ہم كون ہيں؟

مصنف : شفاعت علي

سلسلہ : پاکستانیات

شمارہ : اكتوبر2023

پاكستانيات

ہم كون ہيں؟

شفاعت علی

ہمارے نصاب میں خطے کی تاریخ کا ایڈریس ہے، تصویریں ہیں مگر تحقیق نہیں ہے۔ تحقیق آتی ہے کریٹیکل تھنکنگ یعنی متشکک دماغ سے، وہ ہمارے نصاب کا حصہ ہی نہیں-يہ متشكك دماغ نسب اور ریاست کا بھی دشمن مانا جاتا ہے۔ نتیجہ ایک نسل ہے جو بغیر ہاتھ پیر کان کے ڈنڈا بردار جتھے بنا کر اپنی عظمتِ رفتہ ڈھونڈنا چاہتی ہے۔ہم عرب، ترک، افغان، ایرانی اور ہندوستانی تہذیب کی وہ کمیٹی ہیں جو نکل تو آئی ہے مگر کوئی جانتا نہیں کہ کس کی نکلی ہے۔ ہم ساری دنیا میں کاسۂ محبت لیے پھرتے ہیں۔خود کو عرب کہیں تو عرب ہمیں عرب نہیں مانتے، ایرانی کہیں تو وہ ہمیں ایرانی (فارسی) نہیں مانتے، افغان کہیں تو تھانے میں ذلیل ہوں، تُرک کہیں تو وہ کہتے ہیں "عشق ممنوع" دیکھنے کو تُرک ہونا نہیں کہتے۔

ساری دنیا سے پیار نہ ملنے کے بعد جب اپنی تاریخ پہ نظر ڈالتے ہیں تو وہ تو شروع ہی 712ء کے ایک قصّے سے ہوتی ہے جس میں حجاز میں ظلم و ستم کے بازار گرم کرنے والا حجاج بن یوسف ایک خط پر پگھل جاتا ہے۔اس سے پہلے کی تاریخ میں صرف ملبے کی تصویریں ہوتی ہیں مگر اس ملبے کی تہہ میں ٹوٹے نقش و نگار جن داستانوں کے گیت سناتے ہیں، وہ سننے کے لیے ایک کن رسیّا دماغ چاہییے جس پر ہم شاہ دولے کا کنٹوپ پہن لیتے ہیں۔ہم کوٹ ڈیجی نہیں جانتے، مہر گڑھ نہیں جانتے، شہر تو چھوڑیں ہم اپنی مٹی سے پیدا ہونے والوں کے کارنامے تک نہیں جانتے۔

صفر‘ (سائفر نہیں) ایجاد کرنے والا سندھی برہما گپتا ہم نہیں جانتے، وشنو گپت عرف چانڑکیا/چانکیہ عرف کوتلیہ اپنے ٹیکسلا کا تھا، جس نے معیشت، سیاسیات، صنعت و حرفت، قوانین، رسم و رواج، توہمات، ادویات، فوجی مہمات، سیاسی و غیر سیاسی معاہدات اور ریاست کے استحکام پر "ارتھ شاستر" لکھی۔اسی کے دور میں چاندی کے ڈھلائے سکوں یعنی رُوپا رُپیا کو بطور کرنسی استعمال کیا گیا، جو بعد میں روپیہ بنا اور آج تک پاکستان سے انڈونیشیا تک کرنسی کو روپیہ یا رپیّا کہا جاتا ہے۔اسی کرنسی کا ایک اور سکّہ دیناراروپا بعد میں کشانوں کے ذریعے فارس کا دینار بنا جو عربوں کے ذریعے سپین پہنچا تو دیلار ہوا اور امریکہ میں ڈالر بن گیا، ہم نہیں جانتے۔ہم نہیں جانتے کہ ہند پہ سے یونانیوں کا اثر و رسوخ ختم کرنیوالا اور تمام جن پدھ کو ایک حکومت کے ماتحت لانے والے چندر گپت موریہ نے اپنا بچپن پوٹھوہار اور مارگلہ کے پہاڑوں میں گزارا اور چانڑکیا/چانکیہ کی شاگردی میں عظیم بادشاہ بنا۔اس کا پوتا اشوک پورے ہند کو اکھٹا کرنے اور ایک آئین کے تابع کرنے میں کامیاب ہوا۔ یہ اور بات کہ اشوک کے بعد صرف اورنگزیب عالمگیر ہی ہند کو اس درجہ اکھٹا کر پایا۔ہم نہیں جانتے کہ اس سرزمین کو رانا دتیا ستیا جیسا عظیم سندھی بادشاہ ملا، جس نے سندھ کو ساسانیوں سے نجات دلائی اور رائے شاہی قائم کی۔ رنجیت سنگھ جیسا پنجاب کا وہ بیٹا ملا جس نے میسور کے ٹیپو کی مثل، ایک عرصے تک سامراج کو ستلج سے اس پار روکے رکھا۔ کسی کی رگ وید یہاں لکھی گئی، کسی کی رانی ہولیکا یہاں جلی، کسی کا پرھلاد بھگت یہاں ہی کسی آگ میں سے زندہ نکل آیا، کسی کا بدھ یہاں آیا، کسی کے پانڈوّ اس علاقے کو اپنا گھر کہتے رہے۔کسی کی ماں ستی یہاں ٹکڑوں میں مدفون ہے، کسی کے کارونجھر یہاں ہیں، کسی کا کٹاس راج یہاں ہے، کسی کا بابا گرو نانک یہاں کھیتی کرتا رہا، کسی کا دُلّا بھٹی مٹی پہ مر مٹا، کسی کا بھگت سنگھ پھندا جھول گیا، کسی کا کیا، کسی کا کون ۔۔ ہم نہیں جانتے۔-اور ہمیں یہ سب جاننا بھی نہیں ہے۔ کیونکہ بیانیہ یہ گھڑا گیا ہے کہ سب ‘اُن’ کے ہیرو ہیں، ہمارے نہیں۔ فیصلہ ہوا کہ ہمارے سارے ہیرو امپورٹڈ ہوں گے۔ اب وہ جیسا بھی ہے، ’ٹیڑھا ہے، پَر میرا ہے‘ کے مصداق ہمارا ہیرو تصور کیا جائے گا۔ بیانیہ بنانے والوں کی عقل دانی میں یہ بات نہیں آئی کہ جو قوم ہزاروں سال سے اس مٹی میں رہ رہی ہے وہ یکایک اپنے آپ کو عرب، فارسی، ترکی، افغانی کیسے کہنا شروع کر دے۔قوم اپنا ڈی این اے کیسے بدلے؟ جو ملہی ہزاروں سال سے ملھ استھان یعنی ملتان کو اپنے سر کا تاج بنائے بیٹھا ہے، وہ خود کو کسی دوسری قوم کا چاکر کیوں سمجھے؟

حال یہ ہے کہ اب افغان ہمیں طعنہ دیتے ہیں کہ یہ ابدالی، غزنوی، خلجی، ہمارے یہاں سے ہیں، آپ کچھ اپنا لاؤ۔ ایرانی کہتے ہیں کہ بھائی آپ میں اور ہم میں اقبال کے علاوہ کوئی قدرِ مشترک نہیں۔تُرک کہتے ہیں کہ آپ پہلے تُرک النسل اور تُرک میں فرق کرنا سیکھیں، عرب کہتے ہیں کہ جن مسلمان سائنسدانوں پر آپ زیادہ اچھلتے کودتے ہیں وہ سارے عرب تھے آپ کوئی اپنا کام لائیں۔ایجادات میں ہمارے پاس مُوڑے اور سیاسی تجربے ہی ہیں اور وہ پہلے ہی جان کو آئے ہوئے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہییے تھا کہ یہ خطہ خود کو سائرس اعظم، اشوک اعظم، نوشیرواں عادل، موہریہ، کشانوں، رائے، پارتھی، افغانی، مغل، نادر شاہی اور خالصہ تہذیب کا وارث سمجھ کر دنیا کے ہر مذہب اور ہر فکر کے لئے بانہیں پھیلا کر کھڑا ہوتا۔دُنیا کے ہر مذہب کی عبادت گاہیں یہاں محفوظ ہوتیں، دنیا کے کسی بھی ملک کا کوئی بھی شخص یہاں اپنے مقدس مقامات کی زیارت کو آتا اور اپنا دل ان مقامات مقدسہ کی دید سے ٹھنڈا کرتا۔ اور ہم بحیثیت قوم ان لوگوں کو گلے لگاتے اور ان کے ساتھ کاروبار کرتے۔مگر ہماری تاریخ جھوٹ اور جھوٹوں سے بھری پڑی ہے۔ ہم انہیں زبردستی عزت دینے کے قائل ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ اگر انہیں عزت نہ دی تو قوم کے پاس ہیرو نہیں ہوں گے۔نتیجہ آپ کے سامنے ہے!