سوال جواب

مصنف : منہاج القرآن

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : نومبر 2019

شوہر و زن میں سے کسی ایک کے وصال پر نکاح ختم ہوجاتا ہے، لیکن آخری دیدار کر سکتے ہیں۔ ممانعت کی کوئی دلیل نہیں۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

اکثر لڑکیوں کو شادی کے بعد سسرال کے گھر یعنی شوہر کے ماں باپ کے گھر رہنا پڑتا ہے جہاں دیور اور جیٹھ سے پردہ رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ میری شادی کو تین سال ہو گئے ہیں گھر میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں میں اپنی مرضی سے رہ سکوں نہ ہی پردے کا کوئی انتظام ہے کمرہ بھی الگ نہیں ہے ہر وقت کا آنا جانا ہے۔ میرا سوال یہ یے کے ایسی صورت حال میں گناہ شوہر کو ہو گا یا بیوی کو؟

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

اگر کسی چیز کی قیمت 9 ڈالر ہو تو اس کو ادھار دیتے وقت یہ طے کیا جائے کہ اس کی قیمت 10 ڈالر ہو گی۔ ایسا کرنا جائز ہے۔ یعنی 9 ڈالر کسی کو ادھار دے کر 10 ڈالر وصول نہیں کیے جا رہے ہیں بلکہ سودا طے پا رہا ہے کہ یہ چیز ہے اس کی قیمت بعد میں دی جائے گی چیز ابھی وصول کی جائے گی۔ اس میں گاہک کے لیے آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔
 

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

بتول کے معنیٰ عفت و عصمت والی کنواری کے ہیں۔ یہ سیدہ مریم اور سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہما کا لقب بھی ہے۔بتول دراصل ایسی خاتون کو کہا جاتا ہے جو اللہ کی رضا کے لیے اپنی دنیاوی خواہشات کو قربان کے دے۔ جو دُنیا میں رہتے ہوئے بھی دُنیا سے اَلگ رہے۔ جو اللہ کی بندگی میں اخلاص پیدا کرلے اور جس کے اعمال خالصتاً صرف خدائے بزرگ و برتر کی خوشنودی کے لیے ہوں۔

(مفتی محمد ثنا اللہ طاہر)

یہ حدیث پاک بخاری شریف میں موجود ہے۔ امام بدرالدین عینی نے اپنی مشہور شرح بخاری ''عمدۃ القاری'' میں اس حدیث پاک پر طویل بحث کی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی عادت کریمہ تھی کہ بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے اور عذر کی بنا پر جواز کے لیے کھڑے ہو کر پیشاب کیا تاکہ امت کو یہ مسئلہ معلوم ہو کہ اگر بیٹھنے کی جگہ نہ ہو یا کوئی اور عذر ہو تو کھڑا ہو کر پیشاب کرنابھی جائز ہے، لیکن اس کو عادت نہیں بنانا چاہیے۔
 

(صاحبزادہ بدر عالم جان)

سونا چاندی قدیم زمانہ سے آج تک ثمن مطلق تسلیم کیا جا چکا ہے، بین الاقوامی لین دین میں مرکزی حیثیت آج بھی سونے کو حاصل ہے۔ گویااس مسئلہ میں تمام دنیا نے اسلام کی دہلیز پر سر جھکایا ہے فالحمد للہ کہ سونے چاندی کو ثمن مطلق اسلام نے قرار دیا ہے۔جب یہ بات واضح ہو گئی تو جس شخص کے پاس نصاب کے برابر سونا یا چاندی موجود ہے، خواہ ڈلی کی صورت میں ہو، زیورات کی صورت میں، برتن کی صورت میں، اس مالیت کے برابر کرنسی نوٹ یا اس کے مساوی مال تجارت ان سب پر سال گزرنے کے بعد مقررہ شرح کے مطابق زکوٰۃ فرض ہے۔ خواہ زیورات پہنے یا نہ پہنے، گھر میں رکھے یا لاکرز میں ملکیت شرط ہے۔ استعمال کبھی کبھی کریں، روزانہ یا کبھی نہ کریں اس میں فرق نہیں۔
روپے پیسے یا سونے چاندی کا جو بھی مالک ہے اس پر زکوٰۃ بھی فرض ہے اور صدقہ، فطر بھی واجب ہے۔ آپ جتنے بہن بھائی اکٹھے رہتے ہیں ان کے زیورات اور نقد لامحالہ اپنی اپنی ملکیت ہو گا، یہ تو نہیں ہوتا کہ زیور بھی مشترک ہو لہٰذا جس کے پاس شرعی نصاب ہے وہ ڈھائی فیصد زکوٰۃ ادا کرے جو مالک نصاب نہیں اس پر زکوٰۃ نہیں۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

فرشتے صرف اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں وہ کتا یا تصویر ہو جس کا رکھنا حرام ہے۔ رہا وہ جس کا رکھنا حرام نہیں مثلا شکاری کتا، کھیتی اور مویشیوں کی حفاظت کرنے والا کتا اور وہ تصویر جوقالین اور تکیہ وغیرہ پر روندی جاتی ہیں یا ڈیکوریشن پیس ہیں، ان کی وجہ سے فرشتوں کا داخلہ ممنوع نہیں ہوتا۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

بسم اللہ شریف کے فضائل اور برکات مختلف روایات سے واضح ہیں اس لیے 786 لکھنے سے بندہ ان تمام برکات سے محروم رہتا ہے۔مسلمانوں کو چاہیے کہ ہر مقام پر جہاں تسمیہ لکھنا ہو پورا لکھنا چاہیے، ابجد کے اعداد استعمال نہیں کرنے چاہیے۔ ماضی میں تمام مفسرین، محدثین، فقہا اور علماء مکمل تسمیہ لکھتے تھے اور اس پر تمام اہل اسلام کا عمل جاری ہے۔
 

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

بیوٹی پارلر کا کاروبار کرنا یا اس میں کام کرنا دونوں جائز ہیں۔ شرعاً اس کے ناجائز ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے، مگر اس میں خیال رکھا جائے گا کہ اگر بیوٹی پارلر میں خواتین کام کرنے والی ہوں اور فقط خواتین ہی بناؤ سنگھار کے لیے آئیں یا میک اپ کروانے آئیں تو ٹھیک ہے۔ یعنی پارلر میں کام کرنے والی بھی خواتین ہوں اور میک اپ وغیرہ کے لیے بھی صرف خواتین ہی آئیں۔دوسری صورت میں مرد و خواتین میں اختلاط ہو یعنی خواتین مردوں کے لیے کام کریں یا مرد خواتین کا میک اپ کریں تو ایسا کرنا حرام ہے۔ ایسی جگہ پر کام کرنا اور ایسا کاروبار کرنا دونوں حرام ہیں۔ اس کے علاوہ بیوٹی پارلر پر خلاف شریعت اگر کوئی کام لیا جائے تو پھر بھی یہ ناجائز اور حرام ہوگا۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

مرد ضرورت کے مطابق سینے اور بازوؤں کے بال اتار سکتا ہے، یہ جائز ہے۔
 

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

خون اضطراری حالت میں دیا جاتا ہے۔ جیسے اضطراری حالت میں خنزیر جائز ہے۔ یہ چیزیں روز مرہ کی نہیں ہوتی، بلکہ مجبوری کی حالت ہوتی ہے، لہذا غیر مسلم کا خون مسلمانوں کو لگایا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ خون مسلمان کا ہو یا غیر مسلم کا، خون فی نفسہ حرام ہے اور اس کا حکم غلیظ نجاست کا ہے۔
اس مسئلہ کو اس مثال سے سمجھئے کہ ابوجہل کے خون نے اپنے بیٹے عکرمہ پر کوئی اثر نہیں کیا، ابوجہل دوزخ میں جائے گا اور اس کا بیٹا صحابی ہے، اور وہ جنت میں جائے گا۔

 

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

معاوضہ دینی کاموں کا نہیں لیا جاتا، بلکہ پابندی وقت کا لیا جاتا ہے۔ اگر اتنا وقت روزی کمانے کے لئے لگایا جائے تو روزی کما سکتا ہے۔ لیکن مذہبی امور کی انجام دہی مسئلہ بن جائے گی۔ نہ وقت پر اذان، نہ نماز، نہ مسجد کی صفائی، نہ کھولنے اوربند کرنے اور دیگر اشیاء کی حفاظت ہو سکے گی۔ اب جو شخص ان تمام امور کو پابندی سے ادا کرے گا وہ اکثر معاش کمانے کے لئے معقول بندوبست نہیں کر سکتا۔ حالانکہ اس پر اپنا، اپنے والدین، بیوی بچے اور دیگر زیر کفالت افراد کا نان و نفقہ اور ضروریات زندگی مہیا کرنا بھی فرض ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد، آپ کے جانشین، خلیفہ اول اور مسلمانوں کے پہلے منتخب حکمرانوں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب یہ معاشی مسئلہ پیش ہوا، تو محدثین کرام کی زبانی مسئلہ اور اس کا جمہوری اسلامی حل سن لیجئے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے، فرمانے لگے، میری قوم کو معلوم ہے کہ میرا کاروبار، میرے اہل و عیال کا خرچہ بخوبی پورا کرتا ہے۔ اب میں مسلمانوں کے معاملات میں مصروف ہو گیا ہوں، اب ابوبکر کے اہل و عیال اس مال (بیت المال) سے کھائیں گے اور وہ مسلمانوں کے امور نمٹائیں گے۔پس آج بھی دینی فرائض انجام دینے والے مسلمانوں کے دینی امور نمٹا رہے ہیں۔ اور اس وقت کا حق الخدمت لے رہے ہیں۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

کریڈٹ کارڈ کے استعمال کی چند صورتیں ہیں: پہلی صورت یہ ہے کہ اگر کوئی بینک یا ادارہ غیرسودی معاہدے کی بناء پر کریڈٹ کارڈ جاری کرے، تو اس کا استعمال بلاشبہ جائز ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر کوئی ادارہ ایسے معاہدے کی بناء پر کریڈٹ کارڈ جاری کرتا ہے جس میں معین وقت تک قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں کارڈ ہولڈر کو اضافی رقم ادا کرنے کا پابند کیا گیا ہے، اور کارڈ ہولڈر معین وقت سے پہلے قرض کی واپسی کو یقینی بنائے تاکہ سود عائد ہونے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ اس صورت میں بھی کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز ہوگا۔مذکورہ بالا دونوں صورتوں کے برعکس تیسری صورت یہ ہے کہ اگر بینک یا ادارہ ایسا معاہدہ کرتا ہے جس میں کارڈ ہولڈر کو ہر صورت میں سودی معاملہ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں بلاحالتِ اضطرار، کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔ اس صورت میں بھی اگر کارڈ ہولڈر، کریڈٹ کارڈ سے اگر کوئی شخص حلال اشیاء خریدتا ہے تو وہ حرام نہیں ہوں گی، بلکہ وہ حلال ہی رہیں گی اور ان کا استعمال بھی درست ہوگا۔ لیکن سودی معاملہ کرنے اور سود ادا کرنے پر وہ گناہ گار ہوگا۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

عقیق سمیت تمام پتھر ہر مسلمان مرد وعورت کے لیے پہننا جائز ہیں، شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن ان کی کوئی شرعی حیثیت بھی نہیں۔ ان کا ناموں اور ستاروں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسی باتیں کرتا ہے یہ اس کی جہالت ہے، لیکن افسوس آج کل ایسی جاہلانہ باتیں کرنے والے ٹی وی چینلز پر بھی آ چکے ہیں، جو لوگوں کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں لیکن دینی تعلیم سے دوری کی وجہ سے لوگ اس طرح کے جاہل لوگوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور ان کی جاہلانہ باتوں میں آجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے۔
 

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

عقیق سمیت تمام پتھر ہر مسلمان مرد وعورت کے لیے پہننا جائز ہیں، شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن ان کی کوئی شرعی حیثیت بھی نہیں۔ ان کا ناموں اور ستاروں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسی باتیں کرتا ہے یہ اس کی جہالت ہے، لیکن افسوس آج کل ایسی جاہلانہ باتیں کرنے والے ٹی وی چینلز پر بھی آ چکے ہیں، جو لوگوں کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں لیکن دینی تعلیم سے دوری کی وجہ سے لوگ اس طرح کے جاہل لوگوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور ان کی جاہلانہ باتوں میں آجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے۔
 

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

پتنگ اڑانا جائز ہے، شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں، اور اس کے ناجائز ہونے کی بھی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔ البتہ اس میں اعتدال ہونا ضروری ہے۔پتنگ اڑاتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس سے کسی کی گردن نہ کٹے، فائرنگ وغیرہ نہ کی جائے، مرد و خواتین کا اختلاط نہ ہو، غلط قسم کی محفلیں نہ سجائی جائیں۔ گانے نہ چلائے جائیں، رقص و سرود کی محفلیں نہ ہوں۔ پتنگ اڑاتے وقت کرنٹ والی ڈوری استعمال نہ کی جائے، اسی طرح ایسی ڈوری جو لوگوں کی گردنیں کاٹ دے، فحاشی کے کام نہ ہوں۔اگر یہ ساری چیزیں ہوئیں تو پھر ان حرام چیزوں کی وجہ سے پتنگ بازی ناجائز اور حرام ہے، صرف مشغلہ کے طور پر یا سپورٹس فن کے طور پر اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

اگر نمازی کم ہیں اور گرمی کی شدت زیادہ ہے تو آدھے پہلی صف میں اور آدھے دوسری صف میں برابر برابر کھڑے ہو جائیں اور اگر نمازی زیادہ ہیں مثلاً زیادہ صفیں ہوں تو ایسی صورت میں پہلے پہلی صف مکمل کریں پھر دوسری اور اس طرح باقی صفیں۔ نمازی تھوڑے ہونے کی صورت میں جائز ہے اور زیادہ کی صورت میں پہلی صف کو مکمل کیے بغیر جائز نہیں ہے۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تین وتر دو سلاموں کے ساتھ پڑھنا جائز ہے، جبکہ احناف تین وتر ایک ہی سلام کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ اس لیے تین وتر دو سلاموں کے ساتھ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے طریقہ کے مطابق ادا کیے جاتے ہیں۔ شوافع کے نزدیک وتر دو سلاموں کے ساتھ ادا کرنا افضل ہے۔ احناف کے نزدیک تین وتر ایک سلام کے ساتھ ادا کرنا مسنون ہے۔ 

(مفتی محمد شبیر قادری)

اگر کوئی شخص تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، تعظیم انبیاء، صحابہ کرام، اہل بیت اطہار اور اولیاء کرام کا ادب کرنے والا ہو تو اس کے پیچھے نماز جائز ہے، خواہ وہ اپنے آپ کو کسی بھی فرقے سے منسوب کرتا ہو۔
جب تک کسی شخص کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ یہ گستاخ یا بے ادب ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔

 

(صاحبزادہ بدر عالم جان)

اگر تین یا چار رکعت والی نماز میں دو رکعت پڑھ کر بھولے سے ایک طرف یا دونوں طرف سلام پھیر دے تو جب تک کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے نماز جاتی رہتی ہو، یاد آنے پر فوراً کھڑا ہو جائے اور باقی نماز پڑھ کر آخر میں سجدہ سہو کر لے تو نماز مکمل ہو جائے گی۔
 

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا ضروری نہیں ہے، حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ایک وضوسے تمام نمازیں ادا فرمائیں اور موزوں پر مسح کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ آج آپ نے وہ کام کیا ہے جو اس سے پہلے نہیں کیا تھا! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! میں نے یہ کام جان بوجھ کر کیا ہے۔’’
اور حضرت ابو اسد بن عامر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے وضو کے متعلق دریافت کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر نماز کے لئے تازہ وضو فرمایا کرتے تھے اور ہم ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھ لیا کرتے تھے۔’’
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ایک وضو سے کئی نمازیں ادا کی جا سکتی ہیں، لیکن یہ خیال رکھے کہ جب تک بآسانی وضو قائم رہے تو اسی وضو سے نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر جب تنگی محسوس کرے تو نیا وضو کرنا بہتر واحسن عمل ہے۔

 

(مفتی محمد شبیر قادری)

صلہ رحمی سے مراد ہے اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھے اور بہتر تعلقات قائم کرنا، آپس میں اتفاق و اتحاد سے رہنا، دکھ، درد، خوشی اور غمی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلنا، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھنا، ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا۔ الغرض اپنے رشتہ کو اچھی طرح سے نبھانا اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا، ان پر احسان کرنا، ان پر صدقہ و خیرات کرنا، اگر مالی حوالے سے تنگدستی اور کمزور ہیں تو ان کی مدد کرنا اور ہر لحاظ سے ان کا خیال رکھنا صلہ رحمی کہلاتا ہے۔
صلہ رحمی میں اپنے والدین، بہن بھائی، بیوی بچے، خالہ پھوپھی، چچا اور ان کی اولادیں وغیرہ یہ سارے رشتہ دار صلہ رحمی میں آتے ہیں۔ اپنے والدین کے دوست احباب جن کے ساتھ ان کے تعلقات ہوں، ان سب کے ساتھ بھی صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ جب ان رشتہ داروں کا خیال نہیں رکھا جائے گا، ان کے حقوق پورے نہیں کیے جائیں گے، ان کی مدد نہیں کی جائے گی تو یہی قطع رحمی کہلاتی ہے۔ یعنی اپنے رشتہ داروں سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرنا۔
صلہ رحمی ہر دور میں کی جا سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ انسان مالی مدد ہی کرے، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز کی وہ استطاعت رکھتا ہو، اس کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ مثلاً ان کے دکھ درد میں شریک ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرے، ان کے ساتھ اچھی گفتگو کرے، ان کے گھر جا کر حال احوال دریافت کرے۔ ان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرے، غمی خوشی میں شریک ہو۔ یہ ساری باتیں صلہ رحمی میں آتی ہیں۔ قطع رحمی کی سزا تو دنیا میں بھی مل جاتی ہے، جب بھائی مشکل وقت میں اپنے بھائی کا ساتھ نہیں دیتا۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کو نہ سمجھا جائے۔ جب خون سفید ہو جائے، تعلقات ختم کریں، جب ضرورت ہو تو اس کی ضرورت کو پورا نہ کیا جائے، حتی کہ ایک دوسرے کے ساتھ مرنا جینا ختم کر دیا جاتا ہے۔ یہ سزا ہی ہے۔ اور قیامت کے دن صلہ رحمی کے متعلق پوچھا جائے گا کہ ہم نے ان رشتوں کے تقدس کا کتنا خیال رکھا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
الَّذِینَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اللَّہِ مِن بَعْدِ مِیثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّہُ بِہِ أَن یُّوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الأَرْضِ أُولَئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَoالبقرۃ، 2: 27
(یہ نافرمان وہ لوگ ہیں) جو اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور اس (تعلق) کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد بپا کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیںo
اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات جوڑنے کا حکم دیا ہے، اگر اس کے خلاف کریں گے تو یقیناً دنیا و آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہونگے۔ اسی طرح بے شمار آیات میں اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی احادیث مبارکہ میں آپس میں صلہ رحمی کا حکم دیا ہے۔ صلہ رحمی کی اہمیت اور فضیلت کو بیان کیا ہے اور قطع رحمی پر وعید سنائی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہر حال میں صلہ رحمی کا خیال رکھیں، ایسا نہ ہو کہ جو رشتے دار غریب ہوں، غربت کی وجہ سے ان سے تعلقات ختم کر لیں، جیسا کہ آجکل رواج ہے کہ اگر بعض رشتہ دار غریب ہوں اور بعض امیر تو امیر لوگ ان غریب رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لیتے ہیں، اور ان کو اپنا رشتہ دار سمجھنا اور کہنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اپنے دوست احباب کے سامنے اپنا رشتہ دار قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ جیسے اولاد جب جوان ہوتی ہے تو اپنے والدین کو گھر سے نکال دیتی ہے، ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھتی، یہ ساری چیزیں گناہ کبیرہ ہیں اور اس کی سزا قیامت کے دن ملے گی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا والدین اولاد کے لیے جنت بھی ہیں اور جہنم بھی، جس نے ان کی خدمت کی اس نے جنت کو پا لیا ورنہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صلہ رحمی کا صحیح مفہوم سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور صلہ رحمی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اسی میں اتفاق و اتحاد ہے اور دنیا و آخرت کی حقیقی کامیابی ہے۔

 

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

موت کے بعد روح کا دنیا میں لوٹنا مابعد الطبیعات میں سے ہے اور ایسی غیر مرئی و غیر محسوس چیزوں کو تسلیم کرنے کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واضح فرمان ہی تسلی بخش ہو سکتا ہے۔ چونکہ اسلسلے میں قرآن و حدیث میں کوئی ضابطہ بیان نہیں فرمایا گیا اس لیے متوفین کی ارواح کے اپنے گھر یا کسی جگہ لوٹنے کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا اور ارواح کے بِاذن الٰہی کہیں آنے جانے کی نفی بھی نہیں کی جاسکتی۔ اس کے لیے اس مسئلہ میں کوئی ضابطہ متعین کرنا مشکل ہے۔
 

(منہاج القرآن)