سوال ؍ جواب

مصنف : مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : مارچ 2020

اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ خدا کا استعمال جائز ہے اور صدیوں سے اکابرین اس کو استعمال کرتے آئے ہیں اور کبھی کسی نے اس پر نکیر نہیں کی۔ اب کچھ لوگ پیدا ہوئے ہیں جن کے ذہن پر عجمیت کا وہم سوار ہے، انہیں بالکل سیدھی سادی چیزوں میں’’عجمی سازش‘‘نظر آتی ہے، یہ ذہن غلام احمد پرویز اور اس کے ہم نواؤں نے پیدا کیا اور بہت سے پڑھے لکھے، شعوری و غیرشعوری طور پر اس کا شکار ہوگئے۔ اسی کا شاخسانہ یہ بحث ہے جو آپ نے کی ہے۔ عربی لفظ میں رب مالک اور صاحب کے معنی میں ہے، اسی کا ترجمہ فارسی میں لفظ خدا کے ساتھ کیا گیا ہے، چنانچہ جس طرح لفظ رب کا اطلاق بغیر اضافت کے غیراللہ پر نہیں کیا جاتا، اسی طرح لفظ خدا بھی جب مطلق بولا جائے تو اس کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے، کسی دوسرے کو خدا کہنا جائز نہیں۔
غیاث اللغات میں ہے:’’خدا بالضم بمعنی مالک، صاحب چوں لفظ خدا مطلق باشد بر غیر ذات باری تعالیٰ اطلاق نکنند مگر در صورتیکہ بچیزے مضاف شود، چوں کد خدا، ودہ خدا۔‘‘ٹھیک یہی مفہوم اور یہی استعمال عربی میں لفظ رب کا ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ’’اللہ‘‘تو حق تعالیٰ شانہ کا ذاتی نام ہے، جس کا نہ کوئی ترجمہ ہوسکتا ہے نہ کیا جاتا ہے، دوسرے اسمائے الٰہیہ صفاتی نام ہیں جن کا ترجمہ دوسری زبانوں میں ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کے پاک ناموں میں سے کسی بابرکت نام کا ترجمہ غیرعربی میں کردیا جائے اور اہل زبان اس کو استعمال کرنے لگیں تو اس کے جائز نہ ہونے اور اس کے استعمال کے ممنوع ہونے کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اور جب لفظ ‘‘خدا’’صاحب اور مالک کے معنی میں ہے اور لفظ ‘‘رب ’’کے مفہوم کی ترجمانی کرتا ہے تو آپ ہی بتائیے کہ اس میں مجوسیت یا عجمیت کا کیا دخل ہوا؟ کیا انگریزی میں لفظ ‘‘رب ’’کا کوئی اور ترجمہ نہیں کیا جائے گا؟ اور کیا اس ترجمے کا استعمال یہودیت یا نصرانیت بن جائے گی؟ افسوس ہے کہ لوگ اپنی ناقص معلومات کے بل بوتے پر خود رائی میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں اسلام کی پوری تاریخ سیاہ نظر آنے لگتی ہے اور وہ چودہ صدیوں کے تمام اکابر کو گمراہ یا کم سے کم فریب خوردہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ماں کی تو خواہش ہوتی ہے کہ اس کی بچی اپنے گھر میں خوش و خرم رہے، تعجب ہے کہ آپ کی والدہ کا رویہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ بہرحال آپ کی والدہ کی ناراضی بے جا ہے، آپ اپنی والدہ کی جتنی خدمت بدنی، مالی ممکن ہو کرتی رہیں اور اس کی گستاخی و بے ادبی ہرگز نہ کریں۔ اس کے باوجود اگر وہ ناراض رہتی ہیں تو آپ کا قصور نہیں، آپ سے انشاء اللہ اس پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔
 

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

کسی چیز کا تدریجاً (آہستہ آہستہ) وجود میں آنا اس کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں، ایک یہ کہ فاعل اس کو دفعتاً وجود میں لانے پر قادر نہ ہو، اس لئے وہ مجبور ہے کہ وہ اس چیز کو آہستہ آہستہ وجود میں لائے۔ اور دوسری صورت یہ کہ فاعل تو اس چیز کو دفعتاً وجود میں لانے پر قادر ہے مگر کسی حکمت کی بنا پر وہ اس کو آناً فاناً وجود میں نہیں لاتا، بلکہ آہستہ آہستہ ایک خاص معین مدت کے اندر اسے وجود میں لاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو آسمان و زمین کو ۶ دن میں پیدا فرمایا اس کی وجہ پہلی نہیں تھی بلکہ دوسری تھی۔ اس لئے آپ کا اشکال تو ختم ہوجاتا ہے، البتہ یہ سوال ہوسکتا ہے کہ وہ کیا حکمت تھی جس کی بنا پر آسمان زمین کی تخلیق تدریجاً ہوئی؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ افعالِ الٰہیہ کی حکمتوں کا احاطہ کون کرسکتا ہے؟ اس میں جو حکمتیں بھی ملحوظ ہوں وہ سراپا خیر ہوں گی۔ مثلاً: ایک حکمت بندوں کو آہستگی اور تدریج کی تعلیم دینا ہوسکتی ہے کہ جب ہم نے قادر مطلق ہونے کے باوجود اپنی تخلیق میں تدریج ملحوظ فرمائی ہے تو تمہیں تو کوئی کام کرتے ہوئے بدرجہ اولیٰ تدریج سے کام لینا چاہئے، یا مثلاً: یہ حکمت ہوسکتی ہے کہ اس دنیا کا نظام اسباب کے تدریجی سلسلہ کے تحت چلے گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ قادر ہیں کہ انسان کو ایک لمحہ میں پیدا فرماکر جیتا جاگتا کھڑا کردیں، مگر نہیں! اس کی حکمت ایک خاص نظام کے تحت تدریجاً اس کی نشوونما کرتی ہے۔ یہی حال نباتات وغیرہ کا بھی ہے، اور اگر غور کیا جائے تو اس عالم کی تمام ترقیات تدریج ہی کے تحت چل رہی ہیں، کیا عجب ہے کہ آسمان و زمین کی تدریجی تخلیق میں یہ حکمت بھی ملحوظ ہو۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ان علوم کے بارے میں چند باتوں کو سمجھ لینا ضروری ہے۔
اوّل۔ مستقبل بینی کے جتنے طریقے ہیں، سوائے انبیاء علیہم السلام کی وحی کے، ان میں سے کوئی بھی قطعی و یقینی نہیں، بلکہ وہ اکثر حساب اور تجربے پر مبنی ہیں، اور تجربہ و حساب کبھی صحیح ہوتا ہے، کبھی غلط۔ اس لئے ان علوم کے ذریعہ کسی چیز کی قطعی پیش گوئی ممکن نہیں کہ وہ لازماً صحیح نکلے، بلکہ وہ صحیح بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی۔
دوم ۔کسی غیریقینی چیز کو یقینی اور قطعاً سمجھ لینا عقیدہ اور عمل میں فساد کا موجب ہے، اس لئے ان علوم کے نتائج پر سو فیصد یقین کرلینا ممنوع ہے کہ اکثر عوام ان کو یقینی سمجھ لیتے ہیں۔
سوم ۔مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں دو قسم کی ہیں، بعض تو ایسی ہیں کہ آدمی ان کا تدارک کرسکتا ہے، اور بعض ایسی ہیں کہ ان کا تدارک ممکن نہیں۔ ان علوم کے ذریعہ اکثر پیش گوئیاں اسی قسم کی کی جاتی ہیں جن سے سوائے تشویش کے اور کوئی نفع نہیں ہوتا ، جیسا کہ سوال میں بھی اس طرح اشارہ کیا گیا ہے، اس لئے ان علوم کو علومِ غیرمحمودہ میں شمار کیا گیا ہے۔
چہارم ۔ان علوم کی خاصیت یہ ہے کہ جن لوگوں کا ان سے اشتغال بڑھ جاتا ہے، خواہ تعلیم و تعلّم کے اعتبار سے، یا استفادے کے اعتبار سے، ان کو اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق نہیں رہتا، یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام اور خصوصاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو ان علوم میں مشغول نہیں ہونے دیا، بلکہ ان کے اشتغال کو ناپسند فرمایا ہے اور انبیاء علیہم السلام کے سچے جانشین بھی ان علوم میں اشتغال کو پسند نہیں کرتے۔ پس ان علوم میں سے جو اپنی ذات کے اعتبار سے مباح ہوں، وہ ان عوارض کی وجہ سے لائقِ احتراز ہوں گے۔

 

()

ان پھلوں کے خراب ہونے سے پہلے تک تو مالک کا انتظار کیا جائے، جب خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو مالک کی طرف سے کسی محتاج کو دے دئیے جائیں۔ اگر بعد میں مالک آئے تو اس کو صحیح صورت سے آگاہ کردیا جائے، اگر مالک اس صدقہ کو جائز رکھے تو ٹھیک، ورنہ مالک کو ان پھلوں کی قیمت ادا کردیں اور یہ صدقہ آپ کی طرف سے شمار ہوگا۔
 

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

اگر تلاش کے باوجود اس بکری کے بچے کا مالک نہیں مل سکا تو اس کا حکم گمشدہ چیز کا ہے کہ مالک کی طرف سے صدقے کی نیت کرکے کسی غریب محتاج کو دے دیا جائے، اگر بالفرض کبھی مالک مل جائے تو اس کو اختیار ہوگا، خواہ اس صدقے کو برقرار رکھے یا آپ سے اس کی قیمت وصول کرلے۔ دُوسری صورت میں یہ صدقہ آپ کی طرف سے ہوجائے گا۔
 

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

یہ شخص اگر کسبِ معاش اس لئے کرتا ہے کہ اس کو خدائے تعالیٰ نے حکم دیا کہ اپنے والدین اور اولاد کے لئے رزقِ حلال کی کوشش کرو، اور واقعی رزقِ حلال کے لئے کوشش کرتا ہے تو واقعی وہ عبادت میں مصروف ہے، کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص روزی اس لئے کماتا ہے کہ اپنے بال بچوں کی پروَرِش کرے اور کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے اور اسے خدائے تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے تو وہ شخص ہر وقت عبادت میں مصروف ہے اور اس کی یہ کمائی بھی عبادت کے درجے میں ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دُوسرے فرائض سے غافل ہوجائے، جس طرح والد کی خدمت کرنے والا اور والدہ کی خدمت نہ کرنے والا قابلِ مؤاخذہ ہے، ایک بچے کی پروَرِش کرنے والا اور دُوسرے بچے کی پروَرِش نہ کرنے والا قابلِ مؤاخذہ ہے، اس کی مثال بالکل اس طرح ہوگی کہ ایک شخص کسی جگہ نوکری کرتا ہے اور اس کے ذمہ دو کام لگائے جاتے ہیں، اب اگر وہ ایک کام میں اتنا منہمک ہوجائے کہ دُوسرے کام سے جاتا رہے تو ایسے شخص کے لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنی نوکری کے فرائض پورے کر رہا ہے، بلکہ اس کو نوکری سے جواب مل جائے گا۔ اسی طرح خدائے تعالیٰ نے فرائض مقرّر کئے ہیں، اب جو شخص جس جس فرض کو پورا کرے گا تو اس کو اس فرض کی ادائیگی کا ثواب ملے گا، اور اگر ایک فرض میں بھی کوتاہی کرے گا تو وہ اس فرض کے سلسلے میں پکڑا جائے گا اور اس کو اس جرم کی سزا دی جائے گی۔ کسی ایک فرض کی ادائیگی سے دُوسرے فرض سے وہ چھٹکارا نہیں پاسکتا۔
 

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

اگر زیور بیوی کی ملکیت ہے تو وہ جس طرح چاہے اور جہاں چاہے خیرات کرسکتی ہے، شوہر کا اس پر کوئی حق نہیں۔ لیکن حدیث پاک میں ہے کہ عورت کے لئے بہتر صدقہ یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر اور بال بچوں پر خرچ کرے۔ اس لئے میں اس نیک بی بی کو جو پندرہ سو روپے خرچ کرنا چاہتی ہے، مشورہ دُوں گا کہ وہ اپنے سارے زیور سے اپنے شوہر کا قرضہ ادا کردے، اس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوجائیں گے اور اس کو جنت میں بہترین زیور عطا کریں گے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

وراثت تو موت کے بعد تقسیم ہوتی ہے، زندگی میں والد اپنی اولاد کو جو کچھ دے دے وہ عطیہ ہے، اور ظاہر ہے کہ عطیہ دینے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اولاد کے درمیان تقسیم کرتا ہے تو بعض أئمہ کے نزدیک اس کو چاہئے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر رکھے، اور بعض أئمہ کے نزدیک مستحب یہ ہے کہ سب کو برابر دے، لیکن اگر لڑکوں کو دو حصے دئیے اور لڑکی کو ایک حصہ دیا تب بھی جائز ہے۔ لہٰذا صورتِ مسؤلہ میں اس شخص کی تقسیم صحیح ہے اور لڑکیوں کا اصرار صحیح نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

میں ایک فیکٹری میں اسٹور کیپر کی حیثیت سے ملازم ہوں، ہمارے پاس جو مال ہوتا ہے، یعنی جو چیز فیکٹری کے لئے آتی ہے اس کی خرید و فروخت وغیرہ ہمارے سیٹھ یعنی فیکٹری کے مالک کرتے ہیں، ریٹ وغیرہ مال سپلائی کرنے والے سے خود طے کرتے ہیں۔ میرا صرف یہ کام ہوتا ہے کہ جب فیکٹری میں مال آئے، اس کو چیک کروں کہ مال صحیح ہے، خراب تو نہیں؟ یا وزن کم تو نہیں؟ وہ میں چیک کرکے وصول کرتا ہوں مال بھی صحیح ہوتا ہے، اور وزن بھی ٹھیک ہوتا ہے، مگر مال سپلائی کرنے والے مجھے فی نگ ۵ روپے کمیشن دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم سب کو دیتے ہیں، جن جن کے پاس ہمارا مال جاتا ہے، یہ کمیشن وہ مجھے خود دیتے ہیں، میں ان سے نہیں مانگتا۔ اور میں نے ان کو اس بات سے آگاہ کیا ہوا ہے کہ اگر مال کا وزن کم ہوا یا مال خراب ہوا تو میں واپس کر دُوں گا۔ اور اگر سیٹھوں نے کہا کہ ان سے مال منگواؤ تو آپ کو آرڈر دُوں گا ورنہ نہیں۔ ریٹ میں اگر فرق آئے تو میں مالکان فیکٹری کو آگاہ کردیتا ہوں، اگر وہ کہیں کہ مال کا آرڈر دو، تو دیتا ہوں، ورنہ مال دُوسرے سے منگوالیتے ہیں، لیکن مالکان فیکٹری کو یہ معلوم نہیں کہ ہمارا اسٹور کیپر ان سے کمیشن لیتا ہے۔ عرض یہ ہے کہ آپ بتائیں کہ یہ میرے لئے جائز ہے یا کہ حرام؟
 

ان لوگوں کی آپ سے رشتہ داری تو نہیں ہے کہ آپ کو تحفہ دیں، نہ آپ ان کے پیرزادہ ہیں کہ آپ کی خدمت میں ہدیہ پیش کریں، اب سوائے رشوت کے اس کی اور کیا مد ہوسکتی ہے؟ اس لئے آپ کے لئے اس کمیشن کا لینا جائز نہیں۔
 

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)