میں نے اسلام کیسے قبول کیا؟

مصنف : رام کر شن شرما

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : مئی 2014

من الظلمت الی النور
میں نے اسلام کیسے قبول کیا؟
محمد احمد (رام کرشن شرما)

 

 

سوال : آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیے؟
 جواب :  میں ۱۲/ جنوری ۵۶۹۱ء میں ہریدوار میں ایک پنڈت خاندان میں پیدا ہوا میرے والد ایک بڑے مہنت تھے ان کانام کیشورام شرما جی تھا،میرا نام انھوں نے رام کرشن شرما رکھا، میرے خاندان میں ایک بڑے ہندو مذہب کے بڑے گیانی (بڑے عالم)پنڈت شری رام شرما جی ہوئے ہیں،وہ گایتری سماج کے ایک طرح فاؤنڈر (بانی)تھے،شانتی کنج ہریدوار میں ان کا آشرم تھا،ہندو مذہب سے ذرا واقفیت رکھنے والا ان کا نام ضرور جانتا ہوگا۔مجھے ایک مسلمان عالم نے بتایا کہ شرماجی نے  مولانا شمس نوید عثمانی کے ہاتھ پر کلمہ پڑھ لیا تھا۔مجھے سوفیصد یقین ہے کہ وہ ضرور مسلمان ہوگئے ہوں گے،وہ بہت حق پرست آدمی تھے۔ہمیں تو یہ معلوم ہے کہ انھوں نے مرنے سے پہلے سمادھی لے لی تھی،ان کے مرنے پر لوگوں نے بتایا کہ ان کا پوراجسم نیلا ہو گیا تھا۔مولانا صاحب نے بتایا کہ ان کے شاگردوں نے ان کو زہر دے دیا تھا۔ہمارا خاندان آریہ سماجی رہا ہے شروع کی تعلیم میری ایک سرسوتی اسکول میں ہوئی،بعد میں ہریدوار گروکل میں میں نے داخلہ لیا ہندی سنسکرت بہت اچھی طرح سیکھی ویدوں کو پڑھا بعدمیں دوسال کے لئے اعلی تعلیم کے لئے گروکل میں رہا۔ میں نے پورے گروکل کو ٹاپ کیا اس کے بعد دہلی کے قریب بوپورہ گروکل میں سنسکرت کا استاذہوگیا۔ میرے مضامین شانتی کنج کی میگزینوں اور دیش کی دوسری مذہبی میگزینوں میں شائع ہوئے۔
  سوال : اپنے قبول اسلام کے بارے میں ذرا بتائیے؟
 جواب : میں دہلی گروکل میں پڑھا رہا تھا وہاں پردو مسلمان شدھی  ہو کر آئے۔ ان میں سے ایک سہارنپور ضلع کا بدنصیب اور بد بخت جوان تھاجس نے اپنا نام محمد طیب کی جگہ شیوپرشاد رکھا تھا،وہ دارالعلوم دیوبند سے دوسال قرأت کا کورس کرکے اپنے کو پہلے محمد طیب قاسمی لکھا کر تا تھا اور دوسرا بہار کا ایک مزدور، جاہل، ادھیڑ عمر کا آدمی جو جاوید اختر سے دیانند بنا تھا۔ایک نوجوان مولانا جن کا نام شمس الدین ندوی تھا، لکھنؤ سے پڑھے ہوئے تھے ان کو کسی نے ان دونوں کے مرتدہونے کے بارے میں بتایا۔ وہ سونی پت حضرت مولانا کلیم صاحب کے پاس گئے، مولانا صاحب نے گروکل جاکر ان کو سمجھانے کے لئے کہا اور بڑی فکر مندی کا اظہار کیا۔ دوتین دفعہ وہ ہمارے یہاں آئے، میں نے ان کو بار بار آتے دیکھا، تو شیو پرشاد سے وجہ معلوم کی،اس نے مجھ سے کہا یہ مجھے واپس مسلمان بننے کے لئے کہہ رہے ہیں،آپ ان سے بات کر لیں اور اسلام میں توکچھ ہے نہیں، میں نے ان کو بلایا ہے آپ ان سے بات کریں تو اچھا ہے،یہ بھی ہندو ہو سکتے ہیں، اگر یہ ہندو ہو گئے تو بہت کام کے ہندو ثابت ہو ں گے۔
احمد بھائی جب بھی میں اس کمینے بدبخت شیوپرشادسے بات کرتا تو وہ ہمارے پیارے نبی، کروڑوں درود وسلام ہوں آپ پر اور اللہ کی رحمتیں، بہت ہی برے الزامات لگاتا تھا خاص کر ان کے پریوارک جیون (معاشرتی زندگی)کے بارے میں بڑی گھناؤنی باتیں کرتا تھا۔ اصل بات یہ ہے احمد بھائی،یہ باتیں مجھے اس وقت بھی بری لگتی تھیں،ایک ہفتہ کے بعد شمس الدین صاحب آئے معلوم ہو ا کہ وہ تو مولوی ہیں، ان سے میں نے بات کی تو انھوں نے حضرت مولانا کلیم صاحب سے ملنے کا مشورہ دیا اور بڑی نرمی سے کہا کہ وہ ہمارے بڑے ہیں اور بڑے حق پرست آدمی ہیں آپ ان کو اگر سمجھا سکیں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں، اس طرح انھوں نے کوشش کرکے میری ملاقات ان سے امرتسرہائی وے پر رسوئی گاؤں کی مسجد میں طئے کرائی۔میں اپنے ایک دو ساتھیوں کو لے کر وہاں پہنچا مولاناصاحب بہت اخلاق سے ملے اور جب میں نے ان کو ویدک دھرم میں آ نے کی دعوت دی اور ان سے کہا ویدک دھرم سب سے بڑا مذہب ہے اور ہمارے پوروجوں یعنی بڑوں کا مذہب ہے، اگر ہمارے لئے مالک کو اسلام پسند ہوتا تو ہمیں بھارت میں پیدا نہ کرتے۔ یہاں کے حالات کے لحاظ سے وید ک مذہب ہی مناسب ہے اور پھر میں نے شیو پرشاد سے پیارے نبی کی شان میں جو باتیں سنی تھیں ان میں سے کچھ دوہرائیں۔ مولانا صاحب نے گاڑی میں سے اپنا بیگ منگوایا اور چھوٹی سی کتاب ہندی میں ”اسلام کے پیغمبر حضرت محمد“(ﷺ) پروفیسر کے ایس راما راؤ کی نکال کر مجھے دی اور مجھے بتایا کہ یہ ایک ہندو بھائی کی لکھی ہوئی کتاب ہے میری درخواست ہے کہ آپ اس کو پڑھیں، بس اتنی سی بات ہے کہ آپ اسلام اور مسلمانوں کے پیغمبر سمجھ کر اس کو نہ پڑھیں، حضرت محمد ﷺ کے فرمان حدیث اور قرآن میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ملتا جس سے یہ معلوم ہو تا ہو کہ حضرت محمد ﷺ مسلمانوں کے پیغمبر ہیں بلکہ وہ پوری انسانیت کے لئے اللہ کے انتم سندیشٹا(آخری رسول)ہیں۔
 آپ جب اس کتاب کو دو تین بار پڑھ لیں پھر آپ کے پاس میں خود ملنے گروکل آشرم میں آؤں گا۔ مولانا صاحب کو ایک سفر کی جلدی تھی آدھا گھنٹہ کی ملاقات کے بعد میں چلاآیا۔ میں نے آکر اس کتاب کو پڑھا ایک دفعہ کتاب کو پڑھ کر مجھے ایسا لگا کہ حضرت محمد ﷺ پوری انسانیت کے نہیں بلکہ صرف میرے رسول ہیں مگر گروکل کا ماحول اورمیرا خاندان اوراس کی ہندو مذہب کے لئے عقیدت مجھے جھنجھوڑنے لگی،میں نے اس کتاب کو چھت پر پھینک دیا اور پھر حضرت محمد ﷺ پر جو مخالفت میں لکھی گھی کتابیں ہیں ان کو پڑھنے کا خیال ہوا، تاکہ جو محبت اس کتاب کی وجہ سے ہمارے نبی ﷺ سے مجھے ہو گئی تھی ا س کا جادو کچھ ختم ہو۔ میں نے شیو پرشاد سے مشورہ کیا، اس نے کہا کہ غیر مسلموں کی کتابوں کی ضرورت نہیں بلکہ خود بعض نام نہاد مسلمانوں نے ان کے خلاف کتابیں لکھی ہیں اور تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی کی کتابوں کا ذکر کیا۔ میں نے اس سے کتابیں لانے کے لئے کہا،وہ دہلی گیا، نہ جانے کسی سے ان دونوں کی چار کتابیں لا کر دیں۔ میں نے ان چاروں کتابوں کو پڑھا، مگر راما کرشنا راؤ کی چھوٹی سی کتاب جو سچائی سے بھری تھی، اس نے جو اثر مجھ پر چھوڑا تھا ان چار نفرت اور جھوٹ سے بھری ہوئی کتابوں نے اس کا اثر کچھ کم نہیں کیا،بلکہ پیارے نبی کے کردار کی سچائی مجھے اور دکھا ئی دینے لگی اور میرے دل میں یہ خیال آیا کہ تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی خدا کی طرف سے دھتکارے ہوئے لوگ ہیں،جن پر بدبختی کی مار پڑی ہے کہ انھوں نے اپنے قلم کو ایسے عظیم محسن کے خلاف استعمال کیا ہے۔ ایک رات میں سویا تو میں نے اپنے دادا جن کو ہم ہندوستان کی زبان میں دیوتا سے کم نہیں سمجھتے، پنڈت سری رام شرما جی کو خواب میں دیکھا بولے پیارے بیٹے تو کہاں بھٹک گیا ہے، حضرت محمد ﷺ ہمارے وہ نراشنش ہی تو ہیں جن کو کلکی  اوتار بھی کہا گیاہے،  ان کو ماننے اور ان کی مانے بنا مکتی (نجات)ہو ہی نہیں سکتی،میری مکتی بھی ان کاکلمہ پڑھ کر ہی ہوئی ہے،دھوکہ چھوڑ دے، مولانا کلیم کے پاس جا اور حضرت محمد ﷺ کا کلمہ پڑھ لے اور جلدی کر، دیر مت کر۔

 

 

میری آنکھ کھلی تو میرے دل کا حال عجیب تھا،پیارے نبی ﷺ کی محبت میں میں مجنوں ہوا جاتا تھا۔اپنی تسکین کے لئے اس کتاب کو دوبارہ پڑھنے کے لئے صبح چا ربجے میں چھت پر چڑھا، رات میں ہلکی بارش ہو گئی تھی،وہ کتاب بالکل بھیگ گئی تھی۔ میں نے اس کو اٹھا یا، آنکھو ں سے لگایا، چوما،نیچے اترا،کچھ کاغذ جلائے کتاب کو سکھایا اور پڑھنا شروع کیا، مجھے بہت رونا آیا،کچھ دیر رک کر روتا رہا، روتے روتے سو گیا تو میں نے خواب میں حضرت مولانا کلیم صاحب کودیکھا، کہہ رہے ہیں پنڈت رام کرشن جی چلئے آپ کو آپ کے رسول ﷺ سے ملوادوں،میں نے کہا، میں اسی لئے آپ کے پاس آیا ہوں،وہ مجھے لے کر ایک مسجد میں گئے، وہاں تکیہ لگائے ہمارے پیارے نبی ﷺتشریف فرما تھے،اتنا خوبصورت چہرہ احمد بھائی میں بیان نہیں کرسکتا۔کیسا حلیہ تھا،میں جاکر قدموں سے چمٹ گیا،آپ نے مجھے بیٹھے بیٹھے گلے لگایا اور کچھ پیار بھرے الفاظ فرمائے،جو مجھے یاد نہیں رہے۔میری آنکھ کھل گئی، صبح ہوئی تو میں نے پھلت جا نے کی سوچی،مجھے پتہ معلوم نہیں تھا،پہلے میں سونی پت عید گاہ گیا،وہاں ایک ماسٹر صاحب نے مجھے پھلت کا پتہ بتایا،شام تک پھلت پہنچا مولانا صاحب موجود نہیں وہاں مجھے ایک صاحب ماسٹر اسلام نامی نے، جو خود گڑھ مکتیشور کے اودھت آشرم چلانے والے مہاراج کے بیٹے تھے، ان کے والدکا بھی مسلمان ہوکر گڑھ مکتیشور چھوڑ کر پھلت میں انتقال ہواتھا،”آپ کی امانت آپ کی سیوا میں“ کتاب دی، جو میں نے کئی بار پڑھی، تیسرے روز ۴۰۰۲ء کی بیس اپریل تھی، مولانا صاحب دوپہر کے بعد آگئے آپ کی امانت نے مجھے مسلمان تو کر ہی دیا تھا،مولانا صاحب نے مجھے کلمہ پڑھوایا، میں نے مولانا صاحب سے کہا،کیا کوئی مسلمان پیارے نبی کے نام پر بھی اپنا نام رکھ سکتا ہے،مولانا صاحب نے کہا ضرور! آپ کانام میں محمد احمد ہی رکھتا ہوں۔
  سوال :   اس کے بعد کیا ہوا ؟
 جواب : مولانا صاحب نے مجھے قبول اسلام کی قانونی کارروائی پوری کرنے کا مشورہ دیا،اس کے بعد مجھے ۰۴/روز کی جماعت میں مرکز سے بھیج دیا۔ میرا چلہ بھوپال میں لگا الحمد للہ نماز وغیرہ میں نے یاد کر لی، ایک چلہ میں دس بار مجھے پیارے نبی ﷺ کی زیارت ہو ئی۔
  سوال : گروکل آشرم والوں نے آپ کو تلاش نہیں کیا؟
 جواب :  انھوں نے مجھے تلاش کیا ہوگا،مگر مولانا صاحب نے  جماعت سے آنے کے بعدگروکل جاکر کام کرنے کا مشورہ دیا میں نے شیو پرشاد کو واپس اسلام کی طرف لانے کی کوشش کی،مگر سچی بات یہ ہے احمد بھائی،پوری دنیا میں (دھڑدھڑی لیتے ہوئے) اس کمینہ جیسا بدبخت آدمی کو ئی نہیں ملا،اس کا نام مجھے تڑپائے رہتا ہے،میرا حال اب یہ ہے کہ جس کو میرے نبی ﷺ سے محبت نہ ہو میں اس کو خود اللہ کا دشمن سمجھتا ہوں،ہمارے نبی کی شان میں گستاخی کرنے والے پر تو میں اللہ کا قہر سمجھتا ہوں اورجس طرح عذاب کی جگہ سے ہمارے نبی  ﷺنے تیزی سے گزرنے حکم دیا ہے،اسی طرح سے ایسے آدمی کے پاس جانا بھی خطرہ کی بات سمجھتا ہوں۔
  سوال : آپ نے اس پر کام نہیں کیا؟
 جواب :  اصل میں میں نے اس کی تہ میں جانے کی کوشش کی کہ اللہ کا عذاب اس پر کیوں آیا، تو پتہ چلا کہ اصل میں اس نے اپنی ماں کو بہت ستایا تھا،ایک بار اس نے اپنی ماں کو ایک لات بھی ماری تھی،اس کی سزا میں اللہ نے دنیا میں اس کو بدبخت بنایا اور پیارے نبی کی اہانت کی سزا میں میں نے اس کو دیکھا کہ کتے کی موت مرا۔گروکل آشرم والوں نے اس کا کریا کرم کرنے سے منع کر دیا،اس کو پولیس والے پاؤں میں رسی ڈال کر گھسیٹ کر لے گئے اور ایک گندے نالے میں ڈال کر کوڑے میں دبا دیا۔مجھے اس سے تسلی ہوئی کچھ غم نہیں ہوا،میرے دل میں پیارے نبی کی شان میں بے ادبی کرنے والے کے لئے کوئی ترس کی جگہ بھی نہیں ہے،میں اپنے اندر سے مجبور ہوں۔
  سوال :  گروکل آشرم کے لوگوں نے آپ کو اس حلیہ میں دیکھ کر مخالفت نہیں کی؟
 جواب : میں نے جماعت میں سے آکر حضرت مولانا کے ہاتھوں پر بیعت کی اور حضرت مولانا صاحب کے مشورہ سے اسوہ رسول اکرم ﷺ اور شمائل ترمذی خریدی،الحمد للہ اپنی بساط بھر سنتوں پر عمل شروع کیا۔عمامہ،بال ہر چیز میں نبی ﷺ کی پیروی کی کوشش کی،اس حلیہ میں جہاں تک گیا میری عزت ہوئی،آج تک چار سال ہونے والے ہیں،کسی نے مجھے اس حلیہ میں بے ادبی کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔
  سوال : آپ پچھلے سال عمرہ کے لئے گئے تھے،وہاں کا سفر کیسا رہا؟
 جواب : مجھے ہمارے نبیﷺ کی یاد بہت بہت ستاتی تھی،مدینہ کی یاد بہت آتی تھی۔ الحمد للہ میں نے اردو پڑھی، کچھ عربی بھی پڑھی، قرآن مجید کے ترجمہ کی کلاسیں بھی میں نے ناگپور جاکر کیں،اب میں سیرت پاک کی کتابیں پڑھتا ہوں،الحمد للہ سو سے زیادہ کتابیں سیرت پاک کی پڑھ چکا ہوں، جیسے جیسے مدینہ کی باتیں میں پڑھتا،مدینہ کی یاد مجھے بہت آتی۔ایک روز میں نے رات کو تہجد میں بہت دعا کی،میرے اللہ کے قربان جاؤں میرے اللہ نے سن لی۔اللہ نے اپنے فضل سے مجھے بغیر پاسپورٹ اور بغیر ویزا بلکہ بغیر جہاز کے میرے حضرت کی برکت سے مجھے مدینہ پہنچایا اور مکہ معظمہ میں عمرہ بھی کیا۔
  سوال : وہ کس طرح، ایساکس طرح ممکن ہے؟
 جواب :  جہاز،پاسپورٹ بھی اسباب ہیں جو اللہ پیدا فرماتے ہیں،اللہ تعالی ایک سبب کے پابند تو ہیں نہیں،وہ بغیر اسباب کے کرنے پر قادر ہیں۔ جہاز اور گاڑیوں کے علاوہ بھی اللہ نے بہت سی چلنے والی چیزیں پیدا کی ہیں،کیا وہ کسی دوسرے سبب کو ذریعہ نہیں بنا سکتا؟
  سوال : وہ کیا سبب تھا ہمیں بھی تو بتائیں؟
 جواب :  احمد بھائی ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔
  سوال : اچھا وہاں کی کچھ باتیں تو بتائیں؟
 جواب :  وہاں میں ایک مہینہ رہا۔میں نے دو عمرے مدینہ منورہ سے کئے اور سات مکہ معظمہ سے۔مدینہ منورہ میں میں نے بہت ہی اللہ کی رحمتوں کاظہور دیکھا، میرے اللہ نے مجھ گندے پر نبی ﷺ کی محبت کی برکتیں ظاہر کیں۔
  سوال : ان میں سے کچھ سنائیے؟
 جواب :  وہ کسی دوسری مجلس میں انشاء اللہ عرض کروں گا۔
  سوال :  آج کل آپ کہاں رہ رہے ہیں؟
 جواب : میں آج کل بنارس میں رہ رہا ہوں، وہاں سے دعوت کے لئے ہریدوار، رشی کیش، اجین،پشکر،الہ آباد،ایودھیا وغیرہ تیرتھوں میں جاتا ہوں۔
  سوال  : وہاں پر کچھ نتائج بھی آئے ہیں؟ کیاکچھ لوگوں کو ہدایت بھی ہوئی ہے؟
 جواب :  الحمد للہ بہت اچھے نتائج برآمد ہو رہے ہیں،انشاء اللہ جب وہ سامنے آئیں گے تو ہر مسلمان فخر کرے گا، میرے اللہ کا کرم ہے کہ مجھ گندے کو کہاں سے نکال کر کہاں لائے ہیں۔
  سوال :   آپ نے شادی کرلی ہے ؟
 جواب :  اصل میں اسلام قبول کرنے سے پہلے میرا شادی کا خیال نہیں تھا اور اسلام کے بعد مجھے خاندانی ذمہ داریوں کا بوجھ مشکل لگتا تھا،مگر دو مہینے پہلے مولانا صاحب سے ملنے آیا تھاتو انھوں نے مجھ سے شادی کرنے کے لئے کہا اور حدیث پاک سنائی۔ حدیث پاک سن کر میں بہت تڑپ گیا، میں نے حضرت سے کہا کہ اب میں حاضر ہوں چاہے میری آج اور ابھی شادی کر دیں۔ اب مولانا صاحب جلد انشاء اللہ اس سلسلہ میں کچھ کرنے والے ہیں، دعا کیجئے کہ کوئی نیک ساتھی مل جائے اور میں اپنی اس زندگی کو بھی سنت کے مطابق گزار سکوں۔
  سوال : آج کل سب سے زیادہ وقت آپ کہاں لگا رہے ہیں؟
 جواب :  اصل میں مجھے یہ خیال ہوا کہ اللہ کے نبی  ﷺ کی سب سے بڑی سنت دعوت ہے،اس کے لئے آپ قرآن مجید پڑھ کر سناتے تھے اور آپ حافظ قرآن تھے تو مجھے خیال ہوا کہ ہمارے نبی  ﷺ کی اس سنت سے میں محروم کیوں رہوں؟ جب کہ میرے اللہ نے مجھے اتنا اچھا ذہن دیا ہے۔ اس لئے میں نے حفظ شروع کیا، اللہ کا شکر ہے کہ تین مہینے میں سولہ پارے حفظ کر لئے ہیں، اب مجھے بس قرآن مجید حفظ کر نے کی دھن ہے اس لئے سب سے زیادہ وقت میں قرآن مجید حفظ کرنے میں لگارہا ہوں۔ 
  سوال   بہت بہت شکریہ! آپ کی گاڑی کا وقت ہو رہا ہے، کاشی سے آپ جانے والے ہیں،
 جواب  :  جی ہاں! انشاء اللہ پھر کسی دوسری ملاقات پر بات ہوگی۔(مستفاد از ماہنامہ ارمغان،مارچ  ۸۰۰۲؁ء)