امن کے بعد

مصنف : شینووا

سلسلہ : غیر ملکی ادب

شمارہ : دسمبر2017

اوگبونسل کے اچیبے کا پورا نام البرٹ شینووا لوموگواچیبے ہے۔ان کی پیدائش1930ء میں نائجریا کے شہر اوگیدی میں ہوئی۔ان کے والدین نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا تھا۔شینووانے ابادان یونیورسٹی سے انگریزی، تاریخ اور مذہبیات میں ڈگری حاصل کی۔یونیورسٹی میں ہی اچیبے نے اپنے انگریزی نام البرٹ کو تیاگ دیا اور اپنے روایتی نام شینوواکو اپنا لیا۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کچھ دنوں تک وہ بحیثیت استاد کام کرتے رہے پھر انھوں نے نائجرین براڈکاسٹنگ کمپنی میں نوکری کر لی۔1960میں انہیں وائس آف نائجیریا کے ایکسٹرنل سروس کے ڈائرکٹر کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ان کے پہلے ناول تھنگس فال اپارٹ نے زبردست کامیابی حاصل کی اوراب تک دنیا کی تقریباً 50 زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ان کے دیگر ناولوں نو لانگر ایٹ ایز(1960)، ایرو آف گاڈ (1964) ، اے مین آف دی پیپل (1966) ، اینتھرلز اف دی ساوانا(1987)نے بھی کچھ کم شہرت نہیں پائی۔ان کے افسانوں کا مجموعہ گرلز ایٹ وار کے نام سے شائع ہوکر بے پناہ مقبولیت حاصل کر چکا ہے۔انھوں نے شاعری بھی کی ہے۔ان کے دو شعری مجموعے بوئیر سول برادر (Beware Soul Brother) اور کرسمس ان بیافرا (Christmas in Biafra) کے نام سے منظر عام پر آچکے ہیں۔(خورشید اقبال)
جوناتھن اوِگبواپنے آپ کو بے حد خوش قسمت محسوس کر تا تھا۔ نئے نئے قائم ہونے والے امن کے ان دھندلے دھندلے سے دنوں میں پرانے دوستوں میں ایک دوسرے کو ’’زندگی مبارک ہو‘‘کہہ کر مبارک باد دینے کا چلن تھا133لیکن اس کے لیے یہ محض مبارکبادی کا جملہ نہ تھا، بلکہ بہت کچھ تھا133یہ جملہ اس کے دل کی گہرائیوں میں اترا ہوا تھا۔ جنگ کے آتشیں ماحول سے وہ پانچ بیش بہا چیزیں بچا نے میں کامیاب رہا تھا۔ ان میں سے ایک تھا اس کا اپنا سر، ایک اپنی بیوی ماریا کا سر اور اپنے چار میں سے تین بیٹوں کے سر۔ یہی نہیں اضافی بونس کے طور پر وہ اپنی پرانی سائیکل بھی بچانے میں کامیاب رہا تھا، جس کا بچ جانا ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ بہرحال جو بھی ہو133پانچ انسانی سروں سے تو اس کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اس سائیکل کی بھی اپنی الگ ہی کہانی تھی۔ ان دنوں جنگ زوروں پر تھی،اچانک ایک دن اس سے ’’ضروری فوجی کارروائی‘‘ کے لیے اس کی سائیکل طلب کر لی گئی۔ حالاں کہ سائیکل سے دستبردار ہونا اس کے لیے بہت ہی مشکل امر تھا پھربھی وہ بلا جھجک سائیکل ان کے حوالے کرہی دیتا لیکن نہ جانے کیوں اسے ایسا لگا جیسے وہ اس فوجی افسر سے اپنی سائیکل بچانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ایسا اس لیے نہیں تھا کہ اس فوجی افسر کی وردی بوسیدہ تھی،نہ ہی اس لیے کہ اس کے ایک پیر میں نیلا اور دوسرے پیر میں بھورا کینواس کا جوتا تھا جن سے اس کے پیروں کی انگلیاں جھانک رہی تھیں اور نہ ہی اس لیے کہ اس کے عہدے کو ظاہر کرنے والے دونوں ستارے شاید بڑی جلدی میں بال پین سے بنائے گئے تھے۔ ان دنوں بے شمار اچھے اور بہادر فوجیوں کی حالت ویسی ہی یا اس سے بھی زیادہ خراب تھی۔ وہ تو اس فوجی کے انداز اور لہجے کی کمزوری تھی جس نے اسے ایسا سوچنے پر مجبور کیا تھا۔ اسے لگا جیسے وہ اس فوجی افسر سے اپنی بات منوا سکتا ہے۔ پس جوناتھن نے اپنے رافیا کے ریشوں سے بنے تھیلے میں تلاش کر کے دو پونڈ کے نوٹ نکالے اور اسے دے دیے۔ یہ رقم لے کر وہ جلاون کی لکڑیاں خریدنے نکلا تھا۔ اس کی بیوی ماریایہ لکڑیاں فوجیوں کو فروخت کر کے کچھ آمدنی کر لیتی تھی تاکہ کچھ اضافی خشک مچھلی اور مکئی کی بنی غذا خرید سکے۔ بہر حال وہ اپنی سائیکل بچانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اسی رات اس نے اپنی سائیکل جھاڑیوں کے درمیان کی اسی چھوٹی سی خالی جگہ میں دفن کر دی ، جہاں کیمپ کے دوسرے مردوں کے ساتھ اس کا چھوٹا بیٹا بھی دفن تھا۔ ایک سال بعد جب جنگ ختم ہو ئی اور اس نے زمین کھود کر اسے باہر نکالا تو یہ بالکل صحیح سلامت تھی، بس ذرا سی پام آئل ڈالتے ہی پھر سے قابل استعمال بن گئی۔ ’’خدا کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں‘‘اس نے حیرت سے کہاتھا۔
اس نے سائیکل کا ایک بہتر استعمال ڈھونڈ لیا۔ اس نے اسے ٹیکسی کے بہ طور استعمال کر کے خاصی رقم کمالی۔ وہ فوجیوں اور ان کے اہل خانہ کو قریبی پکی سڑک ،جو وہاں سے چار میل کے فاصلے پر تھی، پہنچا دیتا تھا۔ اس کے لیے وہ عام طور سے چھ پونڈ(بیا فرائی کرنسی ) کرایہ لیتا تھا اور جن لوگوں کے پاس رقم تھی وہ اس کا کچھ حصہ اس طرح خرچ کر کے خوش ہوتے تھے۔ دوہفتوں ہی میں اس نے ایک سو پندرہ پونڈ جمع کر لیے جو اس کے لیے ایک خزانے سے کم نہ تھے۔
پھر ایک دن وہ اپنے شہراینوگو واپس گیاتو وہاں ایک اور معجزہ اس کا منتظر تھا۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ اس نے اپنی آنکھوں کو مل کر دوبارہ دیکھاہاں!وہ اس کے سامنے صحیح سلامت کھڑا تھا۔ لیکن پھر بھی یہ معجزہ اس کے خاندان کے پانچ سَروں کی سلامتی کے مقابلے کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ یہ نیا معجزہ اْوگوئی اْوور سائڈ پر واقع اس کا چھوٹا سا مکان تھا133بے شک !خدا کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں!اس سے صرف دومکان آگے، ایک کنکریٹ کا بنا بہت بڑا اور شاندارمکان ، جو ایک دولتمند ٹھیکے دار نے لڑائی چھڑنے سے چند دنوں قبل ہی بنوایا تھا،آج ملبے کا پہاڑ بنا پڑا تھا،اور وہیں جوناتھن کا جستے کی چادروں سے بنامکان جس کی تعمیر میں مٹی کی کچی اینٹیں بھی استعمال کی گئی تھیں، صحیح سلامت تھا۔ بے شک دروازے اور کھڑکیاں غائب تھیں اور چھت کی پانچ چادریں بھی نہیں تھیں،لیکن یہ کوئی بڑی بات نہ تھی۔ وہ اینوگو بالکل صحیح وقت پر لوٹا تھا اور آس پاس بکھرے ملبے میں سے جستے کی چادریں، لکڑیاں اورکارڈبورڈ کے ٹکڑے چن سکتا تھا،اس سے قبل کہ ہزاروں لوگ اپنی جنگی پناہ گاہوں سے باہرنکل کر آتے اور یہی چیزیں تلاش کر تے پھرتے۔ اس نے ایک مفلوک الحال بڑھئی کو بھی ڈھونڈنکالا جس کے اوزاروں والے تھیلے میں صرف ایک ہتھوڑی، ایک کند آری اور چندزنگ آلود، مڑی تڑی کیلیں ہی باقی بچی تھیں۔ وہ پانچ نائجیریائی شیلینگ یا پچاس بیافرائی پونڈ کے عوض لکڑی، جستے اور کارڈ بورڈ سے ،جو،جوناتھن چن کر لایا تھا، دروازے اور کھڑکیاں بنانے پر راضی ہو گیا۔ جوناتھن نے پونڈ اسے ادا کر دیے اورخوشی سے پاگل اپنے خاندان کے پانچ افراد کے ساتھ مکان میں داخل ہو گیا۔
نئے سرے سے زندگی کی شروعات کرنے کے لیے ،اس کے بچے قریبی فوجی قبرستان سے آم توڑ کر فوجیوں کی بیویوں کو چند سکوں کے عوض فروخت کرنے لگے۔ اس کی بیوی پڑوس کے لوگوں کو فروخت کرنے کے لیے اَکارَا بال (ایک نائجریائی فاسٹ فوڈ ڈِش) بنانے لگی۔ جوناتھن اپنی سائیکل پر آس پاس کے گاؤں سے تازہ تاڑی (تاڑ کی بنی شراب) خرید کر لاتا اور سڑک کے کنارے واقع نل سے،جس میں حال ہی میں پھر سے پانی آنا شروع ہوا تھا، پانی لا کر، تاڑی میں اچھی خاصی مقدار میں ملا تا۔ اس نے فوجیوں اور لڑائی میں زندہ بچ جانے والے خوش نصیب اور دولتمندلوگوں کے لیے ایک شراب خانہ کھول لیا تھا۔
کول کارپوریشن کے آفس میں، جہاں وہ پہلے کان کْن کے طور پرکام کرتا تھا،وہ بار بار جایا کرتا تھا،شروع شروع میں روزانہ، پھر ہر دوسرے دن اورپھرہفتے میں ایک دن، تاکہ اسے نوکری کی بحالی کی کوئی خبر مل سکے۔ آخر کار جو بات اس کی سمجھ میں آئی وہ یہ تھی کہ اس کے مکان کا صحیح سلامت بچ جانا اس سے کہیں زیادہ بڑی خوش بختی تھی ،جتنی وہ سمجھ رہا تھا 133اس کے کچھ ساتھی کان کْن، جنھیں کوئی ٹھکانہ میسر نہیں تھا وہ دن بھر کے انتظار کے بعد،آفس کے درازوں کے باہرہی بورن ویٹا کے ٹن کے ڈبوں میں اپنی استطاعت کے مطابق کوئی کھانے کی چیز پکا لیتے اور وہیں زمین پر سو جاتے۔ انتظار جب بہت طویل ہو گیا اور اس بات کی پھربھی کوئی خبر نہ ملی کہ نوکری کا کیا ہوگا، تو اس نے ہر ہفتے آفس جانے کا اپنا معمول ختم کردیا اور سنجیدگی سے اپنے شراب خانے میں دلچسپی لینے لگا۔لیکن خدا کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں! قسمت اس پر مہربان تھی۔ ٹریژری آفس کے سامنے،تیز دھوپ میں ، پانچ دن تک قطاروں میں لگنے کے بعد، آخر اس نے اپنے ہاتھ میں موجود بیس پونڈ کے نوٹوں کو گنا،جو اسے’ ایکس گریشیا‘ (Ex۔gratia)انعام کے طور پر ملے تھے۔ جب رقم بٹنے لگی تو اس کے اور اس جیسے دوسروں کے لیے یہ سماں کرسمس سے کم نہیں تھا۔ زیادہ ترلوگ اسے ایگ ریشرکہا کرتے تھے کیوں کہ وہ اس کا صحیح تلفظ( ایکس گریشیا) ادا نہیں کر پاتے تھے۔
جیسے ہی پونڈ کے نوٹ اس کی ہتھیلی پر آئے اس نے فوراً سختی سے اپنی مٹھی بند کر لی اور پھر مٹھی کو اپنی پینٹ کی جیب میں ڈال لیا۔ وہ پوری طرح ہوشیار تھا،کیوں کہ ابھی دو دن قبل ہی اس نے ایک آدمی کو اس جم غفیر کے سامنے بری طرح پچھاڑیں کھاتے ہوئے دیکھا تھا۔ بے چارے کو جیسے ہی بیس پونڈ ملے ،ویسے ہی کسی بے رحم جیب کترے نے اس کی جیب سے اڑا لیے تھے۔ اب ایک آدمی جس کے ساتھ اتنا بڑا حادثہ ہو چکا ہو، اسے کوئی الزام دینا کسی طرح مناسب نہ تھا،لیکن پھر بھی لوگ اس آدمی ہی کو اس کی لاپروائی کے لیے کوس رہے تھے، خاص طور سے جب اس نے اپنی جیب کو الٹ کر باہر نکالا تو اس میں ایک اتنا بڑا سوراخ موجود تھا جس میں سے ایک چور کا ہاتھ بڑی آسانی سے اندر جا سکتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ بضد تھا کہ رقم اس جیب میں نہیں دوسری جیب میں تھی، اس نے وہ جیب بھی باہر نکال کر دکھائی جو بالکل ٹھیک تھی133 بہر حال ہر شخص کو محتاط رہنے کی ضرورت تھی۔جلد ہی جوناتھن نے رقم بائیں ہاتھ میں لے کر پینٹ کی بائیں جیب میں ڈال لی، تاکہ ضرورت پڑنے پر، اس کا دایاں ہاتھ مصافحے کے لیے خالی رہے۔ حالاں کہ اس نے اپنی نگاہیں انسانی چہروں سے اوپر ایک ایسے زاویے پر ٹکا رکھیں تھیں کہ اسے یقین تھا کہ گھر پہنچنے تک اسے کسی سے مصافحہ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔
عام طور سے وہ بہت گہری نیند سویا کرتا تھا لیکن اس رات اس نے پاس پڑوس کی ساری آوازوں کو، ایک کے بعد ایک، رات کے سناٹے میں ڈوبتے ہوئے سنا۔ یہاں تک کہ رات کا چوکیدار، جو ہر گھنٹے ،دور کسی دھاتی شے کو بجایا کرتا تھا، وہ بھی شاید ایک کا گھنٹہ بجانے کے بعد کہیں سو گیا تھا۔ جوناتھن یہی سوچتے سوچتے آخر خود بھی نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ ابھی اسے سوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔’’کون دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے؟‘‘ اس کی بیوی نے سر گوشی کی، جو زمین پر اس کی بغل میں لیٹی ہوئی تھی۔’’مجھے پتا نہیں۔ ‘‘ اس نے بھی سر گوشی میں جواب دیا۔دوسری بار ہونے والی دستک زیادہ تیز تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کمزور سا دروازہ گر پڑے گا۔’’کون ہے؟‘‘ اس نے پوچھا، اس کی آواز کپکپا رہی تھی۔’’ہم چور ہیں133 دروازہ کھولو۔ ‘‘ باہر سے جواب ملا اور ساتھ ہی زور دار آواز میں دروازہ پیٹا گیا۔اس کی بیوی ماریا نے سب سے پہلے چیخنا شروع کیا۔ اس کے ساتھ اس کے سبھی بچے بھی چیخنے لگے۔’’چور۔۔چور133پولیس! پڑوسیو ! ہمیں بچاؤ133 چور آئے ہیں133 ہم لٹ جائیں گے 133 ہم بر باد ہو جائیں گے پڑوسیو!تم لوگ سو رہے ہوجاگو133 ہمیں بچاؤ133پولیس133۔ ‘‘
کافی دیر تک وہ لوگ چیختے رہے۔ پھر اچانک خاموش ہو گئے۔ شاید انھوں نے چوروں کو ڈرکر بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ مکمل سناٹا طاری تھا،لیکن بہت کم وقت کے لیے133۔’’چیخنا چلانا ہوگیا؟‘‘باہر سے آواز آئی، ’’ یا ہم بھی تمھاری تھوڑی مدد کر دیں ؟‘‘اورپھر چور خود ہی چیخنے لگے’’ اے لوگو133چور 133 چور133پولیس!133 پڑوسیو !133ہم لٹ جائیں گے 133 ہم بر باد ہو جائیں گے133 ہمیں بچاؤ133پولیس۔ ‘‘
سرغنہ کے علاوہ کم از کم پانچ دوسری آوازیں بھی اس خوفناک کورَس میں شامل تھیں۔جوناتھن اور اس کے خاندان کا خوف سے برا حال تھا۔ ماریا اور اس کے بچے بری طرح بے آوازرو رہے تھے۔ جوناتھن لگاتار کراہے جا رہا تھا۔ اس کے پیر اس کے اپنے بوجھ تلے بری طرح کپکپا رہے تھے۔چوروں کے چیخنے کے بعد کا سناٹا بڑا ڈراؤنا لگ رہا تھا۔ جوناتھن ان کے سرغنہ سے منتیں کرنے لگا کہ وہ اسے بخش دے، اس کے پاس انھیں دینے کے لیے کچھ نہیں۔’’سنومیرے دوست۔ ‘‘ آخر چوروں کے سر غنہ نے کہا، ’’ہم برے نہیں ہیں۔ ہم کسی کو بے کار ستانا نہیں چاہتے۔ مشکلات کا دور ختم ہو گیا ہے۔ لڑائی ختم ہو گئی ہے۔ اب خانہ جنگی پھر نہیں ہوگی۔ اب امن کا دور ہے۔ ہے یا نہیں؟‘‘’’ہاں ہے۔ ‘‘ اس کے ساتھیوں نے ایک ساتھ اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔’’تم مجھ سے کیا چاہتے ہو ؟میں ایک بے حد غریب آدمی ہوں۔ میرے پاس جو کچھ بھی تھا وہ جنگ کی نذر ہو گیا۔ تم میرے پاس کیا لینے آے ہو؟ تمھیں تو ایسے لوگوں کا پتا ہوگا جن کے پاس ابھی بھی دولت ہے۔ ہم لوگ تو133۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے! ہم بھی یہ جانتے ہیں تمھارے پاس بہت زیادہ دولت نہیں،لیکن ہم کیا کریں ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ اس لیے تم یہ کھڑکی کھولو اور ہمیں صرف ایک سو ڈالر دے دو۔ ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔ دوسری صورت میں ہم اندر آئیں گے اور تمھیں مزہ چکھائیں گے۔ ایسے133
ایک آٹومیٹک گن سے ہونے والے فائر کی
زبردست آواز سے ماحول گونج اٹھا۔ ماریا اوربچے ایک بار پھر زور زور سے رونے لگے۔’’اوہ مسّی133 روؤ مت133 اس کی ضرورت نہیں ہے133ہم نے کہا نا کہ ہم شریف چور ہیں133 ہم صرف ایک چھوٹی سی رقم لیں گے اور خاموشی سے یہاں سے چلے جائیں گے133کوئی بے حرمتی نہیں کی جائے گی133 ہمارا وعدہ ہے۔ ‘‘ سرغنہ کی آواز آئی۔’’بالکل صحیح۔ ‘‘بقیہ چوروں کی آوازیں سنائی دیں’’دوستو133‘‘جوناتھن نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’تم نے جو بھی کہا میں نے سنا133میں تمھارا شکریہ ادا کرتا ہوں133اگر میرے پاس ایک سو پونڈ ہوتے تو میں133۔ ‘‘’’دیکھو میرے دوست! تم ہم سے کھیل کھیلنے کی کوشش مت کرو133 اگر ہم غلطی سے تمھارے گھر کے اندر گھس آئے تو پھر اس کے بعد کا کھیل بہت برا ہوگا133۔ ‘‘’’خدا کی قسم جس نے مجھے پیدا کیا۔ تم گھر کے اندر آؤ اور اگر تمھیں ایک سو پونڈ مل جائیں تو میں تم سے کہتا ہوں کہ تم مجھے اور میری بیوی بچوں کو گولی مار دینا۔ میں خدا کی قسم کھاتا ہوں۔ آج میرے پاس اگر کوئی رقم ہے تو وہ ہے صرف بیس پونڈ جو آج ہی ایگ ریشرکے طور پر مجھے ملے ہیں‘‘ جوناتھن گڑگڑایا۔
’’ٹھیک ہے چلوکھڑکی کھولو اور وہ بیس پونڈ میرے حوالے کرو133 ہم اسی میں کام چلا لیں گے۔ ‘‘اچانک باہر سے بہت ساری بھنبھناتی ہوئی آوازیں سنائی دینے لگیں۔
’’ارے جھوٹ بولتا ہے۔ ‘‘’’یہ آدمی جھوٹ بولتا ہے۔ ‘‘’’ہمیں اندر جاکر اچھی طرح تلاشی لینی چاہیے۔ ‘‘’’اس کے پاس زیادہ رقم ہے۔ ‘‘’’خاموش رہو۔ ‘‘سرغنہ کی غراتی ہوئی آواز فائر کے دھماکے کی طرح فضا میں گونج اٹھی اور ساری بھنبھناتی آوازیں یک لخت خاموش ہو گئیں۔’’کیا تم موجود ہو ؟133۔جلد رقم میرے حوالے کرو۔ ‘‘ ’’میں آرہا ہوں۔ ‘‘ جونا تھن جلدی سے بولا۔ اندھیرے میں وہ لکڑی کے ننھے سے صندوق کا تالا کھولنے کی کوشش کر رہا تھا،جسے اس نے اپنے پاس ہی چٹائی پر رکھا ہواتھا۔صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہی اس کے پڑوسی اور
کئی دوسرے لوگ اظہار افسوس کے لیے جمع ہوئے۔ جوناتھن اپنا پانچ گیلن کا ڈرم سائکل کے کیریرسے باندھ رہا تھا اور اس کی بیوی آگ پر چڑھی مٹی کی ہانڈی میں کھولتے ہوئے تیل میں اکارا بالوں کو
الٹ پلٹ رہی تھی اور پسینے میں شرا بور بھی۔ ایک طرف اس کا بڑا بیٹا بیئر کی پرانی بوتلوں سے کل کی بچی تاڑی کو دھو رہا تھا۔
’’میرے خیال میںیہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔ ‘‘ اس نے ہمدردی جتانے والوں سے کہا، اس کی نگاہیں اس رسی پر جمی تھیں جسے وہ باندھ رہا تھا ’’133 ایگ ریشرکیا چیز ہے؟ 133 کیا میں گزشتہ ہفتے تک اس پر منحصر تھا؟133 کیاوہ ان چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے جو میں اس جنگ میں کھو چکا ہوں؟133 میں کہتا ہوں ، اس ایگ ریشر کو چولہے میں جھونکو133 اسے بھی وہیں جانے دو جہاں ہمارا سب کچھ گیا ہے133 خدا کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔ ‘‘

بشکریہ : ترجمہ: خورشید اقبال