خدا شخصی ہے یا غیر شخصی

مصنف : پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : نومبر 2019

س کے علاوہ کائنات میں ایسے کئی مادی معاملات ہیں جن کی توجیہہ ابھی تک کی سائنس کے مطابق ممکن نہیں ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر کائنات کا چار سے پانچ فی صد حصہ صرف اس مادے پر مشتمل ہے جسے ہم انسان، جانور، چرند، پرند، کہکشاں، چاند، سورج، ستارے، سیارے، زمین وغیرہ کی صورت میں دریافت کرچکے ہیں۔ ہاکنگ اور پوری فزکس کی دنیا کی تحقیق صرف اسی چار فی صد مادے پر ہوئی ہے۔ کائنات کا 26 فی صد حصہ ڈارک میٹر یعنی ایسے مادے پر مشتمل ہے جس کا وجود تو مسلمہ ہے لیکن اس کو نہ دیکھا جاسکتا ہے اور نہ چھوا جاسکتا ہے۔یہ میٹر ٹھوس چیزوں جیسے دیوار اور دروازے سے بھی گذر جاتا ہے۔ یہ میٹر کیا ہے؟ فزکس کی دسترس سے تاحال باہر ہے۔
ایسے ہی معاملہ ڈارک انرجی کا ہے جو کل کائنات کا ستر فی صد ہے۔ بگ بینگ کے بعد کائنات پھیل رہی ہے اور اس کے پھیلاوّ میں کمی کی بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی وجہ یہی ڈارک انرجی ہے جو کائنات کی اسپیس کو پھیلا رہی ہے۔اس کے بارے میں سائنس کچھ کہنے سے قاصر ہے کہ یہ کیا ہے اور کن قوانین کے تحت کام کررہی ہے۔
کچھ یہی صورت حال بلیک ہول اور ایونٹ ہورائزن کی ہے۔ بلیک ہول میں وقت اور اسپیس ختم ہوجاتے ہیں اور پھر وہاں کیا ہوتا ہے؟ کسی کو علم نہیں۔ ایونٹ ہورائزن کے اس پار کیا واقعات جنم لے رہے ہیں؟کیا معاملات ہورہے ہیں، کیا غیبی امور سرانجام کیے جارہے ہیں؟ کچھ نہیں پتا۔ چنانچہ کائنات کے محض چار فی صد مادے کو جان کر اسے ہی پوری کائنات کے سو فی صد کا خالق سمجھ لینا اس سے بھی بڑا نامعقول عقیدہ ہے جو چرچ نے یا مشرکانہ اقوام نے خدا کے بارے میں قائم کیا۔ محض چار فی صد کی توجیہہ کو غیر شخصی خدا کہہ دینا ایک غیر سائنسی رویہ ہے جو کسی محقق کو زیب نہیں دیتا ہے۔
اب ہم اس گفتگو کا خلاصہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ:
۱۔ خدا نے یہ کائنات بنانے کے لیے جب کن کہا تو اس کے بعد وہ مادی اور روحانی قوانین وجود میں آئے جس پر اس دنیا نے چلنا تھا۔
۲۔ ان قوانین سے مراد جیسے ایچ ٹو او ہے۔ یعنی جب خدا نے پانی تخلیق کیا تو یوں نہ ہوا کہ براہ راست پانی تخلیق ہوگیا، بلکہ پہلے ہائیڈروجن اور آکسیجن کی خصوصیات وجود میں آئیں اور اس کے بعد دونوں کے ملاپ سے پانی بنا۔اسی طرح روحانی یا غیر مرئی دنیا کو چلانے کے لیے فرشتوں پر مبنی ایک ورک فورس تیار کی گئی جس تک عمومی رسائی ممکن نہیں۔
۳۔ اس کا ایک فائدہ نظر آتا ہے کہ خدا نے بس ایک مرتبہ یہ عمل کیا اور اب اس طریقے سے پانی بننے کا عمل خود بخود ہونے لگا۔ دوسرا فائدہ یہ نظر آتا ہے کہ خدا نے یہ کائنات اسباب کے پردے میں ظاہر کی ہے اور وہ اپنی ذات کو اسباب سے ماورا آزمائش کی بنا پر ظاہر نہیں کرناچاہتا۔ اس لیے جب بھی مادی دنیا کی مادی طریقے سے چھان پھٹک ہوگی تو انسان زیادہ سے زیادہ اس قانون کو تو دریافت کرلے گا جس کے تحت وہ مادہ وجود میں آیا ہے لیکن وہ اس کن کے کہنے والے کا مشاہدہ نہیں کرسکتا۔
۴۔ اہل مذہب کا یہ مقدمہ کمزور ہے کہ خدا قوانین کے مطابق کام نہیں کرتا۔ ہاں وہ جب چاہے اپنے قانون کو توڑ سکتا ہے کیونکہ وہ قادر مطلق ہے۔ لیکن ایسا بھی کسی دوسرے قانون کے تحت ہی ہوتا ہے جو اس نے خود بنایا ہوتا ہے اور جس کا ہمیں علم نہیں ہوتا۔
۵۔ اہل سائنس کا مقدمہ بھی کمزور ہے کہ محض چار فی صد مادے کو سمجھ کر وہ اسے ہی ایک غیر شخصی خدا قرار دے بیٹھے۔ محض چار فی صد مادہ سو فی صد کائنات کا کیسے خالق ہوسکتا ہے؟
۶۔ چنانچہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شخصی خدا کا تصور غیر شخصی خدا کے مقابلے میں زیادہ معقول، سائنٹفک، وسیع اور غیر متعصبانہ ہے۔ شخصی خدا مادے کی طرح اندھا، گونگا، بہرا اور بے جان نہیں۔ یہ بولتا بھی ہے، سنتا بھی ہے، سمجھتا، سوچتا، عمل کرتا اور وہ سب کچھ کرتا ہے جو ایک زندہ اور طاقتور خدا سے متوقع ہے۔
۷۔ خدا وہ ہے جو تمام مادی قوانین کا خالق ہے۔ وہ جو چاہے کرسکتا ہے لیکن قوانین بنا کر کام کرتا ہے، وہ جو وقت سے ماورا ہے اس لیے اس کے لیے ماضی حال مستقل ایک کھلی کتاب ہے۔
ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُم لَہُ المُلکُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَاَنّٰی تُصرَفُونَ
یہی اللہ تعالٰی تمہارا رب ہے اس کے لئے بادشاہت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر تم کہاں بہک رہے ہو(الزمر)
غزل 
برس گیا بہ خراباتِ آرزو، ترا غم
قدح قدح تری یادیں، سبو سبو، ترا غم
ترے خیال کے پہلو سے اٹھ کے جب دیکھا
مہک رہا تھا زمانے میں سو بہ سو، ترا غم
غبارِ رنگ میں رس ڈھونڈتی کرن، تری دھن!
گرفتِ سنگ میں بل کھاتی آبجو، ترا غم
ندی پہ چاند کا پرتو، ترا نشانِ قدم
خطِ سحر پہ اندھیروں کا رقص، تو، ترا غم
ہیں جس کی رو میں شگوفے، وہ فصلِ سم، ترا دھیان
ہے جس کے لمس میں ٹھنڈک، وہ گرم لو، ترا غم
نخیلِ زیست کی چھاؤں میں نَے بلب تری یاد
فصیلِ دل کے کلس پر ستارہ جو، ترا غم
طلوعِ مہر، شگفتِ سحر، سیاہیِ شب
تری طلب، تجھے پانے کی آرزو، ترا غم
نگہ اٹھی تو زمانے کے سامنے ترا روپ
پلک جھکی تو مرے دل کے روبرو، ترا غم
(1958)
٭مجید امجد٭

-00-1F-00-00-00سائنس و مذہبیات

ڈاکٹر محمد عقیل