زخمی زخمی چہرہ

مصنف : سید مہدی بخاری

سلسلہ : پاکستانیات

شمارہ : ستمبر 2023

پاكستانيات

زخمی زخمی چہرہ

مہدی بخاری

اگر آپ کو یاد ہو، تیرہ برس قبل انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں دو خودکش حملے ہوئے تھے جن میں چھ طلباء و طالبات جاں بحق اور پچاس زخمی ہوئے۔ یونیورسٹی کی کینٹین جو سو سوا سو کے قریب طالبات سے بھری تھی اس میں خودکش حملہ آور نے داخل ہو کر دھماکا کرنا چاہا مگر ایک خاکروب نے پہچان لیا اور وہ آگے بڑھ کر اس سے لپٹ گیا۔ یوں وہ خودکش دھماکہ کینٹین کے باہر ہی ہو گیا جس کے سبب جانی نقصان کم ہُوا۔

اگلے روز ایک سب سے بڑے ٹی وی چینل کی ٹیم ہمارے ہیرو اس خاکروب کے گھر گئی۔ اہلِ خانہ کی کسمپرسی و آہ و زاری ریکارڈ کی اور اس کی بنائی ہوئی خبری رپورٹ مجھے یاد ہے جس کا ایک جملہ آج تک میرے زخمی دل سے نہیں نکل سکا۔ “اگرچہ پرویز مسیح کا تعلق مسیحی برادری سے تھا مگر اس نے حُب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے جان کی قربانی دے کر یونیورسٹی طالبات کو ایک بڑے ممکنہ جانی نقصان سے بچا لیا”۔ اس رپورٹ میں لفظ “مگر” مجھے قبر تک یاد رہے گا۔

مگر اس پچیس چھبیس سالہ میڈیا رپورٹر کا بھی کیا قصور۔ اسے تو شعور کی آنکھ کھُلنے سے یہی سُننے کو ملا ہو گا کہ صرف ایک سچا مسلمان ہی محب الوطن ہو سکتا ہے۔ اقلیتیں تو قومی جہیز میں ملیں لوٹے کی سی ہیں۔ ستمبر بائیس سنہ 2013 میں پشاور چرچ پر خودکش حملہ ہُوا۔ ایک چینل کے خبری بُلٹن کی سُرخی اسی ذہنیت کی عکاسی کر رہی تھی۔ “صفائی کرنے والوں کا صفایہ”۔ قومی اخبارات میں چھپے بلدیہ کے ایک سرکاری اشتہار میں سینٹری ورکرز کی آسامیوں کی نمائش کی گئی تھی جس پر جلی حروف میں ایک لائن چمک رہی تھی “ صرف غیر مسلم اپلائی کریں”۔

آپ کو یاد ہو یا نہ ہو، قبلہ رضوی مرحوم ایک سے زائد مواقعوں پر منبر سے بابانگ دہل فرماتے رہے “کون کہتا ہے اسلام امن کا دین ہے ؟ اسلام امن سے نہیں پھیلا۔ یہ نبی کریم (ص) کی تلوار سے پھیلا” اور مجمع داد دیتا۔ بات یہ ہے کہ جب فضا ببول کی کاشت کے لیے سازگار ہو تو پھر اس بات پر کیا رونا کہ ببول میں کتنے کانٹے ؟۔ فرق تو بس اتنا ہے کہ کچھ حملہ آوروں کے ہاتھ میں ڈنڈے، آگ کے گولے اور جان لیوا ہتھیار ہوتے ہیں اور باقیوں کے دماغ میں تعصب، مصلحت، خاموشی و منافقت کا بارود کوٹ کوٹ کے بھرا ہوتا ہے۔

شاید آپ کو 2003 کی عراق جنگ یاد ہو۔اس جنگ کے خلاف اور اسے رکوانے کے لیے سان فرانسسکو سے سڈنی تک ڈیڑھ کروڑ لوگ سڑکوں پر نعرے لگا رہے تھے۔ مجھے وہ مناظر یاد ہیں کہ لندن میں پندرہ لاکھ لوگوں کا جلوس نکلا تھا جن کے ہاتھوں میں بُش اور ٹونی بلئیر کے خلاف پلے کارڈز تھے۔ الجزیرہ کا رپورٹر ایک خاتون سے پوچھ رہا تھا “ آپ کیوں فروری کی سردی میں اپنے ننھے بچے کو اُٹھائے عراق جنگ کے خلاف نعرے لگا رہی ہیں ؟”۔ ماں نے جواب دیا “ جب یہ بچہ بڑا ہو گا تو اسے آج کا دن یاد رہے گا اور احساس دلائے گا”۔ رپورٹر نے پھر سوال کیا “ لیکن عراقی تو مسلمان ہیں”۔ عورت کا جواب آیا “ مگر انسان بھی تو ہیں”۔ اس عورت کے جواب میں “مگر” بھی مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔

یوں تو اس ملک میں بلاتفریق مذہب و مسلک سب مرے ہیں سب اُڑے ہیں مگر عجب بات یہ ہے کہ جب سُنی مرتے ہیں تو صرف سُنی ہی جلوس نکالتے ہیں۔ شیعہ مرتے ہیں تو شیعہ ہی دھرنا دیتے ہیں۔ جب مسیحی مرتے ہیں تو صرف مشن سکولز ہی سوگ میں تین دن بند ہوتے ہیں۔ اور احمدیوں کا ذکر ہی کیا کرنا ، وہ تو خیر ۔۔۔

باقی سب آن لائن یا خبری بُلٹن میں تعذیتی پیغامات کے ذریعے مرنے والوں کے غم میں “برابر کے شریک” ہو جاتے ہیں اور پھر “ ہور سناؤ، بال بچے دا کی حال اے” میں لگ جاتے ہیں۔

کیسا دردِ دل ہے ہمارا جو فلسطین کے المئیے پر پی ایل او سے زیادہ حساس ہے۔ جو برما کے مسلمانوں کے غم میں ڈسٹرب ہو جاتا ہے۔جو شام کے المئیے پر سینے میں پھانس محسوس کرتا ہے۔ جنہیں کشمیری مسلمانوں کی چیخیں سونے نہیں دیتیں۔ جنہیں بھارتی مسلمانوں کی زباں حالی بے چین کر دیتی ہے۔جنہیں چیچنیا کا حال تڑپا تڑپا دیتا ہے۔

مگر کتنوں کو یہ پوچھنا یاد ہے کہ گوجرہ کی عیسائی بستی میں جو گزری اس کی تحقیقات کہاں تک پہنچیں ؟ لاہور میں احمدی عبادت گاہ میں 94 احمدیوں کو مارنے والے کس جیل میں ہیں ؟ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کا شکار کرنے والے کتنے پکڑے گئے ہیں ؟ قراقرم ہائی وے پر بسوں سے اُتار کر شیعوں کو مارنے والے کن پہاڑوں میں چھُپ گئے ؟ دیامر بیس کیمپ میں دس غیر ملکی کوہ پیماؤں کو مارنے والے کتنے پکڑ لیے ؟

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ جب تم ایک اُنگلی دوسرے کی طرف اُٹھاتے ہو تو اُسی ہاتھ کی تین اُنگلیاں تمہاری طرف اشارہ کر رہی ہوتی ہیں۔اپنی تین اُنگلیاں بھی دیکھ لیجئیے۔ بہت مہربانی۔

اس سماج میں بستے مجھے خود کلامی اور خواب دیکھنے کی عادت پختہ ہو چکی ہے۔ قائداعظم کا پاکستان بحال کرنے کا خواب دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ کہنے میں بھی کوئی خطرہ نہیں کہ اس ملک میں ایک ادارہ ہی چلتا ہے اور جس کی چلتی ہے تو وہ فوج ہے۔ یہ کہنے میں بھی کوئی خاص خطرہ نہیں کہ مولوی اور ملائیت اور ان کی لبیکی سوچ نے اس سماج اور دین کی پوشاک کو تار تار کرنے میں آگے بڑھ کر حصہ لیا ہے۔مُلا ملٹری الائینس نے اس ملک میں وہ گُل کھلائے ہیں جن کا رنگ سیاہی مائل سُرخ ہے۔ نہ تو میں قائداعظم ہوں اور نہ ہی فوجی اور نہ ہی مولوی۔ لہٰذا کسی تجربہ کار مستند ماہر کی نگرانی کے بغیر سچ لکھنے کا کرتب دکھانا جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔

میرا مشورہ ہے کہ سچ ضرور بولئیے مگر کمرے میں، بااعتماد لوگوں کے سامنے، ہوسکے تو تنہائی میں یا زیادہ سے زیادہ شیشے کے روبرو اور خبردار، سچ کو کبھی تنہا باہر مت جانے دینا، بھیجنا ضروری بھی ہو تو جھوٹ کے کپڑے پہنا کے بھیجنا، ورنہ پیروں پر جائے گا۔ ایمبولینس میں آئے گا۔ یا ڈالے میں لے جایا جائے گا۔

اور سب سے اہم بات یہ کہ ہم کبھی جناح کا پاکستان نہیں دیکھ سکتے، جناح نے پاکستان ضیاء الحق سے نہیں ماؤنٹ بیٹن سے لیا تھا۔ اور ہمیں پاکستان ضیاء الحقوں سے لینا ہے۔ یہ نہ ہو پائے گا۔ اور اس سے زیادہ میں کچھ کہہ نہ پاؤں گا۔

دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے

ہم تو پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے

کس کو پتھر ماروں قیصرؔ کون پرایا ہے

شیش محل میں اک اک چہرا اپنا لگتا ہے