورمجتبیٰ جلدی سے مسجد کو لپکے۔جوتے باہر اتار کر جب اندر گھسنا چاہاتومسجدکو نکونک پایا۔ گھس گھسا کرمشکل سے بیٹھنے کی جگہ ملی۔ آنے والے تھے کہ وہ آرہے تھے اورکچھ جگہ بھی بنارہے تھے۔مسجد چھوٹی سی تھی۔دراز قد امام صاحب کے سرپرپگڑی تھی۔لمبا سافرغل پہنا ہواتھا۔ممبر کی آخری سیڑھی پرکھڑے تھے۔داڑھی لمبی تھی مگر ہاتھ میں روایتی عصا نہیں تھا۔تقریرازبک میں تھی جس میں جابجا آیات اوراحادیث کے حوالے تھے۔ امام بخاری،امام احمد،ابوہریرہ کے نام سمجھ میں آئے۔تقریرمیں متانت اورشائستگی تھی مسجد کی مغربی دیوار پر اللہ اورمحمد ؐ لکھا ہوا تھا۔اوپر خط کوفی میں والعصرِ اورنیچے کلمہ طیبہ،وال ٹو وال کارپٹ،خوبصورت کھڑکیاں الماریاں۔اگرچہ ہال چھوٹا تھا مگر متاثر کرنے والا تھا۔مسجد کے ہال میں دوڈھائی سو نمازی تھے مگر ٹھس ٹھساکر ۔ تقریر ختم ہوتے ہی اذان ہوئی اورنمازی سنتیں پڑھنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ان کے فارغ ہوتے ہوئے پھر اذان ہوئی اورامام صاحب نے عربی خطبہ شروع کردیا۔خطبے کاآغازعروج اوراختتام پاکستانی خطبوں جیساتھا۔باہر نکل کردیکھاتو اونچی نیچی جگہوں پرنمازی موجود تھے ۔ نمازیوں میں زیادہ تر نوجوان اور پختہ عمر کے تھے۔نماز سے فارغ کرامام صاحب کو اُن کے کواٹر کے باہرجاکرملا۔مصافحہ ہوا پھر خاموشی۔میں نے شوق سے کہا "من الباکستان "،پھروہ عربی میں رواں ہوگئے اوراپنی عربی ختم ہوگئی۔اس مسجد کے ساتھ بلندی پرمختلف گنبد ہیں جواصل میں قبروں کے مقابرہیں۔تقریباً سارے مقابر کا ڈیزائن ایک جیسا۔اس کمپلیکس کے ساتھ ایک طرف یہودیوں کاقبرستان ہے اور دوسری مسلمانوں کی قبریں ہیں مگر دونوں امن وشانتی کے ساتھ پڑے ہوئے تھے۔ باہمی نزاع کوئی نہیں! نمازجمعہ کے بعد ایک جنازہ ہوا۔جنازہ حنفی طریقے پرپڑھایا گیا مگر اس کے ساتھ ماتم گزار یا نوحہ خواں موجودتھے۔جیسے مرنے والے کی رخصتی میں پیشہ ور نوحہ خوانی شایدStatus Symbolہے؟ (جاری ہے)