پچھتانے سے پہلے پہلے

مصنف : آفاق احمد

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جولائی 2019

پچھتانے سے پہلے پہلے
حامد! علی مارکیٹ چلا گیا ہے؟؟؟ طفیل صاحب اپنے بیٹے حامد سے پوچھ رہے تھے۔۔جی ابو جی چلا گیا ہے۔
دس منٹ بعد:
حامد! علی مارکیٹ چلا گیا ہے؟؟جی ابو جی چلا گیا ہے، ابھی تو بتایا تھا۔۔یہ حامد نے مجھے کب بتایا اور میں نے پہلے کب پوچھا، یہ کچھ ناگواری سے کیوں بول رہا ہے۔۔
مزید دس منٹ بعد:
پتہ نہیں علی مارکیٹ گیا ہے یا نہیں، حامد ناراض ہوتا ہے، بیگم سے پوچھتا ہوں۔ بیگم! علی مارکیٹ چلا گیا ہے؟جی جی چلا گیا ہے۔۔اتنے میں حامد آوازسن کر اندر آگیا اور ابو کو کہنے لگا کہ میں نے آپ کو دو دفعہ بتایا ہے، میری بات پر آجکل یقین کیوں نہیں کرتے۔۔ابو سوچ رہے ہیں کہ میں نے کب پوچھا، شاید اسے غلطی لگی ہے۔۔
دو کلو آلو لا دیں سامنے کی دکان سے، حامد اور علی بھی گھر پر نہیں ہیں۔ بیگم نے کہا۔
طفیل صاحب آلو لے آئے اور کچن میں جا کر دے دیے۔پندرہ منٹ بعد سوچنے لگے: اوہو! بیگم نے دو کلو آلو کہے تھے، جلدی سے جاکر لے آؤں۔۔دوکلو آلو شاپر میں پکڑے طفیل صاحب گھر داخل ہوئے تو بیگم ٹھٹھک گئیں۔ابھی تو آپ نے دوکلو آلو لا کر دیے تھے۔میں نے لاکر دیے تھے ؟؟ کب؟؟ تمہیں غلطی لگ رہی ہے، حامد یا علی سے منگوائے ہونگے۔۔پتہ نہیں، کیوں ایسے کرتے ہیں، مذاق ہی بنا لیا ہے آپ نے، بچے بھی تنگ پڑتے ہیں، میری صحت بھی ایسی نہیں کہ اب اس عمر میں ایسے مذاق سہ سکوں۔۔بیگم طفیل بُڑبُڑاتی ہوئیں کچن میں چلی گئیں۔۔
کیا طفیل صاحب واقعی مذاق کررہے ہیں؟
کیا اُن کا باربار ایک بات پوچھنا محض دل لگی میں ہے؟کیا طفیل صاحب فارغ ہوکر ایسے ہوگئے ہیں؟
ان سب سوالات کا جواب ''نہیں'' میں ہے۔طفیل صاحب بھولنے کی بیماری کا شکار ہورہے ہیں، یہ ذہنی استعداد میں کمی کا شاخسانہ ہے جس کی وجہ سے مریض کے روزمرہ کے معمولات متاثر ہوتے ہیں، اس کمی کو ڈیمینشیا Dementia کہا جاتا ہے۔اس کنڈیشن کے پیچھے عام طور پر الزائمرکی Alzheimer بیماری موجود ہوا کرتی ہے۔خطرناک بات ہے کہ اس میں واپسی کا امکان نہیں، یہ Irreversible ہے اس کی دیگر علامات میں کنفیوژن کا زیادہ شکار ہونا، کسی کام میں توجہ مرتکز نہ رکھ پانا، شخصی رویوں میں تبدیلی، روزمرہ کے کام کرنے میں دشواری محسوس کرنا، کاموں سے دستبرداری شامل ہیں۔۔اب مسئلہ کیا ہے؟اگر ہم طفیل صاحب کی بیگم صاحبہ یا بیٹوں کی طرح ایسے مریض سے ناگواری، حوصلہ شکنی اور ڈانٹ ڈپٹ سے پیش آتے رہیں گے تو یہ مزید اپنے خول میں قید ہوتے جائیں گے، بات کرنا کم کرتے جائیں گے، روزمرہ کے رویوں میں پیچھے ہٹتے جائیں گے۔
یہ خول کتنا خطرناک ہوسکتا ہے؟؟ایک دوست کے والد صاحب کے بارے میں حقیقی تجربات بتاتا ہوں۔
اُن کی یہ بیماری کم وبیش نو سال چلی۔بیماری کے پیچھے ذہنی صدمے بھی موجود تھے اور شیئر کرنے کی عادت بھی نہ ہونا، گھر والوں کی مصروفیت اُنہیں مزید پیچھے دھکیلتی گئی۔اُن لوگوں نے مکان تبدیل کرنا تھا لیکن ڈاکٹروں نے منع کردیا کہ ایسا کرنے سے مریض کے لیے مزید مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ ابھی اُنہیں کمروں اور واش روم کی جگہیں، راستے یاد ہیں، نئے گھر میں یاد نہیں کرپائیں گے، دباؤ بڑھے گا اور بیماری میں شدت آنے کا امکان ہوگا۔بیماری بہرحال بڑھتی رہی، آپ اس کی شدت سن کر حیران ہوتے جائیں گے۔
* کھانے پینے کا طریقہ بھول گئے، منہ میں لقمہ رکھا اور وہ سمجھ نہیں پارہے کہ اندر کیسے لے کر جانا ہے۔
* ایک وقت آیا، حوائج ضروریہ کرنا، فارغ ہونا بھول گئے۔
* ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی پہچان بھول گئے۔
* اور پھر آپ حیران رہ جائیں گے کہ وہ بولنا بھی بھول گئے۔
سارا جسمانی نظام درست لیکن ذہنی استعداد میں کمی ایسی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئی کہ شِیر خوار بچے سے بھی کم۔
آپ کے اردگرد اگر کوئی بزرگ بات دہرانا شروع ہوچکے ہیں، ایک بات باربار پوچھ رہے ہیں، کسی بات کی تسلی باربار کررہے ہیں، کام کرتے ہوئے کنفیوژن کا شکار ہورہے ہیں تو اُنہیں طریقے سے ہینڈل کریں۔ناگواری سے نہیں، دُرشتی سے نہیں، سخت الفاظ سے نہیں۔انہیں توجہ دیں، اُن کے پاس بیٹھیں، اُن کی کچھ سنیں، کچھ خود ہلکی پھلکی باتیں سنائیں۔اس طرح اُن کے زوال کا سفر سست ہوتا جائے گا، وہ خول میں قید ہونے سے بچتے جائیں گے اور ڈیمنشیا کی گرفت مضبوط نہ ہو پائے گی۔
یہی تو مقام ہے جب ''اُف'' نہ کہنے کے قرآنی حکم کی حقیقت اور ضرورت نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔یہی تو وہ علامات ہیں ''ارذل العمر'' کی طرف جاتی ڈھلوان کا نشان بتلاتی ہیں۔اس ڈھلوان پر رفتار کم کرنے کی بریکیں، طنابیں ایسے بزرگوں کے متعلقین کے ہاتھ میں ہیں، انہیں دانش مندی سے استعمال کیجیے۔٭٭٭