گھر کیسے بچائیں

مصنف : گل ارباب

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : نومبر 2019

میرے اس آرٹیکل سے آپ سب کا متفق ہونا ضروری نہیں کچھ خواتین کا موقف یہ بھی ہوگا کہ گھر بچانے کی ذمہ داری صرف عورت کی نہیں ہے اس کا جواب قبل ازسوال ہی دے دوں کہ گھرکو بار بار بسانا اس معاشرے میں عورت کے لیے مشکل بلکہ ناممکن ہے جبکہ مرد کبھی بھی دوسرا تیسرا بلکہ چوتھا گھر بسا سکتا ہے اس لیے یہ ذمہ داری عورت کو اپنے نازک کندھوں پر اٹھانی پڑے گی جو نام کے ہی نازک ہیں ویسے تو آہنی ہی ہیں کہ پورے پورے خاندانوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔تو بات شروع ہوتی ہے اس دن سے جب میری ایک سائیکالوجسٹ دوست بتا رہی تھی کہ ویسے تو مریض ہمیں اپنے بارے میں سب کچھ کھل کر بتاتے ہیں کیونکہ وہ اپنا علاج کروانا چاہتے ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہمارے لیے بالکل اجنبی ہوتے ہیں لیکن دوسری طرف ہم ایسے مسیحا ہیں کہ ہمارے جاننے والے ،ہماری سہیلیاں ، اور رشتے دار ، ہم سے اپنے مسلے مسائل ، اسی طرح اپنی اور اپنوں کی بیماریاں چھپاتے بھی ہیں اور مشورہ بھی لینا چاہتے ہیں حالانکہ جیسے آپ سر درد پیٹ خراب یا بلند فشار خون کی بیماریوں کا ہر کسی کے سامنے کھل کر رونا رہتے ہیں اور مستقل علاج بھی کرواتے ہیں ایسے ہی ذہنی بیماریوں کو بھی علاج کی ضرورت ہوتی ہے اور تکلیف کا اظہار بھی ضروری ہوتا ہے۔ اب دیکھو نا کوئی رشتے دار خاتون اپنے شوہر کی کسی بیماری کا ذکر کرنا چاہیں گی تو کہیں گی وہ میری ایک دوست کا شوہر ہر رات بیڈروم میں ہلکی موسیقی لگا کر اسے کہتا ہے کہ ڈانس کرو وہ بے چاری ایک آدھ رات تو چلو تھوڑا بہت ناچ بھی لے گی لیکن دن بھر کی تھکی ہاری عورت روزانہ رات کو ڈانس کیسے کر سکتی ہے؟ پھر جس طرح بچپن سے ایک لڑکی کی تربیت کی جاتی ہے اس میں شادی بیاہ یا خوشی کے موقعے پر تو تھوڑا بہت ڈانس کرنے کی اجازت ہوتی ہے لیکن گھر کے مردوں کے سامنے وہ بھی بہت کم بچیوں کو کو اجازت ملتی ہے۔ اب میری وہ دوست بے چاری سخت پریشان ہے کسی سے کہہ بھی نہیں سکتی کہ لوگ ہنسیں گے اور میاں یا سسرال والوں کو پتہ چل گیا کہ اس نے کسی کے سامنے بیڈروم کی باتیں کی ہیں تو وہ اس کو معاف نہیں کریں گے۔
حالانکہ اس رشتے دار خاتون کے چہرے پر پھیلی پریشانی اور ڈر بتا رہا تھا کہ سہیلی کا نہیں بلکہ سو فیصد اس کا اپنا معاملہ ہے کیونکہ میں اسے اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ اتنی حساس اور نرم دل نہیں ہیں کہ سہیلیوں کے دکھ پر یوں پریشان ہوں گی سو میں مختلف طریقوں سے اس سہیلی کے شوہر کا علاج کرنے کی اپنی سی کوشش کرتی رہتی ہوں لیکن اب بھی بقول اس رشتے دار خاتون کے ان کی سہیلی کے نام نہاد میاں کبھی کبھی بیوی کو گانا لگا کر کہتے ہیں کہ کلاسیکل ڈانس کرو ۔ وہ بے چاری اب چھپ چھپ کر انڈین فلموں کے کلاسیکل ڈانس کے سین دیکھتی ہے جو دیکھتے ہوئے میں نے اسے کئی بار رنگے ہاتھوں پکڑا بھی ہے ۔ میں اپنی اس سائیکالوجسٹ دوست کی بات سن کر سوچ میں پڑ گئی۔ میری بھی ایک سہیلی کو اک بہت سنگین قسم کا مسئلہ درپیش تھا لیکن وہ خود سامنے نہیں آنا چاہتی تھی اب سائیکالوجسٹ سہیلی سے کہتی ہیں کہ میری ایک پرانی سہیلی کے میاں کو یہ مسئلہ ہے تو وہ سمجھ لیتی ہے کہ مسئلہ اس کا اپنا ہی ہے ۔ اس لیے میں نے کہا یار سچ میں میری سہیلی کے شوہر نے پچاس سال کی عمر میں دوسری عورت سے عشق لڑانا شروع کر دیا ہے اور خبر دار تم یہ نہ سمجھ لینا کہ میرے شوہر کا معاملہ ہے ۔ وہ ہنسنے لگی اور کہا میری بھولی سہیلی اگر ابھی یہ معاملہ تمہارا اور تمہارے شوہر کا نہیں ہے تو مجھے حیرانی ہو رہی ہے ۔کیونکہ آج نہ سہی لیکن ہو سکتا ہے کچھ عرصے بعد ایسا ہو جائے ۔ اب مجھے چونکہ اپنے شوہر پر بہت بھروسہ تھا اس لیے مجھے اس کی یہ بات کچھ اچھی نہیں لگی ۔ میں نے برا مانتے ہوئے کہا وہ تو بہت ہی اچھے انسان ہیں اور میں ان پر شک کرنا گناہ سمجھتی ہوں ۔ پھر مجھے اپنے آپ پر بھی پورا بھروسہ ہے مجھ میں کس چیز کی کمی ہے؟ میں ان سے اور وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں ۔
وہ ہنس دی اچھا یہ بتاؤ کہ یہ بات تم دونوں ایک دوسرے کو بتاتے بھی ہو کہ نہیں؟ میں نے اسے ناگواری سے دیکھا بھلا اتنے سال ساتھ گزارنے کے بعد کہنے سننے کی ضرورت پڑتی ہے؟ ہم ایک دوسرے کے اس قدر مزاج آشنا ہو چکے ہیں کہ بنا کہے بھی ایک دوسرے کی بات سمجھ لیتے ہیں ایک دوسرے کی ضروریات کا اندازہ لگا لیتے ہیں ۔اس نے میری بات کے جواب میں بڑے سکون سے مسکراتے ہوئے کہنا شروع کیا ۔ محبت اور محبت کا اظہار ضرورت ہی تو ہے اور یہ ضرورت ہر عمر میں رہتی ہے دودھ پیتے بچے سے بچوں کے دادا پر دادا تک کو۔ کیا تم دونوں ایک دوسرے کی یہ اہم ضرورت پوری کر رہے ہو؟ مجھے یاد آیا کہ میرے شوہر نے اک طویل عرصے سے مجھے آئی لو یو کا میسج نہیں کیا نہ انہوں نے مجھے سالگرہ اور شادی کی سالگرہ کے علاؤہ کبھی کوئی تحفہ دیا ۔اک مدت سے ہم نے کوئی فلم یا پروگرام ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھا۔ نہ کوئی اچھا گانا سنا۔ کہیں آتے جاتے گاڑی میں کوئی بھی گانا لگا ہو، نہ میں نے کبھی فرمائش کر کے گانا بدلوایا۔ چند سال پہلے تک کئی بار انہوں نے رومینٹک انداز میں کہا تھا۔‘‘سنو یہ گانا تمہارے نام۔’’ اور میں نے کئی بار اپنے کالے دوپٹے کے کونے انگلیوں پر کھولتے لپیٹتے کبھی قمیض تیری کالی نی سوہنڑے پھلاں والی شرما شرما کر سنا تھا اور اکثر تو وہ گانا جو وہ بار بار لگاتے تھے۔ تو میری زندگی ہے تو میری ہر خوشی ہے مسکرا مسکرا کر سنتی تھی۔مجھے یاد آیا میں تو اب ان کے لیے اپنے ہاتھوں سے کچھ بناتی بھی نہیں تھی اور نہ ہی کبھی ان سے پوچھا تھاکہ آپ آج کیا کھائیں گے؟ بس بچوں کی پسندیدہ خوراک گھر میں پکتی اور ہم سب کے ساتھ وہ بھی کھاتے تھے۔مجھے یہ بھی یاد آ رہا تھا کہ ہفتے میں ایک بار میں ان کی فرمائش پر پکوڑے والی کڑھی اور جوار کی روٹی ضرور پکاتی تھی۔ انہیں ساگ اور پکوڑوں والی کڑھی بھی بہت پسند تھی اور وہ روایتی کھانے شوق سے کھاتے تھے لیکن اب تو مدت سے گھر میں کوئی دیسی کھانا نہیں بنا تھا۔کبھی شاشلک، کبھی چائینز رائس، کبھی پیزا اور کبھی برگر یہ سب وقت بے وقت کھا پی کر سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے تھے ۔
میں نے بچوں کے لیے بیکنگ وغیرہ سیکھی تھی لیکن دیسی کھانے بنانا اب مجھے پینڈو پن لگتا تھا بندہ اتنی محنت کرے وہ بھی ایک بندے کے لیے اور پھر اپنی محنت فیس بک پر ڈال کر تصاویر کی صورت داد بھی وصول نہ کر پائے ۔اب سٹیٹس پر دال چاول ساگ اور جوار کی روٹی یا پکوڑوں والی کڑھی کتنی پینڈویانہ قسم کی سرگرمی لگتی ۔ مجھے خیال آیا کہ ہم دونوں بھی بچوں کی طرح اپنے سمارٹ فون لے کر بیٹھ جاتے۔ اور دونوں ہی ایک دوسری دنیا میں کھوئے رہتے۔ ہمیں ایک دوسرے کی دنیاؤں کا کچھ پتہ نہیں تھاکہ ہماری نئی دنیاؤں کے موسم کیسے ہیں وہاں کی آبادی کتنی ہے اور اس بستی میں کون کون بستا ہے؟ ہم نے مدت سے ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی نہیں کی تھی ہم زیادہ بولتے ہی نہیں تھے تو لڑائی کیسے ہوتی۔ پھرنہ ہی ہم ایک دوسرے سے روٹھتے تھے۔ نہ منانے کا وہ مزہ باقی رہا تھا جو شادی کے شروع دنوں میں ہوتا تھا۔ میں نے اپنی سونی کلائیوں کی طرف درزیدہ نظروں سے دیکھ کر سوچا برسوں سے ان کلائیوں کو مہکتے گجروں کا لمس محسوس نہ ہوا تھا۔نہ ہی ہم کبھی گھنٹہ گھر کی مشہور قلفی کھانے اکٹھے گئے تھے اب تو فون کر کے آئسکریم آرڈر کرتے اور جب جی چاہتا باؤل میں لے کر ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھ کر اکیلے کھا لیتے میرے میاں ہی کہا کرتے تھے میٹھا اپنوں کی سنگت میں ہی اچھا لگتا ہے۔
میں ابھی سوچوں میں گم تھی کہ میری سائیکالوجسٹ دوست نے مجھے چونکا دیا بقول اس کے مرد پیدا ہوتا ہے تو اسے ایک الگ پروٹوکول بحیثیت ایک بیٹے کے دیا جاتا ہے وہ جب بڑا ہوتا ہے تو اس کی تعلیم پر بیٹی سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور اس کے دماغ میں یہ بات اچھی طرح یٹھا دی جاتی ہے کہ اس نے خاندان کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھانی ہے ۔وہ مرد ہے مضبوط ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خاص ہے۔ وہ کام کرتا ہے گھر بناتا ہے اپنے ذمے کی ہر پریشانی سے نبٹتا ہے۔ انتھک محنت جدوجہد کوشش یہ ہی ایک مدت تک اس کا اوڑھنا بچھونا رہتا ہے۔شادی پھر بچے پھر گھر کی بہتری سب کرتے کرتے ایک دن وہ سیٹل ہوجاتا ہے۔ جس بلندی پر جانے کے لیے سیڑھی پر سیڑھی چڑھتا ہے اس بلندی پر پہنچ کر اسے سستانے کا ٹائم مل جاتا ہے لیکن اسے اس وقت احساس ہوتا ہے کہ وہ قطعاً اکیلا ہے۔ وہ رات دن مصروف رہ کر عادی ہو جاتا ہے اور فیملی کو بھی عادی بنا دیتا ہے جدوجہد بھری زندگی کا۔اسے جب اپنے لیے وقت ملنے لگتا ہے تو پھر یہ فراغت اسے کھلتی ہے اور وہ موقع پا کر اپنے لیے مصروفیت ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے اور باہر کی دنیا میں جب کسی اور عورت کی صورت اسے یہ مصروفیت مل جاتی ہے تو۔۔ وہ اسے ایک نئی یا ایک اور محبت سمجھ لیتا ہے لیکن ہوتی وہ عموماً محض ایک مصروفیت ہی ہے۔وہ خود کو دوبارہ سے اہم سمجھنے لگتا ہے کوئی اس کے فون کا انتظار کرتا ہے اس کی باتیں توجہ اور دلچسپی سے سنتا ہے دوسری طرف سے فرمائش ہوتی ہے ‘‘اپنی آواز سنا دیں آپ کی گھمبیرتا بھری آواز میری دھڑکنوں کی ترتیب بدل دیتی ہے ۔سنیں میں نے موبائل فون اپنے دل پر رکھا ہے دھڑکنوں کی لے پر تھرکتے میرے جذبوں کی آواز سن لیں میرا دعویٰ ہے یہ دھک دھک آپ کی سماعتوں کو مغرور کر دے گی۔ یا آج جی چاہتا ہے کسی چائنیز ریستوران کے نیم تاریک گوشے میں بیٹھے ایک دوسرے کی آنکھوں سے امڈتے محبت کے خمار بھرے جام پیتے رہیں اور کھانا ٹھنڈا ہو جائے۔لیکن میں جانتی ہوں آپ اپنی بیوی بچوں کے ڈر کی وجہ سے میری یہ معصوم سی خواہش پوری نہیں کر سکیں گے۔ فون کان سے لگائے میاں صاحب کے چہرے پر خوشی گلاب بن کر پھیل جاتی ہے اور سر پر تازہ تازہ پیدا شدہ ہلال نما گنج کو کھجاتے ہوئے وہ کسی بھی طریقے سے ایک عدد چائینز ڈنر کے پیسے فوری طور پر محبوبہ کو بھیج کر کہتے ہیں ،جان تمہیں میری قسم اپنے من پسند چائینیز ہوٹل جا کر اپنی سہیلیوں کے ساتھ ڈنر کرو اور ملکاؤں کی طرح پیسے خرچ کرو۔اصل میں وہ عورت کو ملکہ کہہ کر خود کو شاہ سمجھ رہے ہوتے ہیں۔اور دوسری طرف عورت کوبرینڈ کانشہ ہوتا ہے ۔اس متوسط پرس کی مالکن کواس مرد کی شرٹ کے بٹن ہٹا کر اندر سے جھانکتی توند یا چشموں سے جھانکتے کالے حلقوں سے مطلب نہیں ہوتا نہ ہی باقی ماندہ چار بالوں کو جیل لگا کر دوسری طرف چپکائے ہوئے سر سے کوئی مسئلہ ہوتا ہے اسے تو مطلب صاحب کی جیب میں موجود پیسوں اور کھلے دل سے ہوتا ہے۔ دل کے کھلے پن کا اندازہ وہ کم وقفے سے اپنے موبائل فون میں ڈالے جانے والے کارڈز سے بخوبی لگا لیتی ہے۔ یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے تب تک کہ جب تک وہ پکڑے نہیں جاتے اور جب صاحب کسی دن پکڑے جاتے ہیں تو ان سے مندرجہ ذیل سوالات کا جواب روتے ہوئے لڑتے ہوئے اور اکثر تو اس سے بھی برے حالات میں طلب کیا جاتا ہے۔ ‘‘اپنی عمر کا تو کچھ لحاظ کر لیتے جانتے ہیں آج بیٹے کو بیاہیں تو کل دادا بن جائیں گے؟مجھ میں کیا کمی ہے؟ میں نے بچے دیے ،وفا نبھائی ،ہر طرح سے آپ کی عزت کا خیال رکھا خدمت کی۔ آپ کی نسل کی پرورش اور تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی لیکن آپ نے پھر بھی وفا نہ نبھائی میرے ساتھ۔میرے لیے گونگے بن جاتے تھے
 جبکہ اس ڈائن کے ساتھ خوب دل کی باتیں کرتے تھے ۔مجھے طلاق دیں اور اسے لے آئیں اس گھر میں لیکن یاد رکھیں کہ میرے بچوں اور مجھ سے کوئی رابطہ نہیں رکھیں گے آپ’’۔
 ایک گھر کی بنیادیں ہلنے لگتی ہیں۔ایک عورت ذہنی طور پر بالکل برباد ہو جاتی ہے جوان ہوتے بچوں کی نظر میں باپ کی عزت دو ٹکے کی ہو جاتی ہے ۔ساری عمر جو عزت کمانے میں خرچ کی تھی وہی عزت پل بھر میں برباد ہو جاتی ہے۔
وہ باپ جو بچوں کو ہیرو لگتا تھا ان کے آئیڈیل کی مسند سے گر کر اس کا بت چور چور ہو جاتا ہے اور وہ مرد جو ہمیشہ گھر کے سربراہ کی حیثیت سے گردن اٹھا کر چلتا تھا وہ سر جھکائے زمین پر اپنی گزری زندگی کے خوبصورت لمحات ڈھونڈ رہا ہوتا ہے ۔
وجہ کچھ بھی ہو لیکن اسے ختم کرنا ضروری ہے۔ اپنے جیون ساتھی کو وقت دیں۔اس کی دلچسپی کے موضوعات پر بات کریں۔ محلے میں ڈالی گئی کمیٹیوں کی قرعہ اندازی سے میاں صاحب کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی نہ ہی آن لائین شاپنگ سے خریدے گئے پارسل کا دیر سے ملنا ان کا دردسر ہوتا ہے بلکہ وہ بحیثیت سربراہ خانہ عزت اور توجہ چاہتے ہیں جو آپ نہیں دیں گی تو کہیں نہ کہیں سے مل جائے گی ۔اس صورت میں جب وہ ٹھیک ٹھاک کما رہے ہوں یا اچھے عہدے پر فائز ہوں، نقصان اس میں سراسر آپ کا اور آپ کے بچوں کا ہی ہوگا۔کیونکہ باہر کی عورت ان سے وہ باتیں کرتی ہے جو وہ اپنی بیوی سے سننا چاہتے ہیں۔
زندگی کے بیس پچیس سال اکٹھے گزار کر بیوی اسے اپنا جان کر بے نیاز ہو جاتی ہے اور وہ اہمیت میاں کو نہیں دیتی جو ایک ایسی عورت دیتی ہے جو ان کو نئی نئی ملی ہو اس کی باتیں اچھی اس لیے لگتی ہیں کہ ان باتوں میں بچوں کے ایگزام میں کم نمبر سکول و کالج کی فیس بجلی گیس کے بل اور رشتے داروں کی ریشہ دوانیوں کا ذکر نہیں ہوتا۔بلکہ گل و بلبل، حسین موسموں ، محبت کی کہانیوں ، سریلے نغموں اور گہرے رازوں کی باتیں ہوتی ہیں۔وہ عورت ڈھلتی عمر کے ٹمٹماتے چراغ جیسے جذبات کو دونوں ہتھیلیوں کی اوٹ میں لے کر بجھنے نہیں دے رہی اس کی فقط یہ ہی خوبی میاں کو اس کا اسیر بنائے رکھتی ہے۔
 میں جو بے دلی سے اپنی نفسیاتی مسائل کی
 ماہر سہیلی کی باتیں سن رہی تھی اب بغور سننے پر مجبور ہوچکی تھی میری نظروں کے سامنے وہ مرد تھا جسے میں نے مدت سے توجہ کے قابل نہیں سمجھا تھا اور نہ ہی اک عرصے سے اس نے مجھ سے میری بے توجہی کا گلہ کیا تھا ۔ اور یہ بات سوچنے والی تھی۔ آپ کہیں گے کہ بیوی کو بھی تو توجہ ، عزت اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے جب وہ لے نہیں رہی تو دے گی کیسے؟ اور کیوں؟ لیکن عورت جب بیوی بنتی ہے تو ماں صبر اور قناعت کی نصیحت اس کے پلو سے باندھتے ہوئے اپنی اصل زندگی بطورنمونہ اس کے سامنے جائزے کے لیے جہیز میں رکھ دیتی ہے تب بیٹی کو اپنے مشفق بابا اور چڑچڑی اماں کے اصل روپ نظر آتے ہیں جنہیں وہ زندگی بھر کچھ اور سمجھتی رہی تھی۔تو مختصر یہ کہ بیوی تو ہر حال میں گزارا کر لیتی ہے کیونکہ عورت ہے لیکن شوہر قناعت یا گزارا نہیں کرتا کیونکہ مرد ہے اس لیے اسے مرد والا پروٹوکول ہر عمر میں دینا پڑے گا تبھی گھر اور عزت بھی بچ سکیں گے۔٭٭٭