بے شک انسان خسارے میں ہے 

مصنف : وسعت اللہ خان

سلسلہ : کرونا

شمارہ : مارچ 2020

عالمی ادارہِ محنت نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومتوں نے مربوط حکمتِ عملی نہ بنائی توآنے والے دنوں میں کورونا وائرس کم ازکم ڈھائی کروڑ ملازمتیں مستقل ختم کر دے گا اور موجودہ طبی بحران کی جگہ طویل المعیاد معاشی بحران لے لے گا۔ویسے طبل بج چکا ہے۔اب تک کی صورتِ حال کو اگر تخمینے کی کسوٹی بنایا جائے تو اگر آج کورونا کی وبا تھم بھی جائے تب بھی اگلے دو سے تین برس تک عالمی معیشت کا پہیہ سست رہے گا۔یعنی سپلائی اور ڈیمانڈ کی گاڑی کا ایک پہیہ اگر پوری رفتار سے کام کر رہا ہے تو دوسرے پہئے کی رفتار آدھی ہونے کے سبب پہلے پہئے کی رفتار کو بھی کنٹرول کر رہی ہے۔اس کے سبب عالمی شرحِ پیداوار کم از کم ڈیڑھ سے دو فیصد کے درمیان نیچے آئے گی۔یہ آنکڑے اگلے تین مہینے میں اور اوپر نیچے ہو سکتے ہیں مگر اس کا فیصلہ بھی کورونا کرے گا۔کورونا کا سب سے شدید وار جن شعبوں پر ہوا ہے ان میں ہوابازی، آٹو موبیلز، لگژری مصنوعات، ہلکا و بھاری صنعتی اور سروس سیکٹر سرِفہرست ہے۔ بظاہر اس کی بھرپائی ریاست کی مداخلت کے بغیر انتہائی کٹھن لگ رہی ہے۔کورونا نے جہاں تعلیم و صحت جیسے مفادِ عامہ کے شعبوں میں ‘‘کھلی منڈی اور کم ازکم سرکاری مداخلت’’ کے نظریے کی دھجیاں اڑا دی ہیں وہیں یہ بات بھی آشکار کر دی ہے کہ نجی شعبہ منافع سازی کا تو ماہر ہے مگر وقت پڑنے پر کسی بھی بڑی آفت کا مقابلہ ریاستی مداخلت کے بغیر نہیں کر سکتا۔اور جب نجی شعبے کو آڑے وقت میں ریاستی مراعات کے سفید ہاتھی پر ہی سواری گانٹھناہے اور بوقتِ آزمائش شانہ بشانہ کھڑے ہونے اور اپنے منافع کو صارفین کی فلاح کی خاطر عارضی طور پر بھی قربان کرنے سے ہچکچانا ہے تو پھر یہ سوال بھی ہوسکتا ہے کہ اس لاڈلے بچے کے ضرورت سے زیادہ نخرے اٹھانے کی کیا ضرورت؟کورونا یہ سبق بھی دے رہا ہے کہ تعلیم اور صحت جیسے شعبے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے بجائے کلی طور پر نجی شعبے کے حوالے کر دینا خودکشی کے برابر ہے۔اس کی سب سے عمدہ مثال امریکا ہے جہاں ہیلتھ انشورنس نہ ہونے کا مطلب تقریباً سزائے موت ہے اور کورونا نے اس نظام کو ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔صدر ٹرمپ نے بادلِ نخواستہ دوسری عالمی جنگ میں لاگو وار پروڈکشن ایکٹ کو زندہ کر کے لاگو کر دیا ہے۔اس ایکٹ کے تحت ریاست ترجیحی بنیاد پر کسی بھی صنعت کو ریاستی ترجیحات کے تحت پروڈکشن کا حکم دے سکتی ہے۔اسپین میں حکومت نے صحت کے نجی شعبے کو غیر اعلانیہ سرکاری تحویل میں لے لیا ہے۔
فرانس میں ریاست نے دباؤ ڈالا، اس کے بعد ہی سب سے بڑی پرفیوم ساز کمپنی ایل وی ایم ایچ نے اعلان کیا کہ وہ کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی کے تحت فی الحال پرفیوم کی پروڈکشن لائن کو سینٹائیزرز بنانے کے لیے وقف کر رہی ہے نیز چین سے چالیس ملین حفاظتی ماسک امپورٹ کر رہی ہے تا کہ انھیں سرکار کے توسط سے شہریوں میں مفت بانٹا جا سکے۔اطالوی کمپنیوں نے کورونا ویکسین کی تحقیق اور اسپتالوں میں آلات کی خریداری کے لیے کئی ملین یوروز وقف کرنے کا اعلان کیا ہے۔برطانوی حکومت نے ساٹھ کے لگ بھگ انجینرنگ اور آٹو موبیل کمپنیوں کو ہدف دیا ہے کہ وہ اگلے ایک ماہ میں بیس ہزار وینٹی لیٹرز بنا کردیں۔حکومت ان کمپنیوں کو ٹیکنیکل ڈرائنگز، ماہرین اور ٹرینرز فراہم کر رہی ہے۔کچھ کمپنیاں فی الحال اپنے منافع اور شئیرہولڈرز کی نہ ختم ہونے والی ہوس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھی کام کر رہی ہیں۔شائد انھیں احساس ہے کہ کاروبار تب ہی ممکن ہے جب صارفین کے پاس شے خریدنے کی خواہش اور سکت ہو۔جب یہی نہ ہو تو مزید مال سازی خسارے کا کام ہے۔ چین میں جتنی بھی ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کر رہی ہیں انھوں نے کاروباری مصلحت کے تحت چینی ریڈ کراس کے توسط سے کورونا کنٹرول کرنے کے لیے خاصے چندے دیے ہیں۔مگر کارپوریٹ نجی شعبے کی یہ ‘‘انسان دوستی ‘‘کیا ممکن تھی اگر مغربی حکومتیں ان کے کاروبار کو پہنچنے والے مالی دھچکے کے ازالے کے لیے اربوں ڈالر پمپ کرنے کا وعدہ نہ کرتیں اور ان کمپنیوں سے یہ وعدہ نہ لیتیں کہ وہ سماجی بے چینی کو روکنے کی تدبیر کے طور پر اگر اپنے کارکنوں کی چھانٹی نہ کریں تو ریاست ان کے کارکنوں کو اسی فیصد تنخواہ اپنے خزانے (یعنی عوام پر لگائے گئے ٹیکسوں کی آمدنی) سے دے گی؟یہی سبب ہے کہ بھارت اور پاکستان کا کارپوریٹ سیکٹر اب تک خاموش ہے کیونکہ حکومت کے پاس اس سیکٹر کے کاروباری نقصان کو کم کرنے کے لیے مالی وسائیل نہیں لہذا بدلے میں حکومت بھی کارپوریٹس کو سینہ ٹھونک کے حکم نہیں دے سکتی کہ آؤ ہماری مدد کرو۔وینٹی لیٹرز تم دے دو، نجی اسپتالوں کو فی الوقت ریاستی ضروریات کے تابع کر دو یا لاک ڈاؤن کے دوران ایک ایک شہر کے ضروت مندوں کے دو وقت کے کھانے کی ذمے داری ہی سنبھال لو۔کچھ کارپوریٹس اگر اپنے طور پر آگے بھی آنا چاہتے ہیں تو انھیں یہی نہیں معلوم کہ کس سے رابطہ کرنا ہے اور اس ہچکولے لیتے جہاز کا کپتان دراصل کون ہے؟لے دے کے عالمی، علاقائی اور ملکی فلاحی تنظیمیں اور اپنی مدد آپ کے تحت منظم گروپ ہی رہ جاتے ہیں جو ایسے وقت میں جتنی بھی ہو سکے مدد کرتے ہیں۔ان حالات میں جب میں یہ سنتا ہوں کہ دنیا کی پچاس فیصد دولت صرف سو افراد اور کمپنیوں کی تحویل میں ہے تو مجھے بالکل بھی عجیب نہیں لگتا۔بل گیٹس، وارن بفیٹ اور جارج سواریز یا ان جیسے پانچ سات اور ارب پتی ہی ہیں جو اپنی سخاوت کے سبب زبان زدِ عام ہیں۔ باقی سب تو اپنی دولت قبر میں لے جانے کے انتظامات کر چکے ہیں۔ وگرنہ کاہے کو ان کم ازکم ڈھائی ارب انسانوں سے نظریں چرا رہے ہوتے کہ جن کے پاس نہ ہاتھ دھونے کو پانی ہے، نہ صابن اور نہ ہی سوشل ڈسٹینسنگ کی لگژری۔تو کیا یہ وقت گذرنے کے بعد ریاستوں کو بھی عقل آئے گی کہ اصل دفاعی ہتھیار اسپتال، درس گاہ، بھر پیٹ روٹی، باعزت روزگار، وسائل میں حصہ داری اور درخت ہیں۔ جنگی طیارے، توپیں اور ٹینک ایک وائرس تک نہیں مار سکتے۔بے شک انسان ناشکرا ہے، بے شک انسان خسارے میں ہے۔

بشکریہ : بشکریہ روزنامہ ایکسپریس