اردگان کے دیس میں - آخری قسط

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : جولائی 2019

اولیویم شاپنگ مال:
اب ہم اپنے دورے کے آخر میں آ گئے تھے۔پروگرام ترتیب دینے والوں نے بڑی عقلمندی سے ہمارا آخری پروگرام ایک شاپنگ مال میں خریداری کے لئے رکھاتھاتاکہ سیرو تفریح سے فارغ ہو چکنے کے بعد اب تحفہ تحائف کی خریداری کی جا سکے۔اس کے لئے ہماری گائیڈ ہمیں اولیویم شاپنگ مال میں لے آئی۔استنبول ایک بہت بڑا شہرہے اورجگہ جگہ شاپنگ پلازے،بڑے بڑے اسٹورزاوربازار ہیں۔یہ شاپنگ مال نسبتاً نیا نیا بنا تھا اور لگتا تھا کہ ہمارے ایئر پورٹ جانے کے راستے پر تھا تاکہ وہاں سے خریداری کر کے ہم آسانی سے ایئرپورٹ پہنچ سکیں۔ اپنی گنجائش کے اعتبار سے ایسا نہیں تھا کہ ہم سمجھیں بس اپنی قسم کا یہ واحدہی ہوگا،ایسی کوئی بات نہیں ،بس عام سا ہی مرکز خریداری تھا۔مختلف برانڈز کے آوٹ لیٹ تھے۔کچھ بین الاقوامی اور کچھ مقامی۔مجھے تو خریداری میں بالکل کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لئے میں تو صرف مشاہدے کے لئے ہی آیا تھا،البتہ میرے دیگر ساتھی پورے انہماک سے دوکانوں کے اندر گھس گئے۔اشیاء کی قیمتیں اور معیار کا تو مجھے کوئی اندازہ نہیں، البتہ عمارت کی وسعت اورشان و شوکت کے اعتبار سے لاہور کاایمپوریم مال اور اسلام آبادکا سینٹورس مال اس سے کئی گنا زیادہ بہترین ،عمد ہ اور قابل دید ہیں۔ ہم ایسے وقت میں یہاں تھے جو عموماً شاپنگ کا وقت نہیں ہوتا ، اس لئے کوئی زیادہ رش نہیں لگ رہا تھا ۔ لوگوں کی دلچسپی کے لئے،سامان تجارت کے علاوہ تفریح کے بھی کئی مواقع اور سہولیات مہیا تھیں۔جیسے اندرون خانہ کھیل،مختلف وڈیو گیمز ،بچوں کے تفریحی پارک ،سینما ہال ،تھیئٹرز اورریستوران شامل ہیں۔نماز کے لئے بھی ایک کمرے میں اہتمام کیا گیا تھا،اگرچہ کوئی باقاعدہ مسجد نہیں تھی۔ یہاں شاپنگ مال میں ہی ہمارے دوپہر کے کھانے کا انتظام تھا۔شاپنگ مال کی چوتھی منزل پر فوڈ اسٹریٹ تھی،جس میں انٹرنیشنل فوڈ برانڈزکے اوٹ لیٹ تھے،جیسے میکڈونلڈ ، برگرکنگ،ہارڈیز اور کے ایف سی وغیرہ۔ آج ہمارے لئے دوپہر کے کھانے کا اہتمام‘‘بر گرکنگ’’ میں تھا۔یہ جو بین الاقوامی کھانوں کے سلسلہ جات ( international food chains)ہیں ،ان کی افادیت کا کما حقہ ادراک مجھے ترکی جاکرہوا۔وطن عزیز میں چونکہ ان طعام گاہوں میں گاہے بگاہے جانا ہوتا رہتا ہے اور ان کے ذائقوں سے آشنائی ہے،اس لئے یہاں آکر جب وہ مانوس طعام گاہ نظر آئی تو دِل کو خاصی تسلی ہوئی۔ میں جو ترکی کھانوں کے ذائقوں سے ہم آہنگ نہ ہو سکا تھا،یہاں آکرخاصا مطمئن ہوگیا کہ کم از کم،اب کی بار میری حس ِ ذائقہ کو کسی نئے غیر مانوس تجربے سے تو نہیں گزرنا پڑے گا۔ ڈاکٹر چیمہ صاحب اور یہ عاجز،چونکہ خریداری کے ساتھ کوئی خاص دلچسپی اور رغبت نہیں رکھتے تھے،اس لئے ہم اکٹھے گھوم رہے تھے اورشاپنگ مال کے مختلف حصوں میں ‘‘ آوارہ گردی وآوارہ نظری’’ کرنے کے بعدفوڈفلورپر آگئے۔ ہماری گائیڈ صاحبہ اور سیاحتی کمپنی کے نمائندے وہاں موجود تھے اورہمارا انتظار کر رہے تھے۔ہمارے دوست خریداری کے جھنجھٹ میں ،نہ جانے کہاں مصروف تھے۔ہم ریستوران کی کرسیوں پر بیٹھ کر تماشائے اہل کرم دیکھتے رہے۔یہ کرسیاں راہداری میں لگائی گئی تھیں،یعنی ایک طرح کا اوپن ماحول تھا،یوں تو ہم ان کرسیوں پر بیٹھے ساتھیوں کا انتظار ہی کر رہے تھے لیکن انتظار کی کوفت سے کوسوں دور تھے ،کیونکہ یہاں دید شنید کے لئے بھی بہت کچھ تھا اور ہمارے پاس وقت بھی وافر تھا۔ ایک ایک کرکے ہمارے دوست کھانے کے لئے جمع ہو گئے۔ان طعام گاہوں میں سیلف سروس ہوتی ہے لیکن اللہ بھلا کرے ہماری میڈم کا اور سیاحتی کمپنی کے نمائندے کا کہ ہمارے لئے ان لوگوں نے یہ ذمہ داری خودسنبھالی اور ٹیبل پرہی ہمیں کھانا مہیاکردیا۔ ظاہر ہے یہ فاسٹ فوڈ سسٹم تھا ،اور اس کھانے میں سالن روٹی کی بجائے ‘‘برگر برادری’’ اور اُن کے لوازمات تھے۔ اور،جیسا کہ عرض کیا کہ طعام کی اس برادری سے ہمارا رشتہ پرانا ہے لہٰذاحسب توقع یہاں بھی وہی ذائقہ اور وہی لذت تھی جو وطن عزیز میں اس قسم کے ریستوران میں ہوتی ہے، اس لئے ہمیں کسی قسم کی‘‘ طعامی اجنبیت ’’ کا سامنا نہ کرنا پڑا اوربڑے خوشگوار طریقے سے ہم سب سیر ہوگئے۔الحمدللہ الذی اطعمنا وسقانا و جعلنا من المسلمین۔
ابھی ہمارے کچھ دوستوں کی خریداری مکمل نہیں ہوئی تھی اس لئے ،لنچ کے بعدوہ تو ایک بار پھر دوکانوں کی طرف بھاگے اور ہم اسی پہلے والے‘‘ شغلِ آوارہ’’ میں مصروف ہوگئے۔آخرکارہمارے سارے ساتھی ایک ایک کر کے تشریف لے آئے۔
 لوٹ کے ڈاکٹرگھر آئے:
اب ہم اپنے سفر کے اختتام پر تھے۔مجھے ایک قسم کی تشنگی کا احساس تھا۔ہم سب لوگ وین میں سوار ہوئے اور وین ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہو ئی۔آدھ گھنٹے بعد ہم اتاترک ایئرپورٹ پر تھے جہاں سے ہمیں ٹرکش ایئر لائن کے ذریعے وطن واپس آنا تھا۔ہماری گائیڈ ہمیں ایئرپورٹ کے دروازے تک چھوڑنے آئی اور گیٹ سے ہی رخصت ہو گئی البتہ ٹورسٹ کمپنی کا نمائندہ ایئر پورٹ کے اندر تک آیا۔چیک ان شروع تھا، ہم بھی لائن میں لگ گئے اور چلتے چلتے مختلف مراحل سے گزرتے بورڈنگ کارڈ والے کاؤنٹر تک پہنچے۔ایک خوش اخلاق نوجوان ترک نے ہمارے ٹکٹ اورپاسپورٹ وغیرہ دیکھ کر،ہمارا سامان بک کیا اورہمارابورڈنگ کارڈہمیں تھما دیا۔ اس دوران وہ نہایت خوش اخلاقی سے گپ شپ بھی لگا تا رہا ۔مجھے وہ اسلام پسند لگتا تھا ،کیونکہ میں نے جب نجم الدین اربکان ؒ کا نام لیا تو وہ بہت خوش ہوا اور بولا مجاہد کبیر۔کارڈ لے کر ہم اندر لاؤنج میں آگئے۔مختلف بورڈز وغیرہ سے پتہ چلا لیا کہ ہم نے ۱۸ نمبرلاؤنج سے جہاز میں بیٹھنا ہے،وہ کافی دور تھا بہر حال مختلف سائن بورڈوں کے اشاروں پر چلتے ہم وہاں پہنچ گئے ۔روانگی میں ابھی کافی وقت تھا۔وقت گزاری کے لئے انتظارگاہ میں ساتھ بیٹھے اجنبی سے سلام دعا شروع کر دی۔اتفاق ایسا کہ یہ صاحب بھی عراق سے تھے ان سے کچھ دیرعربی میں گفتگو ہو تی رہی۔وہ ایران جا رہے تھے ۔ انھوں نے ایران سے آگے ،بائی روڈ عراق میں اپنے شہر جانا تھا۔نماز مغرب کا وقت ہو گیا ہم دونوں اُٹھ کھڑے ہوئے اور مسجدکی طرف چل دئیے۔نماز مغرب کے ساتھ ہی،ہم نے عشا بھی باجماعت ادا کرلی۔واپس آیا تو میرے دیگر ساتھی بھی اکٹھے ہو چکے تھے اورمسافروں کو جہاز کے اندر بلایا جا رہا تھا۔ترکی کو الوداع کہتے کہتے ہم جہاز میں سوار ہو گئے اورجہازنے اپنے مقررہ وقت پر اُڑان بھر لی۔ا س دفعہ پھر کھڑکی کی سائیڈ والی سیٹ ملی ،لیکن مجھے معلوم تھا کہ اب کی بار سارا سفر رات کا ہے لہٰذا کھڑکی نظارہ ممکن نہیں ہوگا۔اپنی مقررہ سیٹ پر قرار پکڑتے ہی ہمسائیگی میں نظر دوڑائی تو ایک پاکستانی نوجوان پہلو میں بیٹھا تھا۔سلام دعا کی کوشش کی لیکن اس کا ردِ عمل کھردرا تھا، سو اُدھر سے نااُمید ہو کر،سامنے لگی سکرین سے چھیڑ چھاڑ کرنی شروع کر دی،جس کا یہ فائدہ ہوا کہ تلاوت قرآن مجید کا چینل مل گیا ،بس پھر میری تو گویا عید ہوگئی۔باقی کا سفر یا نیند تھی یاپھر تلاوت قرآن مجید اورپتا ہی نہ چلا کہ لاہور ایئر پورٹ آگیا۔جب ہم لاہور اُترے تو صبح کے چاربج چکے تھے ۔ پروگرام آرگنائزرناصربھائی نے پہلے ہی اہتمام فرما دیا تھاکہ خاکسار اپنے ہمسفر ڈاکٹر سروش صاحب کے ہمراہ ،لاہور ایئرپورٹ سے منڈی بہاء الدین اور وہاں سے رانامبشر صا حب کے ساتھ ڈنگہ جائے گا۔لاہور ایئر پورٹ پر رات کے اُس سمے ہمیں خوش آمدید کہنے کے لئے ہماری میزبان کمپنی کے احباب موجود تھے اور ہمیں خوش و خرم اور بسلامت واپس دیکھ کر،یہ ساتھی زبان ِحال سے گویا کہہ رہے تھے کہ شکر ہے لوٹ کے ڈاکٹر گھرآئے ۔
حسرتیں چند:
ترکی گئے بھی اور واپس بھی آگئے ،یہ سارا دورہ ایک خواب سا دکھائی دیتا ہے۔ بلاشبہ تھوڑے وقت میں بہت زیادہ دیکھ لیا لیکن ٹورازم کے حوالے سے جو کچھ ترکی میں موجود ہے اُس کا عشر عشیر بھی نہیں دیکھ سکے۔جن شہروں میں نہیں جا سکے اُن کا دکھ توہے ہی لیکن جن شہروں میں گئے جیسے انظالیہ ،قونیہ اور استنبول وغیرہ،افسوس تو یہ ہے کہ اُن کو بھی جی بھر کر نہیں دیکھ سکے۔ کروز میں جا کر میرے ساتھیوں نے باسفورس کے پانیوں میں ہونے کا لطف لے لیا لیکن مجھے یہ محرومی رہی ،باسفورس کے پانیوں میں ،دِن کے وقت کسی کشتی یافیری کی چھت پر بیٹھے ،ترکی قہوے کی چسکیاں لینے کا جو لطف ہے اُس کی حسرت ہی رہی۔عثمانی سلاطین کی قبور پر بھی جانے کی خواہش تھی،لیکن پوری نہ ہو سکی۔ترکی کا دارالحکومت انقرہ ہے ،یہ بھی ایک بڑا شہر ہے بیک وقت جدید و قدیم کا حسین مرقع ہے،یہیں پر کمال اتا ترک کا مزار ہے،میں انقرہ دیکھے بغیر اور اتاترک کی قبر پرجائے بغیر وطن واپس آرہا تھا اس کا بھی قلق رہے گا۔
اللہ کے فضل و کرم سے ہم طب ایسے مقدس پیشے سے تعلق رکھتے ہیں،ہمارا سارا گروپ ڈاکٹرز پر مشتمل تھا جو اپنے اپنے شعبہ کے ماہر اور تجربہ کار لوگ تھے۔میری یہ خواہش تھی کہ ہم کم از کم کسی میڈیکل کالج میں یا کسی چھوٹے بڑے ہسپتا ل میں یا کسی جنرل پریکٹیشنر کے پاس ضرور جاتے اور وہاں کے میڈیکل پروفیشن کی حالت کا جائزہ لیتے لیکن ایسا ممکن نہ ہوا،بڑی تشنگی رہی۔
سب سے بڑھ کر یہ محرومی ہے کہ مذہب و سیاست کے حوالے سے،ترکی معاشرہ کو سمجھنے کے لیے جن لوگوں سے ملاقات کی خواہش تھی وہ بھی پوری نہ ہو سکی۔موجودہ حکمران پارٹی اور جس پارٹی کی گود سے اس پارٹی نے جنم لیا ہے،جس کا تذکرہ میں پیچھے کر چکا ہوں، ان کے نظریات وخیالات قریب قریب وہی ہیں جن کی خدمت کرتے اس عاجز نے زندگی گزاری ہے،وہ یہ کہ پہلے وطن عزیز میں اورپھر پوری دنیا میں اسلامی طرزِ حکمرانی اور اسلامی طرزِ معاشرت کا دور دورہ ہو۔اپنی زندگی کی اس عزیز ترین نظریاتی متاع کو جب ترکی میں بر سرحکومت آنے کا سنتے پڑھتے تھے تو یہ خواہش تھی کہ اس معاشرے کو قریب سے دیکھا جائے اور اب جب کہ وہاں جانے کا موقع ملا اور اس حوالے سے کوئی مناسب ملاقات نہ ہو سکی توحسرتیں دو چند ہو گئیں ہیں۔
اس عاجزکا دین اسلام کی اُس تعبیر و تشریح سے ادنیٰ سا تعلق ہے جسے مخالف کیمپ سیاسی اسلام قرار دیتاہے اور ترکی کا موجود حکمران طبقہ بھی اُسی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے ،اس لحاظ سے یہ لوگ اپنے اپنے سے لگتے ہیں لیکن اُن میں سے کسی کارکن تک کو ہی سہی، ‘‘جپھی ڈالے’’ بغیر یہ بندہ ترکی سے واپس آگیا تواحساس ِ محرومی تو ہونا ہے۔ 
 ترکی اور پاکستان کے سیاسی حالات میں یہ موافقت ہے کہ دونوں قومیں مارشل لا زدہ قومیں ہیں۔دونوں قوموں پر اُن کے اپنے اپنے بوٹوں والوں نے بہ جبر کئی کئی سال حکومتیں کی ہیں اور قومی وقار اور قومی غیرت اور قومی ترقی کے مواقع کا بیڑا غرق کیا ہے۔ اس پس منظر میں اس عاجز کی جمہوریت اور جمہوری اقدار پر ایمان کی حد تک وابستگی ہے۔اس حوالے سے جب یہ سنتے ہیں کہ ترکی کے موجودہ مر دِ آہن جناب طیب اردگان نے اپنے وطن میں فوجی مارشل کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے تو اس معجزے کے ظہور پذیر ہونے والی سرزمین کی محض زیارت ہی ہم ایسے جمہوریت پسند لوگوں کی زندگی کی معراج ہے۔حالیہ سالوں میں ،اس حوالے سے ترکی میں جو اقدامات ہوئے اُن میں سب سے اہم واقعہ جولائی ۲۰۱۶ء کی ناکام فوجی بغاوت ہے جس میں ترکی کی عوام، حیرت انگیز طور پر ،باغی فوجوں کے ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئی تھی اور سڑکوں اور چوراہوں پر، اپنے صدر اور اپنے جمہوری نظام کی حفاظت کے لیے یہ نہتے لوگ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر،نکل آئے تھے اور مسلح فوجیوں سے ٹکرا گئے تھے۔یہ واقعہ حالیہ انسانی تاریخ کا ایک عجوبہ تھا ، اس بہادر قوم کی زیارت تو ضرور ہوئی لیکن افسوس، اس عجوبہ کے کسی عینی شاہد سے اور کسی سرفروش جانباز سے ملاقات نہ ہو سکی اور نہ ہی کسی واقف ِ راز سے گفتگو ہو سکی 
حرف آخر:
حسرتیں چند اپنی جگہ،لیکن یہ سفر نہایت روح افزا اور فرحت انگیز تھا۔میں تو پچھلے ۳۴ سالوں سے مسلسل پریکٹس کیے جا رہا ہوں اور مجھے سوائے سعودی عرب کے اسفار سعادت کے، کہیں اور جانے کا اتفاق نہیں ہو اتھا،اس سفر سے خوب لطف اندوز ہوا۔ویسے طبعاً میں یارباش آدمی نہیں ہوں اورعموماً ایک محدود دائرہ دوستی میں رہتا ہوں لیکن جو ساتھی اس سفر میں میسر آئے اور جس عمدہ طریقے سے ہم نے یہ دِ ن گزارے میرے لیے ایک نہایت خوش گوار تجربہ تھا۔
ترکی بہت حوالوں سے ہمیں پسند آیا،خاص طور پر صفائی اور منظم زندگی اور تاریخی آثار کی کثرت اور عمدگی سے اُن کی سنبھال کو میں نے تو بہت زیادہ appriciate کیا۔اگرچہ ترک کھانوں سے میں مانوس نہیں ہوسکا اور شاید اتنے کم وقت میں آپ مانوس ہو بھی نہیں سکتے،لیکن ان کھانوں کی صفائی اورنزاکت،خوبصورت دکھلائی ،عمدہ خوشبو اور اُن کا ہلکا پن میرے لیے یادگار رہے گا۔معدہ دوست(stomach friendly)کھانے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی ساتھی سوءِ ہضم کا شکار نہیں ہوا۔اگرچہ ہمار ا عام آدمی سے کم ہی واسطہ پڑا ،لیکن جتنا کچھ واسطہ پڑا بلاشبہ خوشگوار تجربہ ثابت ہوا۔وہاں کے عام لوگ پاکستان کو جانتے بھی ہیں اور پاکستانیوں سے پیار بھی کرتے ہیں۔ہمارے ایک ساتھی ڈاکٹر غلام مصطفی چیمہ صاحب کی یہ عادت تھی کہ جہاں کہیں کسی دکان پر یا راستے میں کسی ترک سے واسطہ پڑتا وہ دور سے ہی نعرہ لگاتے ‘‘ترکی پاکستان بھائی بھائی’’ ،یہ سنتے ہی ترک بھائیوں کے چہرے کھلکھلا اُٹھتے اور شناسائی کی لہریں واضح طور پر نظر آتیں۔صحیح معنوں میں یہ ایک منفرد اور یادگار سفر تھا۔
میرے ایک ہمسفر ساتھی محترم جناب ڈاکٹر نجمی صاحب ماہر نفسیاتی امراض نے ہمارے اس دورہ پر تبصرہ کرتے ہو ئے فرمایا،
    ‘‘ میں کئی ملکوں میں رہا ہوں اور بہت سی جگہوں پہ سیر و تفریح کی غرض سے گیا ہوں ترکی اُن سب میں سے بہترین ملک ہے۔ تین مہینے ہو چلے ہیں وہاں سے واپس آئے لیکن میں ابھی تک اس کے سحر سے باہر نہیں آ سکا ہوں۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ترکی کے ساتھ اسلام کا رشتہ ہے اور اس کی اور ہماری مشترک تاریخ ہے ۔ میں نے پاکستان سے باہر کسی دوسرے ملک میں اپنے آپ کو اتنا مطمئن اور آسودہ نہیں پا یا جتنا میں ترکی میں پرسکون تھا۔ چین اور ترکی کے علاوہ کسی دوسرے ملک میں، میں نے وہ بھائی چارہ اور عام آدمی کا عام آدمی سے وہ محبت و پیار کا تعلق نہیں پایا جو اِن دو ملکوں میں جا کر پایا ہے۔حقیقی بھائی چارہ۔ترکی میں ہم جہاں کہیں بھی گئے عام لوگوں نے ہمارا بھائیوں کی طرح استقبال کیااور حقیقی بھائیوں کی طرح ہمارے ساتھ سلوک کیا۔وہاں تاریخ ہی تاریخ ہے۔سارے تاریخی مقامات قابل دید ہیں۔میں اپنے دوستوں،رشتہ داروں اور ہم وطنوں کو یہ مشورہ دوں گا کہ اگر انھیں کسی ایک ملک کی سیر کرنے کا انتخاب کرنا پڑے تو پھر لازماًترکی کا انتخاب کریں اور یقیناً آپ بھر پور لطف اندوز ہونگے۔اس کی ثقافت مغرب اور مشرق کا،عربی اور ہندی کااور اسلام اور یورپی تہذیب کا حسین امتزاج ہے ۔ میں تو بار بار وہاں جانا پسند کروں گا۔’’ 
الحمد للہ:
الحمد للہ ،کہ ہمارایہ سفر بخیر و خوبی اپنے اختتام کو پہنچا۔تمام تعریفیں اورسارے شکرانے اس ذات بے مثل و مثال کے لئے جس نے قدم قدم پر ہمیں اپنی رحمت و شفقت سے نوازا اور مسلسل نواز رہا ہے۔ہر د م ہماری خبر گیری کرتارہا اورخبرگیری کر رہا ہے۔پاک ہے وہ ذات ہر نقص سے اور ہر عیب سے،کائنات کا ذرہ ذرہ اُس کا شکر گزا ر ،میرا رُواں رُواں اُس کریم آقا کے حضور سرنگوں۔وہ اکیلا ہے ۔وہ بے نیاز ہے۔نہ وہ کسی کا باپ نہ اُس کی کوئی اولاد،
اور کوئی کسی شکل میں بھی اُس کا ہمسر نہیں ہے۔ساری کائنات کا رب،اکیلا پالنہار ، خداوند مختار،بڑا ہی بابرکت ہے وہ نام جس کی مٹھی میں ہے زمین و آسمان کا نظام ہے اللہ ،وہی ہستی،جس کے علاوہ کوئی لائق عبادت ہی نہیں،(تمام مخلوقات کے)ظاہر کا جاننے والا،(اور سب سے) پوشیدہ امور کا واحد جاننے والا،وہی ہے رحمت سراسر اور وہی ہے ابدی شفقت کرنے والا،
ستودہ صفات،ہمارا مالک اور ہماراخالق۔
 تمت بالخیر
٭٭٭