بے گناہوں کو سزا دینے کے چند واقعات

مصنف : ڈاکٹر محمد یوسف سمرا

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : اپریل 2019

سماجیات
بے گناہوں کو سزا دینے کے چند واقعات
ڈاکٹر محمد یوسف سمرا

                                                                                                                      پاکستان میں زندگی اتنی سستی ہے، آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ پاکستانی نہ جانے کیوں ہر وقت مہنگائی کا رونا روتے ہیں۔ اس دیس میں مہنگائی جتنی بھی ہو زندگی بہت سستی ہے۔ یہاں لوگ صبح شام مرتے ہیں۔ بم دھماکوں میں جہاں ہزاروں شہری موت کی وادی میں دھکیل دیے گئے ہیں وہیں سینکڑوں پولیس گردی کا شکار ہوئے ہیں۔ قانون کا مذاق اڑانے والوں میں خود قانون کے رکھوالے ملوث رہے ہیں۔
مجھے یاد ہے میں ان دنوں ہسپتال میں ایمرجنسی میڈیکل افسر تھا۔ میری دوپہر کی ڈیوٹی تھی۔ اس دن بھی میں ڈیوٹی پر جانے کے لئے ویگن میں سوار ہوا۔ میں چونکہ روزانہ اسی ویگن میں آتا تھا، اس لئے اگر سیٹ خالی ہوتی تو ڈرائیور اپنے ساتھ بٹھا لیتا۔ وہ بڑا ہی بھلامانس شخص تھا۔ باریش ہلکی سفید داڑھی اور سر پر ٹوپی۔ اس دن ہمارے سامنے وہ عورت جو سر پر گٹھڑی اٹھائے سڑک پار کر رہی تھی۔ ایک موٹر سائیکل سے ٹکرا کر سڑک پر گری تھی۔موٹر سائیکل والے نے تو رکنا گوارا نہیں کیا۔ ڈرائیور نے بڑی مشکل سے بریک لگائی تھی اور سڑک پر گری اس عورت سے دوفٹ پیچھے رکنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس عورت کے سر پر چوٹ آئی تھی اور اس کے ناک اور منہ سے خون جاری تھا۔ ڈرائیور اور پیچھے بیٹھی کچھ سواریاں بضد تھیں کہ ہمیں نہیں رکنا چاہیے۔ میرے اندر کا ڈاکٹر نہیں مانا۔ میری ہمنوا ایک دو اور سواریاں بھی تھیں۔ اس زمانے 1122 نہیں ہوتی تھی۔ ہم نے اس عورت کو اٹھایا اور اسی ہسپتال لے گئے۔یہ ایک تحصیل ہسپتال تھا اور میری اپنی ڈیوٹی شروع ہو چکی تھی۔ میں نے اور میرے عملے نے پوری کوشش کی مگر وہ عورت جانبر نہ سکی۔ پولیس کو اطلاع کی گئی جو ضروری تھی۔ عجیب اتفاق تھا وہ اسی تھانے کے منشی کی ماں تھی۔ پولیس بیان لینے آئی۔ میرا بیان پولیس نے لینے سے انکار کرتے ہوئے بہانا کیا کہ میں تو ڈیوٹی ڈاکٹر ہوں۔ ڈیوٹی ڈاکٹر پوسٹ مارٹم بھی کرے گا تو حادثے کا عینی شاہد کیسے ہو گا۔ ڈرائیور کا بیان لیا گیا اورچونکہ ڈرائیور ہی عورت کو زخمی حالت میں اٹھا کر لایا تھا، اسی کو حادثے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا۔ڈی ایس پی ٹریفک میرا دوست تھا۔ میں نے اسے درخواست کی۔ وہ مجھے ساتھ لے کر ایس ایچ او کے ہمراہ جائے حادثہ پر گیا۔ اس نے سڑک پر موجود ٹائروں کی رگڑ کے نشان دیکھے اور میری بات کی تائید کی۔ ایس ایچ او نے مدد کا وعدہ کیا مگر کچھ نہ ہوا۔ پولیس والا اپنی مری ہوئی ماں کے پیسے لینا چاہتا تھا۔ ڈرائیور غریب آدمی تھا۔ جھوٹے گواہ بنائے گئے اور جھوٹی گواہی کی بنیاد پر ڈرائیور کو سات سال کی سزا ہوگئی۔
مجھے یاد پڑتا ہے ایک بار میں مجسٹریٹ کی عدالت میں کسی میڈیکولیگل کیس کی گواہی کے لئے آیا ہوا تھا۔ تین چار ملزم جو ہتھکڑی میں تھے اور جیل سے لائے گئے تھے، صاحب بہادر کی عدالت میں پیش کیے گئے۔ صاحب نے فائل تک دیکھنا گوارا نہیں کیا اور ریڈر کو تین ماہ بعد کی تاریخ ڈالنے کا حکم جاری کردیا۔ ایک ملزم کی قوت برداشت شاید جواب دے چکی تھی۔ اس نے توہین عدالت کا مرتکب ہوتے ہوئے بلند آواز میں کہا ’’صاحب پانچ سال ہو گئے ہیں؛ کبھی تیسرے کبھی چھٹے مہینے میری پیشی لگتی ہے اور بغیر کچھ کہے سنے اگلی پیشی پڑ جاتی ہے۔ میرا قصور کیا ہے‘‘۔صاحب نے ترس کھا کر ریڈر سے فائل دیکھنے کو کہا۔ اس پر چار گرام ہیروئین رکھنے کا جرم تھا جس کی سزا تین سال قید تھی۔ ملزم پانچ سال سے جیل میں تھا۔ صاحب بہادر نے تفتیشی افسر کو حکم دیا کہ اس کی برآمدگی بڑھا دوتاکہ میں اس کی سزا کو جسٹیفائی کر سکوں۔
ایک اور پچیس سال پرانا واقعہ یاد پڑتا ہے۔ پولیس کسٹڈی میں ایک شخص کی حالت بگڑ گئی۔ پہلے تو وہ اسے مکّر سمجھتے رہے، حقیقت کا احساس ہوا تو ہسپتال پہنچ گئے تب تک دیر ہو گئی تھی۔ ملزم ایک معروف آدمی تھا۔ میں اس رات چھٹی پر تھا۔ اگلے دن لیکن اس کا پوسٹ مارٹم مجھے کرنا پڑا۔ اس پر پولیس نے ڈرائنگ روم تشدد ضرور کیا تھا لیکن وجہ موت دل کا دورہ ثابت ہوئی۔ اس کے لواحقین با اثر لوگ تھے۔ وہ ہنگامہ آرائی پر اتر آئے پولیس کے خلاف جلوس نکلنے لگے۔ آخر کار جوڈیشل انکوائری ہوئی اور مجسٹریٹ نے پولیس اور ہسپتال کے عملے کے خلاف قتل، اقدام قتل اور اعانت قتل کا مقدمے درج کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ میں نے دہائی دیتے ہوئے مجسٹریٹ کو کہا کہ ’’مرے ہوئے کو مارنے پر کون سی دفعہ لگتی ہے‘‘ تو اس نے حیران ہو کے پوچھا ’’کیا مطلب‘‘۔ میں نے کہا میں نے اس مردے کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ میں نے اس کی شکل اس وقت دیکھی ہے جب اس کے پوسٹ مارٹم کا حکم ملا۔ جب یہ حالت نزع میں ہسپتال لایا گیا تھا میں چھٹی پر تھا۔ اس کیس میں کئی مہینے انکوائریاں چلتی رہیں تب کہیں جان بخشی ہوئی۔
پاکستان کا نظام احتساب و نظام انصاف گذشتہ ستّر سال سے ایک ہی ڈگر پر چلتا نظر آ رہا ہے۔ یہ نظام بتدریج بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ منصف عدالت کی بجائے کنٹینرز پر چڑھے نظر آتے ہیں۔ جگہ جگہ عدالتوں کی بجائے جرگے اور ہجوم انسانی زندگیوں کے فیصلے کرتے نظر آتے ہیں۔ لاکھوں لوگ انصاف کے منتظر ہیں مگر عدالتیں انھیں تاریخ پر تاریخ دیتی نظر آتی ہیں۔ اکثر حساس نوعیت کے کیس عدالت پہنچنے سے پہلے ہی پولیس کے ہاتھوں سڑکوں پر نمٹا دیے جاتے ہیں۔ ریاست پرویز مشرف بنی ہوئی ہے۔ پرویز مشرف کا اقتدار گزرے ایک عشرہ ہونے کو آیا۔ پرویز مشرف جا چکا لیکن گلی گلی گاؤں گاؤں چھوٹے چھوٹے پرویز مشرف بے گناہ انسانوں کا کارگل کرنے میں مصروف ہیں۔***(بشکریہ ہم سب ڈاٹ کام)
***