اختلاف رائے اوراہل دانش کا اسلوب

مصنف : محمد عبد المتین خان زاہد (المعروف ابوعمار زاہد الراشدی)

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جولائی 2019

 

    (1)میرا طالب علمی کا ابتدائی دور تھا۔گکھڑ میں قاری سید محمد حسن شاہ ؒ کا خطاب تھا۔میرے استاذ محترم قاری محمد انور صاحب نے مجھے چند جملے رٹا کر ان سے پہلے تقریر کے لیے کھڑا کردیا۔ میں نے مائیک کے سامنے کھڑے ہوتے ہی آؤ دیکھا نہ تاؤ، مرزا غلام احمد قادیانی کا نام لے کر بے نقط سنانا شروع کردیں۔ حضرت والد محترم اسٹیج پر موجود تھے۔ انہوں نے مجھے گریبان سے پکڑ کر پیچھے ہٹایا اور مائیک پر کھڑے ہوکر باقاعدہ معذرت کی کہ بچہ ہے، جوش میں غلط باتیں کرگیا’’۔
(2)ایک واقعہ میرے استاذ محترم مولانا محمد حیات رحمہ اللہ تعالیٰ کا ہے جو ‘‘قادیانیت’’ کے خلاف اہل اسلام کے بہت بڑے اور کامیاب مناظر تھے اور اسی وجہ سے انھیں ‘‘فاتح قادیان’’ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ گزشتہ صدی عیسوی کی چھٹی دہائی کا قصہ ہے کہ وہ گوجرانوالہ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر میں علما اور طلبا کو قادیانیت کے سلسلے میں تربیتی کورس کرانے کی غرض سے چند روز کے لیے تشریف لائے۔ میں ان دنوں مدرسہ نصرۃ العلوم میں زیر تعلیم تھا اور قادیانیت کے عقائد کے بارے میں ابتدائی تیاری میں نے انھی دنوں حضرت مولانا محمد حیات رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس تربیتی کورس میں شامل ہو کر کی۔ کورس کے دوران ایک روز ‘‘حیات عیسیٰ علیہ السلام’’ کا موضوع زیر بحث تھا۔ مولانا مرحوم نے قادیانیوں کے چند دلائل کا ذکر کیا اور ان کے جوابات سمجھائے اور مجھے کہا کہ میں اٹھ کر تقریر کی شکل میں ان کی گفتگو کا خلاصہ بیان کروں۔ میرا نوجوانی کا دور تھا اور ایک دینی مدرسے کا طالب علم تھا، اس لیے گفتگو کا انداز فطری طور پر جذباتی اور جارحانہ تھا، چنانچہ جب مرزا غلام احمد قادیانی کی کسی بات کا حوالہ دینے کا موقع آیا تو میں نے اس کا ذکر ان الفاظ سے کیا کہ ‘‘مرزا بھونکتا ہے۔’’ مولانا محمد حیاتؒ نے فوراً یہ کہہ کر مجھے ٹوک دیا کہ:‘‘ناں بیٹا ناں، ایسا نہیں کہتے۔ وہ بھی ایک قوم کا لیڈر ہے، اس لیے بات یوں کرو کہ مرزا صاحب یوں کہتے ہیں، لیکن ان کی یہ بات اس وجہ سے غلط ہے۔’’
استاذ محترم کا یہ جملہ ذہن کے ساتھ کچھ اس طرح چپک گیا کہ اس نے سوچ کا زاویہ اور گفتگو کا انداز بدل کر رکھ دیا۔ اس لیے آج بھی جب اس واقعہ کی یاد ذہن میں تازہ ہوتی ہے تو مولانا محمد حیاتؒ کے لیے دل کی گہرائی سے بے ساختہ دعا نکلتی ہے۔
(3)میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر جو میرے سب سے بڑے استاذ اور مربی ہیں۔ ان کا اپنا ذوق یہ ہے کہ اہل سنت، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، قادیانی، منکرین حدیث اور دیگر مذہبی گروہوں کے درمیان اختلافی مسائل پر انھوں نے پچاس کے لگ بھگ کتابیں لکھی ہیں جن میں سے بعض خاصی ضخیم بھی ہیں، لیکن انداز تحریر علمی، تحقیقی اور شستہ ہے۔ اس پر ایک تاریخی شہادت کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک کے معروف محقق اور دانش ور ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم ایک دور میں منکرین حدیث میں شمار ہوتے تھے اور انھوں نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حجت ہونے کے خلاف ‘‘دو اسلام’’ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی تھی جس میں احادیث نبویہ پر اعتراضات کیے گئے ہیں۔ اس کے جواب میں برصغیر کے بہت سے سرکردہ علما نے کتابیں لکھیں اور والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے بھی ۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں گرفتاری کے بعد ملتان سنٹرل جیل میں اسارت کے دوران ‘‘صرف ایک اسلام’’ کے نام سے اس کا جواب تحریر کیا۔
ڈاکٹر برق مرحوم نے ‘‘دو اسلام’’ کے اگلے ایڈیشن میں ان جوابی کتابوں کا تذکرہ کیا ہے اور اعتراف کیا ہے کہ ان میں مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی کتاب ‘‘صرف ایک اسلام’’ نے اپنے تحقیقی انداز اور شستگی کے باعث انھیں یعنی ڈاکٹر برق کو اپنی بہت سی باتوں پر ازسر نو غور کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ خیر اس کے بعد تو کایا ہی پلٹ گئی اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم بالآخر اپنے سابقہ موقف سے رجوع کرتے ہوئے حدیث کی تاریخ اور حجیت پر ایک مستقل کتاب لکھ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جوار رحمت میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین۔
اس سلسلے میں میرا واقعہ یوں ہے کہ صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں ایک بار رؤیت ہلال میں شہادت کے مسئلہ پر علمائے کرام میں اختلاف پیدا ہو گیا اور اخبارات ورسائل میں مضامین وبیانات شائع ہونے لگے۔ مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ اہل حدیث مکتبہ فکر کے بڑے علما میں سے تھے۔ بڑے مناظر تھے اور خالص مناظرانہ مزاج رکھتے تھے۔ بعد میں میری ان سے خاصا عرصہ نیازمندی رہی اور ان کی شفقت اور دعاؤں سے مستفید ہوتا رہا ہوں۔ اس زمانے میں ان کا ایک مضمون غالباً ‘‘نوائے وقت’’ میں شائع ہوا جو ہمارے موقف کے برعکس تھا۔ میں نے اپنے طور پر اس کا جواب لکھا اور تصحیح کے لیے والد صاحب کو دکھایا جس پر مجھے ان کی سخت ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑا اور یوں یاد پڑتا ہے کہ شاید انھوں نے تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ بھی اٹھایا مگر بات صرف ہاتھ اٹھانے تک رہ گئی۔ میں نے اس جوابی مضمون میں مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ کے مضمون کا ایک جملہ اس انداز میں لکھا تھا کہ ‘‘حافظ عبد القادر لکھتا ہے۔’’ والد صاحب نے اس پر سخت ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ:‘‘وہ تمہارا چھوٹا بھائی ہے؟ ہو سکتا ہے عمر میں تمھارے باپ سے بھی بڑا ہو۔ اس لیے اس طرح لکھو کہ مولانا حافظ عبد القادر روپڑی یوں لکھتے ہیں مگر مجھے ان کی اس بات سے اختلاف ہے۔’’ اس لیے میری گزارش ہے کہ اختلاف کو علم ودانش کے دائرے تک محدود رکھنے اور مخالفین کی رائے اور شخصیت کا احترام کرنے والے آج بھی موجود ہیں۔ بات صرف ان تک رسائی کی ہے جو تعلقات، نمود ونمائش، نفسا نفسی اور چھینا جھپٹی کے اس دور میں روز بروز مشکل تر ہوتی جا رہی ہے اور میرے نزدیک اس حوالے سے ہمارا اصل المیہ یہی ہے، ورنہ جہاں تک اختلاف کا تعلق ہے، وہ تو انسانی فطرت کا اظہار اور عقل ودانش کا خوش ذائقہ ثمر ہے جو اپنی جائز حدود کے اندر اور جائز طریقہ سے ہو تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق امت کے لیے رحمت بن جاتا ہے اور اسے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ تعالیٰ نے کیا خوب صورت انداز میں بیان فرمایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان مسائل میں اختلاف نہ ہوتا تو مجھے یہ بات بالکل اچھی نہ لگتی، کیونکہ اس طرح امت ہر مسئلہ میں ایک لگے بندھے راستے پر چلنے کی پابند ہو جاتی۔ اب اختلاف ہے، ایک ایک مسئلہ میں چار چار پانچ پانچ قول ہیں، تنوع ہے، چوائس ہے اور امت کے ارباب علم ودانش اپنے اپنے فہم، ذوق، ضرورت، حالات اور سہولت کے مطابق ان میں سے کسی ایک کے انتخاب کا حق رکھتے ہیں جس سے علم ودانش کی دنیا رنگا رنگ خوش نما پھولوں کے ایک چمنستان کا روپ اختیار کر گئی ہے۔ 

 

بشکریہ : ۲روزنامہ اوصاف، ۲۱ مئی۰۰۰