مساوات کس بلا کا نام ہے 

مصنف : طارق محمود

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : جنوری 2020

    سویڈن آنے سے پہلے پانچ سال پاکستان میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کرنے کی سعادت حاصل کی ۔ ان پانچ سالوں میں کمپنی کے سینئرز اور منیجرز نے ٹینشن دینے کا کوئی بھی موقع ضائع نہیں کیا تھا، فائیوسٹار ہوٹلز کے بڑے بڑے ایئر کنڈیشنڈ ہالز میں ہر پریزنٹیشن پر بے عزتی سہنا ایک عادت ہوگئی تھی۔ لاہور سے ہر مہینے دو مہینے بعد پی سی پنڈی تین دن کی میٹنگ ہوا کرتی تھی، ہوٹل کے در و دیوار گواہ ہیں کہ ہم نے اپنے دل و دماغ پر طنز کے کتنے تیر بلا چون و چراں برداشت کیے تھے۔ ہر بندے کی اپنے سے بڑے اور سینئر سے شدید کلاس ہوتی تھی۔ کمپنی میں تمام لوگ ذہنی مریض بنے ہوئے تھے، جو کام پیار محبت سے ہوسکتا تھا اسے بھی ٹینشن دے کر کروایا جاتا تھا۔ پاکستان میں ٹینشن دینا اور ٹینشن سہنا لوگوں کی ایک عادت بنی ہوئی ہے۔ ٹینشن کے بغیر کام کرنا لوگوں کی سرشت میں ہی شامل نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ٹینشن کی وجہ سے جو جتنے بڑے عہدے پر پہنچتا ہے اسے اتنی ہی زیادہ بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ اسی ٹینشن کی وجہ سے ہی لوگوں کی اوسط عمر دن بدن کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔
 میری سویڈن آنے کی وجہ بھی یہی ٹینشن تھی میں پانچ سالوں میں ٹینشن سہتا سہتا زندگی سے تنگ آگیا تھا۔ سویڈن میں زندگی کے کچھ سال ویزوں اور نوکری کی تگ ودو میں ضائع ہوئے جو کسی بھی جگہ زیرو سے سیٹل ہونے کیلئے لازمی ہوتے ہیں لیکن اب اللہ کا شکر ہے زندگی میں ہر قسم کی ٹینشن سے جان چھوٹ گئی ہے۔
یہاں کمپنی کے مالک کو بھی مجھ سے کوئی کام ہوتا ہے تو میرے کمرے کا دروازہ کھٹکٹا کر ہی اندر آتا ہے۔ مجھے کرسی سے اٹھنے نہیں دیتا بلکہ خود کھڑا ہو کر پہلے مجھ سے معذرت کرتا ہے کہ میں کہیں آپکے کام میں حائل تو نہیں ہوا، کہیں میں نے آپکو ڈسٹرب تو نہیں کردیا، آپ جب بھی فری ہوں تو کیا آپ میرا یہ کام کرسکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ کمپنی میں ہر بندہ دوسرے کی عزت کرتے نہیں تھکتا، ان لوگوں میں ناقابل یقین حد تک عاجزی، سادگی اور سچائی پائی جاتی ہے ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ اور ہر وقت معذرت خواہانہ لہجہ۔کیا دنیا میں انسان ایسے بھی ہوتے ہیں، کام یہاں بھی ہوتے ہیں کام پاکستان میں بھی ہوتے ہیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ یہاں کے لوگ خوش و خرم اور صحت مندانہ زندگی گزارتے ہیں جبکہ پاکستان میں لوگ بیماریوں میں گھرے ہوئے مصیبت بھری زندگی گزار رہے ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں سے ہر سال کی طرح اس سال بھی فروری کے مہینے میں ہم کسی دوسرے ملک تین دن کی کانفرنس کیلئے گئے ستر کے لگ بھگ خواتین وحضرات دو عدد کمپنی مالکان سمیت ایک ہی ائیرلائنز کی اکانومی کلاس میں بیٹھ کر سپین گئے ۔ سمندر کے کنارے فور سٹار ہوٹل میں ایک کمرے میں دو دو کر کے سب ایک جیسے کمروں میں ہی ٹھہرے ۔ دونوں مالکان بھی عام لوگوں کی طرح ایک ہی کمرے میں ٹھہرے یہاں کوئی کسی کی ٹی سی نہیں کرتا کوئی کسی کی جاسوسی نہیں کرتا۔ ہر بندہ بندی چغلی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، خود بھی خوش رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ واپسی پر ایئرپورٹ کے باہر گروپ فوٹو بنایا گیا تاکہ اس سفر کو یادگار بنایا جاسکے۔ تصویر میں آپکو لوگوں کے چہروں پر جو خوشی نظر آرہی ہے وہ حقیقی خوشی ہے۔ دونوں کمپنی مالکان پاکستان کے لحاظ سے اربوں پتی ہیں لیکن انکے سر تصویر میں سب سے آخر پر نظر آرہے ہیں۔ اگر اسی طرح کا گروپ فوٹو پاکستان میں ہوتا تو مالکان سب سے اگلی لائن پر صوفوں پر براجمان ہونے تھے اور انکے اردگرد ٹی سی کرنے والوں کا جمگھٹا ہونا تھا، لیکن یہاں اگلی لائین میں یہ راقم خود موجود ہے ۔
٭٭٭