اللہ کے لیے خرچ کرنا

مصنف : ابنِ عبداللہ

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اپریل 2019

اصلاح و دعوت
اللہ کے لیے خرچ کرنا
ابن عبداللہ

                                                                                              

بھوک کی شدت سے برا حال تھا گاڑی کسی ہوٹل پر کھڑی کرنے کا وقت نہ ملا کیونکہ گرمی انتہا کی تھی اور گاڑی کا ائیر کنڈیشن چل رہا تھا کار سے نہ اترنے کی غرض سے سوچا کہ کھانا اب گھر جاکر ہی کھاؤں گا۔
میرا دبئی میں ایک چھوٹا سا بزنس تھا لیکن ان دنوں کام بالکل نہیں تھا اس لیے گاہکوں کو جاکر ملنا پڑ رہا تھا۔کام نہ ہونے کی وجہ سے پیسوں کی کمی ہوگئی تھی جیب میں صرف دو سو درہم رہ گئے تھے۔ اسی سوچ میں گاڑی پارکنگ میں کھڑی کر رہا تھاکہ ایک بنگالی لڑکا پسینے سے شرابور گندے سے کپڑے پہنے ہوئے میری کار کی طرف بڑھا میں نے شیشہ نیچے کیا تو کہنے لگا،'' السلام علیکم! بھائی کیا حال ہے میں مسلمان ہوں اور شکل سے آپ بھی مجھے مسلمان لگتے ہیں مجھے آپ سے ایک گزارش کرنی ہے. ''میں نے پوچھا کیا بات ہے. وہ ایک دم رونے لگا اور بولامیں فقیر نہیں ہوں لیکن دو دن سے بھوکا ہوں،میری والدہ بیمار ہیں میرے پاس کوئی نوکری بھی نہیں،کیا آپ مجھے 50 درہم دے سکتے ہیں مجھے بھوک لگی ہے،اور میں اپنی ماں کو کچھ پیسے جمع کرکے بنگلہ دیش بھیجنا چاہتا ہوں تاکہ میری ماں دوا لے سکے
50 درہم میرے لئے زیادہ نہ تھے ،لیکن میں نے سوچا کہیں یہ جھوٹ تو نہیں بول رہا لیکن اسکی آنکھوں میں آنسو اور اسکی باتوں سے سچ ظاہر ہو رہا تھا۔میرے پاس ایک ہی 200 درہم کا نوٹ تھا جو میں نے اس کو دیا کہ جاؤ سامنے دکان سے کھلے پیسے لے آؤ۔وہ 200 درہم لے کر چلا گیا کافی دیر تک جب وہ نہ آیا تو مجھے اس کی بات جھوٹ لگنے لگی خیر میں گاڑی میں اے سی لگا کر بیٹھا رہا۔خود کو کوس رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ میرے پاس خود پیسے نہیں تھے اب یہ 200 بھی جاتا رہا۔لیکن میرا خیال اس وقت غلط ثابت ہوا جب میں نے اسے دور سے اپنی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا۔اس کی حالت پہلے سے اور بری ہوگئی تھی سانس پھولا ہوا، بھوک پیاس اور گرمی کی شدت نے اسکو بے حال کر دیا تھا۔واپس آتے ہی اس نے کہا معافی چاہتا ہوں کہیں سے کھلے پیسے نہیں مل رہے تھے بہت دور سے لایا ہوں۔یہ لیں۔میں نے پیسے پکڑتے ہوئے اس کو پوچھا تم کتنے بہن بھائی ہو کہنے لگا میں 6 بہنوں کا اکیلا بھائی ہوں والد وفات پاچکے ہیں اور ماں بیمار ہے۔ ماں کی دوائی کیلئے ہی آپ سے پیسے مانگے
میں گاڑی سے باہر آیا اسکو 50 درہم دیے اور وہ شکریہ ادا کرنے لگا، اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔اس کے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں۔بھائی آپ سے پہلے میں نے اور بھی لوگوں سے پیسے مانگے لیکن کسی نے مدد نہ کی ۔آپ پہلے پاکستانی ہو جس نے میری مدد کی آپ کا بہت بہت شکریہ۔آج پتہ چلا ہے کہ پاکستانی لوگ بڑے دل والے ہیں۔میں پاکستان کو سلام کرتا ہوں۔اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میری آنکھیں بھی بھر آئیں۔ میرے پاس وہی 150 درہم باقی بچے تھے میں نے خدا پر توکل کرتے ہوئے کہ اللہ تعالی میرے لئے اور انتظام کردے گا،باقی 150 درہم بھی اسکے ہاتھ میں تھما دیے تب وہ میری طرف حیرت زدہ کھلی آنکھوں سے دیکھنے لگا اور مجھے کہنے لگا بھائی میرے کپڑے گندے ہیں مجھ سے بو آرہی ہے ،شاید کوئی اپنے پاس کھڑا بھی نہ ہونے دے مجھے معاف کرنا۔یہ کہہ کر وہ یکدم میرے سینے سے چمٹ گیا۔میں نے اسے بانہوں میں لے لیا،وہ روتا جاتا تھا اور دعائیں دیتا جاتا خدا آپ کو اور دے خدا آپ کو اور دے۔
تب مجھے وہ حقیقی خوشی ملی جو بیان سے باہر ہے ،اس دن معلوم ہوا کہ کسی کی مدد کرنے سے کیسا سکون نصیب ہوتا ہے بظاہر میری جیب تو خالی تھی لیکن دل خوشی اور شکر کے جذبات سے لبریز تھا۔اس کے بعد میں اپنے کمرے میں کھانے کیلئے ابھی بیٹھا ہی تھا ایک نوالہ بھی ابھی نہیں کھایا تھا،کہ ایک کمپنی سے فون آیا اور مجھے 40 ہزار درہم کا کام مل گیاشاید خدا کو میری نیکی پسند آگئی تھی اسی لئے تو 200درہم کو 200 گنا بڑھا کر 40 ہزار کر دیا تھا۔بے شک خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا۔
***