سات تراجم ، نو تفاسیر

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : نورالقرآن

شمارہ : جنوری 2014

 

قسط۱۰۸
نورالقرآن 
سات تراجم ، نو تفاسیر
محمد صدیق بخاری
سورہ المائدہ 
۳۴۔۳۲

مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ3 ؔ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا م بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْفَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَلَقَدْ جَآءَ تْھُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِ ز ثُمَّ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ ہ۳۲ اِنَّمَا جَزآؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْہِمْ وَاَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ط ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْی’‘ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَاب’‘ عَظِیْم’‘ ہلا ۳۳ اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھِمْ ج فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ ہع ۳۴ 
تراجم
۱۔۳۲۔اسی سبب سے ۔ لکھا ہم نے بنی اسرائیل پر ، کہ جو کوئی مار ڈالے ایک جان ، سوائے بدلے جان کے ، یا فساد کرنے پر ملک میں ، تو گویا مار ڈالا سب لوگوں کو ۔ اور جس نے جلایا ایک جان کو ، تو گویا جلا یا سب لوگوں کو ۔ لا چکے ہیں ان پاس ، رسول ہمارے ، صاف حکم ، پھر بہت لوگ ان میں اس پر بھی ملک میں دست درازی کرتے ہیں۔ ۳۳۔ یہی سزا ہے ان کی جو لڑائی کرتے ہیں، اللہ سے اور اس کے رسول سے ، اور دوڑتے ہیں ملک میں ، فساد کرنے کو ، کہ ان کو قتل کر یے ، یا سولی چڑھا یے ، یا کاٹیے ان کے ہاتھ اور پاؤں مقابل کا ، یا دور کر یے اس ملک سے ، یہ ان کی رسوائی ہے دنیا میں ، اور ان کو آخرت میں بڑی مار ہے ۔ ۳۴۔مگر جنہوں نے توبہ کی ، تمہارے ہاتھ پڑنے سے پہلے ۔ تو جان لو کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ (شاہ عبدالقادرؒ )
۲۔۳۲۔اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی شخص کو بلا معاوضہ دوسرے شخص کے یا بدون کسی فساد کے جو زمین میں اس سے پھیلا ہو قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام آدمیوں کو قتل کر ڈالا اور جو شخص کسی شخص کو بچا لیوے تو گویا اس نے تمام آدمیوں کو بچا لیا اور بنی اسرائیل کے پاس ہمارے بہت سے پیغمبر بھی دلائل واضحہ لے کر آئے پھر اس کے بعد بھی بہتیرے ان میں سے دنیا میں زیادتی کرنے والے ہی رہے۔۳۳۔جو لوگ اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور ملک میں فساد پھیلاتے پھرتے ہیں ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کیے جائیں یا سولی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کاٹ دیئے جائیں یا زمین پر سے نکال دیئے جائیں یہ ان کے لیے دنیا میں سخت رسوائی ہے اور ان کو آخرت میں عذاب عظیم ہو گا۔ ۳۴۔ہاں مگر جو لوگ قبل اس کے کہ تم ان کو گرفتار کرو توبہ کر لیں تو جان لے کہ بے شک اللہ تعالیٰ بخش دیں گے مہربانی فرما ویں گے۔(مولاناتھانویؒ )
۳۔۳۲۔اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کیے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا ، اور جس نے ایک جان کو جلا لیا، اس نے گویا سب لوگوں کو جلا لیا اور بے شک ان کے پاس ہمارے رسول روشن دلیلوں کے ساتھ آئے ، پھر بے شک ان یں بہت اس کے بعد زمین میں زیادتی کرنے والے ہیں۔ ۳۳۔وہ کہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ، اور ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں ان کا بدلہ یہی ہے کہ گن گن کر قتل کیے جائیں یا سولی دیئے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹے جائیں یا زمین سے دور کر دیئے جائیں یہ دنیا میں ان کی رسوائی ہے ، اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذا ب ۔ ۳۴۔مگر وہ جنہوں نے توبہ کر لی اس سے پہلے کہ تم ان پر قابو پا ؤ ، تو جان لو کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ (مولانااحمد رضا خانؒ )
۴۔۳۲۔اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کاقاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے ، اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول ظاہر دلیلیں لے کر آ ئے لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں کے اکثر لوگ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی رہے ۔ ۳۳۔ان کی سزا جو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں یہی ہے کہ وہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا الٹے طور سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا انہیں جلا وطن کر دیا جائے یہ تو ہوئی ان کی دنیوی ذلت اور خواری ، اور آخرت میں ان کے لیے بڑا بھاری عذاب ہے ۔۳۴۔ ہاں جو لوگ اس سے پہلے تو بہ کر لیں کہ تم ان پر اختیار پا لو تو یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ بہت بڑی بخشش اور رحم و کرم والا ہے ۔ (مولاناجوناگڑھیؒ )
۵۔اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ ’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔‘‘ مگر اُن کا حال یہ ہے کہ ہمارے رسول پے در پے ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے پھر بھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں۔ (۳۲) جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں ، یا سولی پر چڑھائے جائیں ، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں ، یا وہ جلاوطن کردیے جائیں۔ یہ ذلت و رسوائی تو اُن کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں اُن کے لیے اس سے بڑی سزا ہے۔ (۳۳) مگر جو لوگ توبہ کرلیں اس کے کہ تم ان پر قابو پاؤ ۔۔۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (۳۴) (مولانامودودیؒ )
۶۔اس وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ فرض کیا کہ جس کسی نے کسی کو قتل کیا بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا ملک میں فساد بر پا کیا ہو تو گویا اس نے سب کو قتل کیا اور جس اس کو بچایا تو گویا سب کو بچایا اور ہمارے رسول ان کے پاس واضح احکام لے کر آئے لیکن اس کے باوجود ان میں بہت سے ہیں جو زیادتیاں کرتے ہیں ۔(۳۲)ان لوگوں کی سزا ،جو اللہ اور اس کے رسول سے بغاوت کرتے ہیں اور ملک میں فساد بر پا کرنے میں سر گرم ہیں ،بس یہ ہے کہ عبرت ناک طور پر قتل کیے جائیں یا سولی پر لٹکا ئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پاؤں بے ترتیب کاٹ ڈالے جائیں یا ملک سے باہر نکال دئیے جائیں ۔یہ ان کے لیے اس دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے ایک عذاب عظیم ہے ۔(۳۳)مگر جو لوگ تمھارے قابو پانے سے پہلے ہی توبہ کرلیں تو سمجھ لوکہ اللہ مغفرت فرمانے والا اور مہربان ہے ۔(۳۴)(مولانا امین احسن اصلاحیؒ )
۷۔(انسان کی) یہی (سرکشی) ہے جس کی وجہ سے ہم نے (موسیٰ کو شریعت دی تو اُس میں) بنی اسرائیل پر فرض کردیا کہ جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، اِس کے بغیر کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں کوئی فساد برپا کیا ہو تو اُس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک انسان کو زندگی بخشی، اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔ (پھر یہی نہیں، اِس کے ساتھ) یہ بھی حقیقت ہے کہ (اِن پر اتمام حجت کے لیے) ہمارے پیغمبر اِن کے پاس نہایت واضح نشانیاں لے کر آئے، لیکن اِس کے باوجود اِن میں سے بہت سے ہیں جو حدود سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ (۳۲) (اِنھیں بتا دیا جائے کہ) جو اللہ اور اُس کے رسول سے لڑیں گے اور زمین میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کریں گے،اُن کی سزا پھر یہی ہے کہ عبرت ناک طریقے سے قتل کیے جائیں یا سولی پر چڑھائے جائیں یا اُن کے ہاتھ اور پاؤں بے ترتیب کاٹ دیے جائیں یا اُنھیں علاقہ بدر کردیا جائے۔ یہ اُن کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں اُن کے لیے ایک بڑا عذاب ہے۔ (۳۳) مگر اُن کے لیے نہیں جو تمھارے قابو پانے سے پہلے توبہ کرلیں۔ سو (اُن پر زیادتی نہ کرو اور) اچھی طرح سمجھ لو کہ اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ (۳۴) (محترم جاوید احمد غامدی)
تفاسیر
نظم کلام
قانونِ قصاص کی بنیاد
’’ چونکہ انسان اپنی سرشت کے لحاظ سے ایک ایسی مخلوق ہے جس کے اندر ہابیل جیسے خدا ترس اور حق و عدل پر قائم رہنے والے بھی ہیں اور قابیل جیسے سنگ دل اور خونی بھی۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی شریعت میں قصاص کو ایک جماعتی فرض قرار دیا کہ ایک کا قاتل سب کا قاتل اور ایک کا بچانے والا سب کا بچانے والا ٹھہرے گا۔ اس کے بعد ان لوگوں کی سزا بیان کی ہے جو ایک اسلامی حکومت عادلہ کے اندر رہتے ہوئے اس کے قانون عدل و قسط کو درہم برہم کرنے اور ملک میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص۵۰۰، فاران فاونڈیشن لاہور)
من اجل ذلک۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فی الارض لمسرفون 
من اجل ذلک کا مفہوم
’’من اجل ذلک کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بعینہٖ یہ واقعہ حکمِ قصاص کی فرضیت کا باعث ہوا۔ یہ واقعہ تو، جیساکہ واضح ہوا، بنی اسرائیل کی تاریخ سے بہت پہلے کا ہے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ جان کے بدلے جان کا قانون، کچھ بنی اسرائیل کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ یہ قانون ہر ملّت میں ابتداء سے موجود رہا ہے۔ یہ بات ملحوظ رکھنے کی ہے کہ یہاں مقصود حکمِ قصاص کی تاریخ بیان کرنا نہیں ہے بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ بنی اسرائیل اللہ کے میثاق کے معاملے میں اتنے جری اور بے باک ہیں کہ یہ جاننے کے باوجود کہ ایک کا قاتل سب کا قاتل اور ایک کی حفاظت سب کی حفاظت ہے، برابر خدا کی زمین میں فساد برپا کیے چلے جا رہے ہیں۔اس روشنی میں من اجل ذٰلکِ کا اشارہ نفس واقعہ کی طرف نہیں بلکہ شروفساد کی اس ذہنیت کی طرف ہوگا جس کا قابیل نے اظہار کیا اور جس کا اظہار ان لوگوں کی طرف سے برابر ہوتا رہتا ہے جو اس کی نسبتِ بد کی پیروی کرتے ہیں۔ یعنی کمینہ جذبات اور شیطانی محرکات کے تحت اللہ کے بندوں کا خون بہاتے ہیں اور پھر اعتراف و اقرار اور توبہ و ندامت کے بجائے اپنی ساری ذہانت اس جرم کو چھپانے میں صرف کرتے ہیں ان کو اپنے جرم پر افسوس بھی ہوتا ہے تو اس پہلو سے نہیں ہوتا کہ ان کے ہاتھوں خدا کے بندوں کا سب سے بڑا حق تلف ہوا بلکہ جرم پوشی کی تدبیر میں اگر ان سے کوئی کوتاہی ہوجاتی ہے تو اس پر انھیں افسوس ہوتا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص۵۰۲، فاران فاونڈیشن لاہور)
شرعی سزاؤں کی تین قسمیں
’’ جن جرائم کی کوئی سزا قرآن و سنت نے متعین نہیں کی بلکہ حکام کی صواب دید پر رکھا ہے، اُن سزاؤں کو شرعی اصطلاح میں ’’تعزیرات‘‘ کہا جاتا ہے، اور جن جرائم کی سزائیں قرآن و سنت نے متعین کر دی ہیں وہ دو قسم پر ہیں، ایک وہ جن میں حق اللہ کو غالب قرار دیا گیا ہے ان کی سزا کو ’’حد‘‘ کہا جاتا ہے جس کی جمع ’’حدود‘‘ ہے، دوسرے وہ جن میں حق العبد کو ازروئے شرع غالب مانا گیا ہے، اس کی سزا کو ’’قصاص‘‘ کہا جاتا ہے۔تعزیری سزائیں حالات کے ماتحت ہلکی سے ہلکی بھی کی جاسکتی ہیں، سخت سے سخت بھی اور معاف بھی کی جاسکتی ہیں، ان میں حکام کے اختیارات وسیع ہیں، اور حدود میں کسی حکومت یا کسی حاکم و امیر کو ادنیٰ تغیر و تبدل یا کمی بیشی کی اجازت نہیں ہے، اور نہ زمان و مکان کے بدلنے کا ان پر کوئی اثر پڑتا ہے، نہ کسی امیروحاکم کو اس کے معاف کرنے کا حق ہے، شریعتِ اسلام میں حدود صرف پانچ ہیں: ڈاکہ، چوری، زنا، تہمتِ زنا کی سزائیں، یہ سزا میں قرآن کریم میں منصوص ہیں۔ پانچویں شراب خوری کی حد ہے، جو اجماعِ صحابہ کرام سے ثابت ہوئی ہے، اس طرح کُل پانچ جرائم کی سزائیں معین ہوگئی، جن کو ’’حدود‘‘کہا جاتا ہے، یہ سزائیں جس طرح کوئی حاکم و امیر کم یا معاف نہیں ہوسکتا، اسی طرح توبہ کرلینے سے بھی دنیوی سزا کے حق میں معافی نہیں ہوتی، ہاں آخرت کا گناہ مخلصانہ توبہ سے معاف ہوکر وہاں کا کھاتا بے باک ہوجاتا ہے، ان میں صرف ڈاکہ کی سزا میں ایک استثناء ہے، کہ ڈاکو اگر گرفتاری سے قبل توبہ کرے اور معاملات سے اس کی توبہ پر اطمینان ہوجائے تو بھی یہ حد ساقط ہوجائے گی، گرفتاری کے بعد کی توبہ معتبر نہیں، اس کے علاوہ دوسری حدود توبہ سے بھی دنیا کے حق میں معاف نہیں ہوتیں، خواہ یہ توبہ گرفتاری سے قبل ہو یا بعد میں، تمام تعزیری جرائم میں حق کے موافق سفارشات سنی جاسکتی ہیں، حدود اللہ میں سفارش کرنا بھی جائز نہیں، اور ان کا سننا بھی جائز نہیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سخت ممانعت فرمائی ہے ۔حدود کی سزائیں عام طور پر سخت ہیں، اور ان کے نفاذ کا قانون بھی سخت ہے، کہ ان میں کسی کو کسی کمی بیشی کی کسی حال میں اجازت نہیں، نہ کوئی ان کو معاف کرسکتا ہے، جہاں سزا اور قانون کی یہ سختی رکھی گئی ہے، وہیں معاملہ کو معتدل کرنے کے لیے تکمیلِ جرم اور تکمیلِ ثبوتِ جرم کے لیے شرطیں بھی نہایت کڑی رکھی گئی ہیں، ان شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو تو حد ساقط ہوجاتی ہے، بلکہ ادنیٰ سا شبہ بھی ثبوت میں پایا جائے تو حد ساقط ہوجاتی ہے۔ اسلام کا مسلّم قانون اس میں یہ ہے کہ الحدود تندرء بالشبہات،یعنی حددو کو ادنیٰ شبہ سے ساقط کردیا جاتا ہے۔یہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جن صورتوں میں حدِّ شرعی کسی شبہ یا کسی شرط کی کمی کی وجہ سے ساقط ہوجائے تو یہ ضروری نہیں کہ مجرم کو کھلی چھٹی مل جائے جس سے اس کو جرم پر اور جرأت پیدا ہو، بلکہ حاکم اس کے مناسبِ حال اس کو تعزیری سزا دے گا۔ فرض کیجیے کہ زنا کے ثبوت پر صرف تین گواہ ملے، اور گواہ عادل ثقہ ہیں جن پر جھوٹ کا شبہ نہیں ہوسکتا، مگر ازروئے قانونِ شرع چوتھا گواہ نہ ہونے کی وجہ سے اس پر حدِ شرعی جاری نہیں ہوگی، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اس کو کھلی چھٹی دے دی جائے، بلکہ حاکمِ وقت اس کو مناسب تعزیری سزا دے گا جو کوڑے لگانے کی صورت میں ہوگی، یا چوری کے ثبوت کے لیے جو شرائط مقرر ہیں ان میں کوئی کمی یا شبہ پیدا ہونے کی وجہ سے اُس پر حدّشرعی ہاتھ کاٹنے کی جاری نہیں ہوسکتی، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بالکل آزاد ہوگیا، بلکہ اس کو دوسری تعزیری سزائیں حسبِ حال دی جائیں گی۔قصاص کی سزا بھی حدود کی طرح قرآن میں متعین ہے، کہ جان کے بدلہ میں جان لی جائے۔ زخموں کے بدلہ میں مساوی زخم کی سزا دی جائے، لیکن فرق یہ ہے کہ حدود کو بحیثیت حق اللہ نافذ کیا گیا ہے، اگر صاحبِ حق انسان معاف بھی کرنا چاہے تو معاف نہ ہوگا، اور حد ساقط نہ ہوگی، مثلاً جس کا مال چوری کیا ہے،و ہ معاف بھی کردے تو چوری کی شرعی سزا معاف نہ ہوگی، بخلاف قصاص کے کہ اس میں حق العبد کی حیثیت کو قرآن و سنت نے غالب قرار دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ قاتل پر جرمِ قتل ثابت ہوجانے کے بعد اس کو ولی مقتول کے حوالہ کر دیا جاتا ہے، وہ چاہے تو قصاص لے لے، اور اس کو قتل کرا دے، اور چاہے معاف کر دے، اسی طرح زخموں کا قصاص کا بھی یہی حال ہے، یہ بات آپ پہلے معلوم کرچکے ہیں کہ حدود یا قصاص کے ساقط ہوجانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ مجرم کو کھلی چھٹی مل جائے بلکہ حاکمِ وقت تعزیری سزا جتنی اور جیسی مناسب سمجھے دے سکتا ہے، اس لیے یہ شبہ نہ ہونا چاہیے کہ اگر خون کے مجرم کو اولیاء مقتول کے معاف کرنے پر چھوڑ دیا جائے تو قاتلوں کی جرأت بڑھ جائے گی، اور قتل کی واردات عام ہوجائیں گی، کیونکہ اس شخص کی جان لینا تو ولیِ مقتول کا حق تھا۔ وہ تو اس نے معاف کر دیا، لیکن دوسرے لوگوں کی جانوں کی حفاظت حکومت کا حق ہے، وہ اس حق کے تحفظ کے لیے اس کو عمرقید کی یا دوسری قسم کی سزائیں دے کر اس خطرہ کا انسداد کرسکتی ہے۔‘‘ (معارف القرآن،ج۳ ،۱۱۶، ادارۃ المعارف کراچی )
انہ من قتل نفسا۔۔۔۔۔۔ احیا الناس جمیعا
قانونِ قصاص کی حکمت و عظمت
’’اس اصل حکم کا بیان نہیں ہے جو قصاص کے باب میں یہود کو دیا گیا۔ بلکہ اس کی دلیل اور اس کی حکمت و عظمت بیان ہوئی ہے۔ ’’جان کے بدلے جان‘‘ کا قانون تورات میں بھی ہے اور اس کا حوالہ اس سورہ میں بھی آگے آرہا ہے۔ یہاں چونکہ مقصود یہود کی شرارت و شقاوت کو نمایاں کرنا ہے۔ اس وجہ سے قانونِ قصاص کا اصل فلسفہ بیان فرمایا کہ یہود پر قتلِ نفس کی سنگینی واضح کرنے کے لیے ان کو یہ حکم اس تصریح کے ساتھ دیا گیا تھا کہ ایک کا قاتل سب کا قاتل اور ایک کا بچانے والا سب کا بچانے والا ٹھہرے گا لیکن پھر بھی وہ قتل اور فساد فی الارض کے معاملے میں بالکل بے باک ہوگئے۔‘‘ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص۵۰۲، فاران فاونڈیشن لاہور)
قانونِ قصاص کی ذمہ داریاں ہر فردِ ملت پر
’’جو ملت قانونِ قصاص کی حامل اس فلسفہ کے ساتھ بنائی گئی ہو جس کا ذکر اُوپر ہوا، اس پر چند ذمہ داریاں لازماًعائد ہوتی ہیں جس کی طرف ہم یہاں اشارہ کریں گے۔ایک یہ کہ ہر حادثہ قتل پوری قوم میں ایک ہلچل پیدا کر دے۔ جب تک اس کا قصاص نہ لے لیا جائے۔ ہرشخص یہ محسوس کرے کہ وہ اس تحفظ سے محروم ہوگیا ہے جو اس کو اب تک حاصل تھا۔ قانون ہی سب کا محافظ ہوتا ہے۔ اگر قانون ہدم ہوگیا تو صرف مقتول ہی قتل نہیں ہوا بلکہ ہرشخص قتل کی زد میں ہے۔دوسری یہ کہ قاتل کا کھوج لگانا صرف مقتول کے وارثوں ہی کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ پوری جماعت کی ذمہ داری ہے، اس لیے کہ قاتل نے صرف مقتول ہی کو قتل نہیں کیا بلکہ سب کو قتل کیا ہے۔تیسری یہ کہ کوئی شخص اگر کسی کو خطرے میں دیکھے تو اُس کو پرایا جھگڑا سمجھ کر نظرانداز کرنا اس کے لیے جائز نہیں ہے بلکہ اس کی حفاظت و حمایت تابہ حد مقدور اس کے لیے ضروری ہے۔ اگرچہ اس کے لیے اسے خود جوکھم برداشت کرنی پڑے۔ اس لیے کہ جو شخص کسی مظلوم کی حمایت و مدافعت میں سینہ سپر ہوتا ہے وہ صرف مظلوم ہی کی حمایت میں سینہ سپر نہیں ہوتا بلکہ تمام خلق کی حمایت میں سینہ سپر ہوتا ہے جس میں وہ خود بھی شامل ہے۔چوتھی یہ کہ اگر کوئی شخص کسی قتل کو چھپاتا ہے یا قاتل کے حق میں جھوٹی گواہی دیتا ہے یا قاتل کا ضامن بنتا ہے ،یا قاتل کو پناہ دیتا ہے، یا قاتل کی دانستہ وکالت کرتا ہے یا دانستہ اس کو جرم سے بری کرتا ہے وہ گویا خود اپنے اور اپنے باپ، بھائی، بیٹے کے قاتل کے لیے یہ سب کچھ کرتا ہے کیونکہ ایک کا قاتل سب کا قاتل ہے۔پانچویں یہ کہ کسی مقتول کے قصاص کے معاملے میں مقتول کے وارثوں یا حکام کی مدد کرنا بھی درحقیقت مقتول کو زندگی بخشتا ہے اس لیے کہ قرآن میں ارشاد ہواہے کہ قصاص میں زندگی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص۵۰۳، فاران فاونڈیشن لاہور)
ولقد جآء تھم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فی الارض لمسرفون
قانون کے ساتھ قانون کی یاد دہانی کا اہتمام
’’مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ان کو یہ فرض بتا دینے ہی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ اتمامِ حجت کے لیے برابر ان کے اندر خدا کے رسول بھی آتے رہے جو نہایت واضح احکام و ہدایات اور نہایت بلیغ اور پُرزور تعلیمات و تنبیہات کے ذریعے سے ان کو جگاتے اور جھنجھوڑتے رہے کہ اللہ کے عہدومیثاق کی ذمہ داریوں سے یہ غافل نہ ہوجائیں لیکن اس سارے اہتمام کے باوجود یہ برابر خدا کی زمین میں مختلف قسم کی زیادتیوں کے مرتکب ہوتے رہے۔‘‘ (تدبرقرآن ،ج۲ ،ص ۵۰۴ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
’افساد‘ اور ’اسراف‘ کا مفہوم
’’افساد فی الارض‘ اور ’اسراف فی الارض‘ دونوں میں مفہوم کے اعتبار سے کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ زمین کا امن اور نظم اس قانونِ عدل و قسط پر منحصر ہے جو خدا نے اُس کے لیے اتارا ہے۔ جس طرح کائنات کے نظامِ تکوینی میں کوئی خلل پیدا ہوجائے تو سارا نظامِ کائنات درہم برہم ہوجائے، اسی طرح اگر اس نظامِ تشریعی میں، جو اس کے خالق نے اس کے لیے پسند فرمایا ہے، کوئی خلل پیدا کر دیا جائے تو اس کا اجتماعی و معاشرتی اور سیاسی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ پھر نہ تو نظامِ تکوینی کے ساتھ اس کے نظامِ سیاسی کی ہم آہنگی باقی رہ جاتی ہے اور نہ اس کے نظامِ اجتماعی و سیاسی میں ہی کوئی ربط قائم رہ جاتا ہے۔ اسی صورت حال کو یہاں افساد اور اسراف سے تعبیر فرمایا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۵۰۴ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
ثم ان کثیرا منھم بعد ذلک فی الارض لمسرفون 
مدینے میںیہود کا فساد فی الارض
’’یہود کے متعدد قبائل مثلاً بنونضیر، بنوقریظہ، بنوقینقاع مدینہ کے حوالی میں آباد تھے۔ انھوں نے یوں تو مسلمانوں کے ساتھ امن و صلح اور باہمی حمایت و مدافعت کے معاہدے کر رکھے تھے لیکن ایک دن بھی انھوں نے ان معاہدوں کا کوئی احترام نہیں کیا بلکہ ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور مدینہ سے ان کے قدم اُکھاڑ دینے کی سازشیں کرتے رہے۔ قریش نے مسلمانوں پر جتنے بھی حملے کیے سب میں درپردہ یہود شریک رہے۔ انصار اور مہاجرین کے درمیان پھوٹ ڈلوانے کی بھی انھوں نے بارہا کوشش کی۔ صحابہؓ بلکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی بھی انھوں نے بارہا تدبیریں کیں۔ اگرچہ اُن کی یہ چالیں بیشتر ناکام رہیں لیکن متعدد نہایت اندوہناک واقعات پیش بھی آئے۔ عورتوں اور بچوں کے اغوا اور قتل میں بھی یہ نہایت شاطر اور سنگِ دل تھے۔ مسلمانوں کو ہر وقت یہود کی طرف سے اپنی جان اور عزت کے معاملے میں کھٹکا لگا رہتا تھا۔ حد یہ ہے کہ جن مسلمانوں کو وہ کسی قضیے کے کرانے اور کسی معاملے پر گفتگو کرنے کے لیے بلاتے تھے۔ ان کے بھی ہلاک کرنے کی سازش پہلے سے تیار کر رکھتے۔ ثم ان کثیرا منھم بعد ذلک فی الارض لمسرفون میں اس صورت حال کی طرف اشارہ ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۵۰۴ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
انما جزو الذین یحاربون ۔۔۔۔۔۔ فاعلموا ان اللہ غفور رحیم 
’محاربہ‘ کا مفہوم
’’یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض فسادا، اللہ اور رسول سے محاربہ یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ یا جتھہ جرأت و جسارت، ڈھٹائی اور بیباکی کے ساتھ اس نظامِ حق و عدل کو درہم برہم کرنے کی کوشش کرے جو اللہ اور رسول نے قائم فرمایا ہے۔ اس طرح کی کوشش اگر بیرونی دشمنوں کی طرف سے ہوتو اس کے مقابلے کے لیے جنگ و جہاد کے احکام تفصیل کے ساتھ الگ بیان ہوئے ہیں۔ یہاں بیرونی دشمنوں کے بجائے اسلامی حکومت کے ان اندرونی دشمنوں کی سرکوبی کے لیے تعزیرات کا ضابطہ بیان ہوا ہے جو اسلامی حکومت کی رعایا ہوتے ہوئے، عام اس سے کہ وہ مسلم ہیں یا غیرمسلم ، اس کے قانون اور نظم کو چیلنج کریں۔ قانون کی خلاف ورزی کی ایک شکل تو یہ ہے کہ کسی شخص سے کوئی جرم صادر ہوجائے۔ اس صورت میں اس کے ساتھ شریعت کے عام ضابطۂ حدود و تعزیرات کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لینے کی کوشش کرے۔ اپنے شروفساد سے علاقے کے امن و نظم کو درہم برہم کردے۔ لوگ اس کے ہاتھوں اپنی جان، مال، عزت، آبرو کی طرف سے ہروقت خطرے میں مبتلا رہیں۔ قتل، ڈکیتی، رہزنی، آتش زنی، اغوا، زنا، تخریب، تہریب اور اس نوع کے سنگین جرائم حکومت کے لیے لا اور آرڈر کا مسئلہ پیدا کر دیں۔ ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے عام ضابطہ حدود و تعزیرات کے بجائے اسلامی حکومت مندرجہ ذیل اقدامات کرنے کی مجاز ہے۔ ‘‘ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۵۰۵ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض
’’و یسعون فی الارض میں واو تفسیر یہ ہے۔ پہلے جملہ میں جس محاربہ کا ذکرہوا اس کی وضاحت فرما دی۔‘‘( ضیا القرآن ،ج۱ ، ص ۴۶۴، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
محاربین کے لیے ضابطۂ تعزیرات
تقتیل ، تصلیب ، تقطیع ، نفی فی الارض
’’ان یقتلوا، یہ کہ فساد فی الارض کے یہ مجرمین قتل کردیے جائیں۔ یہاں لفظ ’قتل‘ کے بجائے ’تقتیل‘باب تفعیل سے استعمال ہوا ہے۔ باب تفعیل معنی کی شدت اور کثرت پر دلیل ہوتا ہے۔ اس وجہ سے تقتیل شرتقتیل کے معنی پر دلیل ہوگا۔ اس سے اشارہ نکلتا ہے کہ ان کو عبرت انگیز اور سبق آموز طریقہ پر قتل کیا جائے جس سے دوسروں کو سبق ملے۔ صرف وہ طریقۂ قتل اس سے مستثنیٰ ہوگا جو شریعت میں ممنوع ہے، مثلاً آگ میں جلانا، اس کے ماسوا دوسرے طریقے جو گنڈوں اور بدمعاشوں کو عبرت دلانے، ان کو دہشت زدہ کرنے اور لوگوں کے اندر قانون و نظم کا احترام پیدا کرنے کے لیے ضروری سمجھے جائیں، حکومت ان سب کو اختیار کر سکتی ہے۔ رجم یعنی سنگسار کرنا بھی ہمارے نزدیک ’تقتیل‘ کے تحت داخل ہے۔ اس وجہ سے وہ گُنڈے اور بدمعاش جو شریفوں کے عزت و ناموس کے لیے خطرہ بن جائیں، جو اغوا اور زنا کو پیشہ بنا لیں، جو دن دہاڑے لوگوں کی عزت و آبرو پرڈاکے ڈالیں اور کھلم کھلا زنا بالجبر کے مرتکب ہوں۔ ان کے لیے رجم کی سزا اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہے۔ اویصلبوا یہ کہ ایسے لوگوں کو سولی دی جائے۔ سولی دینے کے لیے یہاں ’صلب‘ کے بجائے ’تصلیب‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ سولی اور پھانسی کے وہ طریقے بھی اختیار کیے جاسکتے ہیں جو زیادہ دردناک اور زیادہ عبرت انگیز ہوں۔ اس زمانے میں بعض طریقے جو ایجاد ہوئے ہیں ہمارے نزدیک وہ بھی اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہیں۔او تقطع ایدیھم وارجلھم من خلافٍ،یہ کہ ان کے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ دیے جائیں۔ یہ بے ترتیب کاٹنے کی ہدایت بھی عبرت انگیزی اور دردانگیزی ہی کے نقطۂ نظر سے ہے۔ مقصود یہ ہے کہ اگر اس قسم کے کسی شریر کی جان بخشی بھی جائے تو اس طرح کہ اس کی شرانگیزی اور افساد کے تمام اسلحہ بے کار کر دیے جائیں۔’اوینفوا فی الارض،یہ کہ ان کو ملک سے جلاوطن کردیا جائے۔ ’نفی‘ کا لغوی مفہوم جلاوطن کرنا ہے۔ حبس اور قید اس کا لغوی مفہوم نہیں ہے۔ البتہ اس کے مفہوم میں شامل ضرور ہے، اگر ایسے مجرموں کی جلاوطنی دشوار یا دینی و سیاسی نقطۂ نظر سے خلافِ مصلحت ہو تو ان کو محبوس یا کسی خاص علاقہ میں پابند اور نظربند کیا جاسکتا ہے۔ یہ چیز اس لفظ کے مفہوم کے خلاف نہیں ہوگی۔‘‘ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۵۰۶ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
محاربین کون ہیں
’’محاربین جن کی سزائیں یہاں بیان کی گئی ہیں وہ کون ہیں؟ ان کے متعلق فقہاء کرام نے کہا ہے کہ جن میں یہ تین شرطیں پائی جائیں وہ محارب ہیں: (۱) وہ بندوق، تلوار، نیزہ وغیرہ ہتھیاروں سے مسلح ہوں۔ (۲) آبادی سے باہر راستہ یا صحرا میں وہ رہزنی اور ڈاکہ کا ارتکاب کریں لیکن امام شفاعی، اوزاعی اور لیث رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہر میں ڈاکہ ڈالنے والے بھی محارب کہلائیں گے اور انھیں سزاؤں کے مستحق ہوں گے۔(۳) وہ چھپ کر نہیں بلکہ برملا حملہ آور ہوکر لُوٹ مار کریں۔ ایسے لوگوں کے لیے قرآن نے چار سزائیں مقرر کی ہیں: (۱) انھیں قتل کر دیا جائے کیونکہ مدعی حکومت ہے جو عوام کی نمائندہ ہے۔ یہ مقتول کے وارثوں کا نجی معاملہ نہیں رہا۔ (۲) انھیں سُولی دے دیا جائے۔ (۳) اُن کادایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے۔ (۴) یا انھیں قید کر دیا جائے۔ بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ ان فقروں کے درمیان اور (یا) کا کلمہ تخییرکے لیے ہے، یعنی امامِ وقت کو اختیار ہے کہ ان سزاؤں میں سے جو سزا مناسب سمجھے دے۔ وھو قول سعید ابن المسیب وعمر بن عبدالعزیز ومالک النخی کلھم قال الامام مخیر فی الحکم علی المحاربین وھو مروی عن ابن عباس (قرطبی) لیکن جمہور علماء کا یہ خیال ہے کہ سزا جرم کے مطابق ہوگی۔ جتنا جرم سنگین ہوگا اتنی ہی سزا سخت ہوگی چنانچہ احناف نے اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے کہ اگر انھوں نے قتل کیا تو انھیں قتل کیا جائے گا اور مقتول کے وارثوں کے بخش دینے سے بھی معاف نہ ہوگا۔ اور اگر قتل بھی کیا اور مال بھی لوٹا تو پھر انھیں سولی دے دیا جائے گا اور لوگوں کی عبرت پذیری کے لیے شارعِ عام پر سولی دے دی جائے اور ان کی لاشیں لٹکی رہیں اور اگر انھوں نے قتل نہ کیا صرف مال لوٹا تو اُن کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے گا۔ اور اگر انھوں نے نہ قتل کیا نہ مال لوٹا صرف لوگوں کو دہشت زدہ اور ہراساں کیا تو پھر اُنھیں قید کیا جائے گا۔ (روح المعانی)‘‘ (ضیا القرآن ،ج۱ ، ص ۴۶۴، ضیاالقرآن پبلی کیشنز لاہور)
حالات کی نوعیت کے لحاظ سے حکومت کو مناسب اقدام کا اختیار
’’قرآن کے الفاظ صاف اس بات پر دلیل ہیں کہ حالات کی نوعیت اور بدامنی اور قانون شکنی کے موجود اور متوقع اثرات کے لحاظ سے حکومت ان میں سے جو اقدام بھی مناسب سمجھے، کرسکتی ہے۔ عربی زبان میں ’او‘ کا استعمال اسی مفہوم کو ظاہر کرتا ہے۔ اس وجہ سے مجھے ان لوگوں کی رائے صائب معلوم ہوتی ہے جو حکومت کو اختیار دیتے ہیں کہ قیامِ امن و قانون اور استیصالِ فتنہ کے نقطۂ نظر سے ان میں سے جو شکل بھی اس کو مفید و مؤثر اور مطابق مصلحت نظر آئے اس کو اختیار کرسکتی ہے۔ اس طرح کے حالات میں صرف اسی امر کو ملحوظ نہیں رکھنا پڑتا ہے کہ جرم کرنے والے جتھہ نے صرف مال کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر زمانہ، مقام اور جتھہ بندی کرنے والے مجرموں کے عزائم اور ان کے اثرات پر نگاہ رکھنی پڑتی ہے۔ مثلاً زمانہ، جنگ یا بدامنی کا ہو تو اس میں لازماً سخت اقدام کی ضرورت ہوگی، اسی طرح مقامِ سرحدی یا دشمن کی سازشوں کا آماجگاہ ہو تب بھی مؤثر کارروائی ضروری ہوگی اگر شرارت کا سرغنہ کوئی بڑا خطرناک آدمی ہو اور اندیشہ ہو کہ اس کو ڈھیل ملی تو بہتوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کو خطرہ پیش آجائے، تب بھی حالات کے لحاظ سے مؤثر اقدام اُٹھانا پڑے گا۔ غرض اس میں اصلی اہمیت جزوی واقعات کی نہیں بلکہ بغاوت کے مجموعی اثر اور ملک و ملّت کے مصالح کی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۵۰۷ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
سزا جماعتی حیثیت سے دی جائے گی
’’اس طرح کے حالات میں سزا بھی انفرادی حیثیت سے نہیں بلکہ گروہی حیثیت سے دی جائے گی۔ اگر قتل، اغوا، زنا، آتش زنی، تخریب کے واقعات پیش آئے ہیں تو یہ جستجو نہیں کی جائے گی کہ متعین طور پر ان جرائم کا ارتکاب کن ہاتھوں سے ہوا ہے بلکہ ان کی ذمہ داری میں باغی گروہ کا ہر فرد شریک سمجھا جائے گا اور اسی حیثیت سے ان کے ساتھ معاملہ کیا جائے گا، اس لیے کہ ہرجرم کے ارتکاب میں سب کے مجموعی اثر نے کام کیا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۵۰۷ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
اس قانون کے استعمال کی بعض مثالیں
’’عُکل اور عرینہ والوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المال کے اُونٹوں کو ہنکا لے جانے اور ان کے چرواہوں کو قتل کرنے کے جرم میں جو عبرت انگیز سزا دی، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو اسی آیت کے تحت لیا ہے۔ بنونضیر، بنوقریظہ، بنوقنیقاع کے ساتھ جو معاملہ حضوؐر نے کیا، ہمارے نزدیک وہ بھی اسی حکمِ الٰہی کے تحت کیا۔ سیدنا ابوبکرؓ نے مانعینِ زکوٰۃ کی جو سرکوبی کی وہ بھی ہمارے نزدیک اسی حکم کے تحت کی۔ مسیلمہ کذاب کا فتنہ بھی اسی محاربۂ اللہ و رسول کے تحت آتا ہے اور اس کی سرکوبی بھی اسی قانونِ الٰہی کے تحت ہوئی۔ حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں یہود کو عرب سے جو آخری بار نکالا وہ بھی اسی حکمِ خداوندی کی تعمیل تھی۔‘‘ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۵۰۷ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
ذلک لھم خزی فی الدنیا ۔۔۔
جرم اور مجرمین کے جدید فلسفہ پر بحث
’’ (یہ ان کے لیے اس دنیا میں رسوائی ہے) یہ اس شبہے کا ازالہ ہے جو مذکورہ بالا سزاؤں سے متعلق ان لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوتا یا پیدا ہوسکتا ہے جو اللہ اور رسولؐ کو چیلنج کرنے کے جرم کی سنگینی کا صحیح اندازہ نہیں کرپاتے۔ اس کا ئنات میں حقیقی عزت اللہ اور رسول کے لیے ہے۔ وللہ العزۃ ولرسولہٖ اس وجہ سے جو لوگ خدا اور رسول کے مقابل میں جرأت و جسارت کا اظہار اور بغاوت کا اعلان کریں وہ مستحق ہیں کہ اس دنیا میں بھی رسوا ہوں اور آخرت میں بھی وہ دردناک عذاب سے دوچار ہوں۔ دنیا میں ان کی یہ رسوائی دوسروں کے لیے ذریعۂ عبرت و بصیرت ہوگی اور اس کے اثر سے ان لوگوں کے اندر بھی قانون کا ڈر اور احترام پیدا ہوگا جو یہ صلاحیت نہیں رکھتے کہ مجرد قانون کی افادیت و عظمت کی بنا پر اس کا احترام کریں۔ موجودہ زمانے میں جرم اور مجرمین کے لیے فلسفہ کے نام سے جو ہمدردانہ اور رحم دلانہ نظریات پیدا ہوگئے ہیں یہ انھی کی برکت ہے کہ انسان بظاہر جتنا ہی ترقی کرتا جاتا ہے دنیا اتنی ہی جہنم بنتی جارہی ہے۔ اسلام اس قسم کے مہمل نظریات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ اس کا قانون ہوائی نظریات پر نہیں بلکہ انسان کی فطرت پر مبنی ہے۔‘ ‘ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۵۰۷ ، فاران فاونڈیشن لاہور)
’’یعنی بدامنی کرنے کو اکثر مفسرین نے اس جگہ رہزنی اور ڈکیتی مراد لی ہے مگر الفاظ کو عموم پر رکھا جائے تو مضمون زیادہ وسیع ہوجاتا ہے۔ آیت کی جو شانِ نزول احادیث صحیحہ میں بیان ہوئی وہ بھی اسی کو مقتضی ہے کہ الفاظ کو ان کے عموم پر رکھا جائے۔ ’’اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کرنا‘‘ یا ’’زمین میں فساد اور بدامنی پھیلانا یہ دو لفظ ایسے ہیں جن میں کفار کے حملے، ارتداد کا فتنہ، رہزنی، ڈکیتی، ناحق قتل و نہب، مجرمانہ سازشیں اور مغویانہ پروپیگنڈا سب داخل ہوسکتے ہیں اور ان میں سے ہرجرم ایسا ہے جس کا ارتکاب کرنے والا ان چار سزاؤں میں سے جو آگے مذکور ہیں کسی نہ کسی سزاکا ضرور مستحق ٹھہرتا ہے۔ یعنی داہنا ہاتھ اور بایاں پاؤں۔ کہیں اور لے جاکر انھیں قید کردیں کما ہو مذہب الامام ابی حنیفہ رحمتہ اللہ۔ ڈاکوؤں کے احوال چار ہوسکتے تھے۔ (۱) قتل کیا ہو مگر مال لینے کی نوبت نہ آئی۔ (۲) قتل بھی کیا اور مال بھی لیا۔ (۳) مال چھین لیا مگر قتل نہیں کیا (۴) نہ مال چھین سکے نہ قتل کرسکے قصد اور تیاری کرنے کے بعد ہی گرفتار ہوگئے۔ چاروں حالتوں میں بالترتیب یہ ہی چار سزائیں ہیں جو بیان ہوئیں۔‘‘(تفسیر عثمانی ، ص۱۵۱، پاک کمپنی لاہور)
الا الذین تابوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان اللہ غفور رحیم
مغلوب ہونے سے پہلے اصلاح کرلینے والوں کا حکم
’’ یعنی یہ خاص اختیارات صرف ان باغیوں کے خلاف استعمال کیے جائیں گے جو حکومت کے حالات پر قابو پانے سے پہلے تک اپنی بغاوت پر اڑے رہے ہوں، اور حکومت نے اپنی طاقت سے ان کو مغلوب و مقہور کیا ہو۔ جو لوگ حکومت کے ایکشن سے پہلے ہی توبہ کرکے اپنے رویہ کی اصلاح کرچکے ہوں ان کے خلاف ان کے سابق رویہ کی بنا پر اس قسم کا کوئی اقدام جائز نہیں ہوگا بلکہ اب ان کے ساتھ عام قانون کے تحت معاملہ ہوگا۔ اگر ان کے ہاتھوں عام شہریوں کے حقوق تلف ہوئے ہیں تو حتی الامکان ان کی تلافی کرا دی جائے گی۔آیت میں فاعلموا کے لفظ کے زور کو اگر ذہن میں رکھیے تو یہ بات صاف نکلتی ہے کہ قابو میں آنے سے پہلے ہی توبہ و اصلاح کرلینے والوں کے معاملے میں حکومت کے لیے کوئی انتقامی کارروائی جائز نہیں ہے۔ خدا غفور اور رحیم ہے۔ جب وہ پکڑ سے پہلے توبہ و اصلاح کرلینے والوں کو معاف کر دیتا ہے تو اس کے بندوں کا رویہ اس سے الگ کیوں ہو؟
محاربہ اور فسا دکا مطلب
’’یہاں پہلی بات قابلِ غور یہ ہے کہ اللہ و رسولؐ کے ساتھ محاربہ اور زمین میں فساد کا کیا مطلب ہے، اور کون لوگ اس کے مصداق ہیں، لفظ ’’محاربہ‘‘ حرب سے ماخوذ ہے، اور اس کے اصلی معنی سلب کرنے اور چھین لینے کے ہیں، اور محاورات میں یہ لفظ سلم کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے، جس کے معنی امن اور سلامتی کے ہیں، تو معلوم ہوا کہ حرب کا مفہوم بدامنی پھیلانا ہے، اور ظاہر ہے کہ اِکا دُکا چوری یا قتل و غارت گری سے امنِ عامہ سلب نہیں ہوتا، بلکہ یہ صورت جبھی ہوتی ہے جبکہ کوئی طاقتور جماعت رہزنی اور قتل و غارت گری پر کھڑی ہوجائے۔ اسی لیے حضرات فقہاء نے اس سزا کا مستحق صرف اس جماعت یا فرد کو قرار دیا ہے جو مسلح ہوکر عوام پر ڈاکے ڈالے، اور حکومت کے قانون کو قوت کے ساتھ توڑنا چاہے جس کو دوسرے لفظوں میں ڈاکو یا باغی کہا جاسکتا ہے، عام انفرادی جرائم کرنے والے چور گرہ کٹ وغیرہ اس میں داخل نہیں ہیں۔دوسری بات یہاں یہ قابلِ غور ہے کہ اس آیت میں محاربہ کو اللہ اور رسولؐ کی طرف منسوب کیا ہے، حالانکہ ڈاکو یا بغاوت کرنے والے جو مقابلہ یا محاربہ کرتے ہیں، وہ انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے، وجہ یہ ہے کہ کوئی طاقتور جماعت جب طاقت کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کو توڑنا چاہے تو اگرچہ ظاہر میں اس کا مقابلہ عوام اور انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے لیکن درحقیقت اس کی جنگ حکومت کے ساتھ ہے، اور اسلامی حکومت میں جب قانون اللہ اور رسولؐ کا نافذ ہو تو یہ محاربہ بھی اللہ و رسول ہی کے مقابلہ میں کہا جائے گا۔خلاصہ یہ ہے کہ پہلی آیت میں جس سزا کا ذکر ہے، یہ اُن ڈاکوؤں اور باغیوں پر عائد ہوتی ہے جو اجتماعی قوت کے ساتھ حملہ کر کے امنِ عامہ کو برباد کریں، اور قانونِ حکومت کو علانیہ توڑنے کی کوشش کریں، اور ظاہر ہے کہ اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ مال لوٹنے، آبرو پر حملہ کرنے سے لے کر قتل و خونریزی تک سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ اسی سے مقاتلہ اور محاربہ میں فرق معلوم ہوگیا کہ لفظ مقاتلہ خوں ریز لڑائی کے لیے بولا جاتا ہے گو کوئی قتل ہو یا نہ ہو، اور گو ضمناً مال بھی لُوٹا جائے، اور لفظ محاربہ طاقت کے ساتھ بدامنی پھیلانے اور سلامتی کو سلب کرنے کے معنی میں ہے، اسی لیے یہ لفظ اجتماعی طاقت کے ساتھ عوام کی جان و مال و آبرو میں سے کسی چیز پر دست درازی کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، جس کو رہزنی، ڈاکہ اور بغاوت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اس جرم کی سزا قرآن کریم نے خود متعین فرما دی اور بطور حق اللہ یعنی سرکاری جرم کے نافذ کیا، جس کو اصطلاح شرع میں حد کہا جاتا ہے، اب سنئے کہ ڈاکہ اور رہزنی کی شرعی سزا کیا ہے۔ آیت مذکورہ میں رہزنی کی چار سزائیں مذکور ہیں:ان یقتلوا او یصلبوا او تقطع ایدیھم وارجلھم من خلاف او ینفوا من الارض، ’’یعنی اُن کو قتل کیا جائے یا سُولی چڑھا جائے یا اُن کے ہاتھ اور پاؤں مختلف جانبوں سے کاٹ دیئے جائیں یا ان کو زمین سے نکال دیا جائے‘‘۔ ان میں سے پہلی تین سزاؤں میں مبالغہ کا لفظ باب تفعیل سے استعمال فرمایا جو تکرار فعل اور شدت پر دلالت کرتا ہے، اس میں صیغۂ جمع استعمال فرما کر اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ ان کا قتل یا سُولی چڑھانا یا ہاتھ پاؤں کاٹنا عام سزاؤں کی طرح نہیں کہ جس فرد پر جرم ثابت ہو صرف اسی فرد پر سزا جاری کی جائے بلکہ یہ جرم جماعت میں سے ایک فرد سے بھی صادر ہوگیا تو پوری جماعت کو قتل یا سُولی، یا ہاتھ پاؤں کاٹنے کی سزا دی جائے گی۔نیز اس طرف بھی اشارہ کردیا گیا کہ یہ قتل و صلب وغیرہ قصاص کے طور پر نہیں کہ اولیاء مقتول کے معاف کر دینے سے معاف ہوجائے، بلکہ یہ حد شرعی بحیثیت حق اللہ کے نافذ کی گئی ہے جن لوگوں کو نقصان پہنچا ہے، وہ معاف بھی کردیں تو شرعاً سزا معاف نہ ہوگی، یہ دونوں حکم بصیغۂ تفعیل ذکر کرنے سے مستفاد ہوئے۔ رہزنی کی یہ چار سزائیں حرف اَو کے ساتھ ذکر کی گئی ہیں، جو چند چیزوں میں اختیار دینے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، اور تقسیم کار کے لیے بھی۔ اسی لیے فقہاء اُمت صحابہ و تابعین کی ایک جماعت حرف اَو کو تخییر کے لیے قرار دے کر اس طرف گئی ہے کہ ان چار سزاؤں میں امام و امیر کو شرعاً اختیار دیا گیا ہے کہ ڈاکوؤں کی قوت و شوکت اور جرائم کی شدت و خفّت پر نظر کرکے ان کے حسبِ حال یہ چاروں سزائیں یا ان میں سے کوئی ایک جاری کرے۔سعید بن مسیبؓ، عطاءؓ، داؤدؒ ، حسن بصریؒ ، ضحاکؒ ، نخعیؒ ، مجاہدؒ اور ائمہ اربعہ میں سے امام مالکؒ کا یہی مذہب ہے، اور امام ابوحنیفہؒ ، شافعیؒ ، احمد بن حنبلؒ اور ایک جماعت صحابہؓ و تابعینؒ نے حرف او کو اس جگہ تقسیمِ کار کے معنی میں لے کر آیت کا مفہوم یہ قرار دیا کہ رہزنوں اور رہزنی کے مختلف حالات پر مختلف سزائیں مقرر ہیں، اس کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے، جس میں بروایت ابن عباسؓ منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبردہ اسلمی سے معاہدہ صلح کا فرمایا تھا، مگر اس نے عہدشکنی کی، اور کچھ لوگ مسلمان ہونے کے لیے مدینہ طیبہ آرہے تھے، ان پر ڈاکہ ڈالا۔ اس واقعہ میں جبرئیل امین ؑ یہ حکمِ سزا لے کر نازل ہوئے کہ جس شخص نے کسی کو قتل بھی کیا اور مال بھی لوٹا، اس کو سُولی چڑھایا جائے، اور جس نے صرف قتل کیا مال نہیں لُوٹا، اس کو قتل کیا جائے، اور جس نے کوئی قتل نہیں کیا صرف مال لُوٹا ہے اس کے ہاتھ پاؤں مختلف جانبوں سے کاٹ دیئے جائیں، اور جو اُن میں سے مسلمان ہوجائے اُس کا جرم معاف کر دیا جائے، اور جس نے قتل و غارت گری کچھ نہیں کیا صرف لوگوں کو ڈرایا جس سے امن عامہ مختل ہوگیا، اس کو جلاوطن کیا جائے۔ اگر ان لوگوں نے دارالاسلام کے کسی مسلم یا غیرمسلم شہری کو قتل کیا ہے مگر مال نہیں لُوٹا تو ان کی سزا ان یقتلوا یعنی ان سب کو قتل کر دیا جائے۔ اگرچہ فعل قتل بلاواسطہ صرف بعض افراد سے صادر ہوا ہو، اور اگر کسی کو قتل بھی کیا، مال بھی لُوٹا تو ان کی سزا یصلبوا ہے، یعنی ان کو سُولی چڑھایا جائے، جس کی صورت یہ ہے کہ ان کو زندہ سُولی پر لٹکایا جائے، پھر نیزہ وغیرہ سے پیٹ چاک کیا جائے، اور اگر ان لوگوں نے صرف مال لوٹا ہے، کسی کو قتل نہیں کیا تو اُن کی سزا ان تقطع ایدیھم وارجلھم من خلاف ہے، یعنی اُن کے داہنے ہاتھ گٹوں پر سے اور بائیں پاؤں ٹخنوں پر سے کاٹ دیئے جائیں، اور اس میں بھی یہ مال لوٹنے کا عمل بلاواسطہ اگرچہ بعض سے صادر ہوا ہو، مگر سزا سب کے لیے یہی ہوگی، کیونکہ کرنے والوں نے جو کچھ کیا ہے اپنے ساتھیوں کے تعاون و امداد کے بھروسہ پر کیا ہے، اس لیے سب شریکِ جرم ہیں، اور اگر ابھی تک قتل و غارت گری کا کوئی جرم اُن سے صادر نہیں ہواتھا، کہ پہلے ہی گرفتار کر لیے گئے تو ان کی سزا او ینفوا من الارض ہے، یعنی ان کو زمین سے نکال دیا جائے۔زمین سے نکالنے کا مفہوم ایک جماعتِ فقہاء کے نزدیک یہ ہے کہ ان کو دارالاسلام سے نکال دیا جائے، اور بعض کے نزدیک یہ ہے کہ جس مقام پر ڈاکہ ڈالا ہے، وہاں سے نکال دیا جائے۔ حضرت فاروق اعظمؓ نے اس قسم کے معاملات میں یہ فیصلہ فرمایا کہ اگر مجرم کو یہاں سے نکال کر دوسرے شہروں میں آزاد چھوڑ دیا جائے تووہاں کے لوگوں کو ستائے گا اس لیے ایسے مجرم کو قیدخانہ میں بند کر دیا جائے، یہی اس کا زمین سے نکالنا ہے کہ زمین میں کہیں چل پھر نہیں سکتا، امام اعظم ابوحنیفہؒ نے بھی یہی اختیار فرمایا ہے۔رہا یہ سوال کہ اس طرح کے مسلح حملوں میں آج کل عام طور پر صرف مال کی لوٹ کھسوٹ یا قتل و خوں ریزی ہی پر اکتفاء نہیں ہوتا، بلکہ اکثر عورتوں کی عصمت دری اور اغوا وغیرہ کے واقعات بھی پیش آتے ہیں اور قرآنِ مجید کا جملہ ویسعون فی الارض فسادا، اس قسم کے تمام جرائم کو شامل بھی ہے تو وہ کس سزا کے مستحق ہوں گے، اس میں ظاہر یہی ہے کہ امام و امیر کو اختیار ہوگا کہ ان چاروں سزاؤں میں سے جو اُن کے مناسبِ حال دیکھے وہ جاری کرے اور بدکاری کا شرعی ثبوت بہم پہنچائے تو حدِّزنا جاری کرے۔اسی طرح اگر صورت یہ ہو کہ نہ کسی کو قتل کیا، نہ مال لُوٹا، مگر کچھ لوگوں کو زخمی کر دیا، توزخموں کے قصاص کا قانون نافذ کیا جائے گا۔ آخر آیت میں فرمایا: ذلک لھم خزی فی۔۔۔۔۔۔ الدنیا ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم،یعنی یہ سزائے شرعی جو دنیا میں اُن پر جاری کی گئی ہے، یہ تو دنیا کی رسوائی ہے اور سزا کا ایک نمونہ ہے، اور آخرت کی سزا اس سے بھی سخت اور دیرپا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیاوی سزاؤں حدودو قصاص یا تعزیرات سے بغیر توبہ کے آخرت کی سزا معاف نہیں ہوتی، ہاں سزایافتہ شخص دل سے توبہ کرلے تو آخرت کی سزا معاف ہوجائے گی۔دوسری آیت الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم،میں ایک استثناء ذکر کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ ڈاکو اور باغی اگر حکومت کے گھیرے میں آنے اور اُن پر قابو پانے سے پہلے پہلے جب کہ ان کی قوت و طاقت بحال ہے، اس حالت میں اگر توبہ کرکے رہزنی سے خود ہی باز آجائیں تو ڈاکہ کی یہ حد شرعی اُن سے ساقط ہوجائے گی، یہ استثناء عام قانونِ حدود سے مختلف ہے، کیونکہ دوسرے جرائم چوری زنا وغیرہ میں جرم کرنے اور قاضی کی عدالت میں جرم ثابت ہوجانے کے بعد اگر مجرم سچے دل سے توبہ بھی کرے تو گو اس توبہ سے آخرت کی سزا معاف ہوجائے گی، مگر دنیا میں حدِشرعی معاف نہ ہوگی، جیساکہ چند آیتوں کے بعد چوری کی سزا کے تحت میں اس کا تفصیلی بیان آئے گا۔حکمت اس استثناء کی یہ ہے کہ ایک طرف ڈاکوؤں کی سزا میں یہ شدت اختیار کی گئی ہے کہ پوری جماعت میں کسی ایک سے بھی جرم کا صدور ہو تو سزا پوری جماعت کو دی جاتی ہے، اس لیے دوسری طرف اس استثناء کے ذریعہ معاملہ کو ہلکا کر دیا گیا کہ توبہ کرلیں تو سزائے دنیا بھی معاف ہوجائے، اس کے علاوہ اس میں ایک سیاسی مصلحت بھی ہے کہ ایک طاقت ور جماعت پر ہر وقت قابو پانا آسان نہیں ہوتا، اس لیے ان کے واسطے ترغیب کا دروازہ کھلا رکھا گیا، کہ وہ توبہ کی طرف مائل ہوجائیں۔نیز اس میں یہ بھی مصلحت ہے کہ قتلِ نفس ایک انتہائی سزا ہے، اس میں قانونِ اسلام کا رُخ یہ ہے کہ اس کا وقوع کم سے کم ہو اور ڈاکہ کی صورت میں ایک جماعت کا قتل لازم آتا ہے اس لیے ترغیبی پہلو سے ان کو اصلاح کی دعوت بھی ساتھ ساتھ جاری رکھی گئی، اسی کا یہ اثر تھا کہ علی اسدی جو مدینہ طیبہ کے قرب میں ایک جتھہ جمع کر کے آنے جانے والوں پر ڈاکہ ڈالتا تھا، ایک روز قافلہ میں کسی قاری کی زبان سے یہ آیت اس کے کان میں پڑ گئی: یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللّٰہ، قاری کے پاس پہنچے، اور دوبارہ پڑھنے کی درخواست کی۔ دوسری مرتبہ آیت سنتے ہی اپنی تلوار میان میں داخل کی، اور رہزنی سے توبہ کرکے مدینہ طیبہ پہنچے، اس وقت مدینہ پر مروان بن حکم حاکم تھے، حضرت ابوہریرہؓان کا ہاتھ پکڑ کر امیرمدینہ کے پاس لے گئے، اور قرآن کی آیت مذکورہ پڑھ کر فرمایا کہ آپ اس کو کوئی سزا نہیں دے سکتے۔حکومت بھی ان کے فساد و رہزنی سے عاجز ہو رہی تھی سب کو خوشی ہوئی۔اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کے زمانہ میں حارثہ بن بدر بغاوت کر کے نکل گیا، اور قتل و غارت گری کو پیشہ بنا لیا، مگر پھر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور توبہ کرکے واپس آیا، تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اُس پر حد شرعی جاری نہیں فرمائی۔یہاں یہ بات قابلِ یادداشت ہے کہ حدِ شرعی کے معاف ہوجانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ حقوق العباد جن کو اس نے ضائع کیا ہے وہ بھی معاف ہوجائیں، بلکہ اگر کسی کا مال لیا ہے اور وہ موجود ہے تو اس کا واپس کرنا ضروری ہے، اور کسی کو قتل کیا ہے، یا زخمی کیا ہے تو اس کا قصاص اس پر لازم ہے، البتہ چونکہ قصاص حق العبد ہے تو اولیاء مقتول یا صاحبِ حق کے معاف کرنے سے معاف ہوجائے گا، اور جو کوئی مالی نقصان کسی کو پہنچایا ہے اس کا ضمان ادا کرنا یا اس سے معاف کرانا لازم ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہؒ اور جمہور فقہاء کا یہی مسلک ہے۔ اور اگر غور کیا جائے تو یہ بات یوں بھی ظاہر ہے کہ حقوق العباد سے خلاصی حاصل کرنا خود توبہ کا ایک جُز ہے۔ بدون اس کے توبہ ہی مکمل نہیں ہوتی ، اس لیے کسی ڈاکو کو تائب اُسی وقت مانا جائے گا جب وہ حقوق العباد کو ادا یا معاف کرا لے۔‘‘( معارف القرآن ،ج۳ ، ص۱۱۹،ادارۃ المعارف کراچی)
مترجمین ۔۱۔شا ہ عبد القادرؒ ، ۲۔مولانا اشرف علی تھانویؒ ، ۳۔مولانا احمد رضا خاںؒ ، ۴۔مولانا محمد جونا گڑھیؒ ،۵۔سیدّابوالاعلی مودودیؒ ، ۶۔مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، ۷۔محترم جاویداحمد غامدیتفاسیرومفسرین۱۔ تفسیر عثمانی ،مولانا شبیرؒ احمد عثمانی،۲۔ معارف القرآن ، مفتی محمد شفیع ؒ ،۳۔خزائن العرفان ،مولاناسید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ ،۴۔ تفہیم القرآن،مولانا مودودیؒ ،۵۔ احسن البیان، محترم صلاح الدین یوسف ،۶۔ضیا ء القرآن ، پیرکرم شاہ الازہری ؒ ،۷۔ تفسیر ماجدی ، مولانا عبدالماجدؒ دریابادی،۸۔ تدبر قرآن ، مولانا امین احسنؒ اصلاحی،۹۔ البیان، محترم جاوید احمد غامدی