داستانِ مجید امجد

مصنف : اجمل شبیر

سلسلہ : ادب

شمارہ : دسمبر 2019

مجید امجد کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے میں ان کا کچھ کلام سنانا چاہوں گا، ان کی وہ نظمیں اور غزلیں جو مجھے بہت پسند ہیں، پہلے وہ سنتے ہیں۔
اگر میں خدا اس زمانے کا ہوتا
تو عنواں کچھ اور اس فسانے کا ہوتا
عجب لطف دنیا میں آنے کا ہوتا
مگر ہائے ظالم زمانے کی رسمیں
ہیں کڑواہٹیں جن کی امرت کی رس میں
نہیں مرے بس میں، نہیں مرے بس میں
مری عمر بیتی چلی جا رہی ہے
دو گھڑیوں کی چھاؤں ڈھلی جا رہی ہے
ذرا سی یہ بتی جلی جا رہی ہے
جونہی چاہتی ہے مری روحِ مدہوش
کہ لائے ذرا لب پہ فریاد پرجوش
اجل آ کے کہتی ہے خاموش! خاموش!
مجید امجد کی ایک معروف نظم ''آٹو گراف'' کا ذکر چھیڑتے ہیں۔۔مجید امجد کی یہ نظم کرکٹ کے عظیم کھلاڑی فضل محمد کے بارے میں تھی، بقول ڈاکٹر سلیم اختر ''آٹو گراف'' مجید امجد ہی کی نہیں بلکہ اردو کی چند بہترین نظموں میں شمار کی جا سکتی ہے۔ اس میں تنہائی کے بارے میں جس مرد کی تصویر ابھرتی ہے وہ جنسی احساسِ کمتری کا شکار ہے۔ خوبصورت لڑکیاں کرکٹ کے ہیرو کے گرد منڈلا رہی ہیں۔ اس لئے رشک و حسد کے جو جذبات ابھرتے ہیں یہ نظم اس کا فوری ردِ عمل معلوم ہوتی ہے، لیکن ان کے پیچھے محرومی کی کتنی طویل داستان ہو گی، یہ کون جانے؟ آیئے اس نظم کو بھی سنتے ہیں۔
۔۔۔ آٹو گراف۔۔۔
کھلاڑیوں کے خود نوشت دستخط کے واسطے
کتابچے لئے ہوئے
کھڑی ہیں منتظر حسین لڑکیاں
ڈھلکتے آنچلوں سے بیخبر حسین لڑکیاں
مہیب پھاٹکوں کے ڈولتے کواڑ چیخ اٹھے
ابل پڑے الجھتے بازوؤں چٹختی پسلیوں کے
پُر ہراس قافلے
گرے، بڑھے، مُڑے بھنور ہجوم کے
کھڑی ہیں یہ بھی راستے پہ اک طرف
بیاضِ آرزو بکف
نظر نظر میں نارسا پرستشوں کی داستاں
لرز رہا ہے دم بہ دم۔۔کمان ابرواں کا خم
کوئی جب ایک نازِ بے نیاز سے
کتابچوں پہ کھینچتا چلا گیا
حروفِ کج تراش کی لکیر سی
تو تھم گئیں لبوں پہ مسکراہٹیں شریر سی
کسی عظیم شخصیت کی تمکنت
حنائی انگلیوں میں کانپتے ورق پہ جھک گئی
تو زرنگار پلوؤں سے جھانکتی کلائیوں کی تیز
نبض رُک گئی
وہ باؤلر ایک مہ وشوں کے جمگھٹوں میں گھر گیا
وہ صفحہِ بیاض پر بصد غرور کلکِ گوہروں پھری 
حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں وکٹ گری
میں اجنبی میں بے نشاں
میں پا بہ گل
نہ رفعتِ مقام ہے، نہ شہرتِ دوام ہے
یہ لوحِ دل۔۔۔ یہ لوحِ دل
نہ اس پہ کوئی نقش ہے، نہ اس پہ کوئی نام ہے
مجید امجد کی نظم ''بس اسٹینڈ پر'' مجھے بے حد پسند ہے۔اکثر دوست احباب کو غصے کے عالم میں یہ نظم سناتا ہوں، آئیے آپ کو بھی سنا دیتا ہوں۔
۔۔۔بس سٹینڈ پر۔۔۔
خدایا اب کے یہ کیسی بہار آئی
خدا سے کیا گلہ بھائی
خدا تو خیر، کس نے اس کا عکسِ نقشِ پا دیکھا
نہ دیکھا، تو بھی دیکھا اور دیکھا بھی تو کیا دیکھا
مگر، توبہ مری توبہ، یہ انساں بھی تو آخر اک تماشا ہے
یہ جس نے پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہونا، بڑے جتنوں سے سیکھا ہے
ابھی کل تک جب اس کے ابروؤں تک موئے پیچاں تھے
ابھی کل تک جب اس کے ہونٹ محرومِ زنخداں تھے
ردائے صد زماں اوڑھے لرزتا کانپتا بیٹھا
ضمیر سنگ سے بس ایک چنگاری کا طالب تھا 
مگر اب تو یہ اونچی ممٹیوں والے جلو خانوں میں بستا ہے
ہمارے ہی لبوں سے مسکراہٹ چھین کر اب ہم پہ ہنستا ہے
خدا اس کا، خدائی اس کی، ہر شے اس کی، ہم کیا ہیں
چمکتی موٹروں سے اڑنے والی دھول کا ناچیز ذرہ ہیں
ہماری ہی طرح جو پائمالِ سطوتِ میری و شاہی میں
لکھوکھا آب دیدہ پا پیادہ دل زدہ واماندہ راہی ہیں
جنہیں نظروں سے گم ہوتے ہوئے رستوں کی گم پیما لکیروں میں
دکھائی دے رہی ہیں آنے والی منزلوں کی دھندلی تصویریں
ضرور اک روز بدلے گا نظام قسمت آدم
بسے گی اک نئی دنیا سجے گا اک نیا عالم
شبستاں میں نئی شمعیں، گلستاں میں نیا موسم
وہ رت اے ہم نفس! جانے کب آئے گی
وہ فصل دیر رس جانے کب آئے گی
یہ نو نمبر کی بس جانے کب آئے گی
مجید امجد کی یہ وہ شاہکار نظمیں ہیں جن کی وجہ سے میں ان کا بہت بڑا مداح ہوں، یہ نظمیں نہ ہوتیں تو اردو شاعری میں دلکشی اور خوبصورتی نہ ہوتی۔ آئیے اب مجید امجد کی زندگی کے بارے میں کچھ باتیں کرتے ہیں 
جھنگ پاکستان کا وہ عظیم شہر ہے جہاں کی سرزمین ذہنی حوالے سے بہت زرخیز ہے۔اس شہر نے ایسے اہلِ قلم پیدا کئے ہیں جنہوں نے اردو شاعری میں منفرد شناخت اور پہچان پیدا کی۔ جدید اردو نظم کے عظیم شاعر مجید امجد 29 جون 1914 کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم کا نام نور محمد تھا، جو خود فارسی کے ایک اچھے شاعر تسلیم کئے جاتے تھے۔ مجید امجد نے اسلامیہ ہائی اسکول جھنگ سے 1930 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا، 1932 میں گورنمنٹ کالج جھنگ ہی سے انٹرمیڈیٹ کی ڈگری حاصل کی، اس کے بعد مزید تعلیم کے لئے لاہور چلے گئے۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے 1934 میں بی اے کیا۔کچھ عرصے تک مختلف ملازمتیں کیں۔ اس کے بعد اس زمانے میں ہفت روزہ عروج سے منسلک ہو گئے۔ کچھ ہی عرصے میں عروج کے مدیر ہو گئے۔ قیصریت ان کی ایک نظم تھی، وہ اس ہفت روزہ میں شائع کر دی گئی، جس کی وجہ سے انہیں ملازمت سے نکال دیا گیا۔مجید امجد عشقیہ مزاج کے فطرت پسند انسان تھے، جنہیں عشق، محبت اور فطرت سے بہت انسیت تھی۔ ملازمت کے دوران ہی انہیں ایک خاتون سے عشق ہو گیا۔ یہ عشق ان کی طبیعت میں رومانوی خیالات اور احساسات کا سبب بن گیا۔ لیکن وہی ہوا جو
 ہمیشہ مجید امجد جیسے حساس دل رکھنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے، عشق ناکام و نامراد ٹھہرا۔ کہتے ہیں جن خاتون سے انہیں عشق ہو گیا تھا، ان سے ان کی شادی نہ ہو سکی۔ 1939 میں حمیدہ بیگم سے ان کی شادی ہو گئی۔ حمیدہ بیگم مجید امجد کی خالہ زاد تھیں، مجید امجد حمیدہ بیگم کو وہ محبت نہ دے سکے جو ان کا حق تھا۔ شادی کی وجہ سے وہ مزید پریشان رہنے لگے۔ کہا جاتا ہے ان کی ازدواجی زندگی ہمیشہ تکلیف دہ رہی، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ عشق کر بیٹھے تھے، اس لئے حمیدہ بیگم ہمیشہ مجید امجد کی محبت سے محروم رہیں۔ اس کے بعد مجید امجد مختلف ملامتوں کے سلسلے میں مختلف شہروں میں گھومتے پھرتے رہے۔1951 کے بعد ساہیوال ان کا مستقل ٹھکانہ بن گیا۔ طویل عرصے تک وہ ساہیوال میں مقیم رہے۔ اسٹیڈیم ہوٹل ان کا ٹھکانہ تھا، جہاں وہ دوست احباب کو شعر و ادب کا درس دیا کرتے تھے۔ ساہیوال میں اپنے سائیکل پر گھوما کرتے، سب کو معلوم تھا کہ یہ اردو ادب کا عظیم شاعر ہے، اس لئے ساہیوال کا بچہ بچہ ان کا احترام کرتا تھا۔ ساہیوال میں ادب اور شعر و شاعری کا کلچر مجید امجد کی وجہ سے خوب پروان چڑھا۔ 1958 میں ان کا پہلا شعری مجموعہ کلام شائع ہوا، جس کا نام تھا ''شبِ رفتہ''، اسی سال جرمنی کی ایک خاتون شالاپ سیر و سیاحت کے لئے ساہیوال آئی ہوئی تھی، وہ تقریباً چار ماہ تک ساہیوال رہیں، شالاپ کا حسن و جمال مجید امجد کے لئے بھاری ثابت ہوا، انہیں ایک بار پھر محبت ہو گئی۔ شالاپ ان کے دل کی ملکہ بن گئیں، اس عشق کی وجہ سے ان کے شعور اور آگہی میں مزید نکھار آیا، اب وہ شعر و شاعری میں ایمان کے خلاف بھی باتیں کرنا شروع ہو گئے۔ جرمن خاتون چار ماہ بعد واپس جرمنی چلی گئیں، لیکن مجید امجد کو ان کے فراق کا غم شدت سے محسوس ہونے لگا کہا کرتے تھے وہ جرمن خاتون سے حقیقی عشق و محبت کرتے تھے۔
برس گیا بہ خراباتِ آرزُو، تِرا غم
قدح قدح تِری یادیں سبُو سبُو، تِرا غم
تِرے خیال کے پہلو سے اٹھ کے جب دیکھا 
مہک رہا تھا زمانے میں کُو بہ کُو، تِرا غم
نگہ اٹھی تو زمانے کے سامنے، تِرا روپ
پلک جھکی تو مِرے دل کے رُو بہ رُو، تِرا غم
یہ وہ غزل ہے جو مجید امجد نے جرمن خاتون کے جانے کے غم میں تحریر کی تھی۔ 
مجید امجد جدید اردو نظم کے عظیم ترین شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ میرا جی، ن م راشد اور فیض احمد فیض کی قطار میں انہیں شمار کیا جاتا ہے۔ مجید امجد کی شاعری میں خدا سے لیکر انسان تک تمام وہ باتیں کی گئی ہیں اور سوال اٹھائے گئے ہیں، جنہیں ایک جدید فلسفی شاعر کو اٹھانا چاہیئے تھے، اگر میں خدا اس زمانے کا ہوتا؟ یہ بھی ایک سوال تھا، اس لئے ان کا تعلق جدیدیت، ترقی پسندیت سے رہا۔ مجید امجد کی شاعری میں عشق اور محبت کے ساتھ ساتھ فطرت کا حسن بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ کئی شعروں میں انہوں نے درخت کو استعارے کے طور پر استعمال کیا۔ ان کی نگاہ میں انسانوں کی طرح درخت بھی تہذیب و تمدن کی علامت ہیں۔ جب درختوں کا قتل عام کیا جاتا ہے تو اس وقت بنیادی طور پر تہذیب و تمدن کا خون ہو رہا ہوتا ہے، یہ تھا مجید امجد کا فطرت کے بارے میں نظریہ۔ ''توسیعِ شہر'' ان کی ایک مشہور نظم ہے اسے سنا دیتا ہوں، اس سے حقیقی صورتحال سامنے آ جائے گی۔
بیس برس سے جو کھڑے تھے اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر بانکے پہریدار
گھنے سہانے چھاؤں چھڑکتے بور لدے چھتنار 
بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار
مجید امجد کی شاعری میں وقت کو بھی ایک بنیادی اہمیت حاصل ہے، وہ ماضی پرست تھے اور نہ ہی خوابوں پر یقین رکھتے تھے، وہ ماضی اور مستبقل کو نہیں مانتے تھے۔ مجید امجد لمحہ موجود کے مداح تھے۔ وہ لمحہ موجود کی مسرتوں اور غموں کو ہی مانتے تھے اور اسے ہی زندگی سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر خواجہ زکریا اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ‘‘مجید امجد اس دَور کا واحد فلسفی ہے جس کے ہاں سب سے زیادہ جو تصور اُبھرتا ہے وہ وقت کے بارے میں ہے۔ مجید امجد کی پوری شاعری پر وقت کا احساس جاری ہے۔ کبھی کبھی تو یہ خیال آنے لگتا ہے کہ ان کے ہاں خدا کا متبادل وقت ہے۔ 'خدائے وقت تو ہے جاودانی' جیسے مصرعوں سے یہی بات ظاہر ہوتی ہے۔ ان کے ہاں کائنات کا چکر وقت کے دم سے رواں رہتا ہے۔’’ وقت کے حوالے سے ان کا ایک شعر پیش خدمت ہے۔
ظہورِ کون و مکاں کا سبب فقط میں ہوں
نظامِ سلسلہ روز و شب، فقط میں ہوں
وقت کے بارے میں ان کی ایک اور نظم ہے 
اور اک نغمہ سرمدی کان میں آ رہا ہے، مسلسل کنواں چل رہا ہے
پیا پے مگر نرم رو اس کی رفتار، پیہم مگر بے تکان اس کی گردش
عدم سے ازل تک، ازل سے ابد تک، بدلتی نہیں ایک آن اس کی گردش
نہ جانے لیے اپنے دو لاب کی آستینوں میں کتنے جہاں اس کی گردش
رواں ہے رواں ہے۔۔ تپاں ہے تپاں ہے۔۔ یہ چکر یونہی جاوداں چل رہا ہے۔۔ کنواں چل رہا ہے
ڈاکٹر خواجہ زکریا مجید امجد کے نظریہ وقت کے بارے میں مزید لکھتے ہیں کہ۔ ‘‘امجد کے ہاں وقت کا تصور ایک اندھیری رات کے طوفان کی مانند ہے جو ہماری طرف بڑھتا آ رہا ہے۔ یہ طوفان عدم سے چلا تھا اور ازل سے پیدائش کا تعاقب کر رہا ہے۔ اشیا ازل سے پیدا ہونی شروع ہوئی ہیں اور مسلسل پیدا ہوتی جا رہی ہیں۔ جونہی کچھ چیزیں پیدا ہوتی ہیں وقت کچھ پرانی چیزوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور نئی چیزوں کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔’’ وقت کے بارے میں ان کی ایک نظم کے کچھ شعر پیش خدمت ہیں۔
مجھے کیا خبر، وقت کے دیوتا کی حسیں رتھ کے پہیوں تلے پس چکے ہیں
مقدر کے کتنے کھلونے، زمانوں کے ہنگامے، صدیوں کے صد ہا، ہیولے
مجھے کیا تعلق، میری آخری سانس کے بعد بھی دوشِ گیتی پہ مچلے
مہ و سال کے لازوال آبشارِ رواں کا وہ آنچل، جو تاروں کو چھو لے
مگر آہ یہ لمحہ مختصر! جو مری زندگی، میرا زادِ سفر ہے
مرے ساتھ ہے، میرے بس میں ہے، میری ہتھیلی پہ ہے یہ لبالب پیالہ
یہی کچھ ہے لے دے کے میرے لیے اس خراباتِ شام و سحر میں، یہی کچھ
یہ اک مہلتِ کاوشِ دردِ ہستی! یہ اک فرصتِ کوششِ آہ و نالہ
ڈاکٹر وحید قریشی مجید امجد کے نظریہ وقت کے بارے میں کہتے ہیں کہ ‘‘مجیدامجد اس ایک لمحے کو جاودانی بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے جو ہماری آپ کی سب کی زندگی کا حصہ ہے۔ یہ لمحہ اس وقت ہماری گرفت میں ہے اور مستقبل میں یہی لمحہ ماہ و سال کے بہتے ہوئے آبشار کا دھارا ہو جائے گا۔ اس ایک لمحے کے اندر کتنے مناظر چھپے ہیں۔ یہی مجیدامجد کا آرٹ ہے اور یہی مستقبل کا خوش آئند خواب ہے۔’’تصور وقت کے بارے میں ان کی ایک نظم ہے وقت جو ترجمہ شدہ ہے۔ رچرڈ ایلڈنگٹن کی نظم کا مجید امجد نے کچھ یوں ترجمہ کیا ہے۔
وقت ہے اک حریمِ بے دیوار
جس کے دوار آنگنوں میں، سدا
رقص کرتے ہوئے گزرتے ہیں
دائروں میں ہزار ہا ادوار
بیتی بات اور آنے والی آن
امرِ امروز اور فرِ فردا
سب زمانے، تمام عرصہ دہر
وقت کی ایک تیز لہر کی عمر
کل وہ سب کچھ تھا، جو کچھ آج بھی ہے
آج جو کچھ ہے، اس زمانے میں تھا
جب وہ سب کچھ کہ جس نے ہونا ہے
ہو چکا تھا، یہ کھیل ہونی کے
لاکھ قرنوں کے ان قرینوں میں
نہ کوئی دن نہ سن نہ یوم نہ عصر
صرف اک پل، بسیط، بے مدت
اپنے بھیدوں کی حد میں لا محدود
سلیمان صدیق لکھتے ہیں کہ ‘‘دراصل مجید امجد کی یہ نظم کائناتی وقت (Cosmic Time) کے تناظر میں شاعر کی ذہنی وسعت کی آئنہ دار ہے۔ اس نظم کا کمال یہ ہے کہ بیک وقت سائنسی، فلسفیانہ اور ادبی نقطہ ہائے نظر کا مرکب ہے۔ اس لیے وقت کا ایک خالص (Pure) تصور اس نظم کی کل کائنات ہے۔’’ 
اردو ادب اور شاعری کا یہ عظیم اور شاہکار انسان، جسے مجید امجد کہا جاتا ہے، گیارہ مئی 1974 کو ساہیوال میں انتقال کر گیا۔ ان کی میت ساہیوال سے جھنگ لائی گئی اور پھر انہیں زمین میں دفن کر دیا گیا۔ سنا ہے قبر میں آج بھی وہ وقت، فطرت، حسن اور عشق کی باتیں کرتا ہے، ہر روز لوگ مجید امجد کی باتیں سننے کے لئے ان کی قبر پر جاتے ہیں۔آخر میں ان کا ایک شعر اور پھر وقت کے عظیم شاعر کی کہانی کا اختتام۔
کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
میری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول
۔۔بس اتنا ہی۔۔ آگے خود مجید امجد کو پڑھیں اور سوچیں جھنگ کی سرزمین نے کیسا نگینہ پیدا کیا تھا۔٭٭٭