سوال و جواب

مصنف : مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : مئی 2014

عورت کو مار پیٹ کرنے والے پڑھے لکھے پاگل کے متعلق شرعی حکم
س-85 ایک آدمی پڑھا لکھا ہے، اسلامیات میں ایم اے کیا ہوا ہے، بیوی کو کوئی عزت نہیں دیتا، بیوی پر طرح طرح کے الزامات لگاتا ہے، ہر کام میں نقص نکالتا ہے، ہر نقصان کا ذمہ دار بیوی کو ٹھہراتا ہے، گندی گندی گالیاں بکتا ہے، بیوی کی پاک دامنی پر الزامات لگاتا ہے، بیوی کے رشتہ داروں کی پاک دامنی پر بھی الزامات لگاتا ہے، بیوی کو اس کے رشہ داروں کے گھر جانے نہیں دیتا۔ بیوی کا دِل اگر چاہتا ہے کہ وہ بھی اپنے میکے میں کہیں جائے تو ڈَر کی وجہ سے اجازت طلب نہیں کرتی، کیونکہ شوہر اس کے گھر والوں کا نام سنتے ہی آگ بگولہ ہوجاتا ہے اور چِلَّا چِلَّاکر اس کے گھر والوں کو گندی گندی گالیاں بکتا ہے، بیوی بے چاری مہینوں مہینوں اپنے گھر والوں کی صورت کو بھی ترس جاتی ہے، بے بس ہے، جب زیادہ یاد آتی ہے تو چپکے چپکے رو لیتی ہے، اور صبر و شکر کرکے خاموش ہوجاتی ہے۔ بیوی کے گھر والے اگر بلائیں تو (شوہر جو کہ شکی مزاج ہے) بیوی اور اس کے میکے والوں پر گندے گندے الزامات لگاتا ہے۔ زیادہ غصہ آئے تو چہرے پر تھپڑوں کی بھرمار کردیتا ہے۔کچھ عرصے کی بات ہے کہ شوہر نے اپنی بیوی کو گالیاں دیں اور بہت سے مردوں کے نام لے کر اس کی پاک دامنی پر الزام لگایا، یہاں تک کہ بیوی کے بھانجوں اور بھتیجوں تک کے ساتھ الزام لگانے سے باز نہ آیا، اس کے میکے والوں پر بھی گندے گندے الزامات لگائے، تین چار روز بعد بیوی سے کہا کہ: مجھے معاف کردو بیوی نے کہا کہ: ’’اب تو میں کبھی بھی معاف نہیں کروں گی، کیونکہ آپ ہر بار معافی مانگنے کے بعد بھی یہی کرتے ہیں لیکن شوہر بارہا معافی مانگتا رہا اور اس نے یہاں تک وعدہ کیا کہ: ‘‘دیکھو میں کعبۃ اللہ کی طرف ہاتھ اْٹھاکر حلفیہ تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ اب میں کبھی بھی تم پر اور تمہارے گھر والوں پر کوئی الزام نہیں لگاؤں گا’’ بیوی نے معاف کردیا، مگر ابھی اس معافی کو بمشکل دو ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ شوہر صاحب پھر وعدہ بھلاکر اپنی پْرانی رَوِش پر اْتر آئے، اب تو بیوی بالکل بھی معاف نہیں کرتی، شوہر جب بھی اس کی پاک دامنی پر الزامات لگاتا ہے تو بیوی چار بار آسمان کی طرف اْنگلی اْٹھاکر چار گواہوں کی طرف سے اللہ کو گواہ بناتی ہے اور پانچویں بار اللہ کو گواہ بناکر اپنی پاک دامنی پر لگائے ہوئے الزامات کا بدلہ اللہ کو سونپ دیتی ہے، کیونکہ کہتے ہیں کہ عورت کی پاک دامنی پر الزام کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے الزام لگانے والے پر ۸۰ دْرّوں کی سزا رکھی ہے، اب بیوی اپنے شوہر کی ہر بات صبر اور شکر سے سنتی ہے، اور خاموش رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو کہتی ہے کہ: ‘‘اے اللہ! تو ہی انصاف سے میرے ساتھ کی جانے والی تمام حق تلفیوں کا بدلہ دْنیا اور آخرت میں لے لینا’’ مولانا صاحب ایسے مرد کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

ج-85 اس شخص کے جو حالات آپ نے لکھے ہیں، ان کے نفسیاتی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص ‘‘پڑھا لکھا پاگل’’ ہے، گالیاں بکنا، تہمتیں دھرنا، مارپیٹ کرنا، وعدوں سے پھرجانا، اور قسمیں کھاکھاکر توڑ دینا، کسی شریف آدمی کا کام نہیں ہوسکتا۔ جو شخص کسی پاک دامن پر بدکاری کا الزام لگائے اور اس پر چار گواہ پیش نہ کرسکے، اس کی سزا قرآنِ کریم نے ۸۰ دْرّے تجویز فرمائی ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بڑے کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے، اور جو شخص اپنی بیوی پر تہمت لگائے، بیوی اس کے خلاف عدالت میں لعان کا دعویٰ کرسکتی ہے، نکاح ختم کرنے کا دعویٰ کرسکتی ہے، جس کی تفصیل یہاں ذکر کرنا غیرضروری ہے۔ اب اگر آپ اپنا معاملہ یوم الحساب پر چھوڑتی ہیں تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آپ کو ان تمام زیادتیوں کا بدلہ دِلائیں گے، اور اگر آپ دْنیا میں اس کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہیں تو آپ کو عدالت سے رْجوع کرنا ہوگا کہ مظلوم لوگوں کے حقوق دِلانا عدالت کا فرض ہے۔ اس کے علاوہ آپ یہ بھی کرسکتی ہیں کہ دو چار شریف آدمیوں کو درمیان میں ڈال کر اس سے طلاق لے لیں اور کسی دْوسری جگہ عقد کرکے باعزت زندگی بسر کریں۔ حضور ؐ نے فرمایا ‘‘خیرکم خیرکم لاھلہ وانا خیرکم لاھلی۔’’(مشکوٰۃ ص:۱۸۲)
‘‘تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے سب سے اچھا ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے لئے تم سب سے بڑھ کر اچھا ہوں۔’’
 لڑکیوں سے قطع تعلق اور حصے سے محروم کرنا

()

ج- بیٹیوں سے قطع تعلق؟ توبہ کیجئے! یہ سخت گناہ ہے، اسی طرح ان کو جائیداد سے محروم کرنے کی خواہش بھی سخت گناہ ہے۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کو وارث بنایا ہے، بیوی کے اصرار پر اس کو محروم کرنے کی کوشش کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو بیوی خدا اور رسول سے زیادہ عزیز ہے۔

()

ج-عورتوں کی معاش کا ذمہ دار مردوں کو بنایا گیا ہے، مگر عورتوں نے یہ بوجھ خود اْٹھانا شروع کردیاہے ۔ جب عورت اپنی خوشی سے کماکر لاتی ہے تومردوں کے لئے کیوں حلال نہیں؟البتہ عورتوں کو کمانے پر مجبور نہیں کیاجا سکتا۔

()

ج- اگر زیور بیوی کی ملکیت ہے تو وہ جس طرح چاہے اور جہاں چاہے خیرات کرسکتی ہے، شوہر کا اس پر کوئی حق نہیں۔ لیکن حدیثِ پاک میں ہے کہ عورت کے لئے بہتر صدقہ یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر اور بال بچوں پر خرچ کرے۔ اس لئے میں اس نیک بی بی کو جو پندرہ سو روپے خرچ کرنا چاہتی ہے، مشورہ دْوں گا کہ وہ اپنے زیور سے اپنے شوہر کا قرضہ ادا کردے، اس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوجائیں گے اور اس کو جنت میں بہترین زیور عطا کریں گے۔

()

ج- حضرت خدیجہ والی بات صحیح ہے آج بھی یہ بات برائی نہیں لیکن اس کی صورت یہ ہے کہ خود یا اپنی سہیلیوں کے ذریعے اپنی والدہ تک اپنی خواہش پہنچادے، اور یہ بھی کہہ دے کہ میں کسی بے دِین سے شادی کرنے کے بجائے شادی نہ کرنے کو ترجیح دْوں گی، اور اللہ تعالیٰ سے دْعا بھی کرتی رہے۔

()

اسلامی اَحکامات میں والدین کی نافرمانی کس حد تک؟
س-85 آج کل کے ماحول میں اگر اسلامی تعلیمات پر کوئی شخص پوری طرح عمل کرنا چاہے تو باقی دْنیا اس کے پیچھے پڑجاتی ہے، اور اگر وہ شخص اپنی ہمت اور قوّتِ برداشت سے ان کا مقابلہ کر بھی لیتا ہے تو اس کے گھر والے خصوصاً والدین اس کے راستے میں سب سے بڑی رْکاوٹ بن جاتے ہیں۔ مثلاً: میں کئی لوگوں کو جانتا ہوں جنھوں نے اپنے ماں باپ کی وجہ سے تنگ آکر اپنی داڑھیاں تک کٹوادیں، اور اگر والدین کو سمجھاؤ تو کہتے ہیں کہ:‘‘اسلام میں تو باپ اور ماں کا بہت مقام ہے، ماں کی اجازت کے بغیر جہاد پر بھی نہیں جاسکتے، لہٰذا کوئی عمل بھی ہماری مرضی اور اجازت کے بغیر نہیں کرسکتا۔’’ خصوصاً جب کوئی شخص اپنا لباس اور چہرہ سنت کے مطابق بنالیتا ہے تو پھر اس کے گھر والے اس کا جینا حرام کردیتے ہیں، یا کوئی شخص ٹی وی دیکھنا چھوڑ دے، گانے سننا چھوڑ دے، بینک میں نوکری نہ کرے، نامحرَم سے بات چیت نہ کرے، اور حتی الامکان اپنے آپ کو منکرات سے بچائے تو والدین کہتے ہیں کہ: ’’جناب! یہ کونسا اسلام ہے کہ آدمی باقی دْنیا سے الگ تھلگ ہوکر بیٹھ جائے‘‘ اسلام کے اندر کیا حدود ہیں، کسی سنت کو اگر والدین منع کریں تو ہم اس کو چھوڑ دیں؟

ج-85 یہ اْصول سمجھ لینا چاہئے کہ جس کام میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو، اس میں کسی کی اطاعت جائز نہیں۔ نہ ماں باپ کی، نہ پیر اور اْستاد کی، نہ کسی حاکم کی۔ 
والدین کے کہنے سے ٹی وی دیکھنا، گانے سننا اور نامحرَموں سے ملنا بھی حرام ہے، جب ان گناہوں پر قہرِ اِلٰہی نازل ہوگا تو نہ والدین بچاسکیں گے اور نہ عزیز و اقارب اور دوست احباب۔
والدین کا بڑا درجہ ہے اور ان کی فرمانبرداری اولاد پر فرض ہے، مگر اس شرط کے ساتھ کہ والدین کسی جائز کام کا حکم کریں، لیکن اگر بگڑے ہوئے والدین اپنی اولاد کو جہنم کا ایندھن بنانے کے لئے گناہوں کا حکم کریں تو ان کی فرمانبرداری فرض کیا، جائز بھی نہیں، بلکہ ایسی صورت میں ان کی نافرمانی فرض ہے۔ ظاہر ہے کہ والدین کا حق اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر نہیں۔ اور یہ دلیل جو پیش کی گئی کہ والدین کی اجازت کے بغیر جہاد پر جانا بھی جائز نہیں، یہ دلیل غلط ہے، اس لئے کہ یہ تو شریعت کا حکم ہے کہ اگر جہاد فرضِ عین نہ ہو اور والدین خدمت کے محتاج ہوں تو والدین کی خدمت کو فرضِ کفایہ سے مقدّم سمجھا جائے، اس سے یہ اْصول کیسے نکل آیا کہ والدین کے کہنے پر فرائضِ شرعیہ کو بھی چھوڑ دیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی کھلی نافرمانیوں کا بھی ارتکاب کیا جائے۔اور یہ کہنا کہ ‘‘یہ کونسا اسلام ہے کہ آدمی باقی دْنیا سے الگ تھلگ ہوکر بیٹھ جائے؟’’ نہایت لچر اور بے ہودہ بات ہے، اسلام تو نام ہی اس کا ہے کہ ایک کے لئے سب کو چھوڑ دیا جائے قرآنِ کریم میں ہے:‘‘آپ فرمادیجئے کہ یقینا میری نماز اور میری ساری عبادات اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے، جو مالک ہے سارے جہان کا، اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں سے پہلا ہوں۔’’(سورہ اَنعام)کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اللہ تعالیٰ کے اَحکام کی تعمیل کے لئے باقی ساری دْنیا سے الگ تھلگ نہیں ہوگئے تھے؟
 اگر دْنیا بگڑی ہوئی ہو تو ان سے الگ تھلگ ہونا ہی آدمی کو تباہی و بربادی سے بچاسکتا ہے۔

()

ج- ہفتہ کے دنوں میں جمعہ کا دن سب سے افضل ہے، اور سال کے دنوں میں عرفہ کا دن سب سے افضل ہے، اور عرفہ جمعہ کے دن ہو تو نور علیٰ نور ہے، ایسا دن افضل الایام شمار ہوگا۔

()

ج-جمعہ کے دن کی فضلیت یہ ہے کہ یہ دن ہفتے کے سارے دنوں کا سردار ہے، ایک حدیث میں ہے کہ سب سے بہتر دن جس پر آفتاب طلوع ہوتا ہے، جمعہ کا دن ہے۔ اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، اسی دن ان کو جنت میں داخل کیا گیا، اسی دن ان کو جنت سے نکالا (اور دْنیا میں) بھیجا گیا۔ اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، اور اسی دن ان کی وفات ہوئی۔ بہت سی احادیث میں یہ مضمون ہے کہ جمعہ کے دن میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ اس پر بندہ مومن جو دْعا کرے وہ قبول ہوتی ہے، جمعہ کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے دْرود پڑھنے کا حکم آیا ہے۔ یہ تمام احادیث مشکوٰۃ شریف میں ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث میں جمعہ کی فضیلت آئی ہے۔ اس سکھ نے جو سوال کیا تھا، اس کا جواب یہ تھا کہ یوں تو ہمارے مذہب میں کسی دن کی بھی چھٹی کرنا ضروری نہیں، لیکن اگر ہفتے میں ایک دن چھٹی کرنی ہو تو اس کے لئے جمعہ کے دن سے بہتر کوئی دن نہیں، کیونکہ یہودی ہفتے کے دن کو معظم سمجھتے ہیں، اور اس دن چھٹی کرتے ہیں، عیسائی اتوار کو لائقِ تعظیم جانتے ہیں اور اس دن چھٹی کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو جمعہ کے افضل ترین دن کی نعمت عطا فرمائی ہے، اور اس کو سیّد الایام بنایا ہے، اس لئے یہ دن اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کو عبادت کے لئے مخصوص کردیا جائے اور اس دن عام کاروبار نہ ہو۔

()

ج- حدیث کے جو الفاظ آپ نے نقل کئے ہیں، وہ تو مجھے نہیں ملے، البتہ اس مضمون کی متعدّد احادیث مروی ہیں، ایک حدیث میں ہے:
ترجمہ:- ‘‘جس شخص نے تین جمعے محض سستی کی وجہ سے، ان کو ہلکی چیز سمجھتے ہوئے چھوڑ دئیے، اللہ تعالیٰ اس کے دِل پر مہر لگادیں گے۔’’
ایک اور حدیث میں ہے:‘‘لوگوں کو جمعوں کے چھوڑنے سے باز آجانا چاہئے، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دِلوں پر مہر کردیں گے، پھر وہ غافل لوگوں میں سے ہوجائیں گے۔’’
ایک اور حدیث میں ہے:‘‘جس شخص نے بغیر ضرورت اور عذر کے جمعہ چھوڑ دیا اس کو منافق لکھ دیا جاتا ہے، ایسی کتاب میں جو نہ مٹائی جاتی ہے، نہ تبدیل کی جاتی ہے۔’’
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے:‘‘جس شخص نے تین جمعے پے درپے چھوڑ دئیے، اس نے اسلام کو پسِ پشت پھینک دیا۔’’
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کا ترک کردینا بدترین گناہِ کبیرہ ہے، جس کی وجہ سے دِل پر مہر لگ جاتی ہے، قلب ماؤف ہوجاتا ہے اور اس میں خیر کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رہتی، ایسے شخص کا شمار اللہ تعالیٰ کے دفتر میں منافقوں میں ہوتا ہے، کہ ظاہر میں تو مسلمان ہے، مگر قلب ایمان کی حلاوت اور شیرینی سے محروم ہے، ایسے شخص کو اس گناہِ کبیرہ سے توبہ کرنی چاہئے اور حق تعالیٰ شانہ سے صدقِ دِل سے معافی مانگنی چاہئے۔
اوور ٹائم کی خاطر جمعہ کی نماز چھوڑنا 

()

ج- وہاں جمعہ اگر نہیں ہوتا تو کسی اور جامع مسجد میں چلے جایا کیجئے، جمعہ چھوڑنا تو بہت بڑا گناہ ہے، تین جمعے چھوڑ دینے سے دِل پر منافقت کی مہر لگ جاتی ہے۔ محض معمولی لالچ کی خاطر اتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کرنا ضعفِ ایمان کی علامت اور بے عقلی کی بات ہے۔ کمپنی کے اربابِ حل و عقد کو چاہئے کہ جمعہ کی نماز کے لئے چھٹی کردیا کریں۔
بڑے گاؤں میں جمعہ فرض ہے، پولیس تھانہ ہو یا نہ ہو

 

()

س- ہمارا ایک قریہ ہے جس نام کربلا ہے، جس کی آبادی تقریباً دس ہزار پر مشتمل ہے، جس میں نو مسجدیں بھی ہیں، چار مسجدیں تو اتنی بڑی ہیں کہ ایک وقت پر تقریباً ڈیڑھ سو افراد ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں، اور اس قریہ میں ضروریاتِ زندگی کا سامان ہر وقت مل سکتا ہے۔ ہائی اسکول، پرائمری اسکول، ڈاک خانہ، اسپتال، ٹیلیفون، بجلی، غرض یہ سب چیزیں موجود ہیں، مدرسہ بھی ہے، جس میں تقریباً بڑے چھوٹے تقریباً۳۰۰ طلبہ پڑھ رہے ہیں، لیکن یہاں پر جمعہ کی نماز نہیں ہوتی، ہمارے یہاں سے تقریباً آٹھ میل کی مسافت پر ضلع پشین میں جمعہ کی نماز باقاعدہ ہوتی ہے۔ علمائے دین نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ یہاں پر جمعہ پڑھنا واجب ہے۔ فتویٰ جن علماء نے دیا ہے ان کے نام یہ ہیں: مفتی عبدالحق صاحب اکوڑہ خٹک، مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ دارالعلوم کورنگی، مفتی زین العابدین فیصل آباد، مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کراچی۔ مقامی علمائے دین فتویٰ کو نہیں مانتے۔ ہمارے علماء کا کہنا یہ ہے کہ یہاں پر پولیس تھانہ نہیں ہے، اور اس طرح جمعہ آس پاس گاؤں والوں پر واجب ہوجائے گا، اور اگر آپ لوگ کوئی بھی یہاں جمعہ پڑھوگے تو آس پاس کے گاؤں والے جھگڑا کریں گے۔ اب بتائیں کہ کیا اس قریہ میں جمعہ پڑھنا ضروری ہے؟

ج- اگر آپ کے مقامی علماء ، اتنے بڑے بڑے علماء کے فتویٰ کو نہیں مانتے تو مجھ طالبِ علم کی بات کب مانیں گے؟ تاہم ان سے گزارش ہے کہ اس قصبے میں جمعہ فرض ہے، اور وہ ایک اہم فرض کے تارک ہو رہے ہیں، اگر تھانہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کو جھگڑے کا شبہ ہے تو اس کا حل تو بہت آسان ہے، اس سلسلے میں گورنمنٹ سے استدعا کی جاسکتی ہے کہ یہاں ایک پولیس چوکی بٹھادی جائے، بہرحال تھانے کا وہاں موجود ہونا صحتِ جمعہ کے لئے شرطِ لازم نہیں۔
 

()

ج-8 جمعہ کی نماز تو صحیح ہے، لیکن اگر امام پنج گانہ نمازیں نہ پڑھائے تو اہلِ محلہ کا فرض ہے کہ ایسے امام کو برطرف کردیں، اور کوئی ایسا امام تجویز کریں جو پانچ وقت کی نماز پڑھایا کرے، مسجد میں پانچ وقت کی اذان و جماعت مسجد کا حق ہے، اور اس حق کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے تمام اہلِ محلہ گناہگار ہیں

()

ج- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ شیخین رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کی اذان صرف ایک تھی، یعنی اذانِ خطبہ، دْوسری اذان جو جمعہ کا وقت ہونے پر دی جاتی ہے، اس کا اضافہ سیّدنا عثمان بن عفان خلیفہ راشد رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا، قرآنِ کریم میں جمعہ کی اذان پر کاروبار چھوڑ دینے اور جمعہ کے لئے جانے کا حکم فرمایا، صحیح تر قول کے مطابق یہ حکم پہلی اذان سے متعلق ہے، لہٰذا پہلی اذان پر جمعہ کے لئے سعی واجب ہے، اور جمعہ کی تیاری کے سوا کسی اور کام میں مشغول ہونا ناجائز اور حرام ہے۔

()

ج- جمعہ کے دن مردوں کے لئے جمعہ کی نماز ظہر کے قائم مقام ہے، اس لئے وہ صرف جمعہ پڑھیں گے، ظہر نہیں پڑھیں گے۔ عورتوں پر جمعہ کی نماز فرض نہیں، ان کو حکم ہے کہ وہ اپنے گھر پر صرف ظہر کی نماز پڑھیں، اور اگر کوئی عورت مسجد میں جاکر جماعت کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھ لے تو اس کی یہ نمازِ جمعہ بھی ظہر کے قائم مقام ہوگئی۔ خلاصہ یہ کہ جمعہ اور ظہر دونوں کو ادا کرنے کا حکم نہیں، بلکہ جس نے جمعہ پڑھ لیا، اس کی ظہر ساقط ہوگئی۔

()