عزت اور محبت

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : اپریل 2019

عزت اور محبت
وہ میرا بچپن کا دوست ہے ۔میں اس کے ماضی اور حال سے اچھی طرح واقف ہوں۔ پرائمری سکول سے لے کر ہائی سکول تک ، ہائی سے لے کر کالج اور کالج سے لے کر یونیورسٹی تک ہر جگہ ہم ساتھ ساتھ چلتے رہے لیکن پھر عملی زندگی میں ہمارے راستے جدا ہو گئے۔ اس کی دلچسپی کا محور مذہب اور مذہبی معاملات تھے اس لیے اس نے معاش کی جدو جہد کے ساتھ ساتھ مذہبی دنیا میں بھر پور حصہ لینا شروع کر دیا جبکہ میں صرف دنیا ہی کاہو رہا ۔ اگرچہ عملاً ہمارے راستے الگ الگ ہو گئے تھے لیکن میرا اور اس کا رابطہ ہمیشہ برقرار رہا۔پچھلے دنوں میری اس سے ایک تفصیلی ملاقات ہوئی تو وہ کچھ بجھا بجھا سا نظر آیا ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ تو اس نے کہا صدیق، تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ پرائمری سکول سے لے کر یونیورسٹی تک سب کلا س فیلو میری کتنی عزت کیا کرتے تھے ۔ میں نے کہا ہاں یا د ہے۔ اس نے کہا بس یہی مسئلہ ہے ۔ اس وقت سے لے کر آج تک میں بس عزت کے دائرے میں بند ہوں اس نے بتایا کہ وہ جس بھی ادارے میں جاب کرتاہے وہاں لوگ اس کی بہت عزت کر تے ہیں۔ میں نے کہا یہ تو بہت اچھی بات ہے ، اس پہ تو تمہیں خوش ہو نا چاہیے ۔اس نے کہا نہیں اگلی بات تو سنو ، وہ صرف عزت کرتے ہیں محبت نہیں کرتے ۔ میں اس کی بات پر چونک گیا۔ میں نے کہا تم کہنا کیا چاہتے ہو۔آخرتم اس بات کو کس طرح جانچتے ہوکہ لوگ تم سے محبت نہیں کرتے ۔اس نے کہا کہ دیکھو جس سے محبت ہوتی ہے اس کے پاس بیٹھنے کو خواہ مخواہ دل کرتا ہے ۔اس سے باتیں کرنے کو ، اس کو دیکھتے رہنے کو دل کرتا ہے ۔ کام ہو نہ ہو دل چاہتا ہے کہ بس وہ پاس بیٹھا رہے ۔ اس نے کہا کہ اس کے ساتھ ایسامعاملہ نہیں۔ لوگ تو آتے ہیں لیکن جب انہیں کوئی کام ہوتا ہے یا پھر ان کا کوئی علمی سوال ہوتا ہے ۔ اس نے کہا کہ میرا بھی دل کر تا ہے کہ کوئی بلا و جہ میرے پاس بیٹھے ، کوئی بلاو جہ میری بات سنے ، کوئی بغیر کسی مقصد کے میری تعریف کرے ۔ کوئی میرے لیے رب کے حضور ہاتھ اٹھایا کرے ، کوئی میرے لیے اپنے کام چھوڑ دیا کرے اور کوئی اپنی ضرورت پہ میری ضرورت کو ترجیح دیا کرے ۔میری تکلیف پہ کسی کا دل بجھ جایا کرے اور میری خوشی پہ کسی کا دل مجھ سے بھی زیادہ خوش ہو جایا کرے ۔کسی کو میرے آنے کا انتظا ررہا کرے اورکسی کو میرے جانے کا غم ہوا کرے ۔۔۔۔۔۔وہ بولتا رہا اور میں سنتا رہا ۔ پھر میں نے آہستہ سے کہا کہ اس پیمانے پہ تو شایدمیں بھی پورا نہیں اترتا ۔ اس نے کہا نہیں تم تو ان دو چار لوگوں میں شامل ہو جو اس پیمانے پہ پورا اترتے ہیں، اسی لیے تومیں تمہارے پاس چلا آتا ہوں۔ اس نے کہا کہ اچھا یہ بتاؤ، جب کچھ دن گزر جاتے ہیں تو تمہارا دل نہیں کرتا کہ تم مجھ سے باتیں کرو ۔میں نے کہا ہاں ایسا تو ہے ۔ اس نے کہا کہ ہاں تو بس سمجھ لو کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے ۔ اس نے کہا کہ اس نے جو علامتیں بتائی ہیں ان سب کا بیک وقت پایا جانا ضروری نہیں۔ ان میں سے کوئی کسی وقت غلبہ کرے گی تو کوئی کسی وقت۔ لیکن ان میں سے کسی ایک کا ہر وقت موجود رہنا ضروری ہے ۔ اگر ہے تو سمجھو کہ محبت ہے اگر نہیں تو سمجھو کہ بس عزت ہے ۔
عزت کرنے کے پیچھے بعض اوقات تو کوئی غرض ہوتی ہے اور بعض اوقات ڈر یا خوف۔ میں نے کہا ، باس کے معاملے میں تو یہ بات ٹھیک ہو سکتی ہے لیکن مذہبی پیشواؤں سے توشاید کوئی ڈر نہیں ہوتا لیکن لوگ پھر بھی ان کی عزت کرتے ہیں ؟ اس نے کہا ان کی عزت کے پیچھے ثواب ہوتا ہے۔ میں نے کہا ، شاید اسی لیے مذہبی جماعتوں کو ووٹ نہیں ملتے کیونکہ لوگ ان کی صرف عزت کرتے ہیں ان سے محبت نہیں کرتے ۔اس نے کہا بالکل ٹھیک ہے ۔ محبت ڈر ، خوف ، اغراض و مقاصد اور ثواب سے آگے کی چیز ہے ۔اس نے کہا صدیق ،جو شخص آپ کی صرف عزت کرتا ہے اس سے ہمیشہ محتاط رہنا کیونکہ وہ عزت کی سیڑھی آپ کے نیچے سے کسی بھی وقت کھینچ سکتا ہے ۔میں نے کہا ، کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی آپ سے محبت کرے لیکن عزت نہ کرے اس نے کہا ایسا ممکن نہیں ۔ عزت کے بغیر محبت کا دعوی محض ایک دھوکا ہے کیونکہ محبت میں تو عزت خو دبخود شامل ہوتی ہے لیکن عز ت میں محبت بھی موجود ہو یہ لازم نہیں۔