ایک مستعفی فوجی کی یاد میں

مصنف : عاطف ملک

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : ستمبر 2018

سچی کہانی
ایک مستعفی فوجی کی یاد میں
عاطف ملک

                                                                                                                                            2004کی بات ہے کہ میں اسلام آباد میں رہتا تھا۔ کبھی کبھی قریبی گالف کورس کے ساتھ کی بیرونی سڑک پر دو بوڑھے میاں بیوی آہستہ آہستہ چلتے نظر آتے تھے۔ خاتون یورپین تھیں۔ میں سمجھا کہ کسی کے والدین ہیں۔ پھر اکثروہ خاتون اکیلی واک کرتی نظر آنے لگیں ، بعد میں علم ہوا کہ اْنکے خاوند علیل ہیں۔ ایک دن اْن سے بات چیت ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ مسز ایر کموڈور ظفر مسعود ہیں۔ وہ جرمن خاتون نوکری کی غرض سے کراچی آئی تھیں کہ ماڑی پور میں تعینات ظفر مسعود کی محبت میں گرفتار ہو کے یہیں کی ہو گئیں۔ اتفاقاً میں اور میری اہلیہ دونوں جرمن زبان بولتے ہیں سو اْن سے ہمارا تعلق گہرا ہوگیا۔ ان کا اکلوتا بیٹا جرمنی کے شہر کولون میں رہتا تھا جبکہ یہ دونوں میاں بیوی ایر فورس کے سیکٹر ای ۔۹میں دو کمروں کے فلیٹ میں رہتے تھے۔ ائیر چیف مارشل ریٹائرڈ جمال نے اْن کی دیکھ بھال اپنے ذمہ لے رکھی تھی۔ ہم میاں بیوی نے بھی عقیدتاً اور محبتاً ان کو اپنا بڑا جان کراپنے تئیں ان کا خیال کرنے کی کوشش کی۔ وہ ہمارے گھر بھی چکر لگا لیتی تھیں اور ہم بھی اْنکے ہاں حاضری دیتے تھے۔ میری بیٹی کے لیے تحفہ لے کر آتی تھیں، وہ انہیں جرمن آنٹی کہتی تھی۔
ظفر مسعود کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا۔ پاکستان بننے سے قبل رائل انڈین ایرفورس میں کمیشن حاصل کیا۔ 1958 میں ظفر مسعود نے 16 سیبر جہازوں کے ساتھ عمودی ڈائمنڈ کی شکل بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ اس ڈائمنڈ کی نوک پر ظفر مسعود کا جہاز تھا۔ آپ نے سرگودھا میں فائٹر لیڈر سکول قائم کیا جس کا اب نام کمبیڈ کمانڈر سکول ہے۔ 1965 کی جنگ میں ظفر مسعود سرگودھا کے بیس کمانڈر تھے، اور ہلال جرأت سے نوازے گئے۔ 1971 میں مشرقی کمانڈ کے انچارج، اے او سی تھے اور گمان یہی کیا جارہا تھا کہ وہ جلد ہی پاکستان ایر فورس کے چیف ہونگے، مگرظفر مسعود اپنے ملک میں ہی کیے جانے والے آرمی آپریشن سے متفق نہیں تھے۔ آپ کی رائے اپنے سینوں کو ٹھونکتے بے خبروں سے الگ تھی۔ نابیناؤں کے جھنڈ میں اس بینا نے استعفی دینے کو بہتر جانا۔ بدقسمتی سے ایسے بہادروں کا ذکر بہت کم ہوتا ہے۔
ان کی بیگم سے ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کا قصہ سننے کو ملا۔ وہ دورموجودہ زمانے کی مراعات و نوازشات و برکات سے قبل کا تھا۔ جمع پونجی لگا کر دونوں نے ایبٹ آباد میں گھر بنایا۔ وہ الگ لہجے میں اردو بولتی گوری خاتون بازار میں بھاؤ تاؤ کر کے تعمیری سامان کے ریٹ کو کبھی قابو لانے کی کوشش کرتی، کبھی راج مزدوروں کی چالاکیوں کو پکڑ رہی ہوتی۔ کچھ سالوں کے بعد اْنہوں نے جرمنی شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا۔ مکان بیچا اورجرمنی چلے گئے۔ مگر زندگی وہاں کونسی آسان تھی بلکہ وہاں کا خرچ تو اور زیادہ تھا۔ سو چند سالوں بعد واپس پاکستان آگئے۔ ائیر چیف مارشل ریٹائرڈ جمال کے توسط سے ایک دو کمرے کا فلیٹ ای۔۹ میں ان دونوں کو دیا گیا۔
ائیر کموڈور ظفر مسعود کا جب انتقال ہوا تو ہم دونوں میاں بیوی مسز ایلزبتھ مسعود کے غم میں برابر کے شریک تھے۔ وفات کے دوسرے تیسرے دن میں اْن کے فلیٹ میں بیٹھا تھا کہ مسز مسعود ایک بڑا پوسڑ لے کر آِئیں، کہنے لگیں کہ عاطف یہ تم لے لو۔ میں نے پوسڑ کھولا تو 1958 کے وہ فضائی کرتب کی تصویر تھی 150 16 سیبر جہاز ایک ساتھ سیدھا آسمان کی طرف اڑان بھرتے۔ ہر جہاز کے ساتھ اس کے اڑانے والے پائیلٹ کے دستخط تھے۔ اْن پائیلٹوں میں سے شاید تین بعد میں اپنے اپنے دور میں فضائیہ کے چیف بنے۔ میں چپ سادھے رہ گیا۔ اس خاتون نے مجھے کس اعزاز کے لیے چن لیا تھا۔ مگر اْس تصویر پر تو پاکستانی قوم کا حق بنتا تھا، سو اْن سے پی۔اے۔ایف میوزیم کو عطیہ کرنے کی درخواست کی۔
اسی نشست میں انہوں نے کہا کہ عاطف میں خوش ہوں کہ ظفرکی موت سے چند دن قبل میں اْس کے اطمینان کا باعث بنی۔ کہنے لگیں کہ ظفر چپ چپ تھا، مجھے کہنے لگا کہ مجھے بعض اوقات تمھارا خیال آتا ہے کہ استعفی دیکرمیں تمھاری زندگی میں مشکلات لے آیا ۔ایک آرام دہ زندگی سے تمہیں دربدری اور تنگدستی کی جانب کھینچ لایا۔ اس کے چہرہ پر ایک دکھ تھا، ایک محبت کرنے والے کا، دوسرے کے لیے بے غرض خیال۔ میں نے اْس کا ہاتھ تھاما، اس کی آنکھوں میں دیکھا اور اْسے کہا، یقین کرو کہ آج ہم لوٹ کر واپس اْس دور میں چلے جائیں اور وہ فیصلے کا وقت دوبارہ تمہارے
سامنے ہو، تو بھی میں تمہیں یہی کہوں گی کہ تمھارے استعفی کا فیصلہ درست ہے اور میں تمھارے ساتھ ہوں۔ ظفر کا چہرہ پرسکون ہوگیا اور دو دن بعد وہ مر گیا۔ میں خوش ہوں کہ وہ اس دنیا سے مطمئن گیا۔
میں نے اْس سفید بالوں، جھریوں زدہ چہرے والی پتلی دبلی عورت کو غور سے دیکھا اور مجھے سمجھ آگئی کہ کیوں فرشتوں کو آدم کو سجدہ کرنے کا کہا گیا تھا۔
***
ہمیں اپنے دائرے میں تعمیری کام پر یقین رکھنا ہوگا۔قوموں کی زندگی میں دس بیس سال کچھ نہیں ہوتے۔ 2018 کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے 2023 بھی آجائے گا۔ لوگ اگر جذباتی بنے رہے قدرت اسی طرح انھیں سزا دے گی جس طرح آج دے رہی ہے۔ لوگ اگر اپنے دائرے میں تعمیری کام کے لیے تیار نہیں ہوئے تو قوم اسی طرح تباہ ہوتی رہے گی۔
لیکن اگر ہم نے اپنا رویہ بدل لیاتو سب کچھ بدلنے لگے گا۔ 2023 نہ سہی 2028 میں سہی ہمیں ایک بہتر قیادت مل جائے گی۔ اس لیے کہ جمہوری دور میں برے حکمران اچھے لوگوں پر زیادہ عرصے تک حکومت نہیں کرسکتے۔ جمہوریت میں برے حکمران صرف برے لوگوں پر مسلط ہوتے ہیں۔ اچھے لوگ برے حکمرانوں کو چند برسوں میں اٹھا کر پھینک دیتے ہیں۔ مگر یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو جذباتی انداز فکر کے بجائے معقولیت سے کام لیتے ہیں۔ جو تعمیری سوچ پریقین رکھتے ہیں۔ جو نہ ملے ہوئے کو بھول کر ملے ہوئے کی تعمیر کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی ترقی کا راستہ ہے۔ یہی کامیابی کا راستہ ہے۔

***