اب تک اداس ہوں

مصنف : نجمہ عالم

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : اپریل 2014

سماجیات
اب تک اداس ہوں 
نجمہ عالم

 

8 مارچ اقوام متحدہ کے تحت ”عورتوں کا عالمی دن“ قرار پایا ہے۔ اعلیٰ پیمانے پر خواتین کی بہبود اور حقوق کے لیے کچھ کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی کئی این جی اوز اس سلسلے میں قابل ذکر کام انجام دے رہی ہیں … مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام کوششوں کے باوجود خواتین کے حالات میں بہتری رونما ہوئی یا ابھی اور بہت کچھ کرنا باقی ہے؟یقینا ابھی بہت کرنا باقی ہے او رجب تک علم کی روشنی سے جہالت کی تاریکی دور نہیں ہوتی تمام این جی اوز کے شور شرابے کے باوجود حالات جوں کے توں رہیں گے اس لیے این جی اوز کو بھی چاہیے کہ وہ علم کی روشنی پھیلانے کی طرف اصل توجہ دیں اور عام عورت کی حالت دیکھیں نہ کہ ”بیگمات“کی۔
گزشتہ دنوں شیخو پورہ کے ایک نواحی گاؤں میں ایک صاحب نے چھٹی بیٹی کی پیدائش پر اپنی دس روزہ نو مولود کو پانی کے ٹب میں ڈبو کر ہلاک کر دیا اور بیوی کو اس جرم کی یہ سزا دی کہ اس کو فائر کر کے مار ڈالا۔ اب یہ جہالت اور لا علمی ہی نہیں توکیا ہے کہ ان صاحب کو یہ معلوم ہی نہیں کہ بیٹیوں کی پیدائش کے ذمے دار ان کی بیوی نہیں وہ خود ہیں۔ قرآن پاک کا ارشاد ہے کہ ”یہ ہم ہیں جس کو چاہتے ہیں بیٹے دیتے ہیں اور جس کو چاہیں بیٹیوں سے نوازتے ہیں“ غرض یہ کہ جدید علوم اور سائنس سے نا واقفیت کے علاوہ مسلمان ہوتے ہوئے قرآنی احکامات سے بھی لا علمی ان تمام مسائل کی جڑ ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود خواتین کے حقوق تو کجا ان کے ساتھ اچھے سلوک کا نہ صرف فقدان ہے بلکہ ہر طرح کا ظلم و تشدد روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں دو واقعات (حقیقی) بیان کر کے معاشرے سے سوال کرتی ہوں کہ بتائے کیا ہم واقعی اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں؟ 
میرے گھر کام کرنے والی لڑکی کئی دن سے کام پر نہیں آ رہی تھی ایک بار پہلے بھی ایسا ہوچکا تھا کہ وہ پانچ دن مسلسل نہیں آئی تھی اورمیں سوچ رہی تھی کہ کسی دوسری کا بندوبست کر لوں ایک دوسرے سے اس سلسلے میں ذکر بھی کیا کہ کوئی اچھی عورت نظر میں ہو تو بتائے۔ مشکل یہ ہے کہ آج کل کے حالات میں ہر کسی پر بھروسہ بھی تو نہیں کیا جا سکتا … جو لڑکی میرے یہاں کام کر رہی تھی اس کی خوبی یہ تھی کہ اس نے اپنا گھر بھی ہمیں دکھا دیا تھا پھر سمجھ دار، مہذب اور کام بھی اچھا کرتی تھی اور سب سے بڑھ کر جو چیز مجھے متاثر کرتی تھی وہ یہ کہ رابعہ (اس لڑکی کا نام) اپنی خاندانی روایات کے خلاف انٹر میڈیٹ کی طالبہ تھی اس کی ماں بیمار رہتی تھی۔ وہ دو تین گھروں میں کام کر کے اپنے تعلیمی اخراجات کے علاوہ ماں کا علاج بھی کرواتی اور اس کی دیکھ بھال بھی کرتی۔ کسی کی مدد کے بغیر وہ اپنی ہمت اور لگن سے ہمیشہ اچھے نمبروں سے اب تک پاس ہوتی آئی تھی اور انٹر کے پرچے بھی اچھے ہو گئے تھے … بہر حال پانچ دن بعد وہ آئی اور اس نے بتایا کہ امی کی طبیعت زیادہ خراب تھی انھیں اسپتال داخل کرنا پڑا اور میں ان کے ساتھ رات دن اسپتال میں رہی اس لیے نہ آ سکی۔ میں نے کہا کہ تم مجھے اپنا نمبر دے دو اور کوئی ایسی بات ہو تو مجھے مطلع کر دیا کرو جو کچھ بن پڑے گا ہم کریں گے۔ اس نے اپنے والد کا موبائل نمبر دے دیا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ میں اس کو اس کے پڑھنے کی وجہ سے بہت پسند کرتی تھی اور پڑھائی میں اس کی مدد کرتی تھی اور اس کی ہمت افزائی بھی کرتی کہ بیٹا جو بھی حالات ہوں تم کم از کم گریجویشن ضرور کرنا۔آج تم گھروں میں کام کر رہی ہو کل کسی اسکول میں پڑھا کر باعزت روزگار حاصل کرنا۔ دو ماہ بعد وہ پھر اچانک غائب ہو گئی۔ ایک دن کال بیل بجی جب میں نے پوچھا کون تو جواب آیا کہ میں رابعہ کی کزن ہوں۔ اس نے مجھے بھیجا ہے کہ تم باجی کے گھر کام کر لو۔ میں نے اس کو کام پر رکھ لیا، کچھ دن بعد باتوں باتوں میں رابعہ کا ذکر آیا میں نے کہا کہ بڑی اچھی لڑکی ہے، اللہ اس کا نصیب اچھا کرے۔ یہ سن کر شاہدہ (رابعہ کی کزن) کہنے لگی باجی ہم لوگوں کے نصیب کبھی اچھے نہیں ہو سکتے۔ پھر اس نے جو داستان سنائی وہ سن کر میں اب تک اداس ہوں اور سوچ رہی ہوں کہ:
”ان کالی صدیوں کے سر سے کب رات کا آنچل ڈھلکے گا“
آخر ہم کب اسلام قبول کریں گے؟  بقول شاہدہ رابعہ کا نکاح اس کے چچا زاد سے ہو چکا ہے وہ لڑکا بالکل جاہل ہے اور کچھ کرتا بھی نہیں۔ کبھی کبھار دل چاہے تو مزدوری کر لیتا ہے، رابعہ کئی گھروں میں کام کر کے اپنی پڑھائی اور ماں کے علاج کے اخراجات برداشت کرتی تھی مگر اس لڑکے نے رابعہ کے گھر سے نکلنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اب وہ نہ کالج جاتی ہے نہ کام پر۔ گزشتہ روز رابعہ کو بخار تھا وہ کمرے میں تھی کہ اس لڑکے نے کمرہ باہر سے بند کر دیا جب رابعہ کا باپ گھر آیا اور پوچھا کہ کمرہ کیوں بند ہے؟ اس بات پر لڑکا طیش میں آ گیا اور اپنے چچا، چچی دونوں کو مارنے لگا کیونکہ چچی نے شوہر کو بتا دیا تھا کہ کمرہ اس نے بند کیا ہے۔ یہ سب بتا کر شاہدہ خود بھی رونے لگی اس کا کہنا تھا کہ باجی بتاؤ جو بندہ اپنے بڑوں پر ہاتھ اٹھائے خاص کر بیمار چچی پر تو وہ بھلا رابعہ کو مارنے سے باز رہے گا؟ بھلا میں اس کا کیا جواب دیتی۔ آثار بتا رہے تھے کہ شاہدہ کے خدشات بے بنیاد نہیں۔یہ روداد اپنی جگہ، ایک دوسرے واقعے نے مجھے بالکل توڑ کر رکھ دیا۔ میں نے اپنی پڑوسن کی خیریت معلوم کرنے کے لیے فون کیا تو معلوم ہوا کہ ان کی طبیعت کچھ خراب ہے، سوچا جا کر عیادت کر آتی ہوں۔جب ان کے گھر گئی تو ان کی ہر وقت ہنسنے مسکرانے والی بیٹی بے حد اداس نظر آئی میں گھبرا گئی بیٹا کیا امی کی طبیعت زیادہ خراب ہے؟ بیٹی نے کہا ”نہیں آنٹی امی کو معمولی بخار تھا صبح سے وہ بھی اتر گیا ہے۔ پھر تم اس قدر کیوں اداس ہو؟“ … یہ سن کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس نے بھی ایک داستان مجھے سنائی وہ لڑکی سوشل ورکر ہے، کہنے لگی کل ایک صاحبہ ہمارے پاس آئیں۔ چہرے سے پریشانی عیاں تھی، وہ بے اختیار رو پڑیں۔ تسلی دینے پر بتانے لگیں انھوں نے میری پھول سی بچی کو اتنا مارا کہ اس کے جسم پر نشان پڑگئے … کس نے آنٹی میں سمجھی نہیں۔ میری بچی کے سسرال والوں نے۔ کیوں؟ میں نے حیرت سے پوچھا … تو پتہ چلا کہ وہ صاحبہ بیوہ ہیں صرف ایک بیٹی ہے اس نے خود محنت کر کے ماسٹر تک تعلیم حاصل کی۔ ان خاتون نے گھروں میں کام کر کے پیسے جمع کر کے اس کے لیے پورا جہیز تیار کیا صرف فرنیچر کا بندوبست نہ کر سکیں۔ لڑکے والوں نے شادی میں جلدی کی حالانکہ میں کہتی رہی کہ سات آٹھ ماہ بعد میری کمیٹی نکل آئے گی تو فرنیچر کا بھی انتظام ہو جائے گا مگر اس وقت تو انھوں نے کہا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں جب آپ کے پاس پیسے آ جائیں دیجیے گا۔ شادی ابھی کر دیں،مگر شادی کو صرف تین ماہ ہوئے اور انھوں نے تقاضا شروع کر دیا۔ میری بچی کو حالات کا علم تھا وہ خاموشی سی سنتی رہی مگر کل میرے داماد اور اس کے گھر والوں نے اس کو مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا۔ میاں نے کہہ دیا کہ جب سامان کا بندوبست ہو جائے تو بتا دینا میں آ کر تمہیں لے جاؤں گا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں اور میں بھی ان کے ساتھ رونے میں شامل تھی۔ میرے تسلی دینے اور یقین کرانے پر کہ کام ہو جائے گا وہ چلی تو گئیں مگر آنٹی میں سوچ رہی ہوں کہ جو لوگ ذرا سی بات پر ان کی لاڈلی اکلوتی بیٹی پر ظلم کر سکتے ہیں کیا آیندہ اور کوئی مسئلہ کھڑا نہ کریں گے؟ ابھی تو اس کی ماں زندہ ہے جو اس کی کسی نہ کسی طرح مدد کر دے گی مگر کل خدانخواستہ وہ بھی نہ رہی تو اس کا نہ کوئی بہن بھائی ہے اور نہ کوئی اور تو کیا لالچی اور ظالم شوہر اس کو آیندہ خوش رکھ سکے گا؟ وہ پھر رو پڑی۔ میرے ذہن میں ساحرکا کلام گردش کرنے لگا:
دولت کے لیے جب عورت کی
 عصمت کو نہ بیچا جائے گا
چاہت کو نہ کچلا جائے گا،
 غیرت کو نہ بیچا جائے گا
اپنے کالے کرتوتوں پر 
جب یہ دنیا شرمائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی!
مگر کب ہم سب (عورتیں) اس صبح کی منتظر ہیں۔ ہے کوئی جو عورت کو اس کے حقوق دلا سکے، اس کو بھی انسان سمجھ سکے؟
٭٭٭

 

 

محبت بھی عجب شے ہے وہ جب پردیس میں روئے
تو فوراً ہاتھ کی ایک آدھ چوڑی ٹوٹ جاتی ہے
کہیں کوئی کلائی ایک چوڑی کو ترستی ہے
کہیں کنگن کے جھٹکے سے کلائی ٹوٹ جاتی ہے
لڑکپن میں کئے وعدے کی قیمت کچھ نہیں ہوتی
انگوٹھی ہاتھ میں رہتی ہے منگنی ٹوٹ جاتی ہے
کبھی اک گرم آنسو کاٹ دیتا ہے چٹانوں کو
کبھی اک موم کے ٹکڑے سے چھینی ٹوٹ جاتی ہے
منور رانا