سوال ، جواب

مصنف : دارالعلوم دیوبند انڈیا

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جنوری 2020

آپ کی زندگی خوف و دہشت سے دوچار ہے، خواب میں وہی منظر نظر آتا ہے، دعا کرتا ہوں اللہ تعالی آپ کو خوف و غم سے اور ہر قسم کی بیماری و شر سے حفاظت فرمائے اور خوشگوار زندگی نصیب کرے (آمین) ہرنماز کے بعد یہ دعا بطور خاص پڑھا کریں۔ اَللّٰہم إنّی أعُوذبک من الہم والحزن والجبن والبخل، رَبَّنَا آتنا فی الدنیا حسنۃً وفی الآخرۃ حسنۃً وقنا عذاب النار۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

جو تعویذات و عملیات خلاف شرع ہوں یا ان ہی پر اعتماد و تکیہ ہویا ان کو موثر حقیقی سمجھ لیا جائے یہ تو شرعاً ممنوع ہے، ہاں جو تعویذات شرع کے موافق ہوں اور ان کو منجملہ تدبیر کے طور پر استعمال کیا جائے تو اس کی اجازت ہے، شرعاً اس میں قباحت نہیں، تاہم اس صورت میں بھی افضل یہی ہے کہ ان تعویذات سے احتراز کیا جائے اور محض دعا پر اکتفا کیا جائے۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

بھاری رقم ایڈوانس میں لینا اور متعارف کرایہ سے کم پر کرایہ داری کا معاملہ کرنا جائز نہیں؛ کیوں کہ کرایہ داری کے معاملہ میں کرایہ دار ڈپازٹ کے نام پر مکان مالک کو جو رقم دیتا ہے، وہ شرعاً بہ حکم قرض ہوتی ہے، اور مکان مالک ڈپازٹ ہی کی بنیاد پر اس سے متعارف کرایہ سے کم کرایہ لیتا ہے؛ جب کہ شریعت میں قرض خالص تبرع اور احسان کا معاملہ ہے، قرض کی وجہ سے مقروض سے کوئی بھی نفع حاصل کرنا جائز نہیں، وہ بہ حکم سود ہوتا ہے؛ اس لیے صورت مسؤلہ میں ہیوی ڈپازٹ دے کرمتعارف کرایہ سے کم پر کرایہ داری کا معاملہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
 

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

کرایہ کی بہتر صورت یہ ہے کہ مالک اور کرایہ دار کرایہ کا معاملہ کرنے سے پہلے بغیر کسی بڑی رقم لیے باہم ماہانہ کرایہ کا معاملہ طے کریں،آج کل جو یہ رواج چل پڑا ہے کہ مالک مکان ایک بڑی رقم لے کر یا تو کرایہ بالکل ہی معاف کردیتا ہے یا معمولی برائے نام کرایہ لیتا ہے یہ قرض سے انتفاع کی شکل ہوتی ہے جو شرعاً جائز نہیں۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

دکان،مکان، فلیٹ اور پلاٹ وغیرہ کی خریداری میں بیعانہ کے نام سے پیشگی طور پر ثمن کا جو حصہ ادا کیا جاتا ہے، اگر کسی وجہ سے خرید وفروخت کا معاملہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے تو بائع کے لیے اس کا ضبط کرلینا شرعاً جائز نہیں؛ بلکہ خریدار کو اس کا پورا پیسہ واپس کردینا ضروری ہے۔ صورت مسؤلہ میں آپ کا بائع اگر مسلمان ہے تو آپ اسے شرعی مسئلہ بتائیں،إن شاء اللہ وہ آپ کا پورا پیسہ واپس کردے گا، اور اگر وہ غیر مسلم ہے تو آپ اس سے صرف درخواست کرسکتے ہیں اور اللہ تعالی سے دعا، ممکن ہے کہ اس کا دل نرم ہو اور وہ آپ کا پورا پیسہ واپس کردے۔
 

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

اگرچہ بار بار مصافحہ کرنا فی نفسہ تو بدعت نہیں تاہم اسے ضروری سمجھنا بدعت ہے۔ اگر بار بار مصافحہ کرنے میں سامنے والے شخص کا حرج ہو یا اس کے لئے تکلیف کا موجب ہو تو ایسی صورت میں ایک دن میں ایک مرتبہ کرلینا کافی ہے اور تکلیف ہونے کی صورت میں اس سے بھی احتیاط لازم ہے۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

جی ہاں ان کے حق میں دعا کرے اور حسن سلوک ترک نہ کرے کیونکہ پھر بیٹا بھی حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے ظالم ہوجائے گا اور بیٹے کا ظالم ہونا باپ پر زیادہ سنگین ہے۔
 

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

جی ہاں رات میں ناخن کاٹ سکتے ہیں، بالوں میں کنگھا بھی کرسکتے ہیں اور پہنے ہوئے کپڑے کی سلائی بھی کرسکتے ہیں، شرعاً اس میں مضائقہ نہیں۔
 

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

لیٹ کر بھی اذان کا جواب دے سکتے ہیں جائز ہے قرآن میں ہے اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَاماً وَّقُعُوْداً وَّعَلیٰ جُنُوْبِہِمْ الایۃ (پ: ۴/ آل عمران: ۱۹۱) البتہ بیٹھ کر جواب دینا زیادہ ادب ظاہر کر تا ہے ۔
 

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

کینہ اور بغض دونوں مترادف ہیں دشمنی، عداوت، حسد، جلن کے معنی میں مستعمل ہیں، کسی سے کینہ اور بغض رکھنا تو شرعاً ممنوع ہے ہاں اگر کوئی کسی دوسرے سے دینی یا دنیاوی مصلحت سے بات چیت نہ کرے جبکہ اس شخص کے دل میں دوسرے کے خلاف کوئی دشمنی، حسد، جلن نہ ہو اور نہ اس کا برا چاہتا ہو نہ اس سے قطع تعلق مقصود ہو بلکہ اصلاح و تنبیہ کی غرض سے ہو یا اس کے شر سے بچنا مقصود ہو تو شرعاً اس میں حرج نہیں اور اعلیٰ بات یہ ہے کہ اگر کوئی برائی سے پیش آئے تو ہم اس کے ساتھ احسان کا معاملہ کریں، اگر کوئی ظلم کرے تو ہم معاف کردیں اگر کوئی قطع رحمی کرے تو ہم اس کے ساتھ صلہ رحمی کریں حدیث میں ہے: صل من قطعک واعف عمن ظلمک وأحسن إلی من أساء إلیک-B7 اور ایک روایت میں ہے: لیس الواصل بالمکافی ولکن الواصل الذی إذا قطعت رحمہ وصلہا یعنی وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو برابر سرابر کا معاملہ کرنے والا ہو بلکہ صلہ رحمی کرنے والا دراصل وہ ہے جو دوسرے کے توڑنے پر صلہ رحمی کرے۔ حضرت شیخ الحدیث زکریا رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فائدہ کے ذیل میں لکھتے ہیں: بالکل ظاہر اور بدیہی بات ہے جب آپ ہر بات میں یہ دیکھ رہے ہیں کہ جیسا برتاؤدوسرا کرے گا ویسا ہی میں بھی کردوں گا تو آپ نے کیا صلہ رحمی کی؟ یہ بات توہر اجنبی کے ساتھ بھی ہوتی ہے کہ جب دوسرا شخص آپ پر احسان کرے گا تو آپ خود اس پر احسان کرنے میں مجبور ہیں۔ صلہ رحمی تو درحقیقت یہ ہے کہ اگر دوسرے کی طرف سے بے التفاتی بے نیازی قطع تعلق ہو تو تم اس کے جوڑنے کی فکر میں رہو، اس کو مت دیکھو کہ وہ کیا برتاؤ کرتا ہے۔ اس کو ہر وقت سوچو کہ میرے ذمہ کیا حق ہے؟ مجھے کیا کرنا چاہئے؟ دوسروں کے حقوق ادا کرتے رہو، ایسا نہ ہو کہ اس کا کوئی حق اپنے ذمہ رہ جائے جس کا قیامت میں اپنے سے مطالبہ ہوجائے اور اپنے حقوق کے پورا ہونے کا واہمہ بھی دل میں نہ لو بلکہ اگر وہ پورے نہیں ہوتے تو اور بھی زیادہ مسرور ہوکہ دوسرے عالم میں جو اجرو ثواب اس کا ملے گا وہ اس سے بہت زیادہ ہوگا جو یہاں دوسرے کے ادا کرنے سے وصول ہوتا۔ ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے رشتہ دار ہیں میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہوں وہ قطع رحمی کرتے ہیں، میں ان پر احسان کرتا ہوں وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں میں ہر معاملے میں تحمل سے کام لیتا ہوں وہ جہالت پر اترے رہتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر یہ سب کچھ صحیح ہے تو توُ ان کے منہ میں خاک ڈال رہا ہے (یعنی خود ذلیل ہوں گے) اور تیرے ساتھ اللہ جل شانہ کی مدد شامل حال رہے گی جب تک تو اپنی اس عادت پر جمع رہے گا’’ (مشکوۃ) اور جب اللہ جل شانہ کی مدد کسی کے شامل حال رہے تو نہ کسی کی برائی سے نقصان پہنچ سکتا ہے نہ کسی کا قطع تعلق، نفع پہنچنے سے مانع ہو سکتا ہے’’

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

جی ہاں! اگر چھینکنے والے نے الحمد للہ کہا اور سننے والے نے (بلاعذر شرعی) جواب نہیں دیا تو وہ گنہگار ہوگا، البتہ اگر مجلس میں ایک سے زائد لوگ موجود ہوں تو ہر ایک کا جواب دینا واجب نہیں، صرف ایک کا جواب دیدینا کافی ہے، اور اگر سبھی حاضرین جواب دیدیں تو یہ افضل ہے۔
 

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

اگر کوئی آدمی واٹس اَیپ وغیرہ میں کسی کو مخاطب کرکے سلام کرتا ہے، تحریری شکل میں ہو یا Voice SMSکے ذریعہ ہو، تو اس سلام کا جواب زبان سے فی الفور دینا واجب ہے، اور تحریری طور پر یا Voice SMSکے ذریعہ جواب دینا مستحب ہے۔ اس کے علاوہ واٹس اَیپ کی عام تقریروں اور تحریروں میں جو سلام کیا جاتا ہے اس سلام کا جواب دینا واجب نہیں؛ البتہ اگر کوئی پروگرام براہ راست Liveکیا جائے اور اس میں کوئی سلام کرے تو احتیاطاً سلام کا جواب دیا جائے۔
 

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

سوتیلی ماں اور خالہ دونوں ہی ماں کے درجہ میں ہوتی ہیں لہٰذا ان میں سے ہرایک کا ادب واحترام واجب ہے یعنی ان کی شان میں گستاخی یا انھیں کسی طرح سے بھی ایذا پہنچانا جائز نہیں۔ اگر حیثیت ہے تومالی خدمت کرکے انھیں خوش رکھنے کی کوشش کی جائے اور اطاعت فرمانبرداری کے ذریعہ ان کا حق ادا کیا جائے ۔سوتیلی ماں اور خالہ میں سے چونکہ خالہ سے خونی رشتہ بھی ہے اس لیے ان کے ساتھ محبت بھی زیادہ ہوگی اور ان کی طرف سے شفقت ومحبت کا ظہور بھی۔ لیکن سوتیلی ماں سے تعلق باپ کی وجہ سے ہے اس لیے قابل احترام وہ بھی ہیں، اگرچہ بسا اوقات آدمی محسوس کرتا ہے کہ سوتیلی ماں سے وہ پیار نہیں مل رہا جو اس کی اپنی حقیقی ماں سے ملتا یا خود سوتیلی ماں کے بچوں کو اس سے مل رہا ہے تو یہ طبعی اور کبھی غیر اختیاری بات ہوتی ہے لہٰذا آپ اس طرح کی منفی باتیں نہ سوچیں۔ اور ان کی طرف سے ناگوار باتوں پر صبر
 کریں اس سے بھی آدمی کا درجہ آخرت میں بڑھتا ہے۔

 

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

اگر آفس میں سہولت ہو تو مصلی یا رومال بچھا کر وہیں سجدہ تلاوت کرلیں یہ بہتر ہے اور اگر کسی وجہ سے آفس میں نہ کر سکیں تو گھر جاکر کرلیں اس کی بھی اجازت ہے۔ آیت سجدہ آنے کے بعد اپنی تلاوت وہیں موقوف نہ کر دیں بلکہ آگے بھی قرآن پڑھتے رہیں سجدہ تلاوت گھر جاکر یا مسجد میں جاکر کر لیا کریں۔ فوری طور پر سجدہ تلاوت کرنا ضروری نہیں ہے۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

وقف لازم کی علامت پر وقف کرنا واجب ِ شرعی نہیں ہاں قواعدِ تجوید کی رو سے لازم ہے ۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

نظر اتار نے میں اس کا مفید ہونا اگر تجربات سے ثابت ہو تو دیگر طریقہ علاج کی طرح یہ طریقہ بھی اختیار کرسکتے ہیں، شرعا ًاس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

غسل کے شروع میں وضو کی طرح بسم اللہ پڑھنا تو مسنون ہے؛ لیکن غسل کے شروع میں یا غسل کرتے ہوئے کلمہ پڑھنا ثابت نہیں، یہ بے اصل بات ہے، جو عوام میں رائج ہے؛ اس لیے اس سے احتراز چاہیے ۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں بے شمار دعائیں وارد ہوئی ہیں ان دعاؤں کو بہت سے علما ومحدثین نے کتابی شکل میں یکجا کردیا ہے جیسے علامہ جزری نے ‘‘حصن حصین’’ کے نام سے، امام نووی نے ‘‘الاذکار’’ کے نام سے علامہ سخاوی نے ‘‘القول البدیع’’ کے نام سے پھر بعض علماء نے ان کتابوں سے لوگوں کی سہولت کے لیے دعاؤں کو سات حصوں میں تقسیم کرکے جمع کردیا ہے تاکہ روزانہ اگر ایک حصہ پڑھاجائے تو سات دن میں تمام دعائیں زبان سے ادا ہوجائیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ نے انھیں میں سے جو مجموعہ تیار کیا اس کا نام مناجات مقبول رکھا اور علی بن سلطان محمد القاری المعروف بملا علی قاری شارح مشکاۃ نے جو مجموعہ ترتیب دیا اس کا نام ‘‘الحزب الاعظم’’ رکھا۔یہ دونوں کتابیں دعاؤں کا مجموعہ ہے، روزانہ ایک حصہ پڑھا جائے تو سات دن میں تمام دعاؤں کے پڑھنے اور مانگنے کی برکت ثواب اور جزا حاصل ہوجائے گی۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

ضروریاتِ دین سے وہ تمام دینی امور مراد ہوتے ہیں جو نبی کریم ﷺ سے قطعی طور پر تواتر کے ساتھ ثابت ہوں اور جن کا دین محمدی ہونا ہر خاص وعام کو بداہۃً معلوم ہو یعنی ان کا حصول کسی خاص اہتمام اور تعلیم پر موقوف نہ ہو بلکہ عام طور پر وہ امور مسلمانوں کو وراثتاً معلوم ہوجاتے ہوں ۔مثلاً:نماز،روزہ حج، زکوۃ کی فرضیت اور زنا،قتل،چوری،شراب خوری وغیرہ کی حرمت وممانعت وغیرہ اسی طرح نبی کریم ﷺ کا خاتم الأنبیاء ہونا،حشرونشر،جزاء سزا وغیرہ۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

ایمان اصطلاح شرع میں تصدیق قلبی کا نام ہے، یعنی دل سے اللہ تعالی کی توحید اور رسول کی رسالت کو سچا ماننا اور اسلام نام ہے اعمال ِظاہرہ میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے کا؛ لیکن شریعت میں تصدیق قلبی اس وقت تک قابل اعتبار نہیں جب تک اس کا اثر جوارح کے اعمال و افعال تک نہ پہنچ جائے جس کا ادنی درجہ یہ ہے کہ زبان سے کلمہ کا اقرار کرے۔ اسی طرح اسلام اگرچہ اعمال ظاہرہ کا نام ہے؛ لیکن شریعت میں اس وقت تک معتبر نہیں جب تک دل میں تصدیق نہ آجائے، اس طرح اسلام و ایمان مبدأ اورمنتہی کے اعتبار سے تو الگ الگ ہیں کہ ایمان باطن اور قلب سے شروع ہوکر ظاہر اعمال تک پہنچتا ہے اور اسلام افعال ظاہرہ سے شروع ہوکر باطن کی تصدیق تک پہنچتا ہے؛ مگر مصداق کے اعتبار سے ان دونوں میں تلازم ہے کہ ایمان اسلام کے بغیر معتبر نہیں اور اسلام ایمان کے بغیر شرعا معتبر نہیں(معارف القرآن)۔ گویا لغوی معنی کے اعتبار سے تو دونوں میں فرق ہوسکتا ہے؛ لیکن دونوں کے شرعی مصداق میں کوئی فرق نہیں ہے، لہذا شریعت کی نظر میں دونوں کے انعامات اور دونوں کا مقام و مرتبہ بھی برابر ہوگا۔

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

قرآن و سنت کی تصریحات سے اتنی بات تو بلاشبہ ثابت ہے کہ یاجوج و ماجوج انسانوں ہی کی قومیں ہیں اور عام انسانوں کی طرح نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں کیونکہ قرآن کریم کی نص صریح ہے وَجَعَلْنَا ذُرِّیَّتَہ ہُمُ الْبٰقِیْنَ یعنی طوفان نوح (علیہ السلام) کے بعد جتنے انسان زمین پر باقی ہیں اور رہیں گے وہ سب حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں ہوں گے اور جمہور محدثین و مو رخین ان کو یافث ابن نوح (علیہ السلام) کی اولاد قرار دیتے ہیں،ان کے نکلنے کا وقت ظہور مہدی (علیہ السلام) پھر خروج دجال کے بعد ہوگا جبکہ عیسیٰ (علیہ السلام) نازل ہو کر دجال کو قتل کرچکیں گے،اس سے متعلق سب سے زیادہ تفصیلی اور صحیح حدیث حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کی ہے جس کو صحیح مسلم اور تمام مستند کتب حدیث میں نقل کیا گیا ہے اور محدثین نے اس کو صحیح قرار دیا ہے، اس میں خروج دجال، نزول عیسیٰ (علیہ السلام) پھر خروج یاجوج و ماجوج وغیرہ کی پوری تفصیل مذکور ہے،دیکھیے: معارف القرآن: ۵/۸۳۶، سورہ یوسف)باقی معلومات کہ قوم یاجوج وماجوج کون سی قوم ہے؟ اور اس وقت کہاں کہاں ہے، اس پر نہ کوئی اسلامی عقیدہ موقوف ہے اور نہ قرآن کریم کی کسی آیت کا سمجھنا اس پر موقوف ہے۔
 

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)

اللہ تعالیٰ کا دیدار اس دنیا میں عقلاً ممکن ہے لیکن شرعاً ممتنع ہے، حضرت مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: لَن تَرانی یعنی آپ مجھے نہیں دیکھ سکتے) اس میں اشارہ ہے کہ رویت ناممکن نہیں مگر مخاطب بحالت موجودہ اس کو برداشت نہیں کرسکتا ورنہ اگر رویت ممکن ہی نہ ہوتی تو لن ترانی کے بجائے لن اُری کہا جاتا کہ میری رویت نہیں ہوسکتی (مظہری) اس سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار دنیا میں بھی عقلاً ممکن تو ہے مگر اس آیت سے اس کا ممتنع الوقوع ہونا بھی ثابت ہوگیا اور یہی مذہب ہے جمہور اہل سنت کا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رویت عقلاً ممکن ہے مگر شرعاً ممتنع جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے لن یری أحد منکم ربّہ حتی یموت یعنی تم میں سے کوئی شخص مرنے سے پہلے اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتا۔ (معارف القرآن ج۴ص۱۶-۲۶)

(دارالعلوم دیوبند انڈیا)