مذہبی انسان کو کیسا ہو نا چاہیے

مصنف : مجاہد حسین حٹک

سلسلہ : نقطہِ نظر

شمارہ : نومبر 2019

میں مذہب کی اس تعبیر پر یقین رکھتا ہوں جو انسانوں سے غیر مشروط محبت کا پیغام دیتی ہے کیونکہ جس ہستی نے ہمیں اسلام سے متعارف کرایا ہے وہ رحمت اللعالمین ہے اور جس خدا کی طرف انہوں نے ہمیں بلایا ہے وہ رب العالمین ہے۔ اس کے برعکس آپ کی مذہبی تعبیر کچھ انسانوں سے محبت اور کچھ سے نفرت کا درس دیتی ہے جو میری نظر میں اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔
آپ اپنی نفرتوں کے لیے کتابوں سے، انکے سیاق وسباق کے برعکس،دلائل تلاش کرتے ہو اور میں لوح دل پہ کندہ محبتوں کو اپنا سرمایہ حیات سمجھتا ہوں اور کسی دلیل، کسی عالم کے قول یا کسی مذہب فروش ملا کے کہنے پر اس قیمتی خزانے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہوں۔
اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت میرے دل میں تمام انسانوں کے لیے ٹھنڈے میٹھے رواں چشمے جیسے جذبوں کو جنم دیتی ہے جبکہ آپ اسی محبت کے نام پر انسانوں سے نفرت کی آگ بھڑکا لیتے ہو۔ میں نہیں سمجھ پایا کہ آپ یہ کیسے کر لیتے ہو شاید آپ بھی میری بات نہیں سمجھ پائیں گے۔
میں آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے آپ کی محبت پر شک کرنے کی جسارت نہیں کرتا البتہ اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ آپ اللہ کی مخلوق سے اس عظیم ہستی کی بے کراں محبت کا پوری طرح ادراک نہیں کر پائے۔
جاتے جاتے اپنا ایک مشاہدہ بتاتا چلوں۔
میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ مذہب میں شدت اور غلو سے کام لیا کرتے تھے، دلیل کی جگہ گالی دیتے تھے اور مذہب سے نفرت کشید کیا کرتے تھے، وہ جب کسی وجہ سے الحاد کی طرف گئے تو وہاں بھی بدبودار ملحد بن گئے جو مذہب کا مذاق اڑاتا ہے اور مخالفین کے لیے سب و شتم روا رکھتا ہے۔ نہ مذہب اس کی شخصیت بدل سکا اور نہ ہی الحاد۔ دونوں جگہ وہ شخص نفرتوں کا پجاری ہی رہا۔
اس لیے اپنی ذات کے منفی پہلوؤں کے لیے اسلام سے جواز مانگنے کے بجائے اپنی من میں ٹھنڈک اور نرمی لائیں تاکہ نفرتوں کا وہ بھانبھڑ بجھ سکے جسے بجھانے کے لیے مذاہب کو زمین پر اتارا گیا ہے۔
اگر اسلام آپ کی شخصیت میں نرمی اور شفقت جیسے جذبے پیدا نہیں کر پاتا تو پھر آپ نے اس مذہب کی روح کو سمجھا ہی نہیں۔ آپ کا مسلمان گھرانے میں پیدا ہونا ایک سانحہ نہیں تو ایک بے وقعت حادثہ ضرور ہے۔ آپ اگر ہندو گھرانے میں پیدا ہو جاتے تو خود کو مسلمانوں کے خاتمے کے مشن پر مامور سمجھتے۔
مذہب اگر انسان کی شخصیت میں نرمی، مزاج میں اعتدال اور سوچ میں آفاقیت پیدا نہیں کرتا تو اس کا مطلب ہے کہ مذہب فقط ذہن کی سطحی پرت کو چھو سکا ہے۔ یہ شبنم کی طرح قطرہ قطرہ آپ کی ذات کی سنگلاخ گھاٹیوں میں نہیں اتر پایا کیونکہ آپ نے ایسا کوئی شگاف ہی نہیں چھوڑا جہاں سے گزر کر یہ قطرے اکٹھے ہوتے اور ایک ٹھنڈے میٹھے چشمے کو جنم دے سکتے۔ یہ قطرے پتھریلی سطح پر ہی جنم لیتے اور سوکھتے رہے۔٭٭٭