گورو ارجن دیو، شاہجہان کی بیٹی اور شوکت خانم کی قبر

مصنف : مستنصر حسین تارڑ

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : اپریل 2019

تاریخ
گورو ارجن دیو، شاہجہان کی بیٹی اور شوکت خانم کی قبر
مستنصر حسین تارڑ

                                                                                                                         شہر لاہور کے بہت سے باسی اکثر موچی دروازے کے اندر واقع ایک قدیم کنویں کے قریب سے گزرتے رہتے ہیں اور وہ اس کنویں سے منسوب دوستی کی ایک لازوال داستان سے واقفیت نہیں رکھتے۔ ایک مسلمان درویش حضرت میاں میر اور ایک سکھ گورو ارجن دیو کی دوستی کی داستان۔ یہ کنواں جو ’’لال کھوہ‘‘ کہلاتا ہے البتہ اپنی ذائقہ دار برفی کے لئے دنیا بھر کے لاہوریوں میں معروف ہے اور اس داستان میں یہاں کی برفی کابھی ایک تاریخی کردار ہے۔
گورو ارجن دیو حضرت میاں میر کے نہ صرف قریبی دوست تھے بلکہ روایت ہے کہ وہ بھی دارشکوہ اور چھجو بھگت کی مانند انہیں اپنا مرشد مانتے تھے گورو ارجن دیو کے والد گورو رام داس لاہور کے باشندے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بازار میں ابلے ہوئے چنے فروخت کر کے گزر اوقات کرتے تھے لیکن ان کی پارسائی کی بہت شہرت تھی۔ گورو رام داس نے ’’میٹھے تالاب‘‘ یعنی امرتسر کی بنیاد رکھی اور ارجن دیو نے دربار صاحب کی تعمیر اور بنیاد رکھنے کے لئے اپنے دوست میاں میر صاحب کو بلایا۔
سکھ برادری جہاں بابا فرید کو اوتار مانتی ہے کہ ان کی شاعری گرنتھ صاحب میں شامل ہے وہاں میاں میر صاحب کو بھی اپنے بزرگوں میں شمار کرتی ہے کہ انہوں نے ان کے سب سے مقدس مقام کی پہلی اینٹ رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت گورو ارجن کو شک کی نظروں سے دیکھتی تھی۔ چنانچہ انہیں گرفتار کر کے لال کھوہ کے قریب ایک ہندو چندو لال کے گھر کی ایک کوٹھڑی میں قید کر دیا گیا۔ روایت بھی ہے کہ چندو لال گورو کے ہاں اپنی بیٹی کا رشتہ کرنا چاہتا تھا۔ان کے انکار پر ان کا دشمن ہو گیا۔ حکم یہ تھا کہ گورو کو بھوکا اور پیاسا رکھا جائے۔ حضرت میاں میر تقریباً روزانہ لال کھوہ آتے۔ گورو کو پانی کا پیالہ دیتے لال کھوہ کے سامنے ایک چھابڑی والے سے برفی خرید کر گورو کی کوٹھڑی میں پھینک دیتے۔ علاوہ ازیں آج بھی لال کھوہ کے برابر میں بیری کا ایک درخت ہے جس کے بارے میں روایت ہے کہ اسے بہت پھل لگا جو گورو کی خوراک کے لئے کافی ہوا۔ اس دوران میاں میر صاحب نے گورو کی رہائی کے لئے بہت تگ و دو کی لیکن ان کی پیش نہ گئی۔گورو کو لال کھوہ کی کوٹھڑی سے نکال کر ایک پابہ زنجیر قیدی کے طور پر وہاں سے پیدل قلعہ لاہور کے عقوبت خانے میں لے جایا گیا جہاں ان سے وہی سلوک کیا گیا جو سلطنت کے باغیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے اور یاد رہے کہ شہنشاہوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ صرف جبر کی حکمرانی ان کا عقیدہ ہوتا ہے۔ ان کے سامنے بے شک ان کا ہم مذہب آئے۔ دلا بھٹی یا خوشحال خان خٹک آئے وہ اس کی جان کے بیری ہو جاتے ہیں چنانچہ یہ سلسلہ مسلمان اور سکھ کا نہ تھا ،صرف سلطنت سے بغاوت کا تھا۔
میاں میر صاحب سے گورو نے کہا کہ آپ میری رہائی کے لئے مارے مارے نہ پھریں۔ وقت آ گیا ہے کہ میں اپنے رب کے حضور پیش ہو جاؤں آپ ان کی منت سماجت نہ کریں اقتدار کے نشے میں یہ اپنے تخلیق کرنے والے سے لاتعلق ہو چکے ہیں۔ گورو کو بری طرح اذیتیں دی گئیں اور چھٹے روز حضرت میاں میر صاحب نے شہنشاہ سے درخواست کی کہ کم از کم ارجن کو نہانے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ پاک صاف ہو کر اپنے رب کے سامنے پیش ہو۔ سکھ روایت کے مطابق گورو دریائے راوی میں اترا جو ان دنوں قلعے کے برابر میں بہتا تھا اور پھر اس کا کوئی نشان نہ ملا۔بہت سے سکھ یہ یقین رکھتے ہیں کہ گورو ارجن دیو کبھی نہ کبھی پھر راوی کے پانیوں میں سے ظاہر ہوں گے۔ 
میاں میر صاحب کی قبر ایک چبوترے پر واقع ہے اور اس چبوترے کی سیڑھیوں کے عین سامنے دو مزار ہیں جن کی نشاندہی سید محمد لطیف نے ’’تاریخ لاہور‘‘ میں کی ہے ایک قبر میاں میر صاحب کی ہمشیرہ جمال خاتون کے بیٹے محمد شریف کی ہے جو ان کے بعد سجادہ نشین ہوئے۔ دوسرا مزار حاجی محمد صالح کا ہے۔ ان کے عین سامنے دو بڑے بڑے آہنی چراغ ہیں۔میاں میر صاحب کی قبر کے سرہانے بیٹھ کر میں نے ایک سپارہ تلاوت کیا۔ کچھ دیر میاں میر صاحب کی درویشی کے ماحول کو محسوس کیا اور پھر باہر آ گیا۔ اردگرد کا صحن ابھی ویران پڑا تھا۔ مقبرے کے ایک جانب وہ تاریخی مسجد ہے جس کا کچھ حصہ داراشکوہ نے تعمیر کیا تھا۔ میں نے اس کے درو دیوار کی پرکھ کی تو معلوم ہوا کہ قدیم مسجد کے چند گنبد اور محرابیں ابھی تک اسی حالت میں موجود ہیں اس کے اندرون دو نفل اداکیے اور پھر صحن میں چلا آیا۔
میاں میر صاحب کی وفات کے بارے میں داراشکوہ نے ’’سکینتہ الاولیا‘‘ میں لکھا ہے ’’بروز منگل 7 ربیع الاول 1045 ہجری انہوں نے محلہ خان پورہ میں موجود اس حجرہ میں آخری سانس لیا جہاں ان کی رہائش تھی اور ان کی پاکیزہ روح وجود کے قفس سے آزاد ہو کر عالم لاہوتی میں پہنچ گئی اور اپنے اصل مقام پر پہنچ کر سمندر میں ایک قطرے کی مانند بن گئی‘‘ ۔
میاں میر صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی طویل العمری حبس دم کا عمل کرنے کی وجہ سے تھی اور وہ اس کے عادی بن چکے تھے۔
رات کے وقت صرف ایک دو بار سانس لیتے تھے۔ آپ کو حضرت عبدالقادر گیلانی سے اتنی عقیدت تھی کہ ان کا نام وضو کے بغیر زبان پر نہیں لایا کرتے تھے۔مجھے برسوں پیشتر کی ایک یاد معاً آئی۔ طاہرہ نقوی ٹیلی ویژن کی بے مثل اداکارہ جسے میں ’’منی مدھو بالا‘‘ کہا کرتا تھا۔ کینسر کا شکار ہو کر عین جوانی میں مر گئی۔ میں اس کے جنازے میں شریک تھا اور اسے یہیں کہیں میاں میر کے قبرستان میں دفن اپنے ہاتھوں سے کیا تھا۔مجھے اس کی قبر کی تلاش ہوئی تو اسی احاطے میں کیا دیکھتا ہوں کہ فلم سٹار محمد علی بھی دفن ہیں۔ محمد علی میرے گلبرگ والے گھر کے قریب فردوس مارکیٹ کے برابر میں رہائش پذیر تھے۔ ان کے گھر ہم نے فیض صاحب کی ایک سالگرہ منائی تھی جس میں میڈم نورجہاں بھی شریک ہوئی تھیں۔ کشور ناہید اور شبنم شکیل بھی اس محفل میں موجود تھیں۔ محمد علی کو ان کی رہائش گاہ سے متصل جے بلاک کے قبرستان میں دفنایا جانا تھا جہاں وحید مراد اور علاؤالدین کی قبریں ہیں۔میرے والدین اور ایک بھائی بھی وہیں خاک نشین ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ محمد علی کی قبر کھودی جا چکی تھی اور پھر انہیں میاں میر صاحب کے احاطے میں دفن کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ میں نے اس عظیم
اداکار اور مخیر انسان کے سرہانے کھڑے ہو کر فاتحہ پڑھی اور پھر طاہرہ نقوی کو تلاش کیا۔ کسی نے خبر کی کہ احاطے سے باہر بھی قبور کا ایک وسیع سلسلہ ہے چنانچہ باہر آ کر اس قدیم قبرستان کی خاک چھانی۔ بہت سارے مقبرے اور گنبد مسمار کر دیے گئے تھے کہ سپریم کورٹ نے قبرستانوں میں بھی ناجائز تجاوزات گرانے کا حکم دیا تھا۔
گورکنوں سے دریافت کرتا رہا کہ یہاں کسی مشہور خاتون کی قبر کا کسی کو علم ہے۔ طاہرہ نقوی تو نہ ملی البتہ محترمہ شوکت خانم کی سادہ قبر تک رسائی حاصل ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ نیازی خاندان کی چند قبروں کے گرد دو تین اینٹوں کی ایک حد بندی تھی۔ دیوار نہ تھی صرف نشاندہی تھی۔ جب تجاوزات کے خلاف مہم شروع ہوئی تو عمران خان کو اطلاع کی گئی جس پر انہوں نے کہا کہ کوئی تخصیص نہ کی جائے۔ اگر بقیہ حد بندیاں مسمار کی جا رہی ہیں تو میری والدہ کے لئے یہ رعائت نہ کی جائے۔ چنانچہ وہ نشاندہی بھی گرا دی گئی۔ شوکت خانم کی قبر بہت سادہ اور ویران سی تھی۔ میں نے اس خاتون کے لئے خصوصی دعا کی جس کے بیٹے نے اس کی یاد میں کینسر ہسپتال تعمیر کیا اور آج بے شمار لوگ شفا یاب ہو کر اس کے درجات کی بلندی کے لئے دعاگو ہوتے ہیں۔ شوکت خانم کو کسی شاندار مقبرے کی حاجت نہ تھی کہ کینسر ہسپتال ایک ایسی یادگار ہے جو شاہی مقابر سے زیادہ شاندار ہے اور لوگوں کے دکھ کا مداوا کرتی ہے۔ 
میاں میر صاحب کے مرقد کے برابر میں داراشکوہ کی منہ بولی بہن نادرہ بیگم کا اجڑا ہوا مقبرہ اب بھی ایک پرشکوہ عمارت ہے۔ یاد رہے کہ نادرہ بیگم شاہجہان کی سگی بیٹی تھی۔ مقبرے کے گرد تالابوں کا ایک سلسلہ تھا اور شالیمار کی مانند چاروں جانب روشوں کے درمیان درجنوں فوارے ابلتے تھے۔ ان میں سے کچھ فوارے اب بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔(بشکریہ: روز نامہ 92 نیوز)

***