خرگوش اور ریچھ

مصنف : محمد سلیم

سلسلہ : طنز و مزاح

شمارہ : فروری 2020

    کسی جنگل میں ایک ''خرگوش'' کے لیے اسامی نکلی۔ اس اسامی کے لیے کسی خرگوش نے درخواست نہ دی تو ایک بیروزگار اور حالات کے مارے ریچھ نے اپنی درخواست جمع کرا دی۔شومئی قسمت، کسی خرگوش کی طرف سے کوئی درخواست نہیں تھی تو اس ریچھ کو ہی خرگوش تسلیم کرتے ہوئے ملازمت دے دی گئی۔ملازمت کرتے ہوئے ایک دن ریچھ نے محسوس کیا کہ جنگل میں اس کی اصل اسامی پر ایک خرگوش ریچھ کا دعوی دار ہونے کی بنا پر کام کر رہا ہے اور اسے ریچھ کا مشاہرہ اور ریچھ کی مراعات مل رہی ہیں۔ ریچھ کو اس نا انصافی پر بہت غصہ آیا کہ وہ اپنے قد کاٹھ اور جثے کے ساتھ بمشکل خرگوش کا مشاہرہ اور مراعات پا رہا ہے جبکہ ایک چھوٹا سا خرگوش اس کی جگہ ریچھ ہونے کا دعویدار بن کر مزے کر رہا ہے۔ ریچھ نے اپنے دوستوں اور واقف کاروں سے اپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم و زیادتی کے خلاف بتایا۔ سب دوستوں اور بہی خواہوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ فوراً اس ظلم کے خلاف جا کر قانونی کار روائی کرے۔
ریچھ نے اسی وقت جنگل کے ڈائریکٹر کے پاس جا کر شکایت کی، ڈائریکٹر صاحب کو کچھ نہ سوجھی۔ کوئی جواب نہ بن پڑنے پر اس نے شکایت والی فائل جنگل انتظامیہ کو بھجوا دی۔ انتظامیہ نے اپنی جان چھڑوانے کے لیے چند سینیئر چیتوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی۔ کمیٹی نے خرگوش کو نوٹس بھجوا دیا کہ وہ اصالتاً حاضر ہو کر اپنی صفائی پیش کرے اور ثابت کرے کہ وہ ایک ریچھ ہے۔دوسرے دن خرگوش نے کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنے سارے کاغذات اور ڈگریاں پیش کر کے ثابت کر دیا کہ وہ در اصل ایک ریچھ ہے۔کمیٹی نے ریچھ سے غلط دعوی دائر کرنے پر جواباً پوچھا کہ کیا وہ ثابت کر سکتا ہے کہ وہ خرگوش ہے؟ مجبوراً ریچھ کو اپنے تیار کردہ کاغذات پیش کر کے اپنے آپ کو ثابت کرنا پڑا کہ وہ ایک خرگوش ہے۔
کمیٹی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ سچ یہ ہے کہ خرگوش ہی ریچھ ہے اور ریچھ ہی دراصل خرگوش ہے۔ اس لیئے کسی بھی ردو بدل کے بغیر دونوں فریقین اپنی اپنی نوکریوں پر بحال اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتے رہیں گے۔ ریچھ نے کسی قسم کے اعتراض کے بغیر فوراً ہی کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کر لیا اور واپسی کی راہ لی۔ریچھ کے دوستوں نے اسے عار دلائی اور کسی چون و چراں کے بغیر اتنی بزدلی سے فیصلہ تسلیم کرنے کا سبب پوچھا تو ریچھ نے کہا:میں بھلا چیتوں پر مشتمل اس کمیٹی کے خلاف کیسے کوئی بات کر سکتا تھا اور میں کیونکر ان کا فیصلہ قبول نہ کرتا کیونکہ کمیٹی کے سارے چیتے ارکان در اصل گدھے تھے، جبکہ ان کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ چیتے ہیں باقاعدہ ڈگریاں اور کاغذات بھی تھے۔
 کہا جاتا ہے کہ یہ قصہ ''چیکی'' ادب سے لیا گیا ہے، مجھے تو واٹساپ سے عربی دانوں نے بھیجا تھا جسے میں نے آپ اردو دانوں کیلیئے ترجمہ اور تلخیص کیا ہے۔ مسکراتے رہیے -٭٭٭