الفت کے راستے پر 1

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : جنوری 2020

 لبیک اللھم لبیک
    اللہ کریم کے فضل و کرم سے ،بچپن سے ہی فرائض دینی سے آگاہی ہو گئی تھی اور اللہ کے گھر کی زیارت اور اُ س کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ انور کی زیارت کی آرزواور شوق و جستجوپیدا ہو گئی تھی لیکن چونکہ فقیر کی زندگی کا آغازغربت کی انتہائی پچھلی صفوں سے ہواتھااوربندہ مزدور کے اوقات نہایت تلخ تھے اس لیے حج کے لیے مطلوب استطاعت و وسائل موجود نہیں تھے اور یوں بندہ سفر حجاز کی آرزوکو دِل میں بسائے، کارگاہ حیات میں کچھ اس طرح سے پھنساتھا کہ سالوں تک یہ آرزو ،آرزو ہی رہی اوریہ تمنا تمنا ہی رہی حتیٰ کہ سن دو ہزار میں ،جب بندہ چوالیس سال کا ہو چکا تھا تو پہلی بار شوق زیارت لیے سرزمین حجاز میں حاضر ہو سکا۔یہ عمرہ شریف کا پہلا سفر تھاجس کے مشاہدات و تائثرات پر مشتمل ایک تحریرقلمبند کر چکا ہوں اور وہ ‘‘کرم کی برسات ’’کے نام سے چھپی ہوئی موجود ہے۔اس سفر مقدس سے حرمین شریفین سے اُنس و محبت کی آگ بجھنے کی بجائے مزید بھڑک اُٹھی لیکن زندگی کے حقائق بھی بڑے تلخ ہوتے ہیں۔وطن عزیز میں بندہ مزدور کے اوقات ،توہمیشہ سے تلخ ہیں ہی ، لیکن اب تو متوسط طبقے کے لوگوں کے اوقات اور بھی تلخ ہو چکے ہیں۔اپنی توروز مرہ کی ضروریات زندگی ہی بمشکل پوری ہو پاتی ہیں کجا کہ بندہ کسی بیرونی سفر کی ‘‘عیاشی ’’ کاحوصلہ کر سکے ۔اس لیے ہر سال جب بھی حکومت وقت حج پالیسی کا اعلان کرتی تو خاکسار اپنی جمع پونجی پر نظر ڈالتا تو اُسے نہایت کم پاتا اورحج پرجانے کی اپنی خواہش کو اندر ہی اندر دبا چھوڑتا البتہ،اللہ پاک کے فضل و کرم سے،پچھلے پندرہ بیس سالوں میں،خاکسار کو دوتین بارعمرے پر حاضری کی سعادت نصیب ہو تی رہی۔الحمدللہ ،یہ بھی میرے مالک کا بہت ہی کرم تھا کہ کم از کم حج اصغرکی لذت سے تو آشنائی رہی۔شوق حج اتنا تھا کہ ایک بار سن دو ہزار پندرہ میں تو ایک دوست سے وقتی طور پر اُدھار پکڑ کرحکومتی سطح پرحج کے لیے درخواست جمع کروا ہی دی لیکن شومئی قسمت بلاوا نہ آیا اور قرعہ اندازی میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا،صبر شکر کر کے رہ گیا۔
زندگی رواں دواں رہی،محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے دیس میں حاضری کی تمنامیں اضافہ ہی ہوتا رہا۔سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان مبارک ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ جو بندہ حج کرنے کی استطاعت رکھتا ہو اور بیت اللہ کے حج کو نہ آئے ،اُس کے لیے برابر ہے کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر ۔
بڑی سخت وعید ہے!یہ وعید بھی میرے سامنے تھی۔اپنی آمدنی ،خرچ اور بچت سب میرے سامنے تھا لیکن کوئی راستہ نہیں نکل رہا تھا۔اُدھرعمر بھی بڑھ رہی تھی ،عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ صحت کے بھی نت نئے مسائل جنم لے رہے تھے،سن دوہزار اٹھارہ کے اکتوبر میں ،ایک بارپھر میرے مالک نے کرم فرمایااورعمرہ کی سعادت نصیب ہو گئی۔تڑپتے دِل کو کچھ سکون ملالیکن حج کی آرزو وتمنا اپنی جگہ برقرار تھی ایک پیاس تھی ایک تشنگی تھی جو انگ انگ سے جھلکتی پڑتی تھی،ظاہر ہے عمرہ پاک کی دعاؤں میں یہ خواہش بھی اُبل اُبل کر باہر آ جاتی تھی۔آخر میرے رب کو ترس آہی گیا،انیس کا سن چڑھا اور اُ س کریم آقا نے اپنے اس عاجز و درماندہ بندے کے لیے حج کا بلاوا بھیج دیا۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے
اُنیس کا سال چڑھتے ہی ،سابقہ سالوں کے حساب سے ،میرے پاس پہلی دفعہ اتنی رقم پس انداز ہو چکی تھی جتنی حج کے لیے مطلوب تھی،گویا استطاعت والی شرط پوری ہو چکی تھی،لہٰذا اب حکومتی پالیسی کا انتظار تھا۔فروری کے آخر میں، حکومت وقت نے حج پالیسی کا اعلان کیا۔کہتے ہیں کہ غریباں نے روزے رکھے ،دِن لمبے ہو گئے،ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا۔حکومت نے حج فیس میں دو گنا اضافہ کر دیا،ہمارا اندازہ ایک بار پھر غلط نکلا،جتنی رقم ہم نے جمع کی تھی ،اُس سے کہیں زیادہ رقم رکھ لی گئی تھی۔ہوا یہ کہ پہلی حکومتیں حج کے لیے جو سب اسٹیڈی(یعنی امدادی رقم)سالہا سال سے ،زائرین کرام کودیتی آرہی تھیں،وہ اس(عمران خان کی حکومت) گورنمنٹ نے بند کر دی ،جس سے حج فیس میں بے پناہ اضافہ ہو گیا لیکن بہر حال جیب پر کچھ جبر کر کے ،متوقع اخراجات میں ِادھر اُدھر کی کٹوتیاں کر کے ،ہم نے ،حج فیس کے طور پر مطلوبہ قریباًساڑھے چار لاکھ روپے، جوڑ جاڑ کر بنک میں جمع کروا دیئے۔آس امید کے دیئے روشن کرلیے گئے۔مسائل حج کے ابواب کا مطالعہ شروع کر دیا۔یو ٹیوب اور انکل گوگل سے رابطے کئے جانے لگے،لیکن آس اُمید کے یہ دیئے جلد ہی بجھ گئے جب چند ہی دنوں بعد قرعہ اندازی میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
پرائیویٹ حج اسکیم کا جائزہ لیا ،کچھ احباب سے بات چیت کی تو اندازہ ہواکہ پرائیویٹ حج کی قیمتیں توآسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔جب دیکھا کہ یہ فیسیں بھی اپنی مالی پہنچ سے کوسوں دُور ہیں توچارو ناچاریہی فیصلہ کیا کہ حج کے لیے جو رقم پس اندازہو گئی ہے اِس کومحفوظ کر کے اگلے سال پر اس سفرمقدس کو اُٹھا رکھتے ہیں اور اگلے سال پھرقسمت آزمائی کریں گے اگرپھر بھی سرکاری قرعہ اندازی میں نام نہ آیا تو، پرائیویٹ حج اسکیم سے لازماً استفادہ کیا جائے گا کیونکہ اُمید تھی کہ اُس وقت تک ہم اتنی رقم بچا پائیں گے کہ جو پرائیویٹ حج اسکیم کے لیے مطلوب ہوگی۔دستیاب وسائل میں یہی فیصلہ مناسب تھا اور اس فیصلے پر ہم، مطمئن ہوکر ،حج کے ‘‘ہیجانی شوق ’’سے واپس پلٹ آئے اور،کار گاہ حیات میں اپنی معمول کی تگ و دو میں مصروف ہوگئے۔کئی مہینے گزر گئے۔حج کے لیے جمع کرائی گئی رقم بھی ،بنک سے واپس نکلوا لی لیکن آرزو قائم رہی۔ اس اثنا میں ایک ہم خیال نوجوان نے ملاقات پر بتایا کہ وہ اپنے شہر میں ٹریول ایجنسی کاکام شروع کرنے لگا ہے اور شہر میں دفتر کے لیے دکان بھی کرایہ پر حاصل کر لی ہے۔ میں نے اُن سے ازراہ تفنن کہا کہ‘‘ آپ اپنے پہلے گاہک کے طور پر مجھے ہی حج پر بھیجیں ۔’’اُن سے یہ بات کرنے سے پہلے میں پرایؤیٹ حج کمپنیوں کی خاصی معلومات لے چکا تھا اورمذکورہ بالا فیصلہ کر کے معمول پر آگیا تھا۔حج و عمرہ کے سفر کی سب سے بڑی مشکل کسی ٹریول ایجنٹ پر اعتماد کرنے کی ہوتی ہے کیونکہ اس معاملے میں بد انتظامی کی بے پناہ شکایا ت ہوتی ہیں۔ یہ خطرہ ہوتا ہے کہ بندہ زیارت سے بھی محروم رہے اوراپنی زندگی بھرکی جمع پونجی بھی لٹا بیٹھے۔وطن عزیز میں آئے روز اس طرح کی مثالوں سے اخبارات بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔لہٰذا جب ایک نہایت ہی با اعتماد ساتھی نے یہ کہا کہ میں‘‘ کوئلوں کی اِس دلالی’’ میں پڑنے لگا ہوں تو میں نے اُن کا پہلا تجربہ بننے کا عندیہ دے دیاکہ کم از کم رقم کے ڈوبنے کا اندیشہ تو ہرگز نہ ہوگا البتہ نا تجربہ کاری کے باعث وہاں جاکر اگرقیام و طعام قسم کی مشکلات پیش آئیں تو صبر و حوصلے سے برداشت کر لوں گا۔انھوں نے واضح طور پر کہا کہ میں خود تو ابھی اتنا بڑا کام یعنی حج پر بھیجنے کا ،اس سال ، بوجوہ،نہیں کرنے جا رہا،البتہ دیگر دوست احباب سے بات کر کے،آپ کے لیے کوئی مناسب پیکج کا بندوبست کرتا ہوں۔میں نے کہا ،ٹھیک ہے آپ بات کریں، کوئی بہتراور با اعتماد ذریعہ تلاش کریں۔ اگلے چند ہفتوں میں ایک آدھ باراُن سے معلوم کیا تو کوئی مثبت جواب نہ پا کر میں ایک بار پھر اپنے معمول پر لوٹ آیا۔ حج پر جانے والوں کی گہما گہمی شروع ہو چکی تھی۔سرکاری طور جانے والے لوگوں کا پراسس شروع ہو چکا تھا۔حرم کو جانے والے خوش نصیب تیاریاں کر رہے تھے۔ ہمارے کئی دوست احباب اور واقف کار اس سعادت کے حصول کے لیے ضروری تیاریوں میں ہمہ تن مصروف تھے اور ہم ان لوگوں کو حسرت اور رشک سے دیکھ رہے تھے۔ہم روزانہ باد صباکے ذریعے اپنے سوہنے سجن کے حضور درخواستیں بھجوا رہے تھے۔ اورپھر سناکہ حجاز ِ مقدس جانے والوں کی فلائیٹس کے شیڈول آنے شروع ہو گئے ہیں لیکن ہم تو ابھی بلاوے کے منتظر بیٹھے تھے کہ صبح آیا کہ شام آیااور پھر ایک شام برادر حافظ ادریس کا فون آہی گیا،کہنے لگے کہ ،‘‘جناب ڈاکٹر صاحب! مبارک ہو ،حجاز جانے کے لیے تیار ہو جائیں،لڑ جھگڑکر ،آپ کے لیے بمشکل ایک سیٹ کا بندو بست کیا ہے، ۱۴ جولائی کو لاہور سے جہاز زائرین کرام کو لے کر جدہ جا رہا ہے،پاسپورٹ اور رقم تیار رکھیئے، صبح آ کرلے جاؤں گا۔’’میں تو تقریباً نا اُمید ہو چلا تھا کہ یکا یک یہ خبر ملی اور چشم تر سے اپنے مالک کے حضور جھک گیا۔ 
میں کہاں تھا اِس کرم کے قابل! آخر بادِصبا پیغام وصال لے آئی۔ 
وہ بات جو ایک خوش گوار مزاح سے شروع ہوئی تھی،آج حقیقی خوشخبری بن کر میرے سامنے تھی۔
یقین نہ کرنے کی اگرچہ کوئی وجہ نہ تھی لیکن بندہ خطاکار تھا،گناہ گارتھا، اپنے گناہوں کو دیکھتے ہوئے، میں حیرت زدہ سا تھاکہ کیا واقعی میں بیت اللہ جا رہا ہوں۔کیا میدان عرفات میں میری حاضری ہونے جا رہی ہے؟اور کیا واقعی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شہرمدینہ پاک کی زیارت سے شاد کام ہونے جارہا ہوں۔؟ میرے قدم زمین پر ٹکتے نہ تھے۔کل چودہ دِن تھے میرے پاس اورپندرہویں دِن مجھے بیت اللہ میں ہونے کا کہا گیا تھا۔کیا واقعی ایسا ہی ہوگا۔میں کہ جو عرصہ دراز سے حج پر جانے کی خواہشیں پال رہا تھا تو کیا میرے زندگی میں وہ لمحے آیا چاہتے تھے کہ جب مجھے حرمین شریفین میں ہو نا تھا ،صرف پندرہ دِن کی دوری پر ! 
یقینا! میرا رب سنتا ہے ،سب کی سنتا ہے،میرے ایسے گناہگاروں کی بھی سنتا ہے بلکہ زیادہ سنتا ہے۔لیکن میں نے ایسا کچھ نہ کیا کوئی چیخ و پکار نہ کی ،کوئی منادی نہ دی۔ اِس ٹیلیفونی خبرپر ایسا کوئی ردِ عمل نہ دکھلایا ،بلکہ خاموشی سے پاسپورٹ ،دیگر دستاویزات اور رقم کا بندوبست کر کے اپنے ایجنٹ کے حوالے کردیا۔ہمارے اِس بھائی کی اِس فیلڈ میں نا تجربہ کاری اپنا کام دِکھلانے لگی،بے یقینی چھانے لگی،لیکن باہمی مشورے سے ہم کاغذی کارروائی کے مختلف مراحل طے کرتے رہے۔اس سفر کی ،ہر دوسرے غیر ملکی سفر کی طرح کئی قسم کی دستاویزات اور ضروریا ت ہو تی ہیں۔تجربہ کار ایجنٹ ،یہ سب چیزیں ،ایک خاص ترتیب سے پوری کرواتے ہیں لیکن ہمارے اس بھائی کواس سارے طریقہ کار کی مکمل معلومات نہ تھیں۔ لاہور میں موجود کسی ایجنسی کے فرد سے اُن کا رابطہ تھا اور مختلف پیغامات اور سوالات و جوابات کے تبادلہ میں غیر ضروری طور پر تاخیرہو رہی تھی جس پر میں نے براہ راست اُس متعلقہ ایجنسی سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا جو بڑا سود مند ثابت ہوا۔چونکہ قبل ازیں عمرے کے سفر اختیار کر چکا تھا ،اس لیے بعض چیزوں کا علم تو تھا لیکن پھر بھی ویزہ لگ کر پاسپورٹ کے واپس ملنے تک ،قدرے بے یقینی قائم رہی کہ نہ جانے کوئی دستاویزی غلطی ہی نہ نکل آئے اورآخر وقت میں ویزہ ہی نہ لگ سکے،لیکن ،الحمد للہ سب کچھ مناسب طریقے سے ہو گیا اوربہت کم وقت میں تیاری کے سارے مراحل مکمل ہو گئے۔ایک بڑی پریشانی ،کلینک میں متبادل ڈاکٹر صاحب کا مہیا کرنا تھا،لیکن الحمد للہ، اس کا بھی جلد ہی بندوبست ہو گیااورہم۱۴ ۔جولائی ۲۰۱۹ء کو،صبح سویرے ،لاہور ایئرپورٹ پر پہنچ گئے۔ 
اُس دِن موسم بہت خوبصورت تھا۔لاہور میں ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ہمارے اندر بھی ابر کرم کی برسات جاری تھی۔تشکر کے جذبات کا اظہار ہماری نم دیدہ نم دیدہ آنکھوں سے ہو رہاتھا جب بھی یہ خیال آتا کہ ،میرے یار دلدارکے فضل و کرم کی برکھا ،اس خاکسار پر ، میرے ایسے پاپی پر،بلا استحقاق ، چھاجوں برس رہی ہے تو آنکھیں چھلک چھلک سی پڑتی تھیں اور دِل جھک جھک سا جاتا تھا۔
 پی کے ۷۴۰:
بھلا ہو ہماری ٹریول ایجینسی کا ،کہ انھوں نے ہمارے اس مقدس سفر کے لیے قومی ہوائی کمپنی کا انتخاب کیا تھا۔ہمیں پی آئی اے کی فلائیٹ پی کے ۷۴۰ کے ذریعے براہ راست جدہ جانا تھا۔ ہماری فلائیٹ چودہ جولائی کو دِن ایک بجے کی تھی اور ہمیں کمپنی والوں نے صبح آٹھ بجے ایئرپورٹ پر پہنچ جانے کا کہا تھا۔اس لیے ،بندہ رات کو ہی اپنے بیٹوں محمد اورحسن کے ہمراہ،اپنے چھوٹے بھائی پروفیسرخلیل احمدعاربی کے ہاں ،ڈنگہ سے لاہور پہنچ گیا تھاتاکہ صبح ائیرپورٹ پہنچنے میں دیر نہ ہو جائے۔خوب صورت موسم ،صبح کا سہانا وقت اور برستی بارش میں ہم بروقت ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں ہماری کمپنی کے منتظمین بھی ہمیں مل گئے۔اپنے شہر سے میں چونکہ اکیلاہی اس ایجنسی کے ذریعے حج پر جا رہا تھا اس لیے کئی طرح کے خدشات لاحق تھے کہ نہ جانے کس طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑے اور نہ جانے قیام و طعام کے موعودہ انتظامات مل پاتے ہیں یا نہیں اور یہ کہ تیس پینتیس دِ ن کے لیے یکسر گھر سے باہر کیسے گزران ہوگی،وغیرہ وغیرہ۔لیکن بہت سے خدشات و تفکرات اُسی وقت ہی دور ہو گئے جب منتظمین سے ملاقات اور گفتگو ہوئی۔اگرچہ فون کے ذریعے مختلف لوگوں سے رابطہ تو تھا لیکن ،ایئر پورٹ پر جب اِن سے رُو در رُو ملاقات ہوئی تو دِل کو اطمینان آ گیا۔خاص طور پر اِن لوگوں میں حسن صاحب تھے ،جو ہمارے ساتھ ہی جارہے تھے،انتہائی ذمہ دار ،شریف النفس اور اپنے کام کو بہتر طور پر جاننے اور کرنے والے۔الحمد للہ علیٰ ذالک۔حسن سے ملاقات کے بعد،میں نے ساتھ آئے ہوئے بچوں کو واپس بھیج دیا۔جلد ہی چیک اِن شروع ہو گیا۔چونکہ پہلے کئی بار بیرون ملک سفر کا تجربہ رکھتا تھا اس لیے ایئرپورٹ کے اندر جاکر لاؤنج میں جانے اور جہاز پرسوار ہونے تک کے مراحل سے بخوبی واقف تھا اور بڑے ہی اطمینان سے مختلف مراحل طے ہوگئے اور لاؤنج میں پہنچ گیا۔ میرے پاس تین چار گھنٹے تھے جن میں بظاہر انتظار کے اور کوئی مصروفیت نہیں تھی۔
موبائل یار:
ایک زمانہ تھا کہ جب اس طرح کے مواقع پر انسان اپنے قریب بیٹھے لوگوں سے تعارف اور گپ شپ میں مصروف رہتا تھا، نئے واقف کار بنتے ،نئی دوستیاں پروان چڑھتیں اورنئے رشتے اُستوار ہوتے لیکن آجکل تو ، بھلا ہو جدید ٹیکنالوجی کا ،کہ جیسے ہی کسی آدمی کو ڈھنگ سے بیٹھنے کی جگہ ملتی ہے تووہ فوراً ہی جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے اور موبائل نکال کر اُس میں پناہ ڈھونڈلیتا ہے ، ایسے میں اُسے کوئی خبرنہیں رہتی تھی کہ کون آ رہا ہے اور کو ن جا رہا ہے۔موبائل اور اُس پر موجود انٹرنیٹ تو گویا دلچسپیوں اور حیرتوں کاایک جہاں ہے کہ جس میں ایک بار آپ گھس جائیں تو آسانی سے نکل نہیں پاتے لاہور ایئر پورٹ کے لاؤنج میں نشست سنبھالتے ہی راقم نے بھی یہی کیا، چند لمحے ماحول کا جائزہ لینے کے بعددوسرے ہی لمحے موبائل نکال کر اُ س میں کھو گیا۔پہلے تو کئی عزیزوں ،دوستوں اوراحباب کو اطلاعی کالز کیں اوروٹس ایپ پرکچھ تبادلہ پیغامات کرتا رہا۔حقیقت یہ ہے کہ موبائل آپ کی تنہائی کا بہترین ساتھی ہے۔ یو ٹیوب سے چندایک مذہبی کلپس دیکھے اور ایک آدھ کتاب کا مطالعہ کیا۔کچھ دیر تک ،موبائل پر ہی،تلاوت قرآن مجید بھی کی اور تفسیر کامطالعہ کیا۔ ایک ایک کر کے مسافر لاؤنج میں جمع ہو رہے تھے اور آہستہ آہستہ رونق بڑھ رہی تھی۔یہ تو معلوم تھا کہ یہ حج فلائیٹ ہے لہٰذاآنے والے لوگ زائرین حرم ہی تھے گویا ہم سب کی منزل ایک ہی ہے اور مقصد سفر بھی ایک ہی ہے۔میں کھڑا ہو گیااور چہل قدمی شروع کر دی۔ارادہ یہ تھا کوئی راہ و رسم پیدا کروں،کسی سے تعارف کروں اورکوئی جان پہچان حاصل کروں ساتھ ہی ساتھ واک کے فوائد بھی حاصل ہوں اور پھر میں نے ایک گوہر مقصود پا ہی لیا۔یہ ہمارے قریبی ضلع کے رہائشی برادر شکیل تھے۔پہلی ہی نظر میں مجھے لگا کہ یہ نوجوان ہے کہ جس سے مجھے راہ و رسم پیدا کرنی چاہیے ۔مجھے ایسا کیوں لگا ،اِس کا تو مجھے نہیں پتا ،البتہ اگلا ایک ماہ ہم اکٹھے رہے اور خوب گزری جب مل بیٹھے دیوانے دو۔شکیل بھائی سے لاؤنج میں تو مختصر ہی تعارف ہوا لیکن یہ مختصر تعارف بھی ایک اچھے ساتھ کی بنیاد بن گیا۔الحمدللہ ۔دو چار اور لوگوں سے بھی اُس لمحے گپ شپ ہوئی اور کئی مفید معلومات حاصل ہوئیں اور وقت اچھا گزر گیا۔
ہم نے کفن پہنا:
پروگرام کے مطابق ،ہم سیدھے مکہ شریف جا رہے تھے لیکن جہاز میں اکثریت اُن مسافروں کی تھی کہ جو جا تو حج پر رہے تھے لیکن فی الحال اُن کی منزل مدینہ طیبہ تھی۔یہ وہ لوگ تھے جو سرکاری طور پر حج کو جا رہے تھے۔اُن کے لیے پروگرام یہ ترتیب دیا گیا تھا کہ وہ جدہ سے ،بسوں کے ذریعے مدینہ طیبہ روانہ کر دیئے جائیں گے اور بعد میں ، کسی وقت وہ حج کے لیے مکہ مکرمہ آئیں گے۔ منزل کے اِ س فرق کے باعث ،ہم لوگ جوجدہ سے مکہ مکرمہ جانے والے تھے ،انھیں احرام، ایئر پورٹ سے ہی باندھنا تھا اور جن کی فی الحال منزل مدینہ طیبہ تھی وہ اپنے اصل لباس میں ہی رہیں گے۔ ہمارے ساتھیوں نے قریباً گیارہ بجے باہم فیصلہ کیا کہ اب ہم سب احرام باندھ لیں۔ لہٰذا ہم سب ،لاؤنج میں موجودمسجد کی طرف گئے۔وضو کیا،احرام کی دو چادریں باندھیں،دورکعت نفل ادا کی اور تلبیہ پڑھ کر عمرہ کی نیت کی۔اگرچہ ہم سب حج کے ارادے سے ہی یہ سفر کر رہے ہیں لیکن یہ احرام ،ہم نے عمرے کی نیت سے باندھا ہے جو کہ حرم کعبہ پہنچ کر،عمرہ مکمل کر لینے کے بعد اُتر جائے گا۔اُ س کے بعد ،جتنے دِن ہم مکہ مدینہ رہیں گے( بمطابق شیڈول) اپنے معمول کے لباس میں رہیں گے اور حج کے لیے ،انشاء اللہ نیا احرام باندھا جائے گا۔یاد رہے کہ خاص حج کے لیے احرام ۸۔ذوالحج کو باندھا جاتا ہے۔ 
حج کی یہ قسم جس میں ایک ہی سفر میں ،لیکن الگ الگ عمرہ اور حج ادا کیا جائے،حج تمتع کہلاتا ہے۔ 
لاہور ایئرپورٹ کے لاؤنج میں خاصی بڑی تعدادمیں کفن پوش موجود ہیں اور لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔خاکسار تو زیر ِلب ہی یہ کلمات دہرا رہا ہے لیکن ایک آدھ دیوانہ کبھی کبھی بآواز ِ بلند یہ ترانہ پڑھ دیتا ہے تو دِل کو تازگی میسر آجاتی ہے۔اتنے میں جہاز میں سوار ہونے کا اعلان ہوتا ہے اور ہم اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور جہاز کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔حج و عمرہ کے سفر پر جاتے ہوئے میرے کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خاص طور پر تربیت فرمائی ہے کہ آدمی اللہ کریم سے یہ دعا مانگے کہ اُس کا یہ سفر آسانی اور سہولت والا ہو اور رب تعالیٰ تنگی اور تکلیف سے بچائے۔(اللھم یسر ولا تعسر)،بندہ بھی مسلسل یہ دعا مانگ رہا تھا اور قطار میں ،جہاز کی طرف آگے بڑھ رہا تھا اور پھر جلد ہی جہاز کے اندر داخل ہوکر اپنی مقررہ سیٹ پر بیٹھ گیا۔اتفاقاً یہ سیٹ کھڑکی کے پاس تھی جس سے مجھے خوشی ہوئی کیونکہ باہر کے نظاروں کو دیکھنے کا موقع مل گیا تھا۔باہر نظر دوڑائی تولاہو رکا وسیع و عریض ایئر پورٹ سامنے تھا۔موسم ابر آلود تھا۔جولائی کی دوپہر کا سورج بادلوں کی اوٹ میں تھا اور ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔بڑادیدہ زیب نظارہ تھا۔اندر کو نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ تمام مسافر اپنی اپنی نشستوں پر تشریف فرما ہو چکے ہیں۔جہاز کا عملہ مستعدی سے لوگوں کی مدد کررہا ہے۔مسافروں کی اکثریت بغیر احرام کے ہے گویا یہ سرکاری حجاج کرام ہیں۔میرے ساتھ والی نشستوں پر بھی ایسے ہی دو مسافر براجمان تھے،سادہ ،اَن پڑھ اوردیہی مزاج کے دو میاں بیوی۔اُن سے تعارف ہو ہی رہا تھا کہ اعلان ہوا کہ ہمارا یہ جہاز پرواز کے لیے تیار ہے اور پھر اگلے ہی لمحے اُس نے رن وے پر دوڑنا شروع کر دیا اور قریباً دِن کے پون بجے ہمارا جہاز لاہور کی فضاؤں میں بلند ہو گیا۔
اللہ اکبر اللہ اکبر ،لا الہٰ الااللہ واللہ اکبر ، و للہ الحمد،
سبحان الذی سخرلنا ھذا،وما کنا لہ مقرنین، و انا الی ربنا لمنقلبون۔
لبیک اللھم لبیک لبیک ،لا شریک لک ،ان الحمد والنعمۃ لک والملک،لاشریک لک اللھم یسر ولا تعسر
جلد ہی جہاز نے اپنی رفتار پکڑ لی اور ایک ہموار اور پرسکون پرواز شروع ہوگئی۔کھڑکی سے باہر کا منظر ،اگرچہ بادلوں کے باعث دھندلا تھا لیکن پرکشش ضرور تھا۔تھوڑی دیر میں ہی ،جہاز کے عملے نے مسافروں کے لیے لذت کام و دہن کا سلسلہ شروع کردیا۔میرے ہمسائے سادہ طبیعت اور نہایت کم گو تھے ۔گوجرانوالہ کے کسی دیہی علاقے سے تعلق تھا،اُن سے تھوڑا بہت تعارف ہوا لیکن زیادہ گفتگو کرنے پر وہ آمادہ نظر نہ آئے ۔ہماری یہ فلائٹ ، قریباًپانچ گھنٹے کی تھی اوریہ طویل پانچ گھنٹے ،کچھ سوتے ،کچھ جاگتے اور جاگنے کے دوران کچھ پڑھتے اور زیادہ ترباہری منظر کا نظارہ کرتے ‘‘پلک جھپکنے’’ میں گزر گئے۔
جدہ شہر کا فضائی منظر:
ہمارے اِس فضائی نظارے میں کئی دِل کش مناظرتھے۔سعودی عرب کی سرزمین شروع ہوئی تو اِس میں وسیع وعریض صحرا اور ریگستان دیکھنے کو ملا۔ریتلی سرزمین کا فضائی نظارہ کرنے میں محو تھاکہ ہمارے جہاز کے مائیک سسٹم سے آواز گونجی کہ: ‘‘خواتین و حضرات!ہم اگلے پندرہ منٹوں میں ،کنگ عبد العزیز انٹر نیشنل ائیر پورٹ جدہ میں لینڈ کرنے والے ہیں۔ تمام حضرات سیٹ بیلٹس باندھ لیں۔’’
صحرائی مناظر کے ہٹتے ہی ،شہری مناظر شروع ہوگئے۔میں نے جہاز کی کھڑکی سے نیچے جھانکا تو جدہ کا خوبصورت شہرہمارے منظر میں تھا۔سہ پہر کا سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔جولائی کا مہینہ تھا،سورج کی حدت اور تمازت کو جہاز کے اندر بیٹھا ،میں بخوبی محسوس کر سکتا تھا ۔ جدہ سعودی عرب کا،ریاض کے بعد،آبادی کے اعتبار سے دوسرا بڑاشہرہے،ہاں البتہ تجارتی اعتبار سے، یہ سب سے بڑا شہر ہے سب سے بڑا ہوائی اڈا بھی اِسی شہر میں ہے جس میں ہم اُترنے والے تھے۔ اور سعودیہ کی سب سے بڑی بحری بندر گاہ بھی یہیں ہے۔ میں جہاز کی چھوٹی سے کھڑکی سے نیچے جھانک رہا تھااور نیچے ایک ایسا منظر تھا جو میں نے پہلے کبھی کہیں نہیں دیکھا تھا۔ جدہ کا یہ فضائی نظارہ انتہائی شاندار تھا۔ آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں،فلک بوس پلازے اور کثیر منزلہ مکانات،اس لمحے گڑیوں کے گھروندوں کی ماننددکھائی دیتے تھے۔وہ اُونچے اُونچے ٹاورز،جن کی بلندیوں کو،اگر زمین پر کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو سر کی پگڑی دُور جا پڑے لیکن اب یہ ہمارے قدموں کے نیچے دِکھائی دے رہے تھے۔ بڑی بڑی شاہراہیں اور وسیع و عریض موٹر ویز ، کولتار سے کچھی لکیروں کی مانند دِکھتی تھیں اور ان سڑکوں پر چلتی یا پارک کی گئی گاڑیاں بچوں کی کھلونا گاڑیاں معلوم دیتی تھیں۔ سبزہ نام کوبھی نہ تھا۔درخت ،اول تو خال خال تھے لیکن جو ،تھے وہ چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں کی مانند دکھائی دیتے تھے۔ نہایت دیدہ زیب نظارہ تھا۔ طیارے پر بیٹھے ،جدہ پر یہ طائرانہ نظر نہایت دِلکش،دلربا اور سحر انگیزتھی ، بعدمیں پچھتاتا رہا کہ اس حسین منظر کو کیمرے کی آنکھ میں کیوں نہ محفوظ کر لیا۔ 
جدہ بحر احمرکے ساحل پر واقع ہے ۔یہ سعودیہ کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔یہ مکہ سے مشرق کی سمت ۹۰ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ اس کو باب مکہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ زمانہ قدیم سے ہی یہ مکہ مکرمہ کاداخلی راستہ (gateway) ہے، یعنی جس کسی نے مکہ آنا ہوتا تھا وہ جدہ کی بندرگاہ پر اُترتا تھا اوریہاں سے مکہ آتا تھا۔ آج بھی دنیا بھر سے آنے والے زائرین مکہ، یہیں جدہ کے بین الاقوامی طیران گاہ میں اترتے ہیں اور دیگر سواریوں کے ذریعے مکہ شریف جاتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ اس شہرکو یہ نام اماں حواسلام اللہ علیہا کی وجہ سے دیا گیا ہے عربی میں‘‘جدہ ’’دادی کو کہتے ہیں اور اماں حواسلام اللہ علیہا جو کہ پوری انسانیت کی ماں اور دادی کا درجہ رکھتی ہیں، یہاں قیام پذیر رہیں اور اُن کی قبرانور بھی یہیں تھی اس لیے اس شہر کا نام جدہ پڑ گیا۔
اور پھر،دِن کے پون بجے ،لاہور سے اُڑان بھرنے والایہ جہاز،اب سہ پہر کے پانچ بجے ،جب کہ مقامی وقت کے مطابق دِن کے تین بجے تھے،ہمارے خوابوں کی سر زمین ،سعودی عرب، کے شہر جدہ کے ‘‘شاہ عبد العزیز بین الاقوامی ایئر پورٹ’’ پر بحفاظت اُتر گیا۔الحمد للہ علیٰ ذالک۔(جاری ہے )