امیر تیمور ، امام بخاری اور خواجہ نقشبند کے دیس میں۔ قسط ۱

مصنف : صاحبزادہ ڈاکٹر انوار احمد بُگوی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : جنوری 2020

    شاہراہ ریشم کانقشہ دیکھیں ، چنگیز خان اور ہلاکوخان کی تباہ کاریوں کا اندازہ لگائیں ۔ امیرتیمور کی وسیع فتوحات کاتصور کریں۔ امام بخاریؒ ،خواجہ نقشبندؒ اورملا نصیرالدین کو یاد کریں۔تاریخ کے اوراق میں سمرقند، تاشقند، بخارا، خیوا اورخوارزم کے نام پڑ ھیں، مسلمانوں کے اوراسلام کی تاریخ کے بڑے اہم ستارے جگمگاتے نظرآتے ہیں۔ان سب کا تعلق اس سرزمین سے ہے جو ترک تاتاریوں کامسکن رہی ہے اوراب ازبک اورتاجک مسلمانوں کاآزاد گھر ہے۔ 
ازبکستان---وسطی ایشیامیں چھ مسلمان ریاستوں میں سے ایک ہے جن کواجتماعی طورپرترکستان بھی کہاجاتارہاہے۔اس کے پانچ ہمسایہ ممالک میں سے شمال میں قازقستان،مشرق میں کرغستان،جنوب میں تاجکستان،افغانستان،مغرب میں ترکمانستان واقع ہیں۔یہ سارے ممالک Land Lockedیعنی اُن کوصرف زمینی اورہوائی راستے میسر ہیں۔اُن کے پاس سمندر نہیں ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک کے لئے گھر بیٹھے ویزا کاحصول ON LINEہوگیا ہے مگراس مقصد کے لئے بہت سارے پاپڑ پیلنے پڑتے ہیں۔سیاح کو جن شہروں میں جانا ہوتاہے وہاں کے ہوٹلوں کی ایڈوانس بکنگ جن ذرائع سے سفرکرناہے ان کی پیشگی ادائیگی،لیکن اس طریقے کے ذریعے بڑے تردد سے بچاجاسکتاہے۔جدید ٹورازم نے ایساکلچر پیداکیاہے کہ اس کام کو سرانجام دینے والے ہوٹل کی جگہ،کمرے،ذریعہ سفر جوسہولت فراہم کریں وہ پہلے دیکھی جاسکتی ہے ۔اہم یہ کہ وہاں جاکر بھی وہی کچھ نکلتا ہے جو پہلے بتایااوردکھایا جاچکا ہے۔یعنی پاکستان کے مسلمانوں کی دو عملی یادونمبری سے دوچارنہیں ہوناپڑتا۔ان اقدامات سے سیاح کااعتماد مزید بڑھتا ہے۔
یہ تو طے تھا کہ سیاح ابن بطوطہ کے پیچھے پیچھے اورسلک روٹ کی راہ پرسفرکریں گے۔ ویزا کاانتظار تھاجوکہ آن لائن پرملناتھا۔پھر یہاں کی گوناں گوں مصروفیات،سب سے زیادہ موسم کی حالت،گوگل سے جس معتدل موسم کی نوید تھی اس کا دورانیہ محدود تھا کیونکہ 21نومبر کے بعدازبکستان شمالی ہواؤں کی لپیٹ میں آنے والا تھا۔
لاہور سے روانگی:
مورخہ16نومبر2019ع بروز ہفتہ منصورہ ہسپتال میں معمول سے زیادہ مصروفیت رہی ،کچھ کاموں کوسمیٹنا تھا اورکچھ کا ہفتہ وارجائزہ لینا،کچھ کاموں کے لئے ہدایات دینی تھیں۔ متعلقہ اصحاب کو اگرچہ ہفتہ بھر کی طویل رخصت کی اطلاع دے چکاتھاتاہم چھٹی کرنا میرامعمول نہیں رہا۔لمبی رخصت کے اس اچنبھے سے رفقاء اورسسٹم دونوں نامانوس ہیں۔لیکن مجھے پورا اعتماد ہے کہ چارسالہ محنت سے منصورہ ہسپتال لاہورمیں جو ٹیم تشکیل پائی ہے ،جو شعبہ جات قائم ہوئے ہیں اورجو سسٹم مکمل طورپر اپریشنل اورفنکشنل ہیں اُن کی موجودگی میں ایک کارکن کی غیرحاضری زیادہ متاثر نہیں کرتی۔ادھرگھر میں تیاری کے مراحل پوری توجہ اور محنت سے تیارکردہ فہرستوں کے مطابق زیر تکمیل تھے۔بالکل آخری مرحلے پرخیال آیا کہ سفر کے لئے ساتھ لے جانے والی گر م جیکٹ دفتر میں رہ گئی ہے۔ڈیوٹی سپروائزرخالدمحمود کوفون پر ہدایت کی کہ فوری طورپر جیکٹ بھجوائے ۔ ادھر جس دفتری کوگھر بھیجنے کے لئے کہا تھا اس کانمبر بندجارہاتھا۔خالد محمود کی مستعدی سے"جیکٹ"گھر پہنچ گئی۔لیکن تھوڑی دیر کے بعد پیکنگ کرتے ہوئے انکشاف ہوا کہ یہ جیکٹ وہ نہیں ہے بلکہ کسی کا گرم کوٹ ہے! مختلف رابطوں کے بعد انکشاف ہوا کہ محمدیونس بروقت جیکٹ دے گیاتھالیکن جس خادمہ نے وصول کی اسے بتانا یادنہیں رہا یوں ایک جیکٹ کی وصولی کیاہوئی شرلاک ہومزکامعمہ ہوگیا۔
لاہور سے تاشقند کے لئے ازبکستان ائیرلائن کی فلائیٹ رات9:30بجے تھی۔چاروں سیاحوں کی ضرورتوں کے مطابق گرم کپڑوں سے لدے پھدے چار بیگ ہمراہ تھے۔حسبِ معمول سرمد منصور نے اپنی وفادار ٹیوٹا میں8نگوں کو اپنے طریقے سے فٹ کیا۔رِنگ روڈ خالی تھی مگر سرمد اپنے بُرددبار مزاج کی طرح آرام سے وہاں تک لے گیاجہاں انٹرنیشنل فلائٹس کااڈا ہے۔
چیک اِن ہال خلاف معمول خالی تھا خصوصاً پچھلے دنوں سکھ یاتریوں کی وجہ سے یہاں بہت رونق رہی تھی۔بورڈنگ کارڈ کی قطار نہیں تھی چنانچہ اگلے مراحل یعنی سامان ، بُکنگ، بورڈنگ کارڈ،امیگریشن وغیرہ سے دیکھتے دیکھتے فارغ ہوگئے۔اب لاؤنج میں دوگھنٹے کا انتظار کاٹنا محنت طلب تھا۔ احمد مجتبیٰ کے ساتھ اوپر نیچے ہال کا چکر لگایا ۔ دکانیں دیکھیں،ایک دکان پراُردو کتابوں کی بہتات سے جی خوش ہواکہ اُردو کے قدردان ابھی باقی ہیں مگر خوبصورت کتابوں کی قیمتیں ہوش اُڑادینے والی تھی۔ایک پڑھنے کا ذوق دم توڑ رہا ہے اوپر سے مہنگی کتابیں، اب کون ہے جوواٹس اَپ پر ورق گردانی یانظربازی کو ترجیح دے گا؟وقت گزاری کے لئے قہوہ اورچائے منگوائی مگر دام اتنے نکلے کہ بس دم نکلے۔ ائیرپورٹ سے باہراتنی رقم سے ایک شریفانہ یعنی غیر فاسٹ کھاناکھایاجاسکتاہے۔
خُداخُدا کرکے چیک اِن کااعلان ہوا۔ مقررہ گیٹ کے پاس جانے والے مسافروں کی تعداد اتنی تھوڑی بھی نہیں تھی۔اُزبکستان ائیر لائن کی فلائٹ تک رسائی عام راستوں کی بجائے بغلی راستے سے تھی جیسے یہ کوئی بھرتی کاکام ہو۔شاید اس کی وجہ ائیرلائن کے چھوٹے جہاز ہوں۔ بس میں سوار ہوکر بوئنگ جہاز کے پاس پہنچے جو ٹرمینل سے تھوڑے فاصلے پر کھڑا تھا۔ مسافر اُس میں سوارہوگئے جہاں صحت مند،ہوائی میزبانوں نے اپنی زبان میں خیرمقدم کیا۔فلائٹ کاوقت رات 9:30بجے تھا اور یہ مقررہ وقت پر ہی روانہ ہوئی۔جہاز میں پہلے ازبک زبان میں پورااعلان ہوا پھر مختصر اعلان انگریزی زبان میں مگر دونوں کی باتیں ایک جیسی لگیں،جہاز میں تمام اخبار اوررسالے ازبک زبان میں تھے۔بوئنگ جہاز چھوٹا تھا مگر نشستیں آرام دہ اورٹانگیں پھیلانے کی سہولت تھی۔فضا میں بلند ہو کر ہموار ہوتے ہی فلائٹ عملے نے تیزی سے کھانے کی ٹرالی اس طرح کھڑکائی جس طرح شادی گھروں میں بیرے کھانا کھلنے کااعلان ڈونگوں کے ڈھکن بجا کرکرتے ہیں۔کھانا کسی پاکستانی کیڑر (caterer)شاید شاہین ائیرلائن کاتھا اس لئے اس کے معیار کااندازہ لگایا جا سکتاہے۔
فلائٹ بڑی ہمواررہی۔ گہری تاریکی کے سبب کھڑکی سے باہر کچھ نظر نہ آیا۔کھانے سے فارغ ہوتے ہی تاشقند کی آمد کااعلان ہوگیا۔جہاز نے ٹھیک وقت پرلینڈ کیا۔ یہاں بھی جہاز دُوررُکا اوروہیں سے مسافر بس کے ذریعے مین ٹرمینل میں داخل ہوئے۔ لاؤنج مختصر مگر سمارٹ اوردیدہ زیب تھا پاکستان کی طرح زیادہ مسرفانہ نہیں تھا۔سامان کی ٹرالی کے ساتھ باہر نکلے تو ٹیکسیوں کے ہجوم میں ہوٹل کی جانب سے کاغذ پر عائشہ صدیقہ کانام لکھے ڈرائیور انتظارکررہاتھا۔سامان اُسی نے اُتارا اور گاڑی میں سیٹ کیا۔ٹیکسی بڑی کھلی اور آرام دہ تھی۔فضا میں ٹمپریچر بہت معتدل تھا۔ازبکستان اورپاکستان میں جہاں حلیم اورنان مشترک ہے وہاں قدرت کی طرف سے دونوں ملکوں کے اوقات بھی ایک جیسے ہیں۔یعنی تاشقندمیں اُترتے وقت رات کے 12بجے تھے تولاہور میں بھی رات کے12بجے کاہی وقت تھا وجہ اس کی قدرت کاکمال یعنی دونوں ملکوں کا ایک ہی طول بلد پرواقع ہوناتھا۔سٹرک چوڑی اور روشن،ٹریفک کم۔ازبکستان میں ٹریفک دائیں ہاتھ چلتاہے۔درختوں پر خزاں ڈیرے ڈال چکی ہے۔سٹرک کنارے عمارات پرانی اوراکثریت یا دو منزلہ۔کئی منزلہ عمارتیں بھی نظر آئیں۔رات گئے شہر سورہاتھا بس سٹرکیں جاگتی نظرآئیں ۔ سڑک کے کنار ے ایک چرچ روشنیوں سے جگمگارہاتھا البتہ کوئی مسجد نظرنہیں آئی ۔ ڈرائیور نے وندھیم ہوٹل میں اُتارا ۔ ہوٹل کی پانچویں منزل پرکمرے ملے اوراُنہیں سہولیات کے ساتھ آراستہ پایا۔
ویندھیم ہوٹل دس منزلہ ہے۔کمرے کی کھڑکی ہوٹل کے عقب میں کھلتی تھی جہاں چند تاریخی آثار،قریبی عمارات کی چھتیں اور پت جھڑتے درخت نظر آتے تھے۔ بجائے ٹائلوں یا کنکریٹ کے چھتوں پر چھوٹی بحری کی تہہ بچھی نظر آئی ۔اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی لیکن بھلی لگ رہی تھی۔یہ ہوٹل امیر تیمور سٹریٹ کے ایک کونے پرواقع ہے۔ سامنے ایک بڑامصروف چوک ہے۔یہ عائشہ کاحُسنِ انتخاب ہے کہ بہت سارے آثار اسی علاقے میں واقع ہیں۔
ہوٹل روم میں فریج ایک منی بار تھا جس میں سادہ پانی سے بیئر تک موجودتھی۔ٹی وی پر انگلش کے ایک دوچینل تھے جیسے الجزیرہ اورایک چینی لیکن اکثریت چینلز کی زبان ازبک تھی۔ تاجک اور روسی بھی ہوگی کیونکہ یہ زبانیں بولی جاتی اورسمجھی جاتی ہیں لیکن ان میں تفریق مشکل تھی۔ایک میزکی دراز میں قبلہ نما کاتیر چسپاں تھا مگر یہ دیر سے سامنے آیا اورمسافرانہ نمازیں اندازے کے مطابق منہ بطرف قبلہ شریف اداہوتی رہیں۔ہوٹل کی جانب سے صبح کاناشتہ بظاہر اعزازی تھا لیکن اس کے اصل چارجز ہوٹل کے بل میں شامل ہوتے ہیں۔ناشتہ بہت پُرتکلف،رنگارنگ کے تازہ پھل، خشک پھل،سلاد،مختلف اقسام کی دہی،جیم اورپنیر،قسم قسم کی روٹیاں اور بسکٹ،گوشت کی ڈشیں،انڈے ،چائے،کافی،فروٹ جوس وغیرہ ۔ان ماکولات میں گھی زیادہ تھااورنہ مرچ مصالحے۔بظاہرپیٹ بھر جانے کے بعد جلدہی احساس ہوتا کہ کھایا پیا ہضم ہوچکاہے۔
ازبکستان پہنچ کر اپنے موبائل کا واٹس اَپ بند کردیا۔اگر اتنی دور آکر بھی پاکستان کے سیاستدانوں کے کارنامے سننے ہیں،ملک کے حالات پر کڑھنا ہے تو سفر کافائدہ؟
تاشقند:
17نومبر2019ع آج اُزبکستان میں پہلادن ہے۔موسم خوشگوار،درجہ حرارت متعدل،فضا گرد دھویں سے پاک، شہردھلا دھلا سا۔اتوار کی وجہ سے بڑی سڑکیں بھی صبح سویرے خالی تھیں،ہارٹی کلچر کاعملہ البتہ گرین بیلٹ میں مصروف کار تھا۔خزاں کی وجہ سے پت جھڑعُروج پر ہے۔جگہ جگہ درختوں کے زرد پتے بکھرے ہوتے ہیں۔ ایک عملے کے پاس بلور(Blower) تھاجو بیٹری سے چلتاہے اورسوکھے پتوں کوہوا کے زور سے اکٹھاکرتاہے۔دوسرا عملہ پتوں کویکجا کررہاتھا۔تیسرا چوتھا جھاڑو کے ساتھ پتوں کوسمیٹ رہاتھا۔
امیرتیمور میموریل:
 ٹیکسی کے ذریعے امیر تیمور 1336-1405)ع)میموریل جانکلے۔ازبکستان کی تاریخ میں امیر تیمور کامقام بہت بلند ہے۔تاشقند، سمرقند اور بخارا کی تعمیر وترقی،رفعت وشوکت،استحکام اورخوشحالی کے لیے وہ بجاطورپراپنی قوم کا معمار اوراس کا عظیم محسن ہے۔جابجا اس کے مجسمے اوریادگاریں امیرتیمور کے شایانِ شاں آثار ہیں۔اُن کی کثرت گراں نہیں گذرتی۔غیروں کے لئے وہ جابر،سفاک اورظالم ہے لیکن اپنے وطن اوراپنی قوم کے لئے اُس کی جدوجہدایک یادگار تاریخی کارنامہ ہے۔
اب ہوامیں خنکی تھی لیکن بھانت بھانت کے مرد عورت سیاح میموریل کے صحن میں موجودتھے۔میموریل باہر سے ایک گنبد ہے جس کارنگ سبز ہے۔اس کے چاروں طرف کھڑکیوں /دروازوں کے اوپر درمیان میں خوبصورت گول دائرے میں بارڈر ہے اورکنگری داربنیراہے۔تمام کھڑکیوں کے اوپر فارسی رسم الحظ میں اعلیٰ اخلاقی خصائص خوبصورت انداز میں لکھے ہوئے ہیں۔دیانت رحمت قدریت موافقت     شجاعت     متانت ظرافت مناعیت صداقت مروت مشورت اطاعت معرفت     عدالت
 معلوم ہوتاہے کہ امیرتیمور کی شخصیت یاطرزِ حکومت کے بارے میں اظہار اوراعتراف ہے۔ممکن ہے کہ معمار کے نزدیک اعلیٰ اخلاقی اقدار کانمایاں اظہار شاید امیرتیمور کی ذاتی صفات کاآئینہ دارہو۔اندرجانے کے لئے تین سیڑھیاں یعنی پہلازینہ نیچے جاتاہے۔اوپر کی ایک منزل ہے اورپھر اس کے اوپرگیلری اورکناروں پرکمرے ہیں۔ گنبد کے عین نیچے چھت پر خوبصورت کاشی کاری اورطلائی نقش نگارہیں۔یہاں بھی چاروں طرف محرابیں ہیں ۔سنٹر میں خوبصورت فانوس آویزاں ہے جوروشن ہے ۔اس اندرونی ہال میں دیواروں پر امیر تیمور کے متعلق نفیس پینٹنگز ہیں جو اس کی مختلف جنگی،درباری،شکاری سرگرمیوں کو ظاہرکرتی ہیں۔اس ہال کے اندر شوکیسوں اور سٹینڈز پر اہم مسودات اور محظو طات رکھے ہوئے ہیں جن کا تعلق امیر کے عہد سے ہے ۔یہ تمام کے تمام فارسی رسم الحظ میں ہیں بعض عربی میں بھی ہیں۔گند کی چھت کی نقاشی مسحورکن ہے ۔درودیوار بھی نقش اورنگین ہیں۔جی چاہتاہے کہ اُسے ہی دیکھتے رہیں۔دو منزلہ گیلریوں میں ماضی کے مختلف معرکوں،انسانی تاریخ کے اہم واقعات اورازبک کی تہذیبی اُمور کی نشان دہی ہے۔ ایک شوکیس میں مصحف عثمان غنی ؓ کی نقل ہے۔تمام نوادرات کے نیچے ازبک،تاجک اورشاید روسی زبان میں تعارف درج ہے۔
نزدیک ہی امیر تیمور چوک(Square) واقع ہے۔چاروں طرف باغیچے،گھاس کے تختے،روشیں جو خاکی ٹف ٹائیلز سے آراستہ ہیں درمیان میں ایک چبوترے پرامیر تیمور کامجسمہ بنایاگیاہے۔یہ مجسمہ دھات کابنا ہوا ہے۔امیر کے بائیں ہاتھ میں گھوڑے کی لگام ہے جس پر وہ بیٹھاہواہے۔سرپرکلاہ شاہی،پہلو میں تلوار اور ڈھال،بہت شاندار اورمتاثر کرنے والامجسمہ ہے،یوں لگتاہے کہ مجسمہ ساز یا سنگتراش نے اس میں جان ڈال دی ہے ۔
ازبکستان میں سیاحوں کے لئے زبان کابڑامسئلہ ہے۔انگریزی سمجھنے یابولنے والے بہت کم ہیں۔ہوٹل کاعملہ،ٹیکسی والے،دکاندار بہت کم انگریزی بولتے یا سمجھتے ہیں،چنانچہ کمیونیکیشن میں سخت دشواری پیش آتی ہے۔لوگ ازبک بولتے ہیں یاتاجک،پڑھے لکھے روسی زبان سے بھی مانوس ہیں، تاریخی آثارمیں بھی انگریزی بیچاری کا کوئی پرسان حال نہیں،ہرجگہ اس کو نظرانداز کیاجاتاہے!کم از کم ہر ایک کے نیچے انگریزی زبان میں ضرور تحریرہوناچاہیے۔ازبک سوویت روس کی حکمرانی کو غیرملکی اورجبری تسلط قرار دیتے ہیں۔روس کی غلامی سے آزادی کے بعد ازبک قومیت عروج پر ہے ۔اُزبکوں کو یاد رکھناچاہیے کہ اُن کاہیرو امیرتیمور ازبک تھا اورفارسی رسم الخط میں لکھتا پڑھتا اورفرمان جاری کرتاتھا۔اگرکسی وقت یہ رسم الخط بحال ہوجائے تو جمال الدین افغانی اور علامہ محمد اقبال کاخواب پوراہوجائے۔یعنی ترکستان کے تمام ممالک ،افغانستان ،ترکی اورپاکستان سب کارسم الحظ فارسی ہو اور یوں ایک آثری اورتہذیبی اتحادجنم لے! ازبکوں کا تمام قدیم علمی،ادبی،مذہبی اورشعری سرمایہ فارسی آمیز تاجک زبان میں ہے۔
علم وادب --دین اورتجارت کے ملک میں سمرقند کاکاغذ بہت مشہورتھا۔بابر نے بھی یہاں کے تیارکردہ کاغذ کی تعریف کی ہے۔
The State Museum of History of Uzbikistan
یہ عجائب گھر خاصی بلندی پر بنایا گیاہے۔ اصل عمارت تک جانے کے لئے درجنوں سیڑھیاں چڑھناپڑتی ہیں۔اس کے بعد ایک ہال آتاہے۔جس کے ایک طرف ٹکٹ گھر ہے اوردوسری جانب نیچے کی منزل میں کیفے ٹیریا ہے جو سوموار کوبند تھا۔پانی کی تلاش میں اس لڑکی نے مدد کی جوتحائف کی دکان پرکام کررہی تھی اُسے بظاہر کام توکوئی نہیں تھا بس اپنے موبائل پر مصروف تھی۔دوساتھی تو سستانے لگے البتہ باقی دو نے کمر باندھی اورازبکستان کے ماضی اورحال کانظارہ کرنے کے لئے اورسیڑھیاں چڑھنے لگے۔پہلی منزل کی سامنے کی دیوارپرایک بہت بڑے سائز کی سینری ہے جونیلے آسمان،بادلوں اور سبزہ زمین کی عکاس ہے۔لمبائی اورچوڑائی میں اتنی بڑی تصویر یا Painting میں نے زندگی میں پہلی باردیکھی۔
یہ ازبکستان کا قومی میوزیم ہے جو اس کے ماضی اورحال کی عکاسی کرتاہے۔ماضی پہلی منزل پر ہے اورحال دوسری منزل پریعنی گذرا ہوادوربنیاد ہے اورآج کا زمانہ اُن کی منزل !نچلے ہال میں تمام حجری، تحریری ، نباتاتی اوردیگر ارضی آثار وعلامات کوجمع کیاگیاہے۔پتھروں پر حیوانی نقوش کندہ ہیں۔ایک سٹال میں قدیم زمانے کے انسان کی مختلف سرگرمیوں کودکھایاگیاہے جن کا تعلق ازبکستان کی تاریخ اورجغرافیے سے ہے ۔شیشے کے پیچھے جیتے جاگتے کریکٹر مختلف انسانی کاموں میں مصروف دکھائے گئے ہیں،دوسری منزل پر موجودہ ازبکستان کی رونمائی ہے۔تعلیم،زراعت، آبپاشی،ڈیم، صنعت وحرفت،مشینیں اور آلات ،تعلیم،صحت،ٹیکنالوجی وغیرہ ،جدید ازبکستان کے بانی اورپہلے صدر اسلام کریم کے عہد میں ملک نے جس تیزی سے ترقی کی،سوویت اثرات کو کم کیااورازبک قومیت کو ابھرنے اوراسلامی جذبوں کو جاگنے کا موقع دیا ان اقدامات نے قوم کی کایا پلٹ دی کاش1947ع میں آزادی کے بعد ہمیں ایسی سیاسی قیادت نصیب ہو جاتی !اب ازبک قوم ایک نئی فضا میں سانس لے رہی ہے جس میں آزادی ہے،قومی شناخت ہے،ترقی وفلاح ہے۔آگے بڑھنے کاجذبہ اورکچھ کرنے کاولولہ ہے۔ اس میوزیم میں بھی انگلش لٹریچر مقصودتھا ۔ کہیں کہیں شوکیسوں پرمختصر تعارف تھا ۔ البتہ باہر سے آنے والے سیاح اورسکول کے طلبہ کو گائڈ پوری تفصیلات بتارہے تھے۔کان لگاکر سننا چاہا مگر افسوس یہ انگریزی زبان نہیں تھی!واپس لوٹے توہوٹل میں کھانے کاوقت ختم ہوچکاتھا۔ ہم نے اس کے بغلی ریستوران میں لنچ کاارادہ کیا۔ویٹرس کوسمجھانا،اُس کی باتوں کوسمجھنا ایک مشکل کام تھا۔عائشہ اورخادمہ دونوں نے یہ کام بڑے صبر اورتحمل سے سرانجام دیا۔کھانا دیرسے ملامگر جو ملا حلال تھااور بہت مزے دار تھا۔کیا تھا؟ یہ کیمسٹری البتہ میرے دیہاتی ذہن سے باہرتھی۔عائشہ اورمجتبیٰ کی دریافت تھی۔اس کی پیروی میں شام کے بعد ہوٹل کے نزدیکی علاقے میں گئے ۔وہاں بڑی سڑک کے دونوں طرف مارکیٹیں موجود تھیں۔فٹ پاتھ پر ٹف ٹائیلز کافرش، پیدل راستے، صاف،کوئی تجاوزات نہیں،تمام مستورات سردی کے باعث لمبے کوٹوں میں،بعض خواتین عبایہ میں،سکارف عام تھے۔مغربی انداز میں کٹے بال اورکھلے سربھی عام تھے۔سڑک کے کنارے بجلی کے پولوں پر برقی لائٹ سے TULIP پھول اوردیگر رنگ برقی پھولوں کی بہار۔یہ بعد میں معلوم ہوا کہ پورے ملک میں National Flag Day یعنی قومی جھنڈا دن یاہفتہ منایاجارہاہے۔اس سلسلے میں اہم شاہراہوں پرآرائش اور زیبائش کا ایسا اہتمام کیاگیا ہے۔بلاشبہ ایسااہتمام قوم اوروطن سے تعلق کا اہم ذریعہ ہے قومی دنوں پر ہمارے ہاں بڑی عمارتوں پر چراغاں ہوتاہے باقی شہر معمول کے مطابق رہتاہے یا اب لاہور کی نہر کورنگ اورروشنی سے سجایاگیاہے،چھوٹے شہروں اوربڑے شہر کے مختلف حصو ں میں قومی دن صرف چھٹی کادن ہوتاہے ۔ہم ہوٹل سے نکلے تو اس لئے تھے کہ کمروں میں استعمال کے لئے پینے اورکھانے کا سامان خرید لائیں۔ مختلف قسم کی دکانیں تھیں جن میں سامان تھا اور شو کیس سجے ہوئے تھے۔فارمیسی کی ایک دکان کے اندرچلاگیا۔میراخیال تھا کہ دواؤں کے بارے میں کچھ جان پہچان ملے گی مگر وہاں سب کچھ ازبک زبان میں تھا۔فارمسسٹ ایک نوجوان تھا جودن کو زیر تعلیم تھا اورشام کوسیلز مین، میڈیکل ، دواؤں،علاج ہسپتال کوئی معلومات نہ سمجھ سکا۔گماں گذرا جیسے ازبک فارمیسی میں ہربل یادیسی قسم کی دواؤں کا بھی کچھ حصہ ہوتاہے۔ایک جگہ سڑک کے کنارے سے راستہ نیچے کو جارہاتھا۔یہ اصل میں سٹرک کی دوسری جانب باہرنکلنے کاراستہ ہے اوریہی راستہ sub-way یازیرزمین چلنے والی میٹرو کے سٹیشن جانے کابھی ہے اور عبدالقادریہ کہلاتاہے۔مرد عورتیں اس راستے سے آجارہے تھے۔ہرشخص فون کان سے لگائے باتوں میں محو تھا۔سڑک کے دوسری طرف ایک بس سٹاپ تھا۔بڑی خوبصورت اورصاف ستھری بسیں رواں دواں،ایسی بسیں جیسی ائرپورٹ پر ہوائی مسافروں کو ڈھونے والی ہوتی ہیں۔ صاف ، چوڑی اوربڑی سڑکوں پر مسجد کامینار نظرآیا اورنہ کہیں سے اذان کی آواز سنائی دی۔ شام کے وقت فٹ پاتھ پر ایک فقیر گرم کوٹ پتلون میں سِمٹا ہوادیکھا۔لوگ توجہ دئیے بغیر اس کے پاس سے گذررہے تھے زیرزمین راستے سے سٹرک پارکرکے دوسری طرف گئے تو وہاں ایک وسیع جگہ تھی جس میں پارک،سبزہ ،فوارے اوربنچ تھے۔ کناروں پردکانیں اورمارکٹیں تھیں۔ گویا سٹرک کے کنارے اوردکانیں کے درمیان پُر فضاپارک، بالکل سامنے BOZAR (بازار)تھا۔اس بازار یا مارکیٹ کے اندر دوطرفہ مختلف دکانیں تھیں اوردوکانوں کے سامنے کاحصہ یاصحن چھتاہواتھا۔اس بازار کے پیچھے بھی وسیع تعمیرات تھیں دور تاشقند کا ٹی وی ٹاوردکھائی دے رہاتھا۔ایک جانب جوتا مارکیٹ تھی ذرا آگے گائتیے انسٹی ٹیوٹ تھاجہاں لوگ مصروف نظر آئے۔ اس وسیع میدان کے ایک جانب EVOSبر گر شاپ تھی جہاں بہت رونق تھی اورلوگ فاسٹ فوڈ سے ڈنر کررہے تھے۔اس کے بالمقابل Intep Lezzat یعنی لذت طعام ریستوران تھا جس میں گاہک کم تھے۔ہم نے دیسی کھانے کوترجیح دی۔ ازبک روٹی،کباب،چاول،سالن اور ساتھ ازبک چائے یہ کالی چائے کاقہوہ ہوتاہے اوربغیر چینی اوردودھ کے نوش کیاجاتاہے۔ ازبک پانی کی جگہ کھانا کھاتے وقت کالا قہوہ نوش کرتے ہیں۔ یہ کھانا مزیدار تھا۔ اس کھانے کے لئے بھی عملے نے خاصی تگ ودوکی تھی۔ واپسی پردیکھا کہ بس سٹاپ کے پیچھے ایک معمر عورت گرم کپڑوں میں لدی پھنسی سگریٹ ،ٹافیاں وغیرہ بیچ رہی ہے اورلوگ اس سے ضرورت کی چیزیں نیم تاریکی میں خرید رہے ہیں۔
کمرے کے ٹی وی پر65چینل تھے۔زیادہ تر ازبک،تاجک بھی ہوں گے اورروسی بھی مگر حیران کن حد تک اشتہاروں میں لباس،جسم اورحرکات میں کوئی گراوٹ اورگندگی نظرنہیں آئی جوپاکستان کے خبری چینلزپرخصوصی فراوانی سے اورباربار نظرآتی ہیں۔ تینوں بڑے شہروں میں پر کوئی مخرب اخلاق بل بورڈ نظر نہیں آیا یا پاکستان کے حاذق معالجوں کے دیواری اشتہار جن کو بدذوق یا غیراخلاقی قرار دیا جاسکے ۔ پاکستان میں ٹی وی کے تمام چینلز پر بعض اشتہارات دیکھ کرشرم آتی ہے۔تبدیلی کے بڑے دعوے تھے کم ازکم ٹی وی اشتہاروں اوربل بورڈوں پر توچیک رکھاجاتا۔
ہفت روزہ قیام کے دوران کسی ازبکستانی نے ہمیں پاکستانی نہیں کہاجیسے وہ اس نام کی کسی قوم سے شناسا نہیں ہیں۔ہمیں دیکھ کرمرد اورعورتیں کہتیں" "Indian ،ایک خاتون نے تو ہاتھ جوڑ کر باقاعدہ" نمستے "کہا !جواب میں ہم کہتے Pakistani"مسلمان۔السلام علیکم " تب اُن کے چہرے پرشرمندگی نظر آتی اوروہ فوراً سینے پردایاں ہاتھ کر اورجھک کر
معذرت کرتے اورسلام کاجواب دیتے۔ ایساکیوں ہے؟ ایک وجہ یہ سمجھ آئی کہ ایک ازبکستانی چینل 24/7 بالی وڈ کی فلمیں اورہندی ڈرامے دکھاتاہے۔ یہ فلمیں ہندی میں ہیں اورازبک میں ڈب ہوتی ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ اس چینل کامالک کوئی انڈین ہو کیونکہ تجارت اور تفریح میں مودی کا بھارت بہت سوں سے آگے ہے!لیکن ہرشہر میں ہمیں پہلے انڈین تصورکیاگیا اوروضاحت کرنے پرمعذرت سنناپڑی۔ شایدپاکستان سے ازبکستان جانے والے سیاحوں کی تعداد بہت کم ہے اورانڈین سیاحوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے یاپاکستانی سفارت خانہ اپنی شہرت کے مطابق پاکستان کی جان پہچان کے لئے تردد نہیں کرتا۔ورنہ ایک مماثل ملک میں ہماری اتنی بے توقیری نہ ہوتی۔
ازبکستان میں جہاں جہاں سے ہم گذرے پرندوں کا تنوع نظر نہیں آیایعنی مختلف قسم کے پرندے نہیں تھے۔زیادہ تر لالیاں اور جنگلی کبوتر دکھائی دئیے۔ایک شام ہوٹل کے باہر درختوں پر پرندوں کے چہچہانے کا شورتھا،کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔چڑیوں سے ملتی جلتی آوازیں تھیں۔ عام طورپرشہر کے اندر خصوصاً ٹریفک کی ہمہ ہمی میں پرندے سٹرک کنارے درختوں پر بسیرا نہیں کرتے۔(جاری ہے )
٭٭