آپ وقت ضائع تو نہیں کر رہے؟

مصنف : تقدیس ملک

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مئی 2014

اصلاح و دعوت
آپ وقت ضائع تو نہیں کر رہے؟
 تقدیس ملک

 

 

 

     وقت ایک فنا ہونے والی چیز ہے انسان کو اس کی فراہمی نہایت سست روی اور بہت تھوڑی مقدار میں ہوتی ہے لیکن اس کا استعمال انتہائی زیادہ اور تیز رفتار سے ہوتا ہے۔بظاہر تو یہ مفت میں ملنے والی چیز ہے لیکن حقیقت میں اس کا کوئی مول نہیں یہ شاید دنیا کی واحد چیز ہے جس کو اسٹور کرنا انسان کے بس کی بات نہیں۔یہاں تک کہ اس کومحفوظ کرنے کا ابھی تک کوئی تصور بھی وجود میں نہیں آیا۔یہی وجہ ہے کہ اس کا کوئی نعم البدل نہیں اور نہ ہی کوئی دوسری شے اس کی جگہ لے سکتی ہے۔چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام کرنے کے لیے ہمیں وقت ہی کو استعمال کرنا پڑتا ہے لہذاہمارے لیے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ وقت کو بہتر سے بہتر انداز میں کس طرح گزارا جاسکتا ہے۔اگر آپ ایک بار وقت کا درست استعمال کرنا جان جائیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ زندگی میں بے شمار فوائد حاصل نہ کر سکیں۔مثلاً!۱۔ آپ اپنے لیے پہلے سے زیادہ وقت بچا سکیں گے۔  ۲۔ آپ وقت پر اپنے اہداف حاصل کر سکیں گے۔  ۳۔ آپ پہلے سے کہیں زیادہ سر گرم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی پیشہ وارانہ کارکردگی بھی بڑھا لیں گے۔ ۴۔آپ کو وقت کی تنگی اور کمی کا احساس بھی کم ہوگا۔  ۵۔ آپ ذہنی طور پر زیادہ پر سکون رہیں گے۔     
    یہ تمام چیزیں آپ کو اپنی منزل کی نشاندہی کرنے میں معاونت کریں گی آپ زیادہ محنت،دلجمعی اور لگن سے اپنے اہداف کی طرف بڑھیں گے۔آپ کے لیے کامیابیوں اور مسرتوں کا حصول زیادہ آسان ہو جائے گا۔آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ آپ کا وقت کن سر گرمیوں کے تحت گزرتا ہے؟ایک عام اندازے کے مطابق ایک شہری اپنی زندگی کے ۰۲سال صرف سو کر گزارتا ہے۔۰۱ سال پیسہ کمانے میں صرف کر تا ہے۔۴ سال کھانا کھاتے گزارتا ہے اور ایک ماہ ٹریفک کے اشاروں کی تبدیلی کے انتظار کی نذر کر دیتا ہے۔۸ دن اس کے جوتوں کے تسمے باندھتے اور کھولتے گزرتے ہیں۔تیس دن ٹیلی فون ڈائل کرتے گزارتا ہے اور تقریباً ۳ماہ دانتوں کو برش کرتے صرف ہوتے ہیں جبکہ ایک عام عورت اپنی زندگی کے ۵ سال میک اپ کرنے اور اتارنے میں گزار دیتی ہے اور اس سے بھی زیادہ وقت اس کا اپنی سہیلیوں سے گپ شپ کی نذر ہو جاتا ہے۔ٹائم مینجمنٹ کے ماہرین کے خیال میں زندگی کے ۴مختلف حلقے ہیں جن کے اندر ہم اپنا وقت گزارتے ہیں۔پہلا حلقہ اپنی ذات کا،دوسرا معاشی تگ و دود کا،تیسرا خاندان کا، جبکہ چوتھا حلقہ سماج کا ہے۔ 
    اب ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ کون سا حلقہ ہمارا وقت ضائع کرنے کا باعث ہے۔ماہرین نے انھیں مختلف اقسام میں بیان کیا ہے:پہلی قسم وقت ٹریپ کرنے والوں کی،دوسری وقت ضائع کرنے والوں کی،تیسری وقت چوری کرنے والوں کی،چوتھی وقت پر ڈاکہ ڈالنے والوں کی جبکہ پانچویں اور آخری قسم  وقت کے دشمنوں کی ہے                                                         وقت کو ٹریپ کرنے والے: 
     وقت کو ٹریپ کرنا ایک فن کی طرح ہوتا ہے۔اس میں دوسروں کو دھوکہ دینے کے لیے خود کو کام میں مصروف رہنے کا تاثر دیا جاتا ہے۔بظاہر تو ایسے افراد کام میں مگن دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں انھیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کام نہیں کررہے بلکہ صرف وقت گزاری کررہے ہیں۔  
وقت ضائع کرنے والے:
    اس قسم کے افراد وقت کو بغیر سوچے سمجھے گزار تے ہیں۔ان میں اپنے کاموں کو ترتیب و توازن سے سر انجام دینے کا قطعی کوئی رجحان نہیں ہوتا اور نہ وقت کے درست استعمال کے بارے میں سو چتے ہیں۔انھیں وقت کی قدرو قیمت کا اندازہ کرنے کی کبھی فرصت نہیں ملتی یا تو وہ وقت پر غور کرنے کو درست ہی نہیں سمجھتے۔
وقت چوری کرنے والے:
    اس قسم کے افراد اجازت لیے بغیر دوسروں کی مصروفیات میں مخل ہوتے ہیں۔انھیں آپ کے اور اپنے قیمتی وقت کا احساس نہیں ہوتا۔یہ غیر ضروری فون کالیں کرنا اور طویل گفتگو کرنا دوستی کی آڑ میں اپنا حق سمجھتے ہیں۔
وقت پر ڈاکہ ڈالنے والے:
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ایمر جنسی کی صورت میں دوسروں کا کوئی جواز تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔وہ تعلقات میں بے تکلفی کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسروں کے نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں مجبور کردیتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو جائیں۔انھیں وقت کے ڈاکو کہا جاسکتا ہے۔یہ اپنے عزیزوں اور دوستوں سے اس قسم کے جملے اداکرتے ہیں ”تمھیں میرے ساتھ ہر صورت جانا ہوگا!میں انکار نہ سنوں!تم مجھے انکار کرو گے؟وغیرہ وغیرہ۔“
    ٹائم مینجمنٹ کے ایکسپرٹ کے مطابق ۲۱/ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو وقت کی قدر شناسی سے دور رکھتی ہیں اور اسے وقت کی بہتر منصوبہ بندی نہیں کرنے دیتیں۔جس فرد میں یہ چیزیں ہو گی،اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ وہ شخص وقت کا درست استعمال نہیں کر رہا اور اس کی زندگی عدم توازن کا شکار ہے۔ایسے شخص کو یہ جان لینا چاہیے کہ اسے اپنے طرز زندگی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے بلکہ اسے اپنے معمولات ہر صورت میں بدلنا ہوں گے۔
  ۱۔کسی ضروری کام کو نمٹانے کے لیے وقت نہ مل رہا ہو۔
  ۲۔کسی اہم کام کے بجائے فوری نوعیت کے کام پر زیادہ وقت صرف کرتا ہو۔
  ۳۔کوئی روزانہ دفتر دیر تک رکنے کا عادی ہو۔
  ۴۔کسی کو اپنا پیپر ورک کرنے کے لیے کبھی کبھار ہی وقت ملتا ہو۔
  ۵۔گھر کا کوئی نہ کوئی کام نا مکمل رہنے کا احساس ہوتا رہے۔
  ۶۔کوئی اپنا زیادہ سے زیادہ وقت دوسروں کے کام کرنے میں گزار دیتا ہو۔
  ۷۔کسی کو ہر وقت یہ احساس ہو کہ فلاں کام اس کے بغیر نہیں ہو سکے گا۔
  ۸۔کسی کو بہت ساری میٹنگوں میں شرکت کرنا ضروری ہو۔
  ۹۔ دوسروں کو انکار کرنا جسے نہ آتا ہو۔
  ۰۱۔کسی سے اکثر پوچھتا ہے کہ وہ اپنا وقت کس طرح گزارتاہے۔
  ۱۱۔ہر وقت دباؤ محسوس کرتا ہو،پریشان رہتاہو اور وقت کے انتہائی کم ہونے کا احساس رہتا ہو۔
  ۲۱۔کبھی کبھار ہی وہ اپنا کام وقت پر سر انجام دینے میں کا میاب ہو تا ہو۔
    آپ اپنا جائزہ لیں اور اگر آپ کے ساتھ اس قسم کے معاملات ہیں تو یقیناآپ کو معمولات زندگی میں تبدیلی لاناہوگی۔آپ دیکھیں کہ کونسی ایسی چیز یں ہیں جو وقت کے ضیاع کا سبب بن رہی ہیں پہلے ان کی اپنے تئیں نشاندہی کریں،اس کے لیے درج ذیل سوالنامہ پر غور کریں آپ کو اس سے مزید مدد ملے گی۔
٭کیا آپ اپنا وقت ایسے میں ضائع تو نہیں کرتے جب آپ سو چتے ہیں کہ اس وقت کا م کا موڈ نہیں ہو رہا،اس کو کسی بہتر وقت پر انجام دوں گا؟
 ٭کیا آپ ہمیشہ زیادہ پریشان رہتے ہیں 
٭غیر ضروری کتابو ں کا مطالعہ تونہیں کرتے؟٭کہیں آپ کو بغیر محنت کیے تو بہت کچھ نہیں مل گیا؟٭کیا آپ بہت زیادہ سماجی کارکن ہیں؟٭کسی چیز سے آپ کی بہت زیادہ جذباتی وابستگی تو نہیں؟
٭آپ من موجی قسم کے آدمی تو نہیں ہیں یعنی آپ کا شمار ایسے لو گوں میں تو نہیں ہوتا جو ترنگ میں آکر کا م کرتے ہوں؟٭آپ یہ تو نہیں سوچتے کہ میں بھی اس وقت کا م کروں گاجب دوسرے شروع کریں گے؟٭کبھی آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ وقت ضائع کررہے ہیں؟
٭اگر چندسوالوں کے جواب بھی ”ہاں“میں ہیں تو آپ اپنے معمولات تبدیل کرنے کے لیے تیار ہو جائیے،دوسری صورت میں ہمیشہ الجھن،پریشانی کا شکار رہیں گے۔
 وقت کی منصوبہ بندی کرنے والے ماہرین کے خیال میں وقت کی قدر شناسی اور اس کی اہمیت و افادیت کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ وقت کے ضیاع میں سب سے اہم کردار آپ کا اپنا ہوتا ہے۔دوسرے اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔یہاں تک کہ وقت پر ڈکیتی مارنے والوں کا بھی اتنا قصور نہیں ہوتا۔اس کا موقع آپ انھیں خود دیتے ہیں۔ماحول یا دوسروں کو اس کا موردِالزام ٹھہرانا بھی قطعی درست نہیں آپ چاہیں تو ایسا نظام تشکیل دے سکتے ہیں اور ان عوامل کو دور کر سکتے ہیں جو وقت کے ضیاع کا سبب بنتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنا خود احتساب کریں 
  ٭کیا میں جو کام کر رہا ہوں اسے دوسروں کی مدد کے بغیر زیادہ بہتر،عمدہ اور سلیقہ سے کر سکتا ہوں؟
 ٭میں اپنی ترجیحات اور سر گر میوں کا بہتر طریقے سے تعین کر سکتا ہوں؟٭زیادہ وقت کہاں گزرتا ہے؟٭کون سے ایسے بڑے عوامل ہیں جو میرا وقت ضائع کرنے کا سبب بنتے ہیں اور میں کس طرح ان سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہوں؟٭کون سے ایسے طریقے ہیں جن کے اپنانے سے میری کار کردگی بڑھ سکتی ہے؟    اپنے جوابات کو نوٹ بک میں درج کر لیں نہ کہ سادہ کاغذ پر کیو نکہ اس کے ضائع ہونے کا احتمال رہتا ہے۔اس طرح آپ ان باتوں کو جان جائیں گے جو وقت ضائع کرنے کا باعث ہیں اور ان کے مطابق اپنے طرزِزندگی میں تبدیلی لائیے جو نتائج حاصل ہوتے ہیں انھیں بھی نوٹ کرتے جائیں۔
ممکن ہے کہ کوئی اسے بھی وقت کے ضیاع میں شمار کرنا شروع کر دے لیکن اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔اس کابڑا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ کو اپنی کا میابیوں کی رفتار کا اندازہ ہوتا رہے گا۔پھر جونہی آپ اپنے مطلوبہ معیار کے مطابق وقت کو ترتیب دے لیں،آپ لکھنا بند کر سکتے ہیں۔
    ماہرین زندگی کو بہتر نظم و ضبط کے دائرے میں گزارنے کے لیے مزید مشورے دیتے ہیں:
  ٭زندگی کے بنیادی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے روزانہ کی سر گر میوں کی فہرست تیار کریں۔پھر ان میں سے جو کام ترجیحی نوعیت کے ہوں،ان کی نشاندہی کریں اور دن میں وقتاً فوقتاًفہرست پر نظر ڈالتے رہیں۔٭اگر آپ کسی ادارے کے سر براہ ہیں تو سب سے پہلے خود کو منظم کریں،پھر اپنی ٹیم کو اپنے اصول و ضوابط کے مطابق ڈھا لیں کوشش کریں کہ اپنے ساتھیوں میں فرائض کی ادائیگی کے لیے ذمہ دار انہ سوچ پیدا کی جائے۔سب کو الگ الگ ان کے فرائض اور ذمہ داریوں سے آگاہ کریں تاکہ کوئی یہ بہانہ نہ کر سکے کہ مذکورہ کام کسی اور کے ذمہ ہے۔اپنے اہداف مقرر کریں جس میں دوسرے ساتھیوں کی اعانت کریں۔جہاں تک ممکن ہو سکے ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کریں۔اگر کوئی ساتھی اچھی کار کردگی دکھاتا ہے تو اسے کھلے دل سے سرا ہیں۔٭وقت ضائع کرنے والے عوامل کی شناخت کریں۔اپنے ساتھیوں سے پوچھیں کہ فلاں کام میں مستقل تاخیر ہوتی ہے تو اسے کس طرح دور کیا جاسکتا ہے۔
 ٭خود سے معلوم کریں کہ کون سے وقت میں آپ خود کو ترو تازہ اور سر گرم محسوس کرتے ہیں۔ایسے اوقات میں آپ کی کوشش ہونی چائیے کہ ان اہداف پر کام کریں جو ترجیحی اور لازمی نوعیت کے ہوں 
 ٭سفر اور انتظار کی زحمت صرف اسی وقت اٹھائیں جب آپ کو کوئی بڑا پیشہ وارانہ فائدہ حاصل ہونے کی امید ہو۔٭ٹیلی فون کا استعمال بھی صرف ضروری کاموں کے لیے کریں اور زیادہ طویل گفتگو سے گریز کریں بلکہ معاملات کا جلد از جلد حل نکالنے کی کوشش کریں۔٭آپ دفتر سے گھر جائیں تو دفتری کام اور دیگر سر گرمیاں وہیں پر ختم کردیں،گھر پر کام نہ اٹھاکر لے جائیں۔آپ کے خاندان کا بھی آپ پر حق ہے کہ آپ انھیں وقت دیں اور ان کی سر گرمیوں میں شریک ہوں۔گھر میں آپ کی پوری توجہ صرف گھر کے لیے ہی ہونی چائیے۔٭اگر آپ کو کسی میٹنگ میں شریک ہونا ہو تو معاملات کا ایجنڈا طے کر لیں اور صرف ایجنڈے پر بات کریں اور اس بات کا بر ملا اظہار کر دیں کہ آپ کے پاس بہت کم وقت ہے اور آپ نے اور بھی کئی ضروری کام نمٹانے ہیں۔
٭کھانے کے اوقات مقرر کریں اور کھانے کے دوران کسی بحث طلب مسئلے کو مت چھیڑیں۔٭اگر آپ کسی سے ملاقات کے لیے جانے والے ہوں تو بہتر ہے کہ فون کے ذریعہ پہلے سے اطلاع دیں اور اگر کبھی بغیر اطلاع کے چلے جائیں اور آپ کا مطلوبہ شخص آپ کو دستیاب نہ ہو تو آپ وہاں اپنا پیغام چھوڑ کر جائیں۔ ٭ہمیشہ وقت کی پابندی کریں۔مثال کے طور پر آپ کا ڈیوٹی ٹائم ۹سے ۵ بجے کاہے تو آپ کو ہر صورت ۹ بجے کام شروع کر دینا چاہیے اور ۵ بجے تک ختم کر دیں۔ ٭ہر وقت ہر کام انتہائی اعلی معیار تک پہنچانے کی جستجو میں نہ لگے رہیں۔ عام طور پر ہر کام ایک جیسا معیار اور کوالٹی نہیں رکھتا۔ اگر اچھا صاف ستھرا اور قابل قبول کام ہو گیا ہے تو یہی کافی ہے۔ perfection کی تلاش آپ کا وقت ضائع کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ ٭وقت کی قدر کرنے والے اور وقت ضائع کرنے والے افراد میں صرف اتنا فرق ہے کہ وقت دوست اور قدر شناس کامیاب، مطمئن اور خوش جبکہ وقت ضائع کرنے والے کٹھن اور مشکل زندگی سے دوچار رہتے ہیں۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کون سی زندگی کا انتخاب کرتے ہیں (بشکریہ: معارف فیچر سروس)