بیک بینچرز

مصنف : نجیب عمر

سلسلہ : تعلیم و تعلم

شمارہ : مارچ 2014

تعلیم و تعلم
بیک بینچرز
نجیب عمر

 

 

    میں نے پرنسپل کی حیثیت سے جب اس اسکول کا چارج لیا تو میری سب سے زیادہ توجہ اساتذہ پر تھی۔ کسی اسکول کی کارکردگی کا انحصار اساتذہ پر ہوتا ہے کیونکہ وہ علم کی میراث آئندہ نسل میں منتقل کرتے ہیں۔ڈگری اور تعلیم کے لحاظ سے تو سارے استاد خوب تھے لیکن استاد کی قابلیت قدرے مختلف چیز ہوتی ہے اور ان کی کارکردگی اْسی قابلیت کی مرہون ہوتی ہے۔اسکول کے تمام معاملات کو یکے بعد دیگرے دیکھنے کے بعد ضرورت کے مطابق تبدیلی لا کر سارے نظام کو میں نے موثر بنا لیا تھا لیکن استادوں کامعاملہ ذرا وقت طلب تھا۔ باری باری ہر استاد کو فوکس میں لے کر یہ دیکھنے کی کوشش میں مصروف ہوگیا کہ کون میرے معیار کے مطابق بالکل صحیح ہے‘ کس میں کمی ہے اور کون نا قابل قبول ہے۔اس دوران میں عبد القادر صاحب نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ وہ انتہائی کم گو اور اپنے کام سے کام رکھنے والے تھے۔ ایسے لوگوں سے تعامل میں کچھ دشواری پیش آتی ہے لیکن یہ میرے فرائض میں شامل تھا لہٰذا میں اپنی جستجو میں لگا رہا۔
وہ نویں اور دسویں کلاس کو حساب پڑھاتے تھے۔ انہیں اس کا طویل تجربہ تھا۔ ان کی صلاحیت میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا۔ لیکن میں نے استاد کی جس قابلیت کا ذکر کیا ہے وہ ان میں میری توقع سے بھی زیادہ تھی۔ بلکہ مجھے اپنی ساری زندگی کی معلمی اور مدرسی کا تجربہ کم محسوس ہونے لگا۔ ایک پرنسپل کی حیثیت سے میں اس کا اظہار نہیں کرسکتا لیکن میں ان کی تعریف کیے بغیر بھی نہیں رہ سکتا۔میرا طریقہ کار یہ تھا کہ میں کلاس کے دوران پچھلے بینچوں پر بیٹھ جاتا اور استاد کی کارکردگی کا بغور مطالعہ کرتارہتا۔میں یہ بھی جانتاتھا کہ چند استاد میرے اس طریقہ کار کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن اپنی نا پسندیدگی کا اظہار نہیں کرسکتے تھے۔عبد القادر صاحب کے علاوہ اسکول کے تمام استادوں کو ان طلبہ کی طرف زیادہ ملتفت پاتا جو کلاس میں صلاحیت کے لحاظ سے سب سے آگے ہوتے۔ بہت تھوڑے سے متوسط طلباء  کی طرف نظر کرتے جب کہ تعلیمی لحاظ سے کمزور اورپس ماندہ کی طر ف کوئی بھی توجہ نہیں دیتاتھا۔جب کہ عبدالقادر صاحب نہ صرف کمزور طلباء پر توجہ دیتے بلکہ انہیں اس وقت تک چین نہ آتا جب تک وہ انہیں پوری کلاس کے برابر نہ لے آتے۔ وہ اگلا سبق اس وقت تک شروع نہ کرتے جب تک کلاس کا ایک ایک طالب علم پچھلے سبق پر حاوی نہ ہوجاتا۔چونکہ ان کے پاس ایک پیریڈ کا محدود وقت ہوتا لہٰذا انہوں نے ایک اور طریقہ وضع کیا کہ ایک کمزور طالب علم اور ایک ذہین طالب علم کی جوڑی بنادی اور اس طرح کلاس کے ذہین طلبہ اپنے کمزور ساتھیوں کی کمزوری دور کروانے میں لگے رہتے۔اس کا دوہرا فائدہ ہوتا۔ اوّل درجے کے طلبہ میں اعتماد پیدا ہوتا کہ وہ پڑھا سکتے ہیں کیوں کہ کسی دانشور نے کہا ہے کہ پڑھنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ پڑھایا جائے اور پڑھانے کے لیے اس موضوع پر عبور حاصل کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔عبد القادر صاحب کے اس طریقہ کار کو میں نے دوسرے اساتذہ کے لیے مثال بنانے کی کوشش کی لیکن جس خلوص اور جذبے سے عبد القادر صاحب کام کرتے تھے دوسروں کے پاس اس جذبے اور خلوص کی کمی تھی لہٰذا نتائج مختلف ہوتے۔
حساب ایک ایسا مضمون ہے جس میں طلبہ زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرسکتے ہیں۔ بورڈ کے امتحانات میں ہمارے اسکول کے تقریباً نصف طلبہ حساب میں سو فیصد نمبر حاصل کرتے تھے اور باقی بھی 90 فیصد کے قریب قریب نمبر حاصل کر لیتے۔ یہ سب کچھ عبد القادر صاحب کے دم سے تھا۔
ان کی محنت کا ثمر بلکہ محنت سے بڑھ کر اس خلوص اور لگن کی بنا پر جو اُن کا خاصہ تھا۔ وہ دسویں کلاس کو حسب معمول حساب پڑھا رہے تھے، بلکہ طلباء کو بورڈ کے امتحان کی تیاری کروا رہے تھے۔ میں داخل ہوا اور پانچ منٹ کا وقت طلبہ سے گفتگو کے لیے ان سے مستعار لیا۔ انہوں نے بخوشی اجازت دے دی اور خود پچھلے بینچ پر جا بیٹھے۔میں طلبہ سے مخاطب تھا۔”زندگی گزارنے کے لیے حساب کا جاننا ضروری ہے۔ اس کے بغیر کام نہیں چلتا۔ لیکن سبجیکٹ (Subject)کے طور پر حساب پڑھ کر آپ اپنا شمار دوسری قسم کے لوگوں میں کرواتے ہیں۔ میرے نزدیک دنیا میں انسانوں کی دو قِسمیں ہیں ایک وہ جو حساب نہیں پڑھتے اور دوسرے وہ جو حساب پڑھتے ہیں۔اس کا اثر آپ کی شخصیت،آپ کے طریقہ کار حتیٰ کہ آپ کے مزاج پر بھی پڑتا ہے۔ حساب کا مضمون تمام تر اصول اور کلیات کے گرد گھومتا ہے خواہ وہ جیو میٹری ہو، الجبرا ہو،کیلکولس ہو یا اس کی کوئی شاخ۔ یعنی حساب داں لازمی طور پر اصول پسند ہوتا ہے۔ہمارے اس مضمون سے اور بھی کئی گہرے رشتے ہیں۔ حساب کو موجودہ شکل تک لانے میں مسلمانوں کا بڑا حصہ ہے۔ دنیا کو صفر کا تصور اسی برصغیر نے دیا جس پر آج اس کی عمارت کھڑی ہے۔آپ خوش نصیب ہیں کہ حساب کے طالب علم ہیں اور اس سے بھی بڑی خوشی یہ کہ عبد القادر صاحب آپ کے معلم ہیں۔ ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا آپ کا کام ہے۔ 
ایک روز چھٹی ہوگئی تھی۔ تمام استاد جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ میں نے عبد القادر صاحب کو روک لیا۔وہ متجسس نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا۔انہوں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔”میں اپنی تعریفوں سے خوش نہیں ہوتا‘ من آنم کہ من دانم“۔
”میں بھی بے جا تعریف کا قائل نہیں“۔ میں نے جواب دیا۔میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ بہتر نتائج کے لیے ہمیں اپنی مساعی میں اور کیا شامل کرنا چاہیے؟میری سنجیدگی کو بھانپتے ہوئے‘ معمول سے ہٹ کے ذرا کھل کر بات کی۔وہ گویا ہوئے۔ ”آج طلبہ میں یکسوئی کا شدید فقدان ہے۔ وہ کلاس میں موجود ہو کر بھی کلاس میں نہیں ہوتے۔ ان کے دماغ میں بیک وقت کئی قسم کی کھچڑی پک رہی ہوتی ہے اور وہ ذہنی انتشار کا شکار ہوتے ہیں لہٰذا وہ کلاس کی کارروائی صد فیصد قبول نہیں کرتے۔ اگرچہ استعداد کی کمی بھی ایک عنصر ہوسکتا ہے لیکن اگر ہم طلبہ میں مکمل یکسوئی پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔میں ایک مثال سے اپنی بات واضح کرتا ہوں۔ جیو میٹری کی کلاس میں اقلیدس کا ایک تھیورم دائرے سے متعلق پڑھا رہا تھا۔ بلیک بورڈ میں دائرہ بنا ہوا تھا۔ تین مرتبہ دہرانے کے بعد بھی آدھی کلاس اس تھیورم کو سمجھنے سے قاصر تھی۔
میں تھیورم چھوڑ کر بچوں سے مخاطب ہوا کہ
 اگر اس وقت ساری کائنات تمہارے لیے سمٹ کراس دائرے میں آجائے۔ تمہیں دائرے کے علاوہ اور کچھ نظر نہ آئے حتیٰ کہ کلاس اور میں بھی غائب ہوجاؤں۔ یعنی اس درجے کے ارتکاز کی ضرورت ہے۔
جب بچوں نے میرے مشورے پر عمل کیا تو نتائج بہت بہتر تھے۔اس روز عبد القادر صاحب کو گفتگو پر آمادہ دیکھ کر میں نے پوچھ ہی لیا کہ آپ کے اس جذبے اور لگن کا محرک کیا ہے؟وہ خاموشی سے دور خلاؤں میں گھورنے لگے اور ایک وقفے کے بعد گویا ہوئے۔”میں بھی عام استادوں کی طرح ایک استاد تھا۔ میں اپنا کام ایمانداری سے کرتا لیکن مجھے اس سے غرض نہیں تھی کہ طلبہ کتنا قبول کرتے ہیں اور کتنا نہیں۔ خصوصاً بیک بینچرز سے مجھے کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا۔ ان میں ایک نوجوان خورشید بڑا ہی خوبصورت، روشن چہرے والا لیکن پڑھائی میں اس کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔
امتحان میں وہ بری طرح فیل ہوا اور رزلٹ والے دن ہی اس نے خودکشی کر لی۔جوان بچّے کی موت سے گھر میں کہرام بپا تھا۔ اسکول کی نسبت سے میں بھی جنازے میں شریک تھا۔ میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا تھا۔ظاہرہے میں خورشید کو واپس نہیں لاسکتا تھا لیکن میں نے تہیہ کر لیا کہ آئندہ کسی خورشید کو غروب نہیں ہونے دوں گا۔“
اس کے بعد سے میری خصوصی توجہ ان پچھلی نشستوں پر ہوتی ہے۔ میرے لیے انتہائی ہمت افزا بات ہے کہ تھوڑی سی توجہ اور کلاس کے ذہین لڑکوں کے ساتھ جوڑی بنانے کے بعد نتائج خاطر خواہ ظاہر ہوئے۔
میں نے کہا ایک خورشید نے آپ کو راہ دکھادی۔بولے:نہیں بلکہ اس نے مجھے میرے فرائض یاد دلائے۔ استاد روحانی باپ ہوتا ہے اور ایک باپ اپنے بچوں سے کیوں کر غافل ہوسکتا ہے۔٭٭٭

 

ایک شخص نے خوبصورت محل کو دیکھتے ہوئے اپنے دوست سے پوچھاجب ان لوگوں کی قسمت میں دولت لکھی جا رہی تھی تب ہم کہا ں تھے؟دوست اس کو پکڑ کر ہسپتال لے گیااور مریضوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھاجب ان لوگوں کی قسمت میں بیماریاں اور تکلیفیں لکھی جار ہی تھیں تب ہم کہاں تھے؟(مرسلہ احمد علی بخاری)