الفت کے راستے پر؍ قسط ۳

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : مارچ 2020

صفا ،مرویٰ اور مسعیٰ ہال:
ٰٖصفا اور مرویٰ ،ٰؓدراصل،بیت اللہ شریف کی قربت میں واقع دو پہاڑیاں تھیں۔اب یہ محض دو اونچائیاں رہ گئی ہیں۔صفا پہاڑی، بیت اللہ کے جنوب مشرق میں واقع ہے ،اور اس کے شمال میں،قریباً ۵۰۰ میٹر کے فاصلے پر،قدرے کم اونچائی کی پہاڑی ہے جومرویٰ پہاڑی کہلاتی ہے ۔ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سات چکر لگانے کے عمل کو سعی کہا جاتاہے۔ صفا اور مرویٰ کے درمیان اس چلت پھرت کو اصطلاحاً سعی کہا جاتا ہے۔یہ محض چلت پھرت اور دوڑ بھاگ نہیں بلکہ ایک اعلیٰ قسم کا عمل ِ عبادت ہے۔یہ حج و عمرہ کا ایک لازم رکن ہے۔ طواف کعبہ کی طرح ،یہ بھی ایک ایسی عبادت ہے جو صرف اور صرف یہاں ہی ہو سکتی ہے۔ صدیوں تک تویہ پہاڑیاں اور ان کا درمیانی راستہ جوں کا توں رہا اور اُ ن کے درمیان سعی کا عمل ایک تکلیف دہ اورتھکا دینے والا عمل ہو تا تھا۔ابھی ،پچاس ساٹھ سال پہلے تک یہی عالم تھا۔راستہ تنگ اور پتھریلا تھا۔ دکاندار،چھابڑی فروش ،ریڑھی والے اور ٹھیلے والے بھی اس راستے میں جمگھٹا کیے رہتے لیکن شاہ فہد اور ان کے بعد کے حکمرانوں نے ان پہاڑیوں اور ان کے درمیانی راستہ کو ایک وسیع وعریض ایئر کنڈیشنڈ ہال میں بدل دیا ہے۔جس کی تزئین اور آرائش اور زائرین کے لیے سہولیات کی فراہمی کا عمل ہمہ وقت جاری رہتا ہے جس سے سعی کا یہ عمل ایک خوشگوار تجربے میں بدل گیا ہے۔ سعی صفا پہاڑی سے شروع ہوتی ہے۔مطاف سے، مختلف سائن بورڈز کی رہنمائی میں چلتے چلتے ،کافی پیدل واک کے بعد، ہم صفا پہاڑی پر پہنچے۔کعبہ شریف کی طرف رُخ کر کے اللہ کریم سے دعاؤں اور التجاؤں میں مصروف ہو گئے۔یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا۔فریادی ،فریاد کر رہا تھا،بھکاری بن کر آنے والا یہ فقیردامن پھیلائے ،اپنے پروردگار کے حضور،اپنی احتیاجات پیش کررہا تھا۔ جسم پر احرام کا کفن اوڑھے ، ہر زائر،نہ جانے کہاں کہاں سے آیا اور کس کس حیثیت کا مالک،یہاں محض فقیربنا اپنے مالک کے حضور آہ و زاریوں میں مصروف تھا۔کچھ دیردعا کے بعد اللہ اکبر کبیرا ًکہتے ہوئے،ہم دونوں بھائیوں نے صفا سے ،مرویٰ کی طرف چلنا شروع کیا۔کچھ دور تک قدرے ڈھلوانی راستہ تھاپھر ہموار راستہ آگیا۔ہمارے قدموں میں سنگ مر مر سے مزین فرش تھا، کتابوں میں پڑھتے تھے کہ آقا علیہ السلام کے زمانے میں یہاں پتھریاں، روڑے، سنگریزے اور ناہموار زمین ہوا کرتی تھی جس پر سعی ہوتی تھی ،اُوپر آگ برساتا سورج ہو تاتھا،لیکن اب تو یہ زائرسراسرعیش میں تھا۔سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے ساتھیوں کی مشکلات کا تصور کر کے آنکھیں اُمڈ آئیں۔
خاکسار اللہ پاک کا شکر ادا کرتا ہے کہ وہ اس عاجز کو ایک بار پھر اس مقام پر لایا۔
یہ ایک آراستہ و پیراستہ ایئر کنڈیشنڈ ہال ہے۔روشن روشن ماحول،نہایت کشادہ دو طرفہ راستہ ، جس میں ہزاروں زائرین بڑے اطمینان اور سکون سے سعی کر رہے ہیں۔قابل دید منظر ہے۔ جگہ جگہ پانی کے بھرے کولرز موجودہیں۔صفا سے قریباًسو سواسو میٹر کے فاصلے پر سبز لائیٹیں لگائی گئی ہیں اوریہ قریباً۳۰ میٹر تک ہیں ۔ اس حصے میں سے تھوڑا سا بھاگتے ہوئے گزرنا ہے، مرویٰ جاتے ہوئے بھی اور وہاں سے واپس آ تے ہوئے بھی۔باقی کا سارا سفر عام چال میں طے کرنا ہوتا ہے۔ صفا سے مرویٰ تک ایک چکرشمار ہوتا ہے اور مرویٰ سے صفا تک واپسی کی چال دوسرا چکرشمار ہوتا ہے۔اس طرح سے سات چکر لگانے ہوتے ہیں اور یوں سعی کا آغاز صفا سے اور اختتام مرویٰ پر ہوتا ہے۔اس ساری چلت پھرت میں دعائیں کرنا ہی مسنون عمل ہے۔چاہے اپنی زبان میں،چاہے کسی اور زبان میں ،اپنی حاجات اور اپنی مشکلات اور اپنی خو اہشات ،اپنے اللہ کے حضور پیش کریں۔
اس ہال میں،ہر طرف کفن ہی کفن نظر آتے ہیں۔چونکہ سعی حج اور عمرہ کا ایک لازمی رکن ہے ،اس لیے سعی کرنے والا ہر زائر احرام میں ہوتا ہے ،جب کہ طواف میں احرام والے بھی ہوتے ہیں اور بغیر احرام کے بھی۔ طواف میں جو احرام والے ہوتے ہیں یہی لوگ پھر ،اس کے بعدسعی کرنے کے لیے آتے ہیں۔سعی کے آخری پھیرے پر ،مرویٰ میں دعائیں کرنے کے بعد اپنے ساتھی سے کہا کہ،‘‘ مبارک ہو! ہمارا عمرہ مکمل ہوا چاہتا ہے،ہماری سعی مکمل ہوگئی ہے اب صرف باہر نکل کرسر کے بال منڈوانے ہیں اور عمرہ مکمل۔’’شکیل بھائی نے کہا ،جی ،جی،اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔’’ 
عمرہ مکمل ہوتا ہے :
‘‘آئیے ،باہر چلیں’’میں نے عرض کیامسعیٰ کے مین ہال سے نکلنا بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے۔سمتوں کا پتہ نہیں چلتارش ہوتا ہے اور ہر زائر نیا نیا ہوتا ہے ،اس لیے بڑی مشکلات پیش آتی ہیں۔بہر حال ہم تو بڑی آسانی سے باہر آ گئے کیونکہ میرے پہلے کے تجربات اور حرم کے درو دیوار سے میری واقفیت کا م دے رہی تھی۔باب عبدالعزیز سے ہم مسجد الحرام سے باہر آ گئے۔ہمارے سامنے انسانوں کا ایک سیلاب تھا جو مسجد سے باہر آ رہا تھا،ایسا لگتا تھا جیسے کسی بیراج کے دروازے کھولے گئے ہوں اورپانی رش کر کے باہر نکل رہا ہو۔دُور دُور تک سر ہی سر تھے۔ایک ناقابل فراموش منظر تھا۔
عوام کے اس رش کا مشاہدہ کرتے کرتے ،ہم مسجد کے باہری صحن میں کافی آ گے نکل آئے کہ دو نوجوانوں نے ہمیں گھیر لیااور اکٹھے ہی وہ بولے،‘‘،حاجی صاحب،حاجی صاحب!بال منڈوائیں گے آپ،آیئے میرے ساتھ’’ یہ کہتے ہی ایک نے میرا بازو پکڑ لیا اور دوسرے نے میرے ساتھی کا۔مجھے اندازہ تو ہو گیا کہ یہ حجاموں کے کارندے ہیں اور یہ کہ وہ ہمیں اپنااپنا گاہک بنانا چاہتے ہیں۔ہم نے چونکہ بال منڈوانے ہی تھے،لہٰذا میں نے پو چھا ،کتنے ریال لوگے؟سابقہ تجربات کے تحت مجھے اندازہ تھا کہ یہاں کوئی فکس ریٹ نہیں ہوتا، مک مکا ہی کرنا پڑتا ہے۔وہ دونوں اکٹھے بولے پانچ پانچ ریال۔میرا بھی یہی اندازہ تھا،اُن میں سے ایک کے ساتھ جانے کا میں نے ذہن بنا لیاتھا،کہ ایک لڑکا دوسرے کے لیے غلیظ گالی نکالتے ہوئے،ہمیں کہنے لگا،کہ ‘‘ یہ حرامی بنگالی ہے ، پاکستانیوں کو گالیاں نکالتا رہتا ہے ،آپ میرے پاکستانی بھائی ہیں ،بس آپ آئیں میرے ساتھ۔’’اُس لمحے ہماری بھی پاکستانیت جاگ گئی ، ہم اُس کے ساتھ ہو لیے،حالانکہ ہمارے سامنے تو وہی پاکستانی ہی بے چارے بنگالی کوگالیاں بکے جا رہا تھا۔ بہر حال ہم اُس کے ساتھ ہو لیے اور وہ ہمیں مکہ ٹاور کے اندر کی مارکیٹوں میں سے ایک مارکیٹ میں واقع اپنی دکان پہ لے گیا۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس لمحے یہ بال منڈوانا بھی ایک عبادت اور ایک بڑے ثواب کا کام ہے۔؟جی ہاں،ایسا ہی ہے عمرے کا یہ آخری واجب ہے اس کے بعد آپ کا عمرہ مکمل اور آپ احرام کی پابندیوں سے فارغ ہو جاتے ہیں۔
اللہ کریم کا یہ فضل و کرم تھا کہ ہم جس نیت سے گھر سے نکلے تھے،اس لمحے یہ کام مکمل ہو گیا ۔رب تعالیٰ قبول فرمائیں،یہ ایک بڑی سعادت ہے جس سے ہم فیض یاب ہو چکے تھے۔ہم دونوں بہت خوش تھے۔رات کے بارہ بج چکے تھے ،اُدھر پاکستان میں تو رات کے دو بجے ہوں گے ،میرے پاس تو رابطہ کے لیے سعودی سم نہیں تھی ،اس لیے میں تو خاموش ہی تھا ،البتہ شکیل بھائی نے رات کے اُس لمحے اپنے گھر بات کر کے اپنی خیر خیریت کی خبر دے لی۔میں نے بھی اُن سے موبائل لے کر اپنی بیگم صاحبہ کو اپنی اس سعادت کے حصول کی خوش خبری سنادی۔الحمد للہ علیٰ ذالک۔اپنے ہوٹل میں واپس آ کر،ہم نے احرام اُتارا،دوسرے کپڑے پہنے اور پھر فوری طور پر ہی بستر استراحت میں دراز ہوگئے اور جلد ہی نیند کی آ غوش میں پہنچ گئے۔
شدت تکلیف:
پچھلے کئی سالوں سے میرے پاؤں میں ایک تکلیف ہے ،ایڑی میں درد رہتا ہے۔ دائیں ٹانگ کے عضلات کا پٹھہ جسے ( Acilles tendon)کہتے ہیں،ایڑی کی ہڈی پر،جہاں آکر پیوست ہوتا ہے ،اُس جگہ درد رہتا ہے۔کبھی زیادہ اور کبھی کم۔بعض اوقات تو اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ چلنے میں خاصی دقت پیش آتی ہے۔ ننگے پاؤں تو چل ہی نہیں سکتا اور نہ ہی سلیپر استعمال کر سکتا ہوں ،ہمیشہ بند جوتا استعمال کرتا ہوں جس سے تمام ترمعمولات زندگی بہ سہولت انجام دیتا رہتا ہوں لیکن آج رات حرم میں ،طواف و سعی کے دوران میں، بہت زیادہ ،ننگے پاؤں چلنا پڑا تھاجس سے اُسی دوران میں بھی تکلیف ہوتی رہی اور بمشکل مناسک مکمل کر پایا تھا ،لیکن آج صبح جب بیدا رہوا تویہ تکلیف اپنی شدت اختیار کر چکی تھی۔بستر سے جوں ہی نیچے پاؤں رکھا تو اتنا شدید درد ہو اکہ الامان والحفیظ! میں لنگڑاتا ہو ا اور بیڈ کے بازوؤں کا سہارا لیتا ہوا باتھ روم میں گیا،وضو کر کے جب باہر نکلا تو بھی وہی کیفیت تھی۔کچھ دوا لی،گرم جرابیں پہنیں ،بند جوتا پہنا اورنماز فجر کے لیے کمرے سے باہر نکل آیا۔ چلنے میں اتنی زیادہ تکلیف ہو رہی تھی کہ حرم میں جانا ناممکن ہو گیا اور مجھے طوعاً و کرہاً،ہوٹل کی مسجد میں ہی نماز فجر ادا کرنا پڑی تھی ۔ 
مکہ معظمہ میں یہ میری پہلی نماز فجر تھی اور وہ بھی حرم میں پڑھنی نصیب نہ ہوئی۔یہ بہت بڑی محرومی تھی۔مجھے یہ سوچ کر ہی رونا آگیا اور اُس دِن میں نے اپنے رب کے سامنے خوب آنسو بہائے۔آج پہلے دِن ہی یہ عالم تھا تو آگے کیا بنے گا۔ مناسک حج کیسے ادا ہونگے؟ اس تکلیف کے ساتھ تو میں عرصہ دراز سے گزارا کرہی رہا تھا،کبھی تکلیف بڑھ جاتی تو دوا کھا لیتا وگرنہ عام طور پر برداشت ہی کرتاتھا۔اس بیماری سے میرے معمولات زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا خصوصاً بچوں کے لیے روزی کمانے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔اب مجھے رونا جس بات پر آرہا تھا وہ یہ نہ تھی کہ مجھے کوئی ناقابل برداشت دردتھا بلکہ یہ سو چ سوچ کرمیرے آنسو نکل رہے تھے کہ میرے مناسک حج کا کیا بنے گا؟میں اگر چل نہ پایا تو پھر میری زیارتوں کا کیا بنے گا،طواف و سعی کیسے کروں گا!غرض اس قسم کے بہت سے سوالات تھے جو مجھے رُلا رہے تھے اور اس رونے میں خاکسار اپنے پروردگار کو پکار رہا تھا۔الحمد للہ کہ ِاس نالہ و فریاد کا بارگاہ ایزدی سے مثبت جواب آیا اور میں دِل کا اطمینان لے کر مسجدسے اُٹھ کر کمرے میں آکر ایک بار پھر لیٹ گیااوراللہ کریم سے یہ دعائیں مانگتا مانگتا سو گیا کہ میرے مالک! نماز ظہر کی، مسجد الحرام میں،ادائیگی کی توفیق عطا فرمانا۔
پانی کے پھوارے:
ایک بار پھر اچھی نیند آئی اور رات والے عمرے کی تھکاوٹ اُتر گئی۔گیارہ بجے دِن اُٹھ کر ،نہائے دھوئے اور فریش ہوکر نماز ظہر کی ادائیگی کے لیے حرم روانہ ہوگیا۔ ہوٹل سے باہر جب گلی میں آیاتوسخت گرمی اور لُو نے استقبال کیا۔سورج سوا نیزے پر تھا۔چونکہ اس گرمی کے لیے ذہناً تیارتھا اس لیے کوئی زیادہ پریشانی تو نہ ہوئی لیکن وہ سکون بھی میسر نہ تھا جوہوٹل کے کمرے کے اندر تھا۔جتنی زیادہ گرمی تھی اور جس شدت سے سورج اپنی تمازت بکھیر رہا تھا ،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گلیاں اور سڑکیں سنسان ہوتیں جیسا کہ ہمارے ہاں ہمیشہ ہوتا ہے ،لیکن مکہ شریف کی گلیا ں اور سڑکیں اِس دوپہر میں بھی انسانوں سے اَٹی پڑیں تھیں۔کل رات بارہ بجے بھی ،جب ہم عمرہ کرکے لوٹے تھے تو بھی رش کا یہی عالم تھا اور اب دِن کے ساڑھے گیارہ بجے بھی وہی منظر ہے۔یا للعجب! 
چلتے چلتے میں ہوٹل والی گلی سے نکل کر مین روڈ پر آگیاجسے شارع ابراہیم خلیل کہا جاتا ہے ۔ عربی میں شارع ،روڈ کو کہتے ہیں۔ اس سڑک پر بھی انسانوں کے رش کا یہی عالم تھا دور دور تک انسانی سروں کی فصل لہرا رہی تھی۔یہ دو طرفہ روڈ ہے اور اس کے درمیان میں ڈیوائڈرہے۔ڈیوائیڈر میں تھوڑے تھوڑے وقفے پر لوہے کے کھمبے نصب تھے۔عام طور پر ایسے پول روشنی کے لیے لگائے جاتے ہیں اور اِن کی یہ حیثیت کوئی زیادہ قابل تذکرہ بھی نہیں ہوتی لیکن یہاں اِن سے ایک اور مفید کام لیا جارہا تھا جو میں نے پہلے کہیں نہیں دیکھا تھا۔ اِن کھمبوں سے پیدل چلنے والوں پر پانی کی پھوار پھینکی جا رہی تھی۔پانی کے فوارے تو دیکھے تھے ،اِ ن کو خاکسار نے پھوارے کا نام دیا ہے کیونکہ یہ راہ گیروں پرپانی کی نرم نرم پھوار چھوڑ رہے تھے جس سے اُن کو ٹھنڈک کا احساس توہوتا تھا لیکن اُن کے کپڑے نہیں بھیگتے تھے۔ایک ایک پول سے چار چار پھوارے پھوٹ رہے تھے اور اِن سے نکلنے والے پانی نے ایک عجیب سا سماں باندھ دیا تھا۔فضا میں ایک خوبصورت منظر بن گیا تھاجو قابل دید توتھالیکن قابل بیان نہیں۔اتنی شدید گرمی اور کاٹ کھانے والی دھوپ کو اِ ن پھواروں نے جس طرح نیوٹرل کر دیا تھا ،میں تو اِس پر عش عش کر اُٹھا اوراِس پر حکومت سعودیہ کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔میں قربان جاؤں اس خیال کو پیش کرنے والے بندے پر اور اِس آئیڈیے کو عملی جامہ پہنانے والی حکومت پر۔
موبائل سم کی خریداری:
میں بڑے آرام سے چل رہا تھا۔پاؤں کی تکلیف موجود تو تھی لیکن ،الحمدللہ کوئی دِقت نہیں ہو رہی تھی۔اِن پھواروں کا لطف لیتے ،زائرین کرام کی زیارت کرتے اور مختلف دُکانوں پر رُکتے رکتے میں آگے بڑھ رہا تھا۔ کبوتر چوک پر پہنچااورپھر اُس سے آگے (حرم کی طرف)بڑھ آیا۔میں کسی فون کمپنی کے دفتر کی تلاش میں تھا۔کل کا ،میں پاکستان سے نکلا ہوا تھا لیکن ابھی تک بچوں سے اور دوست احباب سے رابطہ نہ کر سکا تھاکیونکہ میرے پاس ابھی تک سعودیہ کی سم (SIM)نہیں تھی۔یہ ایک الگ کہانی ہے ۔سُن رکھا تھا کہ نئی سم کے بہانے، یہاں اجنبی زائرین کو بہت لوٹا جاتا ہے۔کئی کہانیاں زبان زد عام ہیں۔ ہمارے ساتھ آئے ہوئے کئی زائرین اپنی اپنی کہانیاں سناتے تھے۔کل جب ہم ہوٹل پہنچ کر اپنی بس سے اُترنے لگے تو ٹرانسپورٹ کمپنی کے نمائندے نے تنبیہ کرتے کہا بھی کہ نئی سم کسی فرنچائز سے لینا ،ایسے ویسے کسی پھیری والے سے نہ لے لینا۔بے شمار فراڈیئے ادھر اُدھر پھر رہے ہوتے ہیں ،اُن سے بچنا۔یہ لوگ غیر تصدیق شدہ سمیں ،سادہ لوح لوگوں کو ،مختلف قسم کے لالچ دے کر بیچ رہے ہوتے ہیں۔اوروہی ہوا،بس سے اُتر کر جوں ہی ہم ہوٹل کی طرف بڑھے ،اس طرح کے لوگوں نے ‘‘فری سم فری سم’’ کہتے کہتے ہم سب کو گھیر لیا۔ کئی لوگ اُن کے جھانسے میں آ گئے لیکن بعد میں وہ روتے نظر آئے۔ میں اس لیے خاصا محتاط تھااور بازار میں کسی فرنچائزشاپ کی تلاش میں تھا۔آخر حرم کے قریب ہی ،ایسی ہی ایک دکان، مجھے نظر آ ہی گئی ۔ اُس کے اندر داخل ہوا۔بڑی خوبصورت سجاوٹ تھی جیسا کہ اس طرح کی دکانوں کی روایت ہے۔چار کارندے گاہکوں کے ساتھ مصروف تھے اور باقی گاہک منتظر بیٹھے تھے۔میں ایک طرف کو بیٹھ گیا اور اُن کے برت برتاؤ کا(Dealings) مشاہدہ کرنے لگا۔دیکھا کہ یہاں عربی زبان چل رہی ہے۔ قدرے پریشانی ہوئی ،میں اپنی عربی دانی کو یاد کرنے لگا۔اپنے مسئلے کے بیان کے لیے بمشکل ایک آدھ لفظ ہی ڈھونڈ پایاتھا کہ ایک گاہک کو انگریزی میں بات کرتے سنا ،تو میرا کچھ حوصلہ بڑھا،کہا ،اب کوئی فکر نہیں انگریزی میں کچھ دال دلیا کر ہی لوں گا۔میری باری ابھی قدرے دُور تھی۔دفتر کے باہر دیکھا تو ایک آدمی کو ،جو کہ اسی کمپنی کی یونیفارم میں ملبوس تھا،اردو میں باتیں کر رہا تھا اور لوگوں کو سموں کے بارے میں ہی ہدایات دے رہا تھا۔میں دوڑ کے اُس کے پاس پہنچا اور اُسے اپنی ضروریات سے آگاہ کیا۔میں نے ایک تو نئی سم لینی تھی اور دوسرا مجھے اپنے فون سیٹ میں سم بدلنے کی جانچ بھی نہیں تھی۔اللہ بھلا کرے اُس نمائندے کا ،اُس نے میرے دونو ں مسئلے حل کر دیئے اورمناسب سا نیٹ پیکج بھی لگا دیا۔ایک بڑا مسئلہ حل ہوگیا اور فوراًہی،دوست احباب اور بچوں سے ہمارے رابطے بحال ہوگئے۔اتنے میں حرم میں ظہر کی نماز کی اذان بھی ہو گئی اور میں فوری طور پرمسجد الحرام کے اندر آگیا ۔نماز باجماعت ادا کرکے کعبہ شریف کی زیارت کی ۔پاؤں میں تکلیف کے باعث طواف کا یارا نہ تھااِس لیے ہوٹل واپس آگیا۔ظاہر ہے راستے میں گرمی اپنے جلوے دِکھلا ہی رہی تھی لیکن ،ملک ملک سے آئے زائرین حرم کی زیارت کرتے کرتے ،نہ ہوٹل کی دُوری کا احساس ہوا اور نہ ہی گرمی نے کوئی پریشانی دی۔
نظام طعام:
خاکسار نے حج کے لیے جو پیکج لیا تھا وہ کھانے سمیت تھا یعنی یہ ٹور آپریٹر کمپنی جہاں اس پورے عرصے میں ہمارے قیام کی ذمہ دار تھی وہیں وہ ہمارے تین وقت کے کھانے کی بھی ذمہ دار تھی۔میں نے کمپنی والوں سے یہ عرض کی تھی کہ میرا پیکج، بغیر طعام کے اہتمام والا کریں ،لیکن وہ نہ مانے ،اُن کے بقول یہ ہم پر حکومت پاکستان کی طرف سے پابندی ہے کہ ہم نے ہر گاہک کو کھانا بھی لازمی مہیا کرنا ہے۔پیکج کی رقم میں کھانے کے پیسے شامل ہیں،آپ چاہے ہمارے ساتھ کھانا کھائیں یا نہ کھائیں ،رقم تو واپس نہ ہوگی۔میرا خیال یہ تھا کہ مجھے وہاں اِ ن کے اوقات کا پابند ہونا پڑے گا جس سے حرم میں حاضری اور عبادات کے اہتمام میں خلل پڑے گا،وقت بہت ضائع ہوگا۔ یہاں آکر پہلے دِ ن ہی میرے خدشات صحیح ثابت ہوئے۔ہمیں جو شیڈول دیا گیا وہ کچھ اِس طرح سے تھا کہ حرم میں نماز فجر کی ادائیگی کے بعد ناشتہ لگ جاتا تھا اور دو گھنٹے کا وقت تھا جس کے دوران میں آکرآپ نے ناشتہ کرنا ہے۔گویا نماز فجر کے بعد لازماً آپ کو ہوٹل واپس آنا ہے۔ نماز ظہر کے بعد دوپہر کا کھانا اور عشاء کے بعد رات کا کھانا شیڈول تھا۔اِس روٹین پر چلیں تو یا تو آپ ایک آدھ کھانا skipکریں اور حرم میں اپنی عبادت میں مشغول رہیں یا پھر حرم میں ایک آدھ نماز کی سعادت سے ہاتھ کھینچیں اور اِس شیڈول کے مطابق کھانا کھائیں۔جولائی کے لمبے دِن تھے تین وقت کھانا بھی ہماری عادت اور ضرورت تھی۔کرتے تو کیا کرتے ،عجیب مخمصہ تھا۔پہلے جب عمرہ شریف حاضر ہونے کی سعادت ملی تھی تو اُس وقت یہ طریقہ ہوتا کہ جتنی دیر چاہیں آپ حرم میں رہیں اور جب بھوک لگے ،قریب ہی کسی ہوٹل سے کھانا کھا لیں ،اللہ اللہ خیر صلا، اور جب چاہیں اپنے رہائشی ہوٹل میں واپس آ جائیں اور آرام کریں۔لیکن اب معاملہ پیچیدہ ہوگیا،معلوم ہوتا تھا کہ ہوٹل سے حرم ،حرم سے واپس ہوٹل،ناشتہ پھر ظہر کے لیے حرم،پھر دوپہر کے کھانے کے لیے واپس ہوٹل،کھانے کے بعد ذرا کی دیر سستائے تو عصر کے لیے پھر حرم جائیں،بلکہ ظہر اور عصرکے درمیان اتنا کم وقت ہو تا تھا کہ آپ اگر لیٹ گئے تو حرم کی جماعت سے گئے اور اب آپ مغرب میں ہی حاضر ہو سکتے ہیں ،پھر عشا ء اور عشا کے بعد پھر رات کے کھانے کے لیے واپس بھاگیں۔ عجیب و غریب شیڈول بنتا تھا جس میں صرف آمد و رفت اور خورونوش ہی نظر آتا ہے۔دو دِن تو یہ مشق کی لیکن بڑی بے لذتی ہوئی،تیسرے دِن سے یہ روٹین بنا لی کہ نماز فجر کے لیے گئے اور نماز عشا ء کے بعد واپس آگئے اور رات کا کھانا avail کرلیا اور دِن میں ضرورت محسوس کی تو حرم کے قریب ہی کسی ہوٹل سے کھانا کھا لیا۔یہ کام مہنگا تو تھا لیکن عبادت اور حرم میں موجود رہنے کی لذت سے بھر پور تھا۔الحمدللہ ، کہ رب کریم نے اس عاجز و گناہ گار کو اِس طرح زیادہ سے زیادہ دیر حرم میں رہنے کی توفیق بخشی۔
شروع کے چند دِن تو کمپنی والوں نے نہایت ہی اچھا کھانا دیالیکن بعد میں وہ صاف طور پر اِس مد میں کمائی کرتے نظر آئے۔دِل تو کرتا ہے کہ اس سلسلے کی ساری تفصیلات لکھوں لیکن‘‘ سفرحج کا پروٹوکول’’ اِس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں اِس طرح کی منفی باتوں کی تفصیلات بیان کروں۔ 

جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا اُس میں ، ہمارے علاوہ باقی سب زائرین کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا۔بلکہ اُس پورے علاقہ میں تمام چھوٹے بڑے ہوٹلوں میں بنگالیوں کی اکثریت تھی۔بلکہ اُن کابہت ہی زیادہ غلبہ تھا۔گلیوں میں ،سڑکوں پر،حرم میں ،طواف میں ،مسعیٰ میں اور شاپنگ مالز میں ،غرض ہر طرف ہمارے یہ بنگلہ دیشی بھائی چھائے ہوئے تھے۔دیگر ممالک سے بھی لوگ آرہے تھے لیکن کیمونٹی وائز ابھی تک اِن کا غلبہ تھا۔یہ وسط جولائی کا مشاہدہ تھا ،جو آخر تک قائم رہا۔بنگلہ دیشیوں سے ہمارا پرانا رشتہ اور پرانی جان پہچان ہے جب کہ وہ ابھی ہمارے ہی ہم وطن تھے لیکن کبھی بھی اِن لوگوں سے براہ راست ذاتی واسطہ نہیں پڑا تھا اور یہ پہلی دفعہ تھی کہ اتنی کثیر تعداد میں اِن بھائیوں کی زیارت نصیب ہورہی تھی۔ بنگلہ دیش پہلے ہمارا ہی حصہ ہوتا تھااوریہ مشرقی پاکستان کہلاتا تھا،پھر،سن ۱۹۷۱ ء میں اندرونی اور بیرونی سازشوں کے باعث ،یہ بھائی ہم سے جدا کر دیئے گئے اور یہ جدائی اگرچہ دو بھائیوں کی جدائی تھی لیکن نہایت تلخ یادیں چھوڑ گئی تھی اور یہ تلخی ہم یہاں بھی محسوس کر رہے تھے۔
یہاں پر آئے ہوئے ،بنگالی بھائی،ہماری طرح ،عمر کے اِس حصے میں حج پر آئے تھے جس پر ‘‘بابا’’ ہونے کا اطلاق ہوتا ہے۔ یعنی اِن کی کثیر تعداد بوڑھے مرد و خواتین پر مشتمل تھی اوراِن لوگوں کی شکل و صورت اور قد و قامت کسی طور بھی جاذب نظر نہیں تھی لیکن ہمارے آنے جانے کی راہوں میں اور ہوٹل کی لابی اور لفٹس میں اور حرم میں بھی اِن لوگوں سے اتنا زیادہ ــٹاکرا اور سامنا ہوتا تھاکہ آپ اِ ن بنگالی بابوں کونظر انداز کر ہی نہیں سکتے تھے، اُس وقت نہیں کر سکتے تھے تو اب تحریر کے وقت کیسے کر سکتے ہیں،لہٰذا اُ ن کے لیے یہ چند لائینیں لازمی تھا کالی کرنی۔اِ ن کو دیکھے اور اِن کے سراپا اور لباس و اطوار کا مشاہدہ کیے بغیر،آپ آگے گزر ہی نہیں سکتے تھے۔کالا رنگ ،چھوٹا قد، مختصر سا لباس اور تیز قدم ،یہ ہے ہمارا بنگالی بھائی۔ہماری سفر حج کی یادوں میں اِ ن بنگالی بھائیوں کا وافر حصہ ہے اور مجھے اعتراف کرنے دیجیئے کہ یہ یادیں بھی کوئی زیادہ شیریں اور میٹھی یادیں نہیں ہیں۔ پاکستان کی جس نسل سے میرا تعلق ہے ،وہ بنگالی بھائیوں کو بھول ہی نہیں سکتی۔ہم نے اپنے سکولوں کے مضامین 
میں ،مشرقی پاکستان کے تاریخ جغرافیہ اور شہریت پررٹے مارے ہوئے ہیں۔وہاں کے شہروں کے نام،دریاؤں کے نام، جنگلات کے نام،زرعی پیداوار اورصنعتی پیداوار اور معدنیات کے ناموں کو یاد کرنے کے لیے اُستادوں سے ڈنڈے کھائے ہوئے ہیں۔تحریک پاکستان میں بنگالی مشاہیر اور رہنماؤں کے احوال زندگی کو یاد کیا ہوا ہے۔پھر میرا تعلق پاکستان کی ایک دینی سیاسی جماعت سے رہا ہے جس نے بنگالی بھائیوں کی علیحدگی کی تحریک میں، محب وطن قوتوں کا ساتھ دیا تھااورپاکستان کے ساتھ اِس تعلق کو نبھانے کے لیے ،سن ۱۹۷۱ء میں،ہزاروں کی تعداد میں اپنے کارکنان کو اِس جنگ میں جھونکا اور سینکڑوں نے اپنی جانیں ،پاکستان کی بقا پر قربان کی تھیں۔سقوط ڈھاکہ ایک المیہ تھا جس پر سالوں ہم نے آنسو بہائے۔ جدائی کی جنگ کا ایک ایک لمحہ میرے سامنے ہے اوردونوں ممالک کی،جدائی کے بعد کے حالات پر بھی خاکسار کی گہری نظر ہے،اس سب کچھ کا نتیجہ یہ ہے کہ میں ابھی تک اپنے اِن بنگالی بھائیوں کے ساتھ قلبی اُنس و محبت رکھتا ہوں اور میرے جیسے کروڑوں پاکستانی اب بھی اپنے اِن سابق پاکستانیوں سے محبت رکھتے ہیں۔اب جب کہ اتنی کثیر تعداد میں ،اِن سے میل جول کے مواقع پیدا ہوئے تھے تو میں اِس سے فائدہ اُٹھانا چاہتا تھا،کچھ تعلق بڑھانا چاہتا تھا ،کچھ معلومات لینا چاہتاتھا،میں انھیں اپنی سطح پر باور کرانا چاہتا تھا کہ ہم اب بھی اُن سے محبت کرتے ہیں۔لیکن شروع کے دنوں میں ہی ،ہوٹل کے اندر،ہمارے اور اُن کے درمیان کچھ ایسی تلخیاں پیدا ہوگئیں کہ بعد میں اِن لوگوں سے تعلق بڑھانے کا حوصلہ ہی نہ رہا۔ 
(جاری ہے )