سوال و جواب

مصنف : ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : 2014 فروری

تعمیر مسجد سے متعلق بعض مسائل

 


سوال: (۱) ایک صاحب نے مسجد کی تعمیر کے لئے ایک پلاٹ وقف کیا تھا۔ اس پر مسجد کی تعمیر کی گئی تو کچھ جگہ باقی بچ گئی۔ کیا اس جگہ پیش امام صاحب یا موذن صاحب کے لیے رہائش گاہ بنائی جاسکتی ہے جس میں وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہ سکیں، جبکہ یہ جگہ مسجد سے متصل مغربی جانب ہے۔
(۲) مسجد کے لیے جو پلاٹ وقف کیا گیا تھا اس سے متصل مشرق کی جانب کچھ کھلی جگہ اہل محلہ کے لیے چھوڑی گئی تھی۔ مسجد کی تعمیر کے وقت اس میں سے کچھ حصہ مسجد میں شامل کرلیاگیا۔ اس وقت کچھ لوگوں نے اس کی مخالفت بھی کی تھی اور کہا تھا کہ مسجد صرف اتنی جگہ پر تعمیر کی جائے جو اس کے لیے وقف ہے، لیکن تعمیری کام کے ذمے داروں نے ان کی بات کو نظرانداز کردیا اور کچھ زائد جگہ شامل کرکے اس پر مسجد تعمیر کرلی۔ کیا اس زائد جگہ پر نماز پڑھنا جائز ہے؟
(۳)مسجد کے سامنے مشرق کی جانب کالونی کی کھلی جگہ ہے۔ مسجد نمازیوں سے بھر جاتی ہے تو لوگ اس کھلی جگہ بھی نماز پڑھتے ہیں۔ کیا نمازیوں کی آسانی کے لیے وہاں چبوترہ بنایا جاسکتا ہے؟

جواب:(۱) مسجد کے لیے کوئی اراضی خریدی گئی ہو یا کسی نے وقف کی ہو، اس پر مسجد کی اصل عمارت کے ساتھ دیگر متعلقہ تعمیرات (مثلاً وضو خانہ، طہارت خانہ، موذن کا کمرہ، امام کا کمرہ وغیرہ) کی جاسکتی ہیں۔ اس کے لیے نہ اس صراحت کی ضرورت ہے کہ اسے مسجد کی اصل عمارت کے لیے دیا گیا ہے یا دیگر کاموں کے لیے اور نہ کسی وقف کرنے والے کے لیے مسجد کی اصل عمارت کے لیے خاص کرکے وقف کرنا مناسب ہے۔ وہ اسے مسجد کے لیے وقف کرے اور حسب ضرورت اسے مسجد سے متعلق کسی کام میں استعمال کیا جائے۔
(۲) مسجد کی تعمیر کسی مشتبہ یا نامعلوم جگہ پر کرنا شرعی و دینی اعتبار سے بھی درست نہیں ہے اور سماجی اور حکومتی طور پر بھی۔ ایسا کرنے سے بعد میں تنازعات پیدا ہوتے ہیں اور بسااوقات حکومت کی طرف سے ناجائز قبضہ ہٹانے کے لیے توڑ پھوڑ کی جاتی ہے تو مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے مسجد کی تعمیر صرف اس جگہ پر اور اتنی ہی جگہ پر کی جائے جتنی مسجد کے لیے خریدی گئی ہے، یا اسے کسی نے وقف کیا ہے۔ کسی مشتبہ زمین پر اگر مسجد کا کوئی حصہ تعمیر کرلیاگیا ہے تو یاتو اسے جلد ازجلد  Legalizeکرلیا جائے یا اس سے دستبردار ہوجایا جائے۔
(۳) مسجد بھر جائے اور اس میں نمازیوں کے لیے جگہ باقی نہ رہے تو مسجد کے باہر سڑکوں، راستوں پر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ ایسی جگہوں پر، جو مسجد کی ملکیت میں نہ ہو، پڑھی گئی نماز درست ہے، لیکن اس جگہ چبوترہ بنانا مناسب نہیں ہے، اس لیے کہ یہ چیزبعد میں تنازع کا باعث بن سکتی ہے۔

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

جواب: جن عورتوں سے نکاح حرام ہے ان کی فہرست سورہ نساء میں مذکور ہے۔ ان میں بہن بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”تم پر حرام کی گئیں تمھاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں ……..،،(النسا)
نسبی رشتے سے بہن کی تین قسمیں ہیں:
(۱) سگی بہن (یعنی لڑکے اور لڑکی کی ماں  بھی ایک ہو اور باپ بھی)
(۲) علّاتی بہن (یعنی دونوں کا باپ ایک ہو، لیکن ماں الگ الگ ہوں)
(۳) اخیافی بہن (یعنی دونوں کی ماں ایک ہو، لیکن باپ الگ الگ ہوں)
ان تینوں قسموں پر بہن کا اطلاق ہوتا ہے اور ان سے نکاح کرنا حرام ہے۔ بہ الفاظ دیگر نسبی حرمت اس صورت میں پیدا ہوتی ہے جب لڑکے اور لڑکی دونوں کا، والدین یا ان میں سے کسی ایک میں اشتراک ہو۔
سوال میں جو صورت ذکر کی گئی ہے اس میں لڑکے اور لڑکی کے ماں اور باپ الگ الگ ہیں،اس لیے ان دونوں کے درمیان آپس میں نکاح ہوسکتا ہے۔

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

بیوی کے ترکے میں شوہر کا حصہ
سوال:ایک صاحب کی بیوی کا انتقال ہوگیا۔ ان سے کئی بچے تھے۔ انھوں نے بعد میں دوسری شادی کرلی۔ مرحومہ کے زیورات اور ان کی ملکیت کی دیگر چیزیں انھوں نے دوسری بیوی کو دے دیں۔ ان سے کہا گیا کہ ان میں تو مرحومہ کے بچوں کا بھی حصہ تھا تو انھوں نے جواب دیا کہ تمام زیورات اور دیگرچیزیں میں نے ہی خرید کر دی تھیں اور میں ہی برابر ان کی زکوٰۃ ادا کرتا رہا ہوں۔براہ کرم واضح فرمائیں، کیا ان کا یہ عمل صحیح ہے؟ اور مرحومہ کے بچوں کا ان کے ترکہ میں کوئی حق نہیں بنتا؟
جواب: عورت کا انتقال ہوجائے اور اس کے پسماندگان میں شوہر اور بچے ہوں تو ترکہ میں شوہر کا حصہ ایک چوتھائی ہے۔ (النساء: ۱۲) بقیہ ترکہ بچوں میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ لڑکوں کو لڑکیوں کے مقابلے میں دوگنا ملے گا“۔ (النساء:۱۱)
زیورات خرید کر اگر شوہر بیوی کو دے اور ساتھ ہی صراحت کردے کہ ان کا مالک میں رہوں گا، تمھیں صرف استعمال کے لیے دے رہا ہوں تو اس کی بات مانی جائے گی، لیکن اگر وہ صراحت نہ کرے تو عْرف کا اعتبار کیا جائے گا۔ شوہر کا بیوی کے زیورات کی زکوٰۃادا کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ان پر اس کی ملکیت قائم ہے۔ بیوی کو اپنے زیورات کی زکوٰۃ خود ادا کرنی چاہئے، لیکن اگر اس کی طرف سے شوہر ادا کردے تو بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔

 

جواب: عورت کا انتقال ہوجائے اور اس کے پسماندگان میں شوہر اور بچے ہوں تو ترکہ میں شوہر کا حصہ ایک چوتھائی ہے۔ (النساء: ۱۲) بقیہ ترکہ بچوں میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ لڑکوں کو لڑکیوں کے مقابلے میں دوگنا ملے گا“۔ (النساء:۱۱)
زیورات خرید کر اگر شوہر بیوی کو دے اور ساتھ ہی صراحت کردے کہ ان کا مالک میں رہوں گا، تمھیں صرف استعمال کے لیے دے رہا ہوں تو اس کی بات مانی جائے گی، لیکن اگر وہ صراحت نہ کرے تو عْرف کا اعتبار کیا جائے گا۔ شوہر کا بیوی کے زیورات کی زکوٰۃادا کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ان پر اس کی ملکیت قائم ہے۔ بیوی کو اپنے زیورات کی زکوٰۃ خود ادا کرنی چاہئے، لیکن اگر اس کی طرف سے شوہر ادا کردے تو بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔

 

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

جواب: کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی ملکیت کا ایک تہائی حصہ وصیت کرسکتا ہے، لیکن یہ وصیت کسی وارث کے حق میں جائز نہیں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا صریح فرمان ہے:”کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے“۔
ہبہ اور وصیت میں فرق ہے۔ ہبہ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زندگی میں دوسرے شخص کو اپنی ملکیت کی کوئی چیز بطور تحفہ دے دے اور اسے مالک بنا دے۔ جبکہ وصیت میں وہ چیز، دینے والے کی زندگی میں اس کی ملکیت اور تصرف میں رہتی ہے اور اس کے مرنے کے بعد، وہ شخص جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے، اس چیز کا مالک بنتا ہے۔ محض اس وجہ سے کہ ہبہ کی رجسٹریشن فیس زیادہ ہے اور وصیت کی کم، اس لیے ہبہ کو بہ شکل وصیت رجسٹرڈ کرانا صحیح نہیں ہے۔کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی ملکیت کی چیزوں میں سے جو بھی چاہے دوسرے کو ہبہ کرسکتا ہے، لیکن اس معاملے میں اپنی اولاد کے درمیان تفریق کرنا، کسی کو نوازنا اور دوسروں کو محروم رکھنا درست نہیں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
کسی شخص کی اولادوں میں سے بعض معاشی اعتبار سے مضبوط اور بعض کمزور ہوسکتے ہیں۔ وہ کمزور اولاد کی مدد کرسکتا اور اسے سہارا دے سکتا ہے، لیکن یہ کام اگر وہ اپنے دوسرے لڑکوں کو اعتماد میں لے کر کرے تو انھیں شکایت نہیں ہوگی اور باہم اعتماد، محبت اور ہمدردی کی فضا قائم رہے گی۔
والدین کی خدمت کرنا، ان کا خیال رکھنا اور ان کی تمام ضرورتیں پوری کرنا اولاد پر فرض ہے۔ جو اس میں کوتاہی کرتا ہے وہ گنہگار ہوگا اور جو یہ تمام کام خوش دلی سے بڑھ چڑھ کر انجام دیتا ہے وہ بارگاہ الٰہی میں اجر وانعام کا مستحق ہوگا۔ والدین کو چاہئے کہ وہ محض اس بنیاد پر کہ ان کی اولادوں میں سے کون ان کی زیادہ خدمت کرتا ہے اور کون انھیں نظرانداز کرتا ہے، ان کے درمیان تفریق نہ کریں اور سب کے ساتھ برابر کا سلوک کریں۔

 

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

جواب:اسلام میں نکاح کی ترغیب دی گئی ہے اور اسے آسان تر بنایاگیا ہے اور زنا و بدکاری کے بارے میں سخت وعید سنائی گئی ہے اور ایسے قوانین وضع کیے گئے ہیں کہ اس کاارتکاب دشوار تر ہوجائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نکاح کو بہت بابرکت قرار دیا ہے جس کے مصارف کم سے کم ہوں۔ قرآنی ہدایات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پرعمل کے نتیجے میں عہد نبوی میں نکاح بہت آسان تھا۔ کنواری لڑکیاں ہی نہیں، بلکہ شوہر دیدہ عورتیں بھی اگر نکاح کرناچاہتیں تو اس میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی۔ کسی خاتون کی طلاق ہوجاتی یا اس کا شوہر کسی غزوہ میں شہید ہوجاتا یا اس کی طبیعی موت ہوجاتی تو عدّت پوری ہوتے ہی اس کے پاس نکاح کے متعدد پیغامات آجاتے اور اسے فیصلہ کرناپڑتاکہ وہ کس کے ساتھ نکاح کرے؟
اسلام میں نکاح کے مصارف برداشت کرنا مرد کے ذمے کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:”اے نوجوانوں کے گروہ! تم میں سے جو نکاح کرسکتا ہو اسے ضروراس کی کوشش کرنی چاہئے۔“
لڑکی اور اس کے خاندان پر نکاح کے مصارف کا کوئی بارنہیں ڈالا گیا ہے، بلکہ اسلامی احکام و تعلیمات پر عمل ہو تو اس موقع پر لڑکی خاطرخواہ رقم پاتی ہے۔ اسے مہر ملتا ہے، شوہر اس کے نان ونفقہ کی ذمہ داری لیتا ہے، رشتے داروں کی طرف سے اسے تحائف دیے جاتے ہیں۔
غیراسلامی اثرات کے نتیجے میں اب لڑکیوں کی شادیاں دشوار ہوگئی ہیں۔ منگنی، بارات، جہیز،تلک اور دیگر بے بنیاد رسموں کی مارلڑکیوں کے خاندان والوں پر پڑتی ہے۔ خاطرخواہ رقم جمع نہ ہونے کے سبب شادیوں میں تاخیر ہوتی ہے،بہت سی لڑکیاں کنواری بیٹھی رہ جاتی ہے اور نتیجے میں معاشرہ فتنہ وفساد کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔اس صورت حال میں معاشرہ کے سنجیدہ اور باشعور طبقہ کو اس سماجی مسئلے کے حل کے لیے فکرمند ہوناچاہئے۔ ایسے میں اگر کچھ لوگ کسی ادارے کے تحت غریب مسلم بچیوں کے نکاح کا انتظام کررہے ہیں تویہ ایک بڑا کارِ خیر ہے، جس پر وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”بیوہ اور مسکین کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ (یا فرمایا کہ) رات میں مسلسل عبادت کرنے والے اور دن میں مسلسل روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔“
دوڑ دھوپ میں ان کی خبرگیری کرنا، ان کی ضروریات پوری کرنا، ان کی پریشانیاں دْور کرنا اور وقتِ ضرورت ان کے نکاح کے انتظامات کرنا سب شامل ہے۔
ایک مجلس میں نکاح خواہ ایک جوڑے کا ہو، یا بہت سے جوڑوں کی اجتماعی طور سے شادی کردی جائے، دونوں صورتیں شرعی اعتبار سے جائز ہیں۔ بس ضروری ہے کہ نکاح کے تمام ضابطے پورے کرلیے گئے ہوں۔ مثلاً دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول ہو، مہر طے کیا گیا ہو۔ وغیرہ۔ اس موقع پراگر کوئی ایک فردیا چند افراد مل کر یاکوئی ادارہ نکاح کے مصارف برداشت کرلے، گھریلو ضروریات کی کچھ چیزیں فراہم کردے تو اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ پسندیدہ کام ہے۔ محض یہ بات کہ عہد نبوی میں اس انداز سے شادیاں نہیں ہوتی تھیں، اس کام کے غیر شرعی ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی۔

 

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

جواب:کوئی چیز ہبہ کرکے اسے واپس لینے کے سلسلے میں متعدد احادیث مروی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ہمارے پاس اس سے بری کوئی اور مثال نہیں۔ جو شخص کوئی چیز ہبہ کرکے واپس لیتا ہے وہ کتے کی طرح ہے، جو قے کرکے اسی کو چاٹ لے۔“
دوسری روایت میں، جو حضرت ابن عباس اور ابن عمر سے مروی ہے، کچھ تفصیل ہے۔ اس میں ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی کو کوئی عطیہ دے یا کوئی چیز ہبہ کرے، پھر اسے واپس لے لے، صرف باپ کو اجازت ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو دی ہوئی کوئی چیز واپس لے سکتا ہے۔ جو شخص ایسا کرتا ہے اس کی مثال کتے کی سی ہے کہ وہ بھرپیٹ کھائے، یہاں تک کہ اسے قے ہوجائے، پھر وہ اسی کو چاٹ لے۔“
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز ہبہ کرکے اسے واپس لینا جائز نہیں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سخت ناپسندیدہ قرار دیا ہے اور ایسا کرنے والے کو کتے سے تشبیہ دی ہے، جو قے کرکے دوبارہ اسے چاٹ لے۔ حدیث میں باپ کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے کہ وہ اگر اپنے بیٹے کوکوئی چیز ہبہ کردے تو اسے واپس لے سکتا ہے۔ بعض احادیث میں اس کی تفصیل مذکور ہے۔ ایک صحابی اپنے ایک بیٹے کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر پہنچے اور عرض کی: میں نے اپنے اس بیٹے کو فلاں چیزدی ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا: کیا تم نے وہ چیز اپنے تمام بیٹوں کو دی ہے۔ انہوں نے جواب دیا: نہیں۔تب آپ نے فرمایا: یہ غلط ہے۔ یا تو اپنے تمام بیٹوں کو وہ چیز دو یا اِس سے بھی واپس لے لو۔ اس سے معلوم ہوا کہ باپ کے اپنے بیٹے کو دی ہوئی چیز واپس لینے کی اجازت کا تعلق ظلم وزیادتی سے ہے کہ اگر اس نے دوسرے بیٹوں کی حق تلفی کرتے ہوئے کوئی چیز کسی ایک بیٹے کو دی ہے تو اسے واپس لے لے۔
فقہاء کرام میں سے مالکیہ، شافعیہ، اور حنابلہ کامسلک درج بالااحادیث کے مطابق ہے، یعنی کوئی چیز ہبہ کرکے اسے واپس لیناجائز نہیں ہے۔
لیکن احناف کہتے ہیں کہ بعض دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہبہ واپس لیا جاسکتا ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہبہ کرنے والا اپنے ہبہ کا زیادہ مستحق ہے،اگر اس نے اس کا کوئی بدلہ نہ حاصل کرلیا ہو۔“
اس سے معلوم ہوا کہ ہبہ دینے والے کواسے واپس لینے کا قانونی طور پر حق ہے۔ جن احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے ان کا تعلق اخلاقیات سے ہے۔ ان کا استدلال اس سے بھی ہے کہ حضرات صحابہ میں سے عمر، عثمان، علی، ابن عمر، ابودرداء اور فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہم ہبہ دے کر اسے واپس لے لینے کو جائز سمجھتے تھے اور دیگر صحابہ سے اس کے خلاف مروی نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس مسئلے میں تمام صحابہ کا اجماع ہے۔
احناف کے نزدیک ہبہ کی واپسی کاعمل اس وقت صحیح ہوگا جب دونوں فریق راضی ہوں یا ہبہ واپس چاہنے والا اپنا معاملہ عدالت میں لے جائے اور قاضی اس کی واپسی کا حکم دے۔ لیکن بعض صورتیں ایسی ہیں جب احناف کے نزدیک بھی ہبہ کی ہوئی چیز واپس نہیں کی جائے گی۔
(۱) وہ چیز پورے طور پر تلف ہوگئی ہے۔ اگر کچھ حصہ تلف ہوگیا ہو اور کچھ باقی ہو اور ہبہ دینے والا اس باقی حصے کو وا پس مانگ رہاہو تو اسے واپس کرنا ہوگا۔
(۲)وہ چیز جس کو ہبہ کی گئی ہو اس کی ملکیت سے نکل گئی ہو۔ مثلاً اس نے اسے بیچ دیا ہو یا کسی اور کو ہبہ کردیا ہو۔
(۳)اس میں کوئی ایسا اضافہ کردیاگیا ہو، جو اس سے الگ نہ ہوسکے، مثلاً کوئی زمین ہو اور اس میں گھر بنالیاگیا ہو، یا درخت لگادیے گئے ہوں۔
(۴)ہبہ کرنے والے کو اس کے ہبہ کے بدلے میں کوئی چیز دی گئی ہو اور اسے اس نے قبول کرلیاہو۔
(۵)اس چیز کی ماہیت بدل گئی ہو۔ مثلاً گیہوں کو پیس لیاگیا ہو، یا آٹا کو گوندھ لیاگیا ہو۔
(۶)دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کا انتقال ہوگیا ہو۔

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)