علم، دولت اور عزت

مصنف : محمد عبداللہ بخاری

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : 2014 فروری

اصلاح و دعوت
علم، دولت اور عزت
انتخاب۔عبداللہ بخاری

 

 

علم، دولت اور عزت
    ٹرین اپنی منزل کی طرف دوڑی چلی جا رہی تھی۔اِسٹیشن سے روانہ ہونے کے بعد کچھ دیر تک تو مسافر سامان کو ٹھکانے لگانے اور محفوظ نشستوں پر قابض ہونے میں لگے رہے، جب سب کچھ ٹھیک ہو گیاتولوگوں نے سکون کی سانس لی۔کچھ سستانے لگے، کچھ کھڑکیوں سے باہر دیکھنے لگے، کسی نے اخبارنکالاتوکچھ لوگ آپس کی گفتگو میں مصروف ہوگئے۔ نہایت ہی نستعلیق طبیعت کے ایک نوجوان کے سامنے والی سیٹ پر دو خوبصورت لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ ایک کسی معزز خاندان کی شریف اور باعزت بیٹی نظر آرہی تھی تو دوسری کسی امیر گھرانے کی نٹ کھٹ بٹیا۔”جناب! آپ کی تعریف؟“ نٹ کھٹ لڑکی کے اچانک سوال سے نوجوان چونک پڑا۔”آپ کا سوال مجھ سے ہے؟“ انجان بنتے ہوئے نوجوان نے وضاحت چاہی۔”جی جناب آپ سے۔“لڑکی نے وضاحت کی۔”مجھے علم کہتے ہیں۔ اور آپ؟“ اپنا نام بتاتے ہوئے نوجوان نے لڑکیوں کا تعارْف چاہا۔
”بندی کو عزّت کہتے ہیں۔“ معزز خاندان کی شریف خاتون نے نہایت اَخلاق سے جواب دِیا۔نٹ کھٹ لڑکی فوراً بول پڑی اورما بدولت کو دولت۔
عزّت، خاموش تھی، وہ شاید گفتگو کو طول دینا نہیں چاہتی تھی لیکن نٹ کھٹ دَولت بھلا کہاں چْپ رہنے والی تھی، نوجوان سے مخاطب ہوتے ہوئے بولی، ”اپنے بارے میں کچھ اور بتائیے نا!“
نوجوان نے سنبھالا لیا، لباس اور وضع قطع دْرْست کرتے ہوئے اپنا مزید تعارْف کچھ اِس طرح پیش کیا۔”جی! بندے کو علم کہتے ہیں، میں ایک ایسا خزانہ ہوں، جسے نہ چور چْرا سکتا ہے، نہ آگ جلا سکتی ہے اور نہ کوئی آندھی، طوفان اور سیلاب بہا کر لے جا سکتا ہے۔مجھے جتنا خرچ کیا جائے میں اْتنا ہی بڑھتا ہوں۔ مجھ سے دْنیامیں جہاں ایک طرف جہالت کے اندھیرے دور ہوتے ہیں تو دوسری طرف اِنسان کی چشمِ بصیرت رَوشن ہوتی ہے۔بقولِ شاعر:
عِلم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے عفتِ قلب و نگاہ
مجھے حاصل کرنے والا عالم کہلاتا ہے۔ جس کی فضیلت میں قرآنِ پاک میں اللہ رَبّْ العزت اِرشاد فرماتا ہے،”اَے پیغمبر! کہہ دیجیے کہ کیا عالم اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟“اِس کا جواب یہ ہے کہ جیسے ایک زندہ شخص اور مْردہ، ایک سْننے والا اور بہرہ، ایک دیکھنے والا اور اَندھاکبھی برابر نہیں ہو سکتے،بالکل ایسے ہی ایک عالم اور جاہل ہر گز برابر نہیں ہو سکتے۔بلکہ اللہ جلّ شانہ کے یہاں ایک عالم کے مقام و مرتبے کا ذِکر اِن الفاظ میں ہوا ہے:”تْم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا، اللہ تعالیٰ اْن کے درجات بْلند کرتا ہے۔“
اِتنا کہہ کر علم نے قدرے توقف کیا۔
”اپنے بارے میں کچھ اَور بتائیے نا!“ عزت بے ساختہ بول پڑی۔نوجوان کی باتوں میں شاید اْس کی دلچسپی بڑھ رہی تھی۔
”میری خداداد خصوصیات کی بِنا پر ہی حضرت علی (رضی اللہ عنہ)نے اپنے ایک شعر میں یہ فرمایا کہ:”ہم اپنے بارے میں اللہ جبار و قہا رکی اس تقسیم پر راضی ہو گئے کہ ہمارے لیے’عِلم‘ اور جاہلوں کے لیے ’مال‘ ہے۔ اِس لیے کہ مال و دولت تو عنقریب فنا کے گھاٹ اْتر جانے والے ہیں۔ جب کہ عِلم لا زوال دولت ہے جو ہمیشہ باقی رہے گی۔“آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے:”عِلم بہر حال مال سے بہتر ہے، اِس لیے کہ علم تیرا پاسبان ہے اور مال کی تجھے نگہداشت کرنی پڑتی ہے۔“”بہت خوب! آپ تو بڑے کام کی چیز نکلے۔بڑی فضیلت ہے آپ کی! ہر کسی کو چاہیے کہ وہ آپ کو حاصل کرنے کی کوشش کرے، تو جنابِ عِلم! کیا آپ اپنے نام کے معنیٰ پر کچھ روشنی ڈالیں گے۔“ ”جی! عِلم کے لفظی معنیٰ ہیں جاننا، اور عِلم والوں کے نزدیک، کسی چیز کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ کر اْسے بخوبی جان لینا عِلم ہے۔“
”سب کچھ مجھ ہی سے دریافت کریں گی یا اپنے بارے میں بھی کچھ بتائیں گی۔“
”کیوں نہیں؟“امیر گھرانے کی نٹ کھٹ بٹیاپھٹ سے بول پڑی۔”جیسا کہ ہم آپ کو بتا چکے ہیں ما بدولت کو دَولت کہتے ہیں۔ایرانیوں میں زَر کہلاتی ہوں تو عربوں میں ثَروَت اور بھارت کے لوگ مجھے دھن کے نام سے جانتے ہیں،میں وہ طاقت ہوں جس سے دْنیا کی ہر چیز خریدی جا سکتی ہے، میں جس کے پاس ہوتی ہوں وہ اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھتا ہے، اس لیے کچھ لوگ مجھے خوش قسمتی اور اِقبال کے طور پر بھی جانتے ہیں، چونکہ دْنیا کی ساری حکومتیں میرے بل بوتے پر ہی چلتی ہیں لہٰذا دولت والوں میں حکومت و سلطنت کے نام سے بھی معروف ہوں۔ میرے بارے میں ایک کڑوا سچ یہ ہے کہ اِنسانی جنگوں کی تین بڑی وجوہات میں میرا شْمار ہوتا ہے۔“
”اورآپ اپنے بارے میں کچھ نہیں بتائیں گی۔“دَولت نے جیسے ہی سانس لینا چاہا، نوجوان علم نے محترمہ عزت کی جانب اِشارہ کرتے ہوئے کہا۔”جی! کیوں نہیں؟“ عزت نے سنبھلتے ہوئے کہا۔
”میں اللہ کی ایک ایسی نعمت ہوں جس کسی کے حصہ میں آجاتی ہوں، دْنیا میں اْس کی قدر ومنزلت بڑھ جاتی ہے۔ لوگ اْس کا اِحترام کرتے ہیں، اْسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، محفلوں میں بلند مقام پر بٹھاتے ہیں، جلوس میں سروں پر اْٹھاتے ہیں۔“
محترمہ عزت اپنے بارے میں کچھ اور کہتیں اس سے قبل وہ اسٹیشن آگیا جہاں تینوں کو اْترنا تھا، اْترنا کیا تھا تینوں کو جْدا ہوناتھا۔ اِسٹیشن پر اْترنے کے بعد تینوں نے اپنا اپنا سامان سنبھالا اور ایک دوسرے کو الوداع کہنے لگے۔ ”جناب عِلم آپ کے ساتھ سفر اچھا رہا، ہم بچھڑ تو رہے ہیں یہ تو بتا دیجیے کہ اب آپ سے کہاں ملاقات ہوگی؟“دولت نے سوال کیا۔ ”مجھے تو آپ علم والوں میں، اسکولوں، کالجوں، مدارس اور جامعات کی لائبریریز میں کہیں بھی پا سکتی ہیں میں ہر جگہ آپ کو مل جاؤں گا۔“”اورمیں آپ کواْمراء،اہلِ دولت اور حکومتوں کے توشہ خانوں میں مِل جاؤں گی۔“دولت نے اِتراتے ہوئے کہا۔
”اور محترمہ آپ؟“نوجوان علم نے عزّت سے سوال کیا۔
”میں آپ کو اپنا پتا نہیں بتا سکتی۔“عزت نے اپنی افسردگی چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔”کیوں؟“نوجوان نے سوال کیا۔”حمد اور حکم کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی میر ا سچا مالک و مستحق ہے۔میں وہ نعمت ہوں اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ اِنسانی تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جسے اس نعمت سے محروم کردِیا، اْسے ہمیشہ کے لیے محروم کردیا۔یعنی میں جس گھر سے ایک بار رْخصت ہوتی ہوں وہاں دوبارہ کبھی لوٹ کر نہیں آتی۔ اس گفتگو کے بعد تینوں نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہتے ہوئے اپنی اپنی راہ لی۔
عورت اور مینڈک
    ایک عورت گالف کھیل رہی تھی کہ ایک ہٹ کے بعد اس کی گیند قریبی جنگل میں جا گری، بال ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ جھاڑیوں میں پہنچ گئی جہاں گیند پڑی تھی۔ اس نے دیکھا کہ ادھر ایک مینڈک کانٹے دار جھاڑی میں پھنسا ہوا ہے۔ مینڈک نے عورت کو دیکھ کر کہا، خاتون اگر آپ مجھے ان کانٹوں سے نجات دلا دیں گی تو میں آپ کی تین خواہشات پوری کروں گا۔ یہ سن کر خاتون نے فوراً ہاتھ بڑھا کر مینڈک کو کانٹوں سے نجات دلا دی۔مینڈک نے کانٹوں سے نجات پا کر شکر ادا کیا اور خاتون سے کہنے لگا جی اب آپ کہیں کیا خواہش ہے آپ کی، مگر میں معافی چاہتا ہوں کہ میں آپ کو یہ بتانا بھول گیا کہ آپ جو کچھ مانگیں گی، آپ کے شوہر کو وہی چیز دس گنا ملے گی۔خاتون کو یہ سن کر بڑا غصہ آیا، خیر انہوں نے کہا کوئی بات نہیں۔میری پہلے خواہش ہے کہ میں دنیا کہ سب سے خوبصورت عورت بن جاؤں۔ مینڈک نے کہا سوچ لیں آپ کا شوہر دس گنا خوبصورت ہو جائے گا؟ کوئی بات نہیں، میں سب سے خوبصورت ہوں گی، تو وہ مجھے ہی دیکھے گا خاتون نے کہا۔ مینڈک نے کوئی منتر پڑھا اور خاتون بے حد خوبصورت ہو گئی۔دوسری خواہش کہ میں سب سے امیر ہو جاؤں۔ مینڈک نے کہا سوچ لیں آپ کا شوہر آپ سے بھی دس گنا امیر ہو جائے گا؟ خاتون نے کہا کوئی مسئلہ نہیں اس کی دولت یا میری، ایک ہی بات ہے۔ مینڈک کا منتر اور وہ خاتون شوں کر کے امیر۔جی خاتون آپ کی تیسری خواہش؟ مینڈک نے پوچھا؟مجھے ایک ہلکا سا دل کا دورہ یعنی ہارٹ اٹیک ہو جائے۔۔۔۔
اس کہانی کا سبق:خواتین بہت چالاک ہوتی ہیں، ان سے زیادہ ہوشیاری اچھی نہیں۔
جی جناب - خاتون کے شوہر کو خاتون کے مقابلے میں دس گنا ہلکا ہارٹ اٹیک ہوا۔
اس کہانی کا سبق: خواتین خود کو بہت عقلمند سمجھتی ہیں حالانکہ ایسا ہے نہیں انہیں یہ سمجھتے رہنے دیں اور محظوظ ہونے دیں۔
اکبر اور بیربل
    اکبر بادشاہ کے 9 رتنوں میں سے ایک راجہ بیربل بہت مشہور ہیں۔ بیربل کی دانشمندی نے بیربل کے کردار کو افسانوی بنا دیا۔ اکبر اور بیربل سے متعلق ایک واقعہ بہت مشہور ہے۔ روایت کے مطابق ایک رات کو جب بادشاہ اور بیربل بھیس بدل کر شہر کا گشت کر رہے تھے۔ دونوں کا گزر ایک حجام کی جھونپڑی کے پاس سے ہوا۔ حجام جھونپڑی کے باہر چار پائی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ اکبر نے اس سے پوچھا۔ بھائی یہ بتاؤ کہ آج کل اکبر بادشاہ کے راج میں لوگوں کا کیا حال ہے۔ حجام نے فوراً جواب دیا۔ اجی کیا بات ہے۔ ہمارے اکبر بادشاہ کی اس کے راج میں ہر طرف امن چین اور خوشحالی ہے۔ لوگ عیش کر رہے ہیں۔ ہر دن عید ہے ہر رات دیوالی ہے۔ اکبر اور بیربل حجام کی باتیں سن کر آگے بڑھ گئے۔اکبر نے بیربل سے فخریہ لہجے میں کہا۔ بیربل دیکھا تم نے ہماری سلطنت میں رعایا کتنی خوش ہے؟ بیربل نے عرض کیا بیشک جہاں پناہ آپ کا اقبال بلند ہے۔ چند روز بعد پھر ایک رات دونوں کا گزر اسی مقام سے ہوا۔ اکبر نے حجام سے پوچھ لیا۔ کیسے ہو بھائی؟ حجام نے چھوٹتے ہی کہا۔ اجی حال کیا پوچھتے ہو، ہر طرف تباہی بربادی ہے۔ اس اکبر بادشاہ کی حکومت میں ہر آدمی دکھی ہے۔ ستیاناس ہو، اس منحوس بادشاہ کا۔ اکبر حیران رہ گیا۔ کہ یہی آدمی کچھ دن پہلے بادشاہ کی اتنی تعریف کر رہا تھا۔ اور اب ایسا کیا ہوگیا؟۔ جہاں تک اس کی معلومات کا سوال تھا۔ عوام کی بد حالی اور پریشانی کی اطلاع اسے نہیں تھی۔ اکبر نے حجام سے پوچھنا چاہا۔ لوگوں کی تباہی اور بربادی کی وجہ کیا ہوئی۔ حجام کوئی وجہ بتائے بغیر حکومت کو برا بھلا کہتا رہا۔ اکبر اس کی بات سے پریشان ہوگیا۔ الگ جا کر بادشاہ نے بیربل سے پوچھا "آخر اس شخص نے یہ سب کیوں کہا"۔ بیربل نے جیب سے ایک تھیلی نکالی اور بادشاہ سے کہا۔ اس میں 10 اشرفیاں ہیں دراصل میں نے 2 دن پہلے اس کی جھونپڑی سے چوری کروالی تھیں۔ جب تک اس کی جھونپڑی میں مال تھا۔ اسے بادشاہ کی حکومت سب کچھ اچھا لگ رہا تھا۔ اور اپنی طرح وہ سب کو خوش اور سکھی سمجھ رہا تھا۔ اب وہ اپنی دولت لٹ جانے سے غمگین ہے ساری دنیا اسے تباہی اور بربادی میں مبتلا نظر آتی ہے۔ جہاں پناہ، اس واقعے سے آپ کو یہ گوش گزار کرنا چاہ رہا تھا کہ ایک فرد اپنی خوشحالی کے تناظر میں دوسروں کو خوش دیکھتا ہے۔ لیکن بادشاہوں اور حکمرانوں کو رعایا کا دکھ درد سمجھنے کے لئے اپنی ذات سے باہر نکل کر دور تک دیکھنا اور صورتحال کو سمجھنا چاہئیے۔٭٭٭