نبی کا جنازہ اور صحابہ کرام

مصنف : ابو یحییٰ

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : اپریل 2014

تاریخ
نبی ﷺ کاجنازہ اورصحابہ کرامؓ
ایک تاریخی مغالطے کاجائزہ
ابویحییٰ

 

    پچھلے دنوں میرے پاس ایک نوجوان کا یہ سوال آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے وقت ایسا کیوں ہوا کہ صحابہ کرام اور خاص کر حضرات ابو بکر وعمر، ان کی تجہیز و تکفین کی فکر کرنے کے بجائے خلافت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ مسیحی نوجوان کا یہ سوال دراصل ایک پورا نقطہ نظر ہے جو بہت سی غلط فہمیوں پر مشتمل ہے۔ سرسری معلوما ت کی بنا پر بہت سے لوگ اس نقطہ نظر سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ اس لیے حقائق کی روشنی میں اس دعوے  کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمانوں کے اجتماعی نظام کے متعلق یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ ان کے معاملات  باہمی مشورے سے طے ہوتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
”اور ان کا نظام باہمی مشورے پر مبنی ہے“، (شوریٰ 42:38)
قرآنِ پاک کا یہ حکم عرب کے اْس قبائلی معاشرہ میں اترا، جس میں  نہ کسی اجتماعی ریاست کا تصور تھا اور نہ کسی واحد حاکمِ اعلیٰ کی کوئی تاریخ ہی پائی جاتی تھی۔ اسلام سے قبل ہر قبیلے کا اپنا سردار ہوتا جو اس کے معاملات چلاتا تھا۔ عرب میں کوئی باقاعدہ ریاست تھی اور نہ اس کا کوئی مستقل حکمران تھا۔حتیٰ کہ ام القریٰ مکہ کے مرکزی شہر میں بھی کوئی حکمران نہ تھا۔ وہاں بمشکل تمام ایک  ڈھیلا ڈھالا نظمِ اجتماعی تھا جس میں قبائلی سردار کسی اجتماعی مسئلے پراکٹھے ہوجاتے اور مل جل کر کوئی فیصلہ کر لیتے۔
ایسے میں اسلام کا ظہور ہوا۔ ہجرت کے بعد مدینہ کی ریاست وجود میں آئی۔حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  فطری طور پر اس ریاست کے حکمران تھے۔ 8 ہجر ی تک یہ ریاست صرف مدینہ اور اس کے اطراف تک محدود تھی۔پھر فتحِ مکہ کے بعد صرف تین برس میں یہ ریاست پورے عرب میں پھیل گئی۔ یہ وہ عرب تھا جہاں انتشار و اختلاف کے شکار قبائل اور طرح طرح کی عصبیتیں موجود تھیں اور جو پہلی دفعہ کسی ایک حکمران کے ماتحت اکٹھا ہوئی تھیں۔ مگر لوگوں کا حضور پر بحیثیت رسول ایمان اور حضور کا سب سے برتر قبیلے یعنی قریش سے تعلق وہ چیز تھا جس نے عرب میں یہ سیاسی انقلاب برپا کر دیا۔ تاہم حقیقت یہ تھی کہ نئے ایمان لانے والے قبائل ابھی تک اس پورے نظام کے عادی نہیں ہوئے تھے۔
اپنے آخری وقت میں حضور کو اس صورتحال کا مکمل اندازہ تھا۔ مگر آپ نے اس حوالے سے کوئی بات اس لیے نہیں فرمائی کہ مسلمانوں کے پاس بہرحال اللہ تعالیٰ کا حکم موجود تھا۔ دوسرے حضور کو معلوم تھا کہ آپ نے اس موقع پر اگر لوگوں کو کوئی حکم دے دیا تو وہ تا قیامت سورہ شوریٰ کی مذکورہ بالا آیت کی واحد قابل عمل شکل قرار پائے گی۔ یہ بات اْس وقت کے قبائلی دور کے حساب سے تو ٹھیک ہوتی، مگر آنے والے زمانوں میں حکمران کے انتخاب کے ہر دوسرے طریقے کو غیر اسلامی بنا کر، اسلام کے نا قابل عمل ہونے کا ایک نمایاں ثبوت بن جاتی۔ جبکہ اسلام کو قبائلی دور ہی کا نہیں بلکہ آج کے انفارمیشن دور کا مذہب بننا تھا۔ چنانچہ حضورؐ کو جب اندازہ ہو گیا کہ رخصت کا وقت قریب ہے تو آپ نے اپنی وفات سے پانچ دن قبل مسجدِ نبوی میں آخری خطبہ دیا۔ اس خطبے میں آپ نے مسلمانوں کو آخری وصیتیں کیں، مگرسیاسی حکمرانی کے عملی طریقے کے بارے میں کوئی رہنمائی نہیں کی۔ البتہ اْس شخص کی طرف اشارہ کر دیا جو آپ کی نظر میں اس منصب کا سب سے بڑھ کر اہل تھا۔ چنانچہ اس موقع پر آپ نے دین اور اپنی رفاقت کے حوالے سے حضرت ابوبکر کی خدمات گنوائیں اورحکم دیا کہ مسجد نبوی میں ان کے دروازے کے سوا ہر دروازہ بند کر دیا جائے (متفق علیہ)۔ اگلے دن سے اپنی جگہ حضرت ابوبکر کو مسجد نبوی کی امامت سونپ کر اپنا منشا لوگوں پر مزید واضح کر دیا(متفق علیہ)۔
چار دن بعد پیر کے دن ظہر سے قبل حضور کا انتقال ہو گیا۔ مسلمانوں پر اپنے محبوب نبی کے رخصت ہونے کا انتہائی شدید صدمہ تھا۔ مگر اس کے ساتھ دوسری تلخ حقیقت یہ تھی کہ قبائلی عصبیت سے بھرپور عرب کی نئی ریاست میں حکمرانی کا منصب خالی ہو چکا تھا اور کسی جانشین کا ابھی تک تعین نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ وہی ہوا جو اس پس منظر میں متوقع تھا۔ انصار کے بعض لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں اکٹھا ہوکر حضور کی جانشینی کے مسئلے پر گفتگو کرنے لگے۔ حضرت ابو بکر جو بلا شک و شبہ اس وقت مسلمانوں کے سب سے بڑے لیڈر تھے، ان سے اس موقع پر اگر معمولی سی بھی کوتاہی ہوجاتی تو اسلام کی تاریخ بننے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی۔ ان حالات میں حضرت ابو بکر حضور کے انتقال کی خبر سن کر سیدھے مسجد نبوی تشریف لائے اور ان شاندار الفاظ سے مسلمانوں کا حوصلہ بلند کیا کہ ”جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے تو وہ جان لے کہ اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے کبھی نہیں مرے گا“، (بخاری 640/2641)۔ اس کے ساتھ ان پر یہ ذمہ داری بھی آن پڑی کہ وہ مسلمانوں کی رہنمائی کریں۔ چنانچہ وہ حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح جیسے اہم قریشی سرداروں کو لے کر انصارکے ہاں گئے اور ایک طویل بحث و گفتگو کے بعد حضور کے بعض ارشادات کی روشنی میں انصار کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ خلیفہ قریش میں سے ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ہر شخص کو معلوم تھا کہ قریشی مسلمانوں میں سب سے بڑا لیڈر کون ہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے ان کا نام تجویز کیا جسے سب نے فوراًتسلیم کر لیا۔ یوں ریاستِ مدینہ میں انتشار کا خطرہ ٹل گیا۔ مگر اس پورے عمل میں پیر کے دن کی رات ہوگئی۔ اگلے دن منگل کو حضور کو سیدنا علی اور دیگر قریبی اعزا نے غسل دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسبِ ارشاد آپ کی قبر آپ کی وفات کی جگہ پر ہی بنائی جانی تھی۔ اس لیے تدفین اور نمازِجنازہ کے لیے کہیں اور جانے کا سوال نہیں تھا۔اس لیے لوگوں نے گروہ در گروہ آ کر سیدہ عائشہ کے اس حجرے ہی میں نماز ادا کی جہاں آپ کا انتقال ہوا تھا۔ اس عمل میں منگل کا پورا دن گزرگیا اور بدھ کی رات کے درمیانی اوقات میں حضرت عائشہ کے حجرے میں حضور کی تدفین عمل میں آئی۔
یہ ہے وہ بات جس کا افسانہ بنا کر ہمارے بعض مسلمان بھائی اسلام، اس کے نبی اور ان کے بہترین پیروکاروں کے بارے میں ایسے سوالات پیدا کر دیتے ہیں جن کی بنا پر نئی نسل اسلام سے بدظن ہوجاتی ہے اور غیرمسلموں کو ہمارا مذاق اڑانے کا موقع مل جاتا ہے۔ جبکہ ہر صاحب علم یہ بات جانتا ہے کہ حضرت ابو بکرؓ کے ابتدائی زمانے میں خلافت کے قیام اور مہاجرین و انصار اور قریشِ مکہ کی بھرپور تائید کے باوجود عرب میں ایک زبردست بغاوت رونما ہوئی۔ اندازہ کیجیے کہ اگر حضور کے انتقال کے وقت حضرت ابو بکر اور حضرت عمر فوری فیصلہ کر کے نزاع کو ابتدا ہی میں ختم نہ کرتے اور اہل مدینہ میں باہمی انتشار پیدا ہوجاتا تو مسلمانوں کا کیا انجام ہوتا؟
ہم نے جو کچھ تحریر کیا ہے، اس کی تائید سیدنا علی کے اپنے طرز عمل سے ہوتی ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ نہ ہونے کی بنا پر انھیں ابتدا میں یہ شکایت تھی کہ مجھے مشورے میں کیوں شریک نہیں کیا گیا، مگر جب ان پر معاملہ واضح ہو گیا تو انھوں نے سیدنا ابو بکر کی بیعت میں تاخیر نہیں کی۔ پھر اس کے بعد حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے پورے دورِحکومت میں انھوں نے بھرپور طریقے سے ان حضرات کی معاونت کی اور ہمیشہ ان کے قریب ترین مشیر رہے۔ اور ان دونوں نے بھی ہر معاملے میں حضرت علی کی رائے کو مقدم رکھا۔
بلاشبہ صحابہ کرام وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا حق اس طرح ادا کیا کہ قرآنِ مجید نے بھی جگہ جگہ ان کے اخلاص اور قربانی کی گواہی دی ہے۔ قرآنِ کریم کی اس گواہی کے بعد ان لوگوں کی صداقت کے لیے کسی اور گواہی کی ضرورت نہیں۔٭٭٭
 

 

٭باپ کا احترام کرو تاکہ تمہاری اولاد تمہارا احترام کرے۔
٭باپ کی عزت کرو تاکہ اس سے فیض یاب ہو جاؤ
باپ کا حکم مانو تاکہ خوشحال ہو سکیں۔
٭باپ کی سختی برداشت کرو تاکہ با کمال ہو سکو۔
٭باپ کی بات غور سے سنو تاکہ دوسروں کی بات نہ سنی پڑھے۔
٭باپ کے سامنے اونچا نہ بو لو تاکہ رب تم کو نیچا دکھادے گا۔
٭باپ کے سامنے نظریں چھکا کررکھو۔تاکہ رب تم کو بلند کر دے۔
٭ماپ ایک کتاب ہے جس پر تجربات تحریر ہوتے ہیں۔
٭باپ ایک ذمہ دار ڈرئیورہے۔جو گھر کی گاڑی کو اپنے خون پسینے سے چلاتاہے۔
٭باپ ایک مقدس محافظ ہے۔جو سارے خاندان کی نگرانی کرتاہے۔
٭باپ کے آ نسو تمہارے دکھ سے نہ گریں۔ورنہ رب تم کو جنت سے گرادے گا۔