کروناوائرس پھیلاؤ میں اتنا کامیاب کیوں؟

مصنف : ای ڈی یونگ

سلسلہ : کرونا

شمارہ : مارچ 2020

ہمیں CoV۔2 کے بارے میں پتا چلے تین مہینے ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک سائنسدان اس بارے چند اندازے ہی لگا پائے ہیں کہ یہ وائرس کہاں سے آیا تھا اور یہ اتنا مہلک کیوں ہے؟آپ اسے بھی قدرت کی مہربانی ہی تصور کریں کہ کرونا وائرس انفرادی حیثیت میں آسانی سے مر جاتا ہے۔ ہر وائرس کا جنیاتی مادہ تھوڑے سے جینز پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ چربی کے مالیکیولز سے مل کے بنے ایک خول میں مقید ہوتا ہے چونکہ چربی سے بنے یہ خول بڑی آسانی سے صابن سے دھل جاتے ہیں اس لیے بیس سیکنڈ تک صابن سے ہاتھ دھونے سے کرونا وائرس بھی آسانی سے دھل جاتا ہے۔ حال ہی میں کی گئی تحقیق سے یہ پتا چلا ہے کہ کرونا وائرس گتے سے بنی اشیا پر ایک دن، اسٹیل اور پلاسٹک سے بنی اشیا پر دو سے تین دن سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس طرح کے وائرس زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتے تاوقتیکہ وہ جاندار چیزوں پر نہ ہو۔لیکن کرونا وائرس کے بارے بہت کچھ ابھی غیر واضح ہے۔
 سوسان ویس جو کہ چالیس سال سے یونیورسٹی آف پینسلوانیا میں کرونا وائرس پر تحقیق کر رہی ہیں کہتی ہیں کہ چند سال پہلے تک صرف چند درجن سائنسدان ہی اس فیلڈ میں اپنی دلچسپی کا اظہار کرتے تھے لیکن پھر 2002 میں جب کہ سارس وائرس کی وبا پھیلی تو سائنسدانوں کی اس لسٹ میں کچھ اضافہ ہوا۔ اس وقت تک لوگ ہماری فیلڈ کو بیک ورڈ خیال کیا کرتے تھے، ایک ایسی فیلڈ جس کا انسانی صحت کے لیے کردار کو اہمیت کا حامل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب جب کہ SARS/CoV/2 کی شکل میں نیا کرونا وائرس جو کہ کووڈ۔ 19 نامی بیماری کا موجب بن رہا ہے آیا ہے تو کوئی بھی اب پچھلی غلطی کو دوہرانا پسند نہیں کر رہا۔
میں واضح کر دوں کہ یہ کوئی نزلہ و زکام نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کی علامات مختلف ہیں اور بہت تیزی سے لوگوں کو ہلاک کر رہی ہے اور یہ مکمل طور پر وائرس کے ایک مختلف خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ 
کرونا وائرس، وائرسز کا ایک ایسا خاندان ہے جس کے صرف چھ ارکان ایسے ہیں جو کہ انسانوں کے لئے مہلک ہیں۔ ان میں چار OC 43، HKUI، NL۔63، اور 229 E تقریباً ایک صدی سے انسانوں کو پریشان کر رہے ہیں۔ انسانوں میں پایا جانے والے نزلہ و زکام وغیرہ کا ہر تیسرا فرد اسی فیملی کے کسی رکن کے باعث بیمار ہوتا ہے۔باقی دو جو کہ MERS اور SARS ہیں وہ باقی چار سے زیادہ مہلک ثابت ہوئے ہیں۔لیکن اب سوال یہ ہے کہ یہ ساتواں کرونا وائرس کیوں وبائی شکل اختیار کر گیا ہے؟ اچانک کرونا وائرس کے بارے جانکاری بین الاقومی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔اگر ہم اس وائرس کی جسمانی ہییت پر غور کریں تو ہمیں اس وائرس کی کامیابی کے کچھ اشارے ملتے ہیں۔ اس کی بناوٹ بالکل ایک نوک دار گیند کی مانند ہوتی ہے۔ یہ نوک ہم انسانوں کی جلد میں پائی جانے والے ایک پروٹین ACE۔2 کے کو ڈھونڈ کر اس کے ساتھ مضبوطی سے منسلک جاتی ہے۔ اور اس طرح سے یہ وہ پہلا قدم ہے جس سے ہم انسان اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ اس نئے کرونا وائرس کی یہ نوکیں سابق سارس وائرس سے زیادہ مضبوطی سے انسانی جلد میں پیوست ہوتی ہے۔ انجیلا راسموسین جو کہ کولمبیا یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں کہتی ہیں کہ ایک انسان سے دوسرے میں منتقلی کے لیے یہ بہت ضروری بھی ہے۔ اور جتنا زیادہ مضبوط بانڈ بنے گا اتنا ہی کم مقدار والا وائرس زیادہ بیماری پھیلا سکتا ہے۔
اس نئے وائرس کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ کرونا وائرس کے نوک دار خول کے دو حصے ہوتے ہیں جو باہم ملے ہوتے ہیں اور یہ وائرس اس وقت تک فعال نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے دونوں حصے جدا جدا نہیں ہو جاتے۔ صرف اسی صورت میں وائرس انسانی جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔ سارس وائرس کے معاملے میں دونوں حصوں کا ایک دوسرے سے جدا ہونا تھوڑا مشکل تھا لیکن اب نئے کرونا وائرس کے معاملے میں دونوں حصے بڑے آسانی سے جدا ہو جاتے ہیں۔ ان دونوں حصوں کو فیورن نامی انزائم بڑی آسانی سے الگ کر دیتی ہے۔ اور یہ انزائم انسانی جسم کے خلیے ہی تیار کرتے ہیں اور بڑی بات یہ ہے کہ یہ انزائم انسانی جسم کی کئی بافتوں میں ملتے ہیں۔ اس وائرس کی چند دیگر غیر معمولی خصوصیات میں غالباً یہ خصوصیت سب سے اہم ہے یہ کہنا ہے کرسٹین اینڈرسن کا جو کہ سکرپس ریسرچ ٹرانسلیشنل انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔مثال کے طور پر زیادہ تر سانس پر اثر انداز ہونے والے وائرس ہوا کی اوپر یا نیچے والی گزرگاہوں میں سے کسی ایک پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ عام طور پر نظام تنفس کے اوپری حصہ میں مرض جلدی پھیلتا ہے جبکہ نچلے حصہ میں مرض مشکل سے پھیلتا ہے لیکن یہ انتہائی مہلک ثابت ہوتا ہے۔ ناول کرونا وائرس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ سانس لینے کے دونوں حصوں میں پھیلتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ شاید فیورن انزائم ہی ہے جو کہ بہت سارے خلیوں میں موجود ہوتا ہے۔ اس کا یہ دوہرا طرز عمل ہی یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ کیوں کچھ لوگوں میں یہ وائرس علامات ظاہر ہونے سے پہلے ہی پھیلنا شروع کر دیتا ہے اور اس کی اسی خصوصیت نے اس کو کنٹرول کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ شاید ابھی یہ نظام تنفس کے اوپر والے حصے میں ہی ہوتا ہے کہ یہ پھیلنا بھی شروع کر دیتا ہے اس سے پہلے کہ یہ زیریں حصے میں پہنچ کر زیادہ مہلک صورتحال اختیار کرے۔ یہ سب درست بھی ہو لیکن ابھی سب کچھ مفروضہ ہی سمجھیے کیوں کہ وائرس جنوری میں دریافت ہوا ہے اور ابھی اس کے بارے بہت کچھ جاننا باقی ہے۔حالانکہ یہ ناول وائرس جانوروں سے انسانوں میں آیا ہے لیکن یہ یقینی طور پر انسانوں کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ٹھہرا ہے۔ اس وائرس کی سب سے زیادہ مماثلت چمگادڑوں میں پائے جانے والے وائرس سے ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ناول کرونا وائرس کا ظہور بھی چمگادڑوں ہی سے ہوا ہے اور وہیں سے یہ بالواسطہ یا بلاواسطہ انسانوں تک پہنچا۔ (کرونا وائرس کی ایک اور قسم جو کہ جنگلی یینگولین میں پائی جاتی ہے اس کا چھوٹا حصہ ناول کرونا وائرس کے چھوٹے حصہ سے بہت ملتا ہے اور یہی حصہ انسانی جسم میں پائی جانے والی پروٹین ACE 2 سے چپکتا ہے جبکہ باقی کا تمام وائرس پینگولین وائرس سے مختلف ہے اس لیے ہم اس وائرس کے بارے یہ نہیں کہ سکتے کہ یہ پینگولین سے آیا ہے)۔
 جب سارس وائرس آیا تھا تو اس کو ACE 2 پروٹین کو پہچاننے کے لئے کچھ وقفہ درکار تھا تا کہ اس دوران وہ ضروری تبدیلیاں کر سکے لیکن یہ جو نیا کرونا وائرس ہے اسے ایسی کوئی تبدیلی درکار نہیں اور یہ پہلے دن سے ہی ایسا کر رہا ہے۔ اسے انسانوں کا وائرس بننے کے لئے بہترین راستے کا شاید پہلے ہی پتا تھا یہ کہنا تھا میتھیو فرائی مین کا جو کہ یونیورسٹی اور میری لینڈ کے اسکول آف میڈیسن سے وابستہ ہیں۔
یہ جو پراسرار مماثلت ہے بلاشبہ یہ سازشی نظریات پھیلانے والوں کی ہمت بڑھاتی ہے۔ اس میں عجب یہ ہے کہ ایک ایسا چمگادڑوں کا وائرس سامنے آتا ہے جس میں وہ تمام خصوصیات اس ترتیب سے موجود ہیں جو کہ وہ ظاہر ہوتے ہی بڑے موثر انداز میں انسانوں کے خلیے میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر وہاں سے کسی غیر مشکوک شخص میں داخل ہو جاتا ہے۔ شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے۔ انڈریسن کا کہنا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو باہر لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں وائرس ہوتے ہیں۔ یہ وائرس اتنے زیادہ ہیں کہ جو عموماً نہیں بھی ہونا ہوتا بعض اوقات وہ ہو بھی جاتا ہے۔
جب سے یہ ناول کرونا وائرس آیا ہے تب سے اب تک اس میں کوئی بھی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی۔ یہ خود کو اسی طرح تبدیل کر رہا ہے جس طرح کہ دوسرے وائرس کرتے ہیں۔ لیکن سو سے زیادہ تبدیلیاں جو کہ اس میں اب تک رونما ہوچکی ہیں ان میں سے کوئی بھی غالب نہیں ہے جس کامطلب یہ ہوا کہ یہ تبدیلیاں اہمیت کی حامل نہیں ہیں۔ اور یہ وائرس قابل ذکر حد تک مستحکم ہے جس کا اندازہ اس کے پھیلاؤ سے ہوتا ہے یہ کہنا تھا لیزا گریلنسکی کا جو کہ یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا سے وابستہ ہیں۔ یہ کوئی اتنی غیر معقول بات بھی نہیں ہے کیوں کہ وائرس پہ مزید بہتری کے لئے کوئی ارتقائی دباؤ نظر نہیں آ رہا ہے کیوں کہ وہ پہلے ہی دنیا بھر میں بہت اچھی طرح سے اپنا کام کرتا نظر آرہا ہے۔ہاں البتہ ایک قابل ذکر تبدیلی سنگاپور کے ان لوگوں میں سے پائی گئی ہے جو کووڈ۔ 19 کا شکار ہوئے ان کے جسم سے ملے ناول کرونا وائرس میں 6 جینز کا ایک ایسا حصہ موجود نہیں تھا جو کہ سارس کے پھیلاؤ کے وقت بھی اس بیماری کے اختتامی لمحات میں غائب ہو گیا تھا۔ اس تبدیلی سے اصل وائرس کی ہلاکت آفرینی میں کمی واقع ہوئی تھی۔ لیکن ناول کرونا وائرس کے بارے میں ابھی یہی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ بے شک ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کچھ کرونا وائرس دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ زہریلے کیوں ہوتے ہیں؟ فرائی مین کا کہنا ہے کہ حقیقتاً ہمیں اس بارے بالکل بھی جانکاری نہیں ہے کہ سارس اور ناول کرونا وائرس اتنے ہلاکت خیز کیوں ہیں جب کہ OC 43 صرف ناک کے بہنے تک ہی اثر رکھتا ہے۔
محققین ابھی تک ایک ابتدائی نوعیت کا جائزہ ہی پیش کر سکتے ہیں کہ کیسے ناول کرونا وائرس لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جیسے ہی یہ انسانی جسم پر پہنچتا ہے تو یہ ایسے خلیوں پر حملہ آور ہوتا ہے جن میں ACE 2 پروٹین موجود ہوتی ہے اور جو کہ ہمارے جسم میں ہوا کی گزرگاہوں کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ اب یہاں پر خلیے مرتے جاتے ہیں اور جمع ہوتے جاتے ہیں جس سے ہوا کے راستے میں رکاوٹ پیدا ہوتی جاتی ہے اور وائرس انسانی جسم میں مزید آگے کی طرف بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ پھیپھڑوں میں پہنچ جاتا ہے۔ جیسے جیسے وائرس کی بڑھوتری ہوتی جاتی ہے انسانی پھیپھڑوں میں مرے ہوئے خلیات اور رطوبت کی وجہ سے رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے جس سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ہمارا مدافعت کا نظام حرکت میں آتا ہے اور وائرس پر پلٹ کر حملہ کرتا ہے جس کی وجہ سے سوزش اور بخار کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں۔ لیکن انتہائی حالات میں ہمارا مدافعاتی نظام اتنا شدید ردعمل دیتا ہے جو کہ ہمیں وائرس سے بھی زیادہ گزند پہنچا دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ہماری خون کی نالیاں مدافعاتی خلیوں کو بیماری کی جگہ پر پہنچانے کے لئے مزید کھل جاتی ہیں، یہ بہت اچھی بات ہے لیکن اگر خون کی نالیوں سے خون بہنا شروع کردے تو ہمارے پھیپھڑوں میں بہت زیادہ مائع مواد جمع ہو جائے گا۔ اس طرح کے نقصان دہ بے جا شدید ردعمل کو Cytokine Storms حرکیت خلوی کا طوفان کہتے ہیں۔ اور تاریخی طور پر اس سے 1918 میں پیدا ہونے والے وبائی زکام، H 5 N 1 برڈ فلو اور 2003 میں سارس جیسی وباؤں کے پھوٹنے پر بہت زیادہ اموات ہوچکی ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ کووڈ 19 سے ہونے والے شدید نوعیت کے واقعات کے پیچھے بھی یہی ردعمل کار فرما ہوسکتا ہے۔
اکیکو ایواساکی جو کہ یل سکول آف میڈیسن سے وابستہ ہیں کا کہنا ہے کہ ان وائرسوں کو انسانی جسم میں مطابقت پیدا کرنے کے لئے کچھ وقت درکار ہوتا ہے جب یہ ہمیں پہلے مرحلے میں باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں خود یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ اور وہ اس طرح کے ردعمل کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ردعمل کے طوفان کے وقت ہمارا مدافعاتی نظام مجنونانہ حرکتیں کرتا ہوا بعض دفعہ صحیح جگہ کی بجائے اپنی مرضی سے غلط جگہ پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ جب ایساہوتا ہے تو لوگ اس بیماری کے مدمقابل زیادہ حساس ہوجاتے ہیں۔ یہ طوفان پھیپھڑوں کے علاوہ جسم کے دوسرے حصوں کو بھی متاثر کرتے ہیں خاص طور پر ان لوگوں کو جو پہلے سے دائمی امراض کا شکار ہوں۔ اس سے اس چیز کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ کیوں کووڈ 19 کے مریضوں میں دل کے امراض اور ثانوی نوعیت کے دیگر امراض پائے جاتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ کووڈ 19 کے کچھ مریض بہت زیادہ بیمار ہو جاتے ہیں جب کہ کچھ معمولی نوعیت کے یا بالکل بھی نہیں؟ عمر ایک عنصر ہے۔ اسی لیے بوڑھے شخص اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیوں کہ ان کا مدافعاتی نظام بیماری کے شروع میں ہی قابل ذکر ردعمل نہیں دے پاتا جبکہ بچے اس لیے کم متاثر ہوتے ہیں کیوں کہ ان کا مدافعاتی نظام کو حرکیت خلوی کے طوفان کی بہت کم ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن بہت سارے دوسرے عناصر جیسے ایک شخص میں موجود جین، مدافعاتی نظام کی فعالیت، متاثرہ شخص میں وائرس کی تعداد، اور جسم میں موجود دیگر خوردبینی جراثیم بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایواساکی کہتے ہیں عمومی طور پر یہ ایک راز ہے کہ کیوں بہت سارے لوگوں پر ہم عمر ہونے کے باوجود بیماری بہت زیادہ اثر نہیں کرتی۔
کرونا وائرسز انفلوئنزا کی طرز پر سردیوں کے وائرس ہی ہوتے ہیں۔ خشک اور ٹھنڈی ہوا میں، ایک پتلی سے مائع جھلی جو کہ ہمارے پھیپھڑوں اور ہوا کی گزرگاہوں کو ڈھانپے ہوتی ہے مزید سکڑ جاتی ہے جس کی وجہ سے دھڑکنے والے ان چھوٹے چھوٹے بالوں کو جو کہ وائرسز اور باہر سے آنے والے ذرات کو باہر نکالتے ہیں کو مشکل پیش آتی ہے۔ خشک ہوا ہمارے جسم کے وائرس کے مقابل مدافعاتی عمل کو بھی قدرے سست کر دیتی ہے۔ جبکہ گرما کا مرطوب گرم موسم اس کے بالکل الٹ کرتا ہے جس میں وائرس کو قدم جمانے کے لئے دقت کا سامنا ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے کووڈ 19 کی وبا کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہے۔ اس وقت یہ وائرس ایک ایسی دنیا میں ہے جہاں کے لوگوں کے مدافعاتی نظام کو پہلے اس نوعیت کے کسی وائرس کا سامنا نہیں رہا جو کہ بغیر کسی موسمیاتی تغیر کے سرایت کرتا جا رہا ہو۔ یہاں تک کہ یہ وائرس سنگاپور جیسے ٹراپیکل علاقوں میں بھی اور آسٹریلیا جیسے علاقے جہاں آج کل موسم گرما ہے وہاں بھی سرایت کرتا جا رہا ہے۔ اور حال میں ہونے والی ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ناول کرونا وائرس سال بھر کسی بھی مہینے میں پایا جا سکتا ہے۔ گریلنسکی کا کہنا ہے کہ مجھے اس پر خاطر خواہ بھروسا نہیں ہے جیسا کہ لوگ خیال کر رہے ہیں کہ شاید موسم اس وائرس کو متاثر کر سکے گا۔ کسی حد تک کم ہوسکتا ہے لیکن ایک سے دوسرے شخص میں اس وائرس کی منتقلی اس سے بہت بڑھ کر ہے۔ موسم گرما کی آمد بھی اس وقت تک سود مند ثابت نہیں ہو سکتی جب تک کہ لوگ سماجی دوری نہیں اختیار کرتے جیسا کہ انہیں کہا جا رہا ہے۔
فرائی مین کا کہنا ہے کہ خوفزدہ کرنے والی بات یہ ہے کہ ہمیں ابھی تک یہ بھی نہیں پتا کہ ہر سال نارمل کرونا وائرس سے کتنے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس فلو کی طرح کرونا وائرس کے جائزے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ وہ سردیوں میں کیوں چلے جاتے ہیں اور کہاں جاتے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ وائرس ہر سال تبدیل کیوں ہوتے رہتے ہیں۔ اب تک تحقیقی کام کافی سست ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ ایک سہ سالہ کانفرنس جس میں دنیا کے کرونا وائرس محققین نے ملنا تھا جو کہ نیدرلینڈ کے ایک چھوٹے سے گاؤں
 میں ہونا تھی کو کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے معطل کر دیاگیا ہے۔
فرائی مین کا کہنا ہے کہ اگر ہم اس وبا سے یہ نہیں سیکھتے کہ ہمیں وائرسز کے بارے میں مزید جاننے کی ضرورت ہے تو پھر یہ ہمارے لیے بہت برا ہے۔

بشکریہ : ترجمہ ڈاکٹر عبدالقدیر رانا (بشکریہ دی اٹلانٹک ۲۰ مارچ ۲۰۲۰)