ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : جولائی 2019

     صد ربازارلاہور کی ڈھاکہ روڈ جہاں سے شروع ہوتی ہے یاکہہ لیں کہ جہاں پہ ختم ہوتی ہے وہاں ایک ہسپتال ہے جس کا نام کنٹونمنٹ جنرل ہسپتا ل ہے ۔ڈھاکہ روڈ سے اس ہسپتال کے اندر داخل ہوں تو دائیں ہاتھ ڈاکٹرز کے گھر بنے ہوئے ہیں انہی میں سے پہلے گھر کے ایک کمرے میں بچے کی پیدایش متوقع تھی۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا اور اتفاق یہ ہے کہ جس طرح آج دوہزار انیس میں مئی اور رمضان اکٹھے ہیں اسی طرح انیس سو چھیاسی میں بھی یہ اکٹھے تھے ۔ اس سال سولہ مئی کی رات تراویح کے بعدمجھے یہ پیغام ملا تھا کہ پہلے بچے کے جنم کے لیے ماں کو ہسپتال بھیج دیا گیا ہے چنانچہ میں بھی اس ہسپتال سے تین گھر دور اپنے سسرال کے گھر پہنچ گیا تھا ۔رات کے پچھلے پہریہ خبر ملی تھی کہ اللہ نے بیٹے سے نوازا ہے اورجب ڈاکٹر اپنے کام سے فارغ ہو کر سونے کے لیے اپنے کمرے میں جا چکی تھی تو میں بھی وہاں پہنچاتھا۔مجھے دیکھتے ہی بچے کی ماں کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔ کوئی بھی عورت جس تکلیف اور کرب سے گزر کر اس منزل تک پہنچتی ہے تو ایسی مسکراہٹ اس کا حق بنتا ہے۔ اور پھر یہ ماں تو جس قدر مشقت اور اذیت کے بعد اس مرحلے تک پہنچی تھی اس کا تواور بھی زیادہ حق بنتا تھا کہ وہ ایسی مسکراہٹ سے میرا استقبال کرے۔ ابھی اس کے پاس بیٹھے چند منٹ ہی گزرے تھے کہ اُس نے کہا تھاکہ اُسے واش روم جانا ہے۔ میں نے کہا تھاکہ بہتر ہے کہ تم نہ جاؤ بلکہ اس کا متبادل ذریعہ اختیار کرو لیکن اس نے اصرار کیا تھا کہ اسے تو وہیں جانا ہے ۔ چنانچہ میں نے سہارا دے کر اسے کھڑا کیا تھا ابھی چند ہی قدم اٹھائے تھے کہ اس کا جسم لرزنے لگاتھا او رمیں بڑی مشکل سے اسے تھامے وہاں تک لے گیاتھا لیکن باہر نکلتے ہی اس کا پھولوں سا جسم میری بانہوں میں جھول گیا تھا ۔ میں نے اسے اٹھا کر بیڈ پر لٹایاتھا ۔ میں نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد اور جسم سرد پڑ چکا تھا اور وہ بے ہوش ہو چکی تھی ۔میں جلدی سے بھاگا تھااور اس کی بڑی بہن کو بلا کر لایاتھا اور ہم نے مل کر ڈاکٹر کو جگایاتھا۔ وہ بھی بھاگی چلی آئی تھی۔ اس کے بعد غالباً سولہ انجکشن تھے جوڈاکٹر نے یکے بعد دیگرے اس ماں کو دیے تھے تب جا کر اس کی طبیعت کچھ سنبھلی تھی ۔ بقول ڈاکٹر اگر تھوڑی دیر اور ہو جاتی تو معاملہ ہاتھ سے نکل گیا تھا۔
    آج اس بات کو تقریبا ً تینتیس برس بیت چلے لیکن موت کی دہلیز سے واپسی کے اس منظرکومیں آج تک نہیں بھول پایا۔سوچتا ہوں کہ وہ جس نے بس ایک نظر دیکھا، وہ اس کو نہیں بھول پایا تو وہ جوخود اس مرحلے سے گزری اور جس نے ان لمحات سے قبل بھی کئی گھنٹے ڈیلوری کے ایک نہایت کربناک مرحلے میں گزارے وہ اس وقت کو کیسے بھول سکتی ہے ۔ اور پھر سوچتا ہوں کہ مائیں اپنی جان پر کھیل کر بچوں کو جنم دیتی ہیں لیکن جب یہی بچے بڑے ہو جاتے ہیں اور ماؤں کے برابر کھڑے ہو کر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیتے ہیں تو ماؤں کو جنم دینے کا یہ وقت کتنا یاد آتا ہو گا اور ایسے میں اگر کسی ماں کی آنکھوں سے دو آنسو ٹپک پڑ تے ہوں گے تو عرش الہی کیوں نہ ہل جاتا ہو گا اور پھرجب آنسوؤں کے ان قطروں کو عرش الہی سے پتھر بنا کر اسی بچے کی راہوں میں لڑھکا دیا جاتا ہوگا تو کو ن ہے جس کی راہیں کھوٹی نہ ہو جاتی ہوں گی لیکن پھر سوچتا ہوں کہ آنسوؤں سے بنے ان پتھروں کو کو ن دیکھ سکتا ہو گا شاید صرف وہی جس کے پاس بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت بھی ہو تی ہو گی ۔ 
    سچ کہا ابن عمر ؓ نے کہ جب ان سے کسی نے پوچھا کہ حضرت ، میں نے اپنی بوڑھی ماں کو کاندھوں پر اٹھا کر طواف کروایا ہے ،کیا میں نے ان کی خدمت کا حق ادا کر دیاہے ؟ تو حضرت نے فرمایا تھاکہ بیٹا تیری ماں نے تجھے جنم دیتے ہوئے جو تکلیف اٹھائی یہ طواف تو اس کے عشر عشیر کا بدلہ بھی نہیں بن پایاکجا یہ کہ تو ان کے عمر بھر کے احسانات کاحق ادا کر دے۔