میرے دیس میں انصاف کیسے بکتا ہے

مصنف : نیاز احمد کھوسہ

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : اگست 2019

سچی کہانی
میرے دیس میں انصاف کیسے بکتا ہے 
نیاز احمد کھوسہ، سابقہ ایس ایس پی

 

اس بدبودار سسٹم میں ہم زندہ کیسے ہیں۔۔۔۔پڑھیے اور دل جلائیے۔ایک لڑکی اپنے عزت بچاتے ہوئے اپنے چار سالہ بیٹے کے سامنے قتل ہوگئی، ہم اپنی پوری کوششوں کے باوجود اُس کو انصاف نہ دلاسکے۔

 

قتل کے ہر کیس کا موقع ڈی ایس پی اورایس ایس پی نے لازمی دیکھنا ہوتا ہے۔مجھے انسپکٹر فرید نے فون کیا کہ”سر گُلستان جوہر میں ایک خاتون کا قتل ہوگیا ہے آپ آکر موقع دیکھ لیں ”میں کچھ دیر میں علاقہ ڈی ایس پی ڈاکٹر نجیب کے ساتھ موقع پر موجود تھا۔ 
واقعہ یہ تھا کہ خاتون خانہ کا شوہر صبح کو جیسے ہی اپنی جاب پر جانے کیلئے فلیٹ سے نکلا تھوڑی دیر میں خاتون کے شوہر کے ایک رشتہ دار نے بیل بجائی اور گھر میں آگیا اُس وقت خاتون خانہ اپنے 4 سالہ بیٹے کو اسکول بھیجنے کیلئے تیار کررہی تھی۔ نوجوان آتے ہی خاتون سے دست درازی کرنے لگا۔ خاتون لڑنے مرنے پر اُتر آئی، لڑکا اس صورت حال کیلئے تیار نہیں تھا۔ جب لڑکے نے دیکھا کہ بات بگڑ رہی ہے تو جلدی سے کچن میں گیا اور سبزی کاٹنے والی چُھری سے خاتون پر حملہ کردیا اور چُھریوں کے وار کر کے اُسے بُری زخمی کردیا۔ اتنے میں باہر کام کرنے والی نوکرانی نے بیل بجائی تو لڑکا بوکھلا گیا اور جلدی میں باہر کا دروازہ کھولا اور نکل بھاگا، دروازے کے ساتھ خاتون کا 4 سالہ بیٹا کھڑا تھا جو دروازہ اچانک کُھلنے کی وجہ سے سر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے زخمی ہوگیا تھا اور بچہ اس آفت ناگہانی کو دیکھ رہا تھا۔ یہ تو بچے کی زندگی تھی کہ عین وقت پر نوکرانی آ گئی ورنہ ایسے موقعہ پر ملزمان پہچانے جانے کے ڈر سے پورے کے پورے خاندان کو قتل کر دیتے ہیں۔•نوکرانی نے اندر داخل ہو کر دیکھا کہ خاتون اور بچہ دونوں زخمی ہیں، نوکرانی نے باہر نکل کر شور کیا۔ ساتھ کے فلیٹوں سےلوگ نکل آئے اور چوکیدار بھی گیٹ چھوڑ کر اوپر آگیا۔ نوکرانی چیختی چلاتی رہی مگر کوئی اپنی کار نکالنے کیلئے تیار نہ ہوا کیوں کہ ایسے موقعہ پر ہم لوگ اپنی ”قیمتی“کار کے سیٹ کور خون آلود نہیں کرنا چاہتے۔ مجبوراً چوکیدار نیچے گیا اور منت سماجت کرکے ایک رحم دل ٹیکسی والے کو راضی کیا (ورنہ گاڑی خون سے خراب ہونے کے ڈر سے ٹیکسی والے بھی انکار کرتے ہیں) اور لوگوں کی مدد سے خاتون اور بچے کو ٹیکسی میں منتقل کیا نوکرانی دونوں زخمیوں کو لے کر سول اسپتال چلی گئی خاتون زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے راستے میں ہی فوت ہوگئی۔
•موقع واردات دیکھتے وقت میں ایک بات سے الجھن کا شکار ہو رہا تھا کہ باتھ روم کے فرش پر خون کے قطروں کے نشانات تھے نوکرانی کا کہنا تھا کہ فلیٹ کا دروازہ جیسے ہی کھلا ملزم لڑکا اُسے (نوکرانی) دھکا دیکر سیڑھیوں کی طرف بھاگا۔ نوکرانی نے اندر داخل ہوکر دیکھا کہ خاتون خانہ بیڈ کے ایک سائیڈ پر خون میں لت پت پڑی مدد کیلئے چیخ رہی تھی۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ باتھ روم کے فرش پر کس کا خون ہے تو اُس نے بتایا کہ خاتون تو چلنے پھرنے کی قابل نہیں تھی اور وثوق سے کہا کہ خاتون تقریباً بیہوشی کی حالت میں تھی۔
•خاتون کا شوہر،دوسرے رشتہ دار اور پولیس بھی ہسپتال پہنچ گئی تھی۔ وہاں بچے نے سب کو بتایا کہ یاسر انکل نے اُس کی ماں کو چُھری سے زخمی کیا ہے۔انسپکٹر فرید نے شام تک لڑکے کو گرفتار کر لیا۔ملزم لڑکے کے دائیں ہاتھ پر تازہ پٹی کی ہوئی تھی۔ زخم کے متعلق پہلے تو ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگا مگر تھوڑی سی چھترول کے بعد راستے پر آگیا اور بتایا کہ چُھری کا سائز چھوٹا تھا اور خاتون پر وار کرتے وقت خون کی وجہ سے چُھری کے ہتھیے سے اُس کا ہاتھ پھسلا اور اُس کی دو انگلیاں زخمی ہو گئیں اور مزید بتایا کہ دروازے پر گھنٹی بجتے ہی وہ جلدی میں باتھ روم میں گیا اور چُھری واش بیسن میں چھوڑی اور اپنے زخمی انگلیاں پانی سے دھوئیں اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا اور موٹر سائیکل پر قریبی ہسپتال گیا اور پٹی کرا لی۔
 •ایف آئی آر درج ہوگئی، باتھ روم میں خون کے قطروں کا معمہ حل ہوچُکا تھا، پولیس ثبوتوں کے لیئے ہمیشہ ایک سیمپل لیتی ہے مگر میں نے اپنے آفسروں کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ دو سیمپل لیا کریں لہذا باتھ روم سے دو خون آلود ٹائل نکال کر ایک ٹائل اورخاتون کے خون آلود کپڑے، چُھری اور دوسری ضروری چیزیں پولیس کے کیمیکل ایگزامنر کو ارسال کردیں گئیں۔
•جیساکہ یہ ایک قتل کا عام کیس تھا ملزم گرفتار ہوچُکا تھا اور انسپکٹر فرید جیسا اچھا افسر اس کیس کو دیکھ رہا تھا۔ ضروری کارروائی کے بعد کیس کا چالان سیشن کورٹ میں داخل کردیا گیا اور ضروری ثبوت اور گواہیاں ترتیب دے دی گئیں  اور ملزم کی بچت کے تقریباً سارے دروازے بند کر دیئے گئے تھے اس لیئے میں بے فکر ہوکر اپنے روز مرہ کے کام میں مصروف ہوگیا۔
•تقریباً ایک مہینے بعد انسپکٹر فرید پسینے میں شرابور میرے پاس پریشان حالت میں آیا اور بتایا کہ ”سر ظلم ہو گیا ہے حنا کا قتل کیس خراب ہوگیا ہے“۔میں چونک گیا فرید نے اپنے تھیلے سے ایک سیل شُدہ ٹائل نکالی اور مجھے دکھاتے ہو بتایا کہ”سر ٹائل بدل دیا گیا ہے اور Chemical Examiner نے ارسال شُدہ سیمپل کی جگہ مارکیٹ سے نیا ٹائل لے کر سیل کرکے میرے حوالے کردیا ہے۔بتایا کہ سر دوسرا اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ خاتون کے کپڑوں سے ملنے والا خون اور ٹائل سے ملنے والا خون خاتون کا  ہی ہے۔
Chemical Examiner کی رپورٹ پڑھ کر میرا سر خود چکرا کر رہ گیا، کیونکہ Tecnical رپورٹ نے کیس کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا تھا۔
 جیساکہ میں پہلے بتا چکا ہوں ہم ہر ثبوت کے دو سیمپل لیتے ہیں اس لیئے میں ہمت نہیں ہارا اور انسپکٹر فرید کو کہا کہ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں دوسری ٹائل ہمارے پاس موجود ہے ہم DNA کرا لیتے ہیں مگر اس میں دقّت یہ تھی ملزم ہمارے پاس نہیں تھا اور عدالتی ریمانڈ پر جیل میں تھا اور عدالت کی اجازت کے بغیر اُس کے خون کا سیمپل لینا ممکن نہیں تھا۔ میں نے انسپکٹر فرید کو حُکم دے دیا کہ وہ مُلزم کے خون کا سیمپل لینے کیلئے سیشن جج صاحب کی عدالت میں درخواست دے دے۔
 سیشن جج صاحب East کی عدالت میں درخواست داخل کر دی گئی اور میں ہر تاریخ پر انسپکٹر فرید سے پوچھتا کہ کیا ہوا وہ جواب میں بولتا کہ سر ملزم کے 10 وکیل آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہماری درخواست کی مخالفت کرتے ہیں اور Date پڑ جاتی ہے، میں نے انسپکٹر فرید کو کہا Next Date پر میں خود چلوں گا

اور عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کروں گا۔اگلی تاریخ پر اُس وقت کے سیشن جج جناب صادق حسین بھٹی کی روبرو میں پیش ہوا ملزم کے وکلا کا یہ دلیل تھی کہ جب Chemical Examiner کی رپورٹ آ چُکی ہے تو DNA کروانے کی کیا ضرورت ہے؟  میں نے جج کو بتایا کہ Chemical Examiner کی رپورٹ کو Manage کیا گیا ہے۔ میں نے نیا سیل شدہ ٹائل جج صاحب کو دکھاتے ہوئے کہا کہ ہم نے باتھ روم کے فرش سے سیمنٹ لگا ہوا خون آلود ٹائل Examination کیلئے بھیجا مگر واپسی میں جعل سازی کرکے کیس کے شواہد گُُم کرنے کیلئے ٹائل کوبدل دیا گیا۔ ایک خاتون اپنی عزت بچاتے ہوئے اپنے پانچ سالہ بچے کے سامنے قتل ہوگئی، ہم اس کیس کو لاوارث نہیں چھوڑ سکتے۔ میں نے جج کو باتھ روم سے سیمنٹ لگا ہوا سیل شدہ دوسرا ٹائل اور ٹائل نکالنے کی تصاویر دکھائیں اور بتایا کہ ہم کیمیکل ایگزامینرکی رپورٹ پر اس لیئے بھی اعتبار نہیں کر سکتے کہ اُس نے مارکیٹ سے نیا ٹائل لیکر سیل کرکے بھیج دیا ہے۔
ملزم کے وکلا نے کافی شور شرابہ کیا مگرسیشن جج صاحب نے ہماری درخواست Allow کر دی اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو حکم کیا کہ جیل کے ڈاکٹر سے ملزم کے خون کا سیمپل لیکر سیل کرکے انسپکٹر فرید کے حوالے کیا جائے۔ 
انسپکٹر فرید مجھے گاڑی تک چھوڑنے آیا میں نے اُس کو کہا کہ آپ نے یہاں سے کہیں جانا نہیں ہے۔ جج صاحب کی کورٹ سے آرڈر لے کر آج ہی جیل سے ملزم کے خون کا سیمپل لینا ہے، مجھے خدشہ تھا کہا اگر لیٹ ہوگیا تو مُلزم کے وکلا ہائی کورٹ سے سیمپل لینے والے لیٹر کا Operation نہ Suspend کروالیں۔ 
 میں دفتر جانے کی بجائے سیدھا IG جیل خانہ جات کے پاس چلا گیا اور اُن کو سارا ماجرا بتا دیا انھوں نے میرے سامنے جیل سپرنٹنڈنٹ کو احکامات دے دیئے کہ شیشن جج صاحب کے آرڈر پر آج ہی عمل درآمد کرنا ہے اور جب تک انسپکٹر فرید کورٹ کا آرڈر نہ لائے جیل کے ڈاکٹر کو موجود Available رکھنا ہے۔
 شام کو پانچ بجے انسپکٹر فرید کا فون آیا کہ صاحب میں نے ملزم کا سیل شُدہ خون کا سیمپل جیل کے ڈاکٹر سے وصول کر لیا ہے میں نے احتیاطً پوچھا کہ ڈاکٹر نے مُلزم یاسر سے خون کا سیمپل آپ کے سامنے لیا
ہے؟ انسپکٹر فرید نے جواب دیا کہ سر ٹائل بدلے جانے کے بعد میں محتاط ہوگیا ہوں، میں نے سیمپل اپنے سامنے کروایا ہے۔ میں نے اُس کو کہا کہ کل صبح پہلی فُرصت میں آپ نے میرے دفتر آنا ہے اور DNA کیلئے NFSA اسلام آباد والی لیب کو خط بنواکے ٹائل اور ملزم کے خون کا سیمپل TCS کرنا ہے۔
 دوسرے دن صبح ہی ٹائل اور خون کاسیمپل NFSA اسلام آباد TCS کردیا گیا میں نے احتیاطً NFSA لیب اسلام آباد کو خط لکھ دیا کہ جیساکہ ملزم لوگ بہت مالدار اور پیسے والے ہیں پہلے بھی Chemical Examiner Karachi کے دفتر میں سیمپلز کی Tempering ہوئی ہے اور کیس کے شواہد کو گم کردیا گیا ہے یہ بات آپ کے علم میں رہے اور ملزمان ایسی کوشش دوبارہ بھی کر سکتے ہیں۔
کچھ دنوں بعد مجھے NFSA لیب اسلام آباد سے DNA رپورٹ موصول ہوگئی جس میں ٹائل پر گرا ہوا خون ملزم یاسر کے خون کا سمپل کا DNA میچ ہوگیا تھا۔ میں نے خوشی سے انسپکٹر فرید کو فون پر مبارکباد دی اور اس کو کہا کہ پہلی فرصت میں DNA رپورٹ ٹرائل کورٹ میں جمع کرادے۔
 DNA رپورٹ آنے کے بعد یہ واضح ہوگیا تھا کہ Chemical Examiner کی رپورٹ بدنیتی پر مبنی ہے اور اُسے مُلزم کی مدد کرنے اور شواہد کی Tempering کرنے کے الزام میں گرفتار کرنا تھا مگر وہ ٹائل میرے دفتر سے غائب ہو چکاتھی، میرا ارادہ تھا کہ Examiner کو حنا قتل کیس میں گرفتار کرکے 14 روزہ ریمانڈ میں صبح و شام چھترول کرواؤں مگر مجھے افسوس ہے کہ میں Chemical examiner کا کچھ بھی نہ کرسکا۔
 ملزم کے وکلا نے Chemical examiner کی رپورٹ کی بنیاد پر مُلزم کی ضمانت سیشن کورٹ میں لگائی ہوئی تھی جو DNA رپورٹ آنے کے بعد شیشن جج صاحب نے خارج کر دی۔ کیس مضبوط تھا میں نے انسپکٹر فرید کو کہا کہ کیس کو جلدی چلواکرevidence ریکارڈ کرا دے مگر آپ کو پتہ ہے کہ یہاں پر سب کچھ ممکن ہے۔مُلزم کے وکلا نے ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست لگا دی اور جان بوجھ کر ایسے جج صاحب کے پاس لگائی جن کی شُہرت کچھ اچھی نہیں تھی۔ اور کچھ دنوں کے بعد وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، جج صاحب نے مُلزم کی ضمانت لے لی اور مجھے

کچھ دوست وکلا سے معلوم ہوا کہ ضمانت 80 لاکھ کی ڈیل پر ہوئی ہے۔
 میں اپنی طبیعت پر کنٹرول نہ رکھ سکا اور عدالتی وقت ختم ہونے کے بعد رجسٹرار ہائیکورٹ سے ملنے چلا گیا اس وقت کا میں نے انتخاب اس لیئے کیا کہ وکلا اور سائل وغیرہ کورٹ سے چلے جاتے ہیں اور رش نہ ہونے کی برابر ہوتا ہے، میں نے کیس کی ساری حقیقت اُن کو بتادی اور گذارش کی کہ مجھے چیف جسٹس صاحب سے ملنے کا ٹائم لیکر دیں۔ رجسٹرار صاحب ایک اچھے اور ایماندار انسان تھے اور انھوں نے کہا آپ انتظار کریں میں ابھی آپ کو CJ صاحب سے ملواتا ہوں، اور وہ کچھ فائلیں اور ڈائری لیکر چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد چیف جسٹس صاحب کا اردلی مجھے بُلانے آگیا۔
 میں اوپن کورٹ میں چیف جسٹس صاحب کے سامنے کئی بار پیش ہو چُکا تھا اور وہ مجھ پر کافی اعتماد کرتے تھے۔ انھوں نے میری بات بڑی غور سے سُنی،میں نے ٹائل بدلنے،Examiner کی رپورٹ،ٹائل چوری ہونے،جیل سے مُلزم کا خون کا سیمپل لینے اور DNA رپورٹ چیف جسٹس صاحب کو دکھائی وہ کرسی پر باربار پہلو بدل کر بے چین ہورہئے تھے اور مجھ سے سوال کیا کہ کیا آپ کو یقین ہے کہ ڈیل کے تحت ضمانت ہوئی ہے؟ میں نے اُن کو کہا کہ سر آپ سینئر ترین جج ہیں آپ خود یا کسی اور جج صاحب سے ضمانت کی فائل کو چیک کروالیں۔ اگر ضمانت میرٹ پر لی گئی ہے تو میں غلط ہوں۔ اگر ضمانت لینے میں مُلزم کو Favour دیا گیا ہے تو کون مفت میں Favour دیتا ہے؟ چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ اگر ضمانت میں Favour دیا گیا ہے تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ میں کیا کرتا ہوں۔ رجسٹرار صاحب بھی مُلاقات میں موجود تھے اور مجھے بُلاکر لے آنے والا اردلی چیمبر میں اندر موجود سب کچھ سُن رہا تھا۔ میں چیف جسٹس صاحب کو سیلوٹ کرکے چیمبر سے نکل آیا۔
 پتہ نہیں ضمانت لینے والے جج صاحب کو کیسے پتہ چل گیا ایک دن IG صاحب (جو کچھ ماہ پہلے نئے نئے لگے تھے) نے مجھے اپنے دفتر بُلا لیا جسے میں نے دفتر میں اندر جاکر سیلوٹ کیا وہ بجائے جواب دینے کے stick لیکر کھڑے ہوگئے اور سخت برہمی سے کہا کہ تم میری اجازت کے بغیر چیف جسٹس صاحب سے کیوں ملنے گئے؟ تم نے جج صاحب کی کیوں شکایت کی؟ ڈسپلن

فورس ہے میں نے IG صاحب کو کوئی وضاحت نہیں دی اسلئے کہ وہ سخت غصے میں تھے، اُن کا کہنا تھا کہ تمھاری اس حرکت کی وجہ عدلیہ اور پولیس کے تعلقات خراب ہو جائیں گے اور تُم اُس جج صاحب کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے تم نے جج صاحب کی شکایت کرکے خود کو خراب کیا ہے۔ میں تمھاری ACR خراب کردوں گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اُن کی بات ختم ہونے پر بس اپنی غلطی مان کرکہا کہ سر معذرت اورسیلوٹ کیا اور دفتر سے باہر نکل آیا۔
میں نے اپنے ضمیر کے مُطابق قاتل اور کرمنلز کا ساتھ دینے والے جج کی نشاندہی کر کے کچھ غلط نہیں کیا تھا، میرے نزدیک جج صاحب اور Chemical examiner کا جُرم ناقابل معافی تھا، جو لوگ ایک جج کو خریدنے کی قوت رکھتے تھے انھوں نے غریب موٹر سائیکل پر گھومنے والے انسپکٹر فرید پر کتنا زور نہیں لگایا ہوگا؟؟!
یہ سارا کچھ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آگر انسپکٹر فرید خوف خدا نہ رکھتا ہوتااور کیس کا سودا کر لیتا تو میں اُس کو کیا کر لیتا؟؟!!!
کچھ دنوں میں میرا تبادلہ Anti Car lifting cell میں Ssp ثنااللہ عباسی (موجودہ IG بلتستان) کی جگہ کردیا گیا۔
 ان ہی دنوں اخبارات میں پڑھا کہ ضمانت لینے والے جج صاحب کو کنفرم نہیں کیا گیا اور ہائی کورٹ سے فارغ کردیا گیا ہے، میں اپنے حصے کا کام کر چُکا تھا!!!!
 ملزم ضمانت لیتے ہی امریکا فرار ہوگیا لڑکی کے والدین نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائرکر دی کہ ملزم کو گرفتار کیا جائے، انسپکٹر فرید کا بھی تبادلہ کردیا گیا تھا۔
 پاکستان کا امریکا سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے جس سے مُلزم کو واپس لایا جا سکے، انٹر پول کو ریڈ وارنٹ ارسال کرکے ملزم کی گرفتاری ممکن کی جا سکتی ہے مگر اس کیلئے 
جن افسران کی وہاں تعیناتی ہے وہی سب کچھ کر سکتے ہیں اس طرح بیچاری حنا کا کیس اپنی موت آپ مر گیا۔ اور ایسے لاکھوں کیسز کے فائلوں میں اس کیس کی فائل بھی پتہ نہیں کہاں گم ہوگئی ہو گی؟!!
 آج بھی اگر انسانی حقوق کی تنظیمیں، سندھ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ تھوڑی کوشش کریں تو ریڈ وارنٹ نکل سکتا ہے۔ اور ملزم یاسر کو پاکستان لایا جاسکتا ہے۔
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
٭٭٭