خلیفہ شجاع الدین

مصنف : ڈاکٹر امجد ثاقب

سلسلہ : شخصیات

شمارہ : مارچ 2014

شخصیات
خلیفہ شجاع الدین 
امجد ثاقب

 

    کتنے لوگ ہیں جنہیں خلیفہ شجاع الدین کا نام یاد ہو گا۔انیسویں صدی کے ڈھلتے ہوئے سائے۔1887۔ لاہور کے مشہور موچی دروازہ میں آباد ایک معروف علم دوست ”خلیفہ خاندان“ کے گھر ایک بچے نے جنم لیا۔ والد محکمہ تعلیم کے افسر اور دادا انجمن حمایتِ اسلام کے بانی صدر۔ اس سے معتبر نسبت اور کیا ہو گی۔ علمی اور دینی ماحول۔ پہلے قرآن پاک حفظ ہوا پھر سنٹرل ماڈل سکول ٗ اسلامیہ کالج ٗ گورنمنٹ کالج ٗ پنجاب یونیورسٹی ٗ کیمبرج ٗ لنکن ان ٗ اور پھر کینٹبری سے قانون میں پی ایچ ڈی۔ یہ سب کچھ اٹھائیس سال کی عمر میں مکمل ہو گیا۔ وہ جو میر نے کہا:
کام تھے عشق میں بہت پرمیر
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے
وطن واپسی پر قانون کی پریکٹس۔ سماجی اور سیاسی سرگرمیاں۔ علمی اور فکری جہاد۔ لاہور کے میونسپل کمشنر سے لے کر پنجاب اسمبلی کا سپیکر بننے تک۔ کامیابی وکامرانی کی کو ن سی ایسی منزل تھی جو خلیفہ شجاع الدین نے طے نہ کی۔ دولت بھی کمائی اور نام بھی لیکن عزت کو ہمیشہ مقدم رکھا۔ سیاست کے جوہڑ میں کنول کے پھول کی طرح تروتازہ ٗ پاک صاف اور منفرد۔ ان کوزندگی میں جو چار عہدے حاصل ہوئے ان پر کوئی بھی فخر کرسکتا ہے۔ اسلامیہ کالج کے اعزازی پرنسپل (1942-43) ٗ لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر (1946-50)ٗ انجمن حمایت اسلام کے صدر (1947-55) اور پنجاب اسمبلی کے سپیکر (1951-55) یہ عہدے ان کی علمی ٗ سماجی اور سیاسی خدمات کا حاصل تھے۔ ان عہدوں پہ انہوں نے خدمت کی جو روایات قائم کیں وہ آج بھی مشعلِ راہ ہیں۔ وہ پنجاب اسمبلی کے غالباََ واحد سپیکر تھے جنہوں نے نہ سرکاری گاڑی لی اور نہ ہی تنخواہ قبول کی۔ اس عہدے پہ رہتے ہوئے ان کے گھر میں جو بھی تقریبات ہوئیں ان کا خرچ بھی ان کی اپنی جیب سے ادا ہوا۔ ان کی سفارش پہ کسی نااہل کو نوکری نہیں ملی اور نہ کسی کا ناجائز کام ہوا۔ نہ پلاٹ اور پرمٹ‘ نہ ذاتی تشہیر‘ نہ ہٹو بچو کی صدا ئیں۔ جب وہ جہانِ فانی سے رخصت ہوئے تو پنجاب اسمبلی کے سپیکر تھے۔ رات بارہ بجے سینے میں درد اٹھا۔ بیگم کو بلایا اور کہنے لگے ”اب میں چلتا ہوں“۔ اگلے ہی لمحے آنکھیں بند کیں اور   خالقِ حقیقی سے جاملے۔ دنیا کی متاع کو ہیچ سمجھنے والے ایسے ہی رخصت ہوتے ہیں۔ صداقت ٗ امانت ٗ دیانت۔ کسی کو یہ تصویر دیکھنا ہو تو خلیفہ شجاع الدین کو دیکھ سکتا ہے۔ نڈر بھی تھے اور انتھک بھی۔ زندگی کے آخری سال انجمن حمایتِ اسلام کے لئے وقف کر دیئے۔ یہ اعزاز بھی ان کے گھرانے کو حاصل ہے کہ دادا بھی انجمن کا صدر تھا اور پوتا بھی۔ مولانا صلاح الدین احمد نے کہا ”خلیفہ شجاع کا عہدِ صدارت انجمن کا   عہدِ جہاں کشائی ہے……انہوں نے نہ صرف انجمن کی بگڑی ہوئی حالت کو سنبھالا بلکہ اس میں نئی روح پھونک دی۔ دیکھتے دیکھتے انجمن کی خدمات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو گیا۔ زخم خوردہ بیواؤں ٗ بے کس بچیوں ٗ بے سہارا یتیموں کی کفالت سے لے کر نوجوانوں کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل تک بے شمار کام انجام ِنیک تک پہنچتے چلے گئے………… انجمن کے جادہئ حیات پر ان کے یادگار نقوش تا اَبد رواں دواں رہیں گے“۔ اس سے بڑھ کر معتبر گواہی اور کیا ہوگی۔ رہی سیاسی زندگی کی کہانی تو وہ پنجاب اسمبلی کے ایوان میں محفوظ ہے۔ ایک بار قائدِ ملت لیاقت علی خان نے گلہ کیا کہ پاکستان میں قابل اصحاب نہیں ملتے۔ خلیفہ شجاع الدین کا جواب تھا …… ”آپ نے اور آپ کے رفقاء نے قابل اشخاص کا ایک تنگ دائرہ بنا رکھا ہے۔ آپ کی نظر اس سے باہر نہیں جاتی۔ پھر آپ کو قابل اشخاص کیسے نظر آئیں“۔ راست گوئی ٗ خود داری ٗ بے نیازی اور توکل۔ وہ ان تمام خوبیوں کا مرقع تھے۔ اب یہ خوبیاں خال خال نظر آتی ہیں۔ جب سیاست کا مقصد دولت اور خدمت کا محور اپنی ذات بن جائے تو خلیفہ شجاع الدین پیدا نہیں ہوتے۔ ایسے لوگ صرف ان قوموں کو ملتے ہیں جو شکر گذار ہوں‘ انصاف پسند ہوں اور حکمرانوں کے احتساب کی جرات رکھتی ہوں۔ سر محمد شفیع ٗ سر فضل حسین ٗ سر محمد اقبال ٗ سر عبدالقادر ٗ سر شہاب الدین۔ لیکن ایسے لوگ تو امتحان کے طور پر دیئے جاتے ہیں اور پھر سزا کے طور پر واپس لے لئے جاتے ہیں۔ ملک بھر میں کوئی گلی‘ کوئی سڑک کوئی شہر خلیفہ شجاع الدین کے نام سے منسوب نہیں۔ جب اہلِ شہر مغنیوں کو محسنوں پہ ترجیح دیں تو کچھ یہی ہوتا ہے۔ ٭٭٭