جینیس نفسیات دان سگمنڈ فرائیڈ نے خود کشی کیوں کی؟

مصنف : شبنم گل

سلسلہ : نفسیات

شمارہ : اپریل 2019

نفسیات
جینیس نفسیات دان سگمنڈ فرائیڈ نے خود کشی کیوں کی؟
شبنم گل

                                                                                               سگمنڈ فرائڈ نے شعور، لاشعور اور تحت الشعور کے توسط سے نئے نظریات پیش کیے۔ اس نے لاشعور کے ذریعے انسان کی شخصیت کے منفی گوشے دریافت کیے۔ سگمنڈ فرائڈ 6 مئی 1856 ء کو ایک عام درجے کے یہودی گھرانے میں پیدا ہوا۔ فرائڈ ایک نظریاتی انقلابی شخص تھا، جس کے نئے نظریات اور سوچ کے منفرد انداز نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ وہ ایک ایسا ذہنی انقلاب لے کر آیا جس کی مثال کم ملتی ہے۔
فرائڈ کو عالم گیر شہرت ملی مگر مزاجاً وہ شہرت کے پر فسوں جال سے دور رہنا چاہتا تھا۔ اس کا مطالعہ وسیع تھا۔ اس کی شخصیت کا تجسس اسے ایک نئی دنیا دریافت کرنے پر اکساتا۔ عام زندگی میں وہ پرسکون شخص تھا، جو آٹھ نوگھنٹے مستقل کام کرتا۔ وہ مستقل مشاہدے اور تجربے کی کیفیت سے گزرتے ہوئے جب چاہتا اپنی منتشر ذہنی قوتوں کو مجتمع کر لیتا۔ کوئی بھی مقصد لے کر جب انسان کامیابی کے سفر پر نکلتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنی ذات کی نفی کرتا ہے۔اپنی پسند اور ترجیحات کے محدود دائرے سے باہر نکل کر وہ ایک نئی کائنات پا سکتا ہے۔ بقول ایک محقق کے ’’فرائڈکی مصروفیات کا اندازہ اس کے کام سے لگایا جاسکتا ہے۔ وہ صبح نو بجے سے ایک بجے تک مریضوں کا معائنہ کرتا، دوپہرکا کھانا خاندان کے ساتھ مل کر کھاتا پھر ایک گھنٹہ بازار میں گزارتا، کتب فروشوں، سگار کی دکان سے خرید وفروخت کرنے کے بعد کباڑیوں کی دکانوں پر آثار قدیمہ کی اشیا تلاش کرتا۔ ایک گھنٹہ وہ لوگوں کو مشورے دیتا بعد میں مریض دیکھتا۔ شام کے کھانے کے بعد اسٹوڈیو چلا جاتا۔ بدھ کی شام تجزیہ نفس کی مجلس کا جلسہ ہوتا۔ ہفتے کی شام اس کا لیکچر معمول کے مطابق طے تھا۔ واپس آکر تاش کی بازی اور شام کے بعد وہ رات گئے تک کام کرتا رہتا‘‘۔
فرائڈ کی یکسوئی کام پر مرکوز تھی لہٰذا اسے وقت کی ترتیب کا اندازہ تھا کہ اسے اپنا وقت کس طرح گزارنا ہے۔ چونکہ وہ وقت کو منصوبہ بندی کے تحت گزارتا اس لیے وقت کی کمی کا شائبہ تک اس کی زندگی میں نہ تھا۔ فرائڈ کی زندگی کا مثبت حوالہ یہ تھا کہ وہ اپنے گھر اور خاندان کو ساتھ لے کر چلا۔ حالانکہ عام طور پر ایسے لوگوں کے گھر بہت متاثر ہوتے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ ان کے رشتے، لیکن سچائی یہ ہے کہ اگرگھر خاندان اور رشتے منتشر ہوں تو انسان کو کام کرنے کے لیے توانائی کہاں سے ملے گی! فرائڈ کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد محسوس ہوگا کہ اس نے سب سے پہلے اپنی ذات کے ساتھ فعال رابطہ رکھا۔ لہذا ماحول سے مطابقت ذات کی آگہی کی دین ہے۔ خود شناسی سے بہرہ ور ہونے کے بعد، زندگی آسان ہوجاتی ہے۔ انسان جب اپنی ذات کو نہیں سمجھ سکتا پھر وہ کس طرح دوسروں کو سمجھ پائے گا۔
فرائڈ کی زندگی کا خاصہ، اس کی ذات میں موجود رابطے کا ہنر تھا۔ انسان جب تک دوسروں سے فعال رابطہ نہیں جوڑتا، انھیں ذات کے خالص پن سمیت نہیں قبول کرتا اس کی اپنی مشکلات کم نہیں ہوتیں۔ فرائڈ پر جامع تحقیق کرنے والے محقق لکھتے ہیں ’’فرائڈ کی ذاتی کامیابی کا ایک ثبوت اس کی خوشگوار گھریلو زندگی ہے۔ اس کے خاندان کے افراد بیوی بچے اور سالی۔ فرائڈ کی بیوی مارتھا اطاعت شعار اور سمجھدار عورت تھی۔ گھر کے نوکر چاکر اس سے خوش تھے۔وہ چاہتی تھی کہ اس کے تمام کام احسن طریقے سے ادا ہوں تاکہ وہ فرائڈ کے تمام کام بغیر کسی رکاوٹ کے ادا کر پائے۔ حالانکہ فرائڈ نے تمام کاروبار تجزیہ نفس کی بھینٹ چڑھادیا، اس کے چھ بچے تھے۔ نفسیاتی پیچیدگیوں کی بند گرہیں کھولتے وہ خوشحال زندگی سے دور ہوگئے، لیکن فرائڈ کی بیوی اور بچوں نے اس کا بڑا ساتھ دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک پرسکون گھر، تخلیقی کام کے لیے معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہ معاونت اور گھریلو زندگی کا سکون فرائڈ کے مثبت رویے کا ثمر تھا! ایک پرسکون اور سمجھ دار شخص، ایک ایسے خاندان کی تشکیل کرتا ہے، جو ہر طرح سے ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہو۔
ایک ماہر نفسیات کے لیے کتاب، تاریخ، قدیم فن اور حال سے تعلق استوارکرنا کس قدر ضروری ہوتا ہے، اس بات کا اندازہ فرائڈ کی زندگی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ادبی دنیا میں وہ شیکسپیئر کا بہت بڑا مداح تھا۔ شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے ہیملٹ کے کردار میں ایڈی پس کمپلیکس پایا جاتا ہے۔ اس الجھاؤ میں بچے کو اپنی ماں سے جنسی لگاؤ ہوتا ہے اور وہ باپ سے رقابت محسوس کرتا ہے جس سے طفلانہ جنسیت (Infantile Sexuality) کے نظریے نے جنم لیا۔
حالانکہ تنقید نگاروں نے فرائڈ کو اس کے متعارف کروائے گئے جنسی نظریوں کی وجہ سے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔ نقاد اس کے ماں کے تقدس کو پامال کرنے پر کافی برہم رہے۔ اس نے تحلیل نفسی کے نظریے کے تحت ذہنی امراض کو سمجھنے اور کم کرنے کے مواقع فراہم کیے۔ تحلیل نفسی کے حوالے سے وہ کہتا ہے: ’’تحلیل نفسی میری تخلیق ہے۔ دس برس تک میں اکیلا اس میں الجھا رہا۔ اس نئے شعبے نے میرے ہم عصروں میں جس غصے کو جنم دیا، میں تنہا اعتراضات کی صورت میں اسے برداشت کرتا رہا۔ اب جب کہ اس میدان میں اور بھی مصالحین آچکے ہیں تو میں یہ باورکرنے میں حق بجانب ہوں کہ تحلیل نفسی کو مجھ سے بہتر سمجھنے والا اور کوئی نہیں۔‘‘
اگر دیکھا جائے تو سگمنڈ فرائڈ میں بڑی برداشت تھی۔ وہ تنقید سے تخلیق کے لیے تحرک حاصل کرتا۔ اس کے انقلابی نظریات رجعت پرستوں نے مسترد کر دیے ایک جگہ فرائڈ لکھتا ہے ’’عورت سے صرف تین طرح کے تعلقات ہوسکتے ہیں جنم دینے والی ماں۔ اس کی ہم نوالہ اور ہم بستر۔ اور اسے تباہ و برباد کرنے والی۔ یا پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ماں ہی بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ یہ تینوں روپ دھارتی ہے۔ ماں تو وہ خود ہی ہے، پھر وہ محبوبہ جس کے روپ میں مادرانہ جھلک نظر آتی ہے اور آخر میں دھرتی ماتا جو اسے اپنے اندر چھپا لیتی ہے۔‘‘
محققین کی نظر میں خود فرائڈ پیچیدہ نفسیاتی شخصیت کا حامل تھا۔ خود فرائڈ میں ایسی علامات نظر آتی ہیں جن کے علاج کے لیے اس نے تحلیل نفسی کا طریقہ وضع کیا تھا۔
فرائڈ نے ادب میں نفسیات کے کئی پوشیدہ گوشے تلاش کیے۔ جس سے نئی بحثوں کا آغاز ہوا اور کئی نئے زاویے سامنے آئے جس سے انسانی فطرت کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں مدد ملی۔
فرائڈ کی تحلیل نفسی کے طریقہ علاج میں انا اور فوق الانا کی کشمکش، لا ذات کی نفسی توانائی اور جبلی خواہشات کے دباؤ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ تحلیل نفسی کے توسط سے وہ فرد کی لاشعوری خواہشات کو جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ فرائڈ کے مطابق جب فرد کی نا آسودہ جنسی، غیر اخلاقی خواہشات، ناکامی کا احساس، خوف، ندامت و کشمکش وغیرہ اس کے لاشعور میں دب جاتے ہیں تو وہ ذہنی تناؤ، تشویش و دیگر ذہنی عارضے میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ لاشعور کا تجزیہ اور تحلیل کرنے کے بعد یہ کیفیات ختم ہوجاتی ہیں اور متاثرہ افراد بہتر انداز میں اپنی ذمے داریوں کو نبھانے کے اہل ہوجاتے ہیں۔ یہ بنی نوع انسان پر فرائڈ کا احسان ہے کہ اس نے لاشعور کو سمجھنے پر زور دیا۔ کیونکہ الجھا ہوا لاشعور ایک آتش فشاں کی طرح کسی وقت بھی پھٹنے کا اہل ہوسکتا ہے۔
فرائڈ کی صحت سگار پینے کی شدت کے تحت برباد ہوتی رہی مگر اس نے بیماری کو ترجیح دی۔ یہ غیر صحت بخش عادت، تخلیقی عمل کے لئے بڑا تحرک تھی۔ وہ سولہ سال تک منہ کے کینسر میں مبتلا ریا۔ اور اس کے متعد آپریشنز ہوئے۔ بالآخر اس نے اپنے معالج ڈاکٹر میکس شور سے التجا کی کہ وہ اس کی زندگی کا خاتمہ کردے۔ اس کا معالج اسے آرام دینے کی خاطر مارفین کا انجیکشن دیتا تھا۔ اس کی تکلیف کے پیش نظر ڈاکٹر میکس نے مارفین کی ڈوز بڑھا کر اس کی موت کو آسان بنا دیا۔ مرسی کلنگ یا یوتھینزیا لاعلاج مریضوں کی نجات کاذریعہ سمجھے جاتے ہیں نیدرلینڈ میں مریضوں کو یہ سہولت دستیاب ہے۔ سوئیزرلینڈ میں‘‘سیوسائیڈ ٹوئرزم’’ (خودکشی کی سیاحت) کی صورت موت کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔
***