میڈیا اور کرونا

مصنف : جاوید چودھری

سلسلہ : کرونا

شمارہ : مارچ 2020

وکٹر اٹلی کے شہر میلان سے تعلق رکھتا ہے’ گارمنٹس فیکٹریوں کو کپڑا سپلائی کرتا ہے’ عمر 62 سال ہے اور یہ مضافات میں چھوٹے سے گاؤں میں رہتا ہے۔ وکٹر دو ماہ شدید بیمار رہا’ اسے بخار بھی تھا’ نزلہ بھی’ زکام بھی اور اس کے جسم میں بھی درد ہوتا تھا لیکن یہ بیماری کے باوجود کام کرتا رہا۔ چالیس سال سے ایکسرسائز کا عادی ہے’ بخار کے عالم میں بھی جاگنگ اور سوئمنگ کرتا رہا’ بخار ٹھیک ہو گیا اور یہ روٹین کے مطابق زندگی گزارنے لگا۔ دسمبر 2019میں چین سے کرونا وائرس کی اطلاعات آنے لگیں۔دنیا وائرس کی طرف متوجہ ہوگئی’ یورپ میں تحقیقات شروع ہوئیں تو پتا چلا چین کے بعد اٹلی میں سب سے زیادہ مریض سامنے آ رہے ہیں’اطالوی حکومت نے مزید تحقیقات کیں’ پتا چلا کرونا وائرس کے زیادہ تر مریضوں کا تعلق میلان اور وینس کے علاقوں سے ہے ۔حکومت نے فوراً خطرے کا الارم بجا دیا۔ آپ شاید یہ جان کر حیران ہوں گے کرونا اٹلی کے صوبے گوریزیاکے شہر ماریانو ڈیل فرولی کاایک چھوٹاسا گاؤں ہے۔ کرونا کا مطلب تاج (کراؤن) ہوتا ہے۔ یورپ میں1918میں انفلوئنزا کی خوف ناک وباپھوٹی تھی’ پانچ کروڑ لوگ ہلاک ہو گئے۔ یورپ کے ساتھ امریکا میں بھی 6 لاکھ 75 ہزارلوگ مارے گئے تھے۔ میڈیکل سائنس دانوں کا خیال تھا یہ وائرس اٹلی کے گاؤں کرونا سے چلا تھا اور یہ سپین پہنچ کر خوف ناک شکل اختیار کر گیا تھا چناں چہ اس کا نام کرونا رکھ دیا گیا۔ انسانوں میں وقت گزرنے کے ساتھ کرونا وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو گئی چنانچہ دسمبر 2019تک ہم سب سال میں ایک آدھ بار کرونا کا شکار ہوتے تھے’ ہمیں نزلہ بھی ہوتا تھا’ گلے میں سوزش بھی ہوتی تھی اور بخار بھی ہوتا تھا لیکن یہ چند دن رہ کر ٹھیک ہو جاتا تھا۔ چنانچہ میڈیکل سائنس نے کرونا کو غیر مضر قرار دے دیا لیکن پھر چین کے شہر ووہان میں دسمبر 2019میں ایک نیا وائرس سامنے آیا’ یہ وائرس کرونا کی ایڈوانس قسم تھی چناں چہ سائنس دانوں نے اسے نوول کرونا وائرس کا نام دے دیا۔
یہ ہلاکت خیز بھی تھا اور تباہ کن بھی۔ کرونا وائرس اٹلی سے چین گیا تھا یا پھر یہ چین سے اٹلی آیا یہ فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا تاہم مارچ 2020تک یہ حقیقت ضرور سامنے آ گئی کرونا وائرس کا مرکز چین نہیں اٹلی ہے اور یہ اٹلی سے تیزی سے یورپ اور سنٹرل ایشیا میں پھیل رہا ہے۔ یہ اٹلی کے شمالی علاقوں کے لوگوں کو زیادہ متاثر کر رہا ہے’ شاید اس کی وجہ ان کے خون میں موجود پرانا وائرس ہو’ یہ وائرس سوسال سے ان لوگوں کے خون میں چلا آرہا ہے۔
جب نوول کرونا ان کے خون میں شامل ہوا تو اس نے پرانے وائرس کو طاقت ور بنا دیا اور یوں اٹلی کے ایک کروڑ 60 لاکھ لوگ بیمار ہو گئے۔ آخری اطلاعات تک حکومت نے شمالی اٹلی کے آدھے ریجن کو باقی ملک سے کاٹ دیا ہے۔ یہ علاقہ دنیا کا سب سے بڑا قرنطینہ بن چکا ہے۔یورپ کے دوسرے ملکوں نے بھی اٹلی سے اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں جس سے اٹلی کی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ سیاحت اور سٹاک ایکس چینج کرونا کا سب سے بڑا ہدف ہیں۔ سیاحت 1700 بلین ڈالر کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری تھی۔
یہ انڈسٹری دو ماہ میں زمین بوس ہو گئی۔ ائیر لائینز دیوالیہ ہو رہی ہیں’ ائیرپورٹس پر سناٹا ہے’ ہوٹل خالی پڑے ہیں اور میوزیمز اور پارکس میں ہوکا عالم ہے۔ تاریخ میں پہلی بار خانہ کعبہ اور مسجد نبوی تک خالی کرا لی گئی ہے اور ویٹی کن میں بھی معمول کی عبادت بند کر دی گئی جب کہ سٹاک ایکس چینجز میں دنیا کی آدھی دولت پارک ہے’ یہ بھی پارک سمیت اڑ گئی لہٰذا دنیا دیوالیہ پن کے دہانے تک پہنچ گئی۔ ارے لیجیے ہم ان اعدادوشمار کے چکر میں وکٹر کی کہانی بھول گئے’ ہم وکٹر کی طرف واپس آتے ہیں۔میلان کے ڈاکٹروں نے عوام کا معائنہ شروع کیا تو پتا چلا وکٹر اپنے پورے گاؤں میں کرونا کا پہلا شکار تھا’ یہ دو ماہ شدید بیمار رہا’ اس کے خون میں اس وقت بھی کرونا کے وائرس موجود ہیں لیکن یہ اس کے باوجود موت سے بھی بچ گیا اور صحت یاب بھی ہو گیا’ کیوں اور کیسے؟ ڈاکٹروں نے اسے سنٹرل ہسپتال میں شفٹ کیا اور اس کے انٹرویوز شروع کر دیے’ یہ انٹرویوز ہفتہ بھر جاری رہے’ ان انٹرویوز میں ملک کے تمام اہم وائرس ایکسپرٹس نے حصہ لیا’ انٹرویو کی فائنڈنگ بڑی دل چسپ تھی۔وکٹر نے ایکسپرٹس کو بتایا ‘‘میں کیوں کہ اخبارات نہیں پڑھتا تھا’ ٹیلی ویژن نہیں دیکھتا تھا اور میں سوشل میڈیا پر بھی ایکٹو نہیں تھا چنانچہ مجھے پتا ہی نہیں چلا دنیا میں کرونا وائرس آ چکا ہے اور میں اس کا شکار ہو چکا ہوں لہٰذا میں اسے معمول کی کھانسی اور بخار سمجھتا رہا اور صحت یاب ہو گیا’’ 
یہ انکشاف حیران کن تھا۔ڈاکٹروں نے مزید تحقیق کی تو پتا چلا وہ تمام مریض جو ٹیلی ویژن نہیں دیکھتے تھے یا وہ سوشل میڈیا پر ایکٹو نہیں تھے وہ کرونا سے صاف بچ گئے۔
وہ جلد صحت یاب ہو گئے جب کہ میڈیا کے ساتھ چمٹے رہنے والے لوگ کرونا کے جلد شکار بھی ہوئے اور ان میں فوتگی کی شرح بھی زیادہ تھی’ یہ کرونا وائرس کی پہلی فائنڈنگ تھی’ دوسری فائنڈنگ اس سے بھی زیادہ دل چسپ تھی’ دنیا میں اس وقت 103 ملک کرونا سے متاثر ہیں’ ان میں سے 90فیصد ملک ٹھنڈے ہیں جب کہ 10 فیصد گرم ملکوں میں کرونا ظاہر ہوا’ ان ملکوں میں بھی مریضوں کی تعداد انتہائی کم ہے اور ہلاکت بھی کوئی نہیں ہوئی چنانچہ پتا چلا یہ ٹھنڈے علاقوں کا وائرس ہے۔
یہ گرم علاقوں میں زیادہ دیر سروائیو نہیں کر سکتا’ کرونا کے شکار گرم ملکوں کے بارے میں مزید تحقیق ہوئی تو معلوم ہواگرم ملکوں کے مریض بھی یہ وائرس ٹھنڈے علاقوں سے لائے تھے اور بیماری صرف ان تک محدود رہی تھی’ اس نے دوسرے لوگوں کو متاثر نہیں کیا مثلاً عراق’ سعودی عرب اور پاکستان کے مریض ایران سے آئے تھے’ یہ بھی پتا چلا کرونا بزرگوں کو زیادہ متاثر کرتا ہے’ نوجوان’ خواتین اور بچے اس سے محفوظ رہتے ہیں اور یہ بھی پتا چلا مارچ میں جوں جوں موسم گرم ہو رہا ہے کرونا کا وائرس بھی کم ہو رہا ہے ۔بلوم برگ کے مطابق یہ وائرس گلوبل اکانومی کو 2.7 ٹریلین ڈالر کا نقصان پہنچا سکتا ہے’ دنیا کی تمام بڑی سٹاک ایکس چینجز زمین بوس ہو جائیں گی’ ائیر لائینز اور امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس ختم ہو چکا ہو گا اور پٹرول کی قیمتوں میں پچاس فیصد کمی آچکی ہو گی چنانچہ کرونا ختم ہو یا نہ ہو لیکن سیاحتی’ معاشرتی اور معاشی سرگرمیاں ضرور دم توڑ جائیں گی اور دنیا میں دیوالیہ لوگوں کی پوری کلاس پیدا ہو جائے گی اور یہ لوگ ‘‘کرونا’’ کہلائیں گے۔
آپ یقین کریں آپ اگر چند دن کے لیے فیس بک’ ٹویٹر اور واٹس ایپ بند کر دیں گے تو آپ وکٹر ثابت ہوں گے’آپ سکھی ہو جائیں گے اور آپ اگر بیمار بھی ہوئے تو آپ جلد صحت یاب ہو جائیں گے ورنہ آپ دوسری صورت میں ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا دیکھ دیکھ کر کرونا کے بغیر ہی مر جائیں گے’ کیوں؟ کیوں کہ موجودہ حالات میں ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کرونا سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہا ہے چنانچہ آپ سوشل میڈیا بند کر دیں’ اس سے پہلے کہ آپ فوت ہو جائیں’ سوشل میڈیا کا رونا کرونا سے زیادہ خوف ناک اور مہلک ثابت ہو رہا ہے’ باقی آپ خود سمجھ دار ہیں۔
٭٭٭